Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 57
وَ هُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ١ؕ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ١ؕ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : جو۔ جس يُرْسِلُ : بھیجتا ہے الرِّيٰحَ : ہوائیں بُشْرًۢا : بطور خوشخبری بَيْنَ يَدَيْ : آگے رَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت (بارش) حَتّٰى : یہاں تک کہ اِذَآ : جب اَقَلَّتْ : اٹھا لائیں سَحَابًا : بادل ثِقَالًا : بھاری سُقْنٰهُ : ہم نے انہیں ہانک دیا لِبَلَدٍ : کسی شہر کی طرف مَّيِّتٍ : مردہ فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا بِهِ : اس سے الْمَآءَ : پانی فَاَخْرَجْنَا : پھر ہم نے نکالا بِهٖ : اس سے مِنْ : سے كُلِّ الثَّمَرٰتِ : ہر پھل كَذٰلِكَ : اسی طرح نُخْرِجُ : ہم نکالیں گے الْمَوْتٰى : مردے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : غور کرو
اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت (یعنی مینھ) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری (بنا کر) بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہے تو ہم اس کو ایک مری ہوئی بستی کی طرف ہانک دیتے ہیں۔ پھر بادل سے مینھ برساتے ہیں۔ پھر مینھ سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم مردوں کو (زمین سے) زندہ کرکے باہر نکال لیں گے۔ (یہ آیات اس لیے بیان کی جاتی ہیں) تاکہ تم نصیحت پکڑو
وہو الذی یرسل الرسح بشرا بین یدی رحمتہ اور وہ اللہ ایسا ہے کہ باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے کے لئے ہواؤں کو بھیج دیتا ہے۔ بُشْراً یہ لفظ بُشُراً کا مخفف ہے اور بُشُراً بشیر کی جمع ہے۔ رحمت سے مراد بارش۔ باد مشرق (پُروا ہوا) ابر کو اٹھا کر لاتی ہے باد شمالی اب کو جمع کرتی ہے۔ باد جنوبی اب کو چکر دیتی ہے اور باد مغرب (پچھوا ہوا) بادل کو منتشہ کردیتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے ہوا ‘ اللہ کی بھیجی ہوئی راحت ہے یہ رحمت کو بھی لاتی ہے اور عذاب کو بھی (اس کو برا نہ کہو اور اللہ سے اس کی خیر کی طلب کرو اور اس کی خرابی سے اللہ کی پناہ کے خواستگار رہو۔ رواہ البخاری فی الادب و ابوداؤد والحاکم و رواہ البغوی من طریق الشافعی وعبدالرزاق۔ حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ حتی اذا اقلت سحابا ثقالا سقنہ لبلد میت فانزلنا بہ المآء فاخرجنا بہ من کل الثمرات : یہاں تک کہ جب ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو کسی خشک سرزمین کی طرف ہم ان کو ہانک لے جاتے ہیں پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل پیدا کرتے ہیں۔ اَقَلَّتہوائیں اٹھا کر لاتی ہیں یہ لفظ قلت سے ماخوذ ہے کسی چیز کو اٹھانے والا اس کو قلیل (اور آسان و حقیر) سمجھتا ہی ہے ثقالاً پانی کی وجہ سے بوجھل۔ یہ لفظ ثقیل کی جمع ہے چونکہ سحاب سحائب کے معنی میں ہے اس لئے ثقالاً بصیغۂ جمع ذکر کیا۔ سقناہ چونکہ لفظ سحاب مفرد ہے اس لئے واحد مذکر کی ضمیر ذکر کی۔ لبلدٍسرزمین کے لئے یا اس کو سر سبز کرنے کے لئے یا سیراب کرنے کے لئے۔ بعض کے نزدیک لبلدٍمیں لام بمعنی الیٰ ہے یعنی خشک زمین کی طرف۔ میتوہ زمین جس میں سبزی نہ ہو۔ فانزلنا بہ یعنی بالبلد اس وقت با سببیت کے لئے ہوگی۔ یا بہٖکی ضمیر سحاب یا روانگی سحاب یا ریح کیطرف راجع ہے اس وقت باء الصاق کی ہوگی یعنی بادل یا ہوا کے ساتھ ہم نے پانی اتارا۔ فاخرجنا بہیہ ضمیر اگر بلد کی طرف راجع قرار دی جائے تو باء ظرفیت کے لئے ہوگی یعنی خشک زمین میں اور اگر سحاب یا ریح یا روانگی سحاب کی طرف راجع ہو تو باء سببیت کے لئے ہوگی۔ کذلک نخرج الموتی لعلکم تذکرون یوں ہی ہم مردوں کو نکال کر کھڑا کردیں گے (یہ بیان اس لئے کیا) تاکہ تم سمجھو۔ کذلک یعنی پھلوں کو پیدا کرنے یا خشک زمین کو سرسبز بنانے کی طرح۔ نخرج الموتیٰیعنی قبروں سے مردوں کو نکالیں گے۔ تذکَّرُوْنَتاکہ تم سمجھو اور اس امر پر استدلال کرو کہ اللہ کو جب اس کائنات کو پیدا کرنے کی قدرت ہے تو آخرت میں دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت بھی ہونی چاہئے۔ (ثانوی تخلیق اول تخلیق سے مشکل نہیں) بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا جب سب لوگ اول صور پھونکنے سے مرجائیں گے تو اللہ زیرین عرش سے پانی برسائے گا جس کا نام آب حیات ہوگا۔ جیسے مردوں کی منی۔ اس بارش سے لوگ قبروں کے اندر کھیتی کی طرح اگیں گے جب اجسام کی تکمیل ہوجائے گی تو ان کے اندر روح پھونک دے گا پھر ان پر ایک نیند طاری کردی جائے گی جس کی وجہ سے وہ قبروں سے اٹھیں گے اس وقت سروں اور آنکھوں میں ان کو نیند کا اثر محسوس ہو رہا ہوگا اور کہیں گے ہائے افسوس ہم کو خواب گاہ سے (یا خواب سے) کس نے اٹھا دیا۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دونوں مرتبہ صور پھونکنے کی درمیانی مدت چالیس ہوگی لوگوں نے پوچھا ابوہریرہ ؓ کیا چالیس دن کی مدت ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا مجھے اس سے انکار ہے لوگوں نے کہا تو کیا چالیس مہینے کی فرمایا مجھے اس سے بھی انکار ہے لوگوں نے کہا تو کیا چالیس سال کی۔ فرمایا میں یہ بھی نہیں کہتا (یعنی رسول اللہ ﷺ نے چالیس کا لفظ فرمایا دن مہینہ یا برس کی صراحت نہیں فرمائی) پھر اللہ آسمان سے پانی برسائے گا جس سے انسان سبزی کی طرح اگیں گے انسان کی ہر چیز فنا ہوجاتی ہے صرف ایک ہڈی رہ جاتی ہے دم گزے کی ہڈی اسی سے قیامت کے دن تمام (اعضاء اور اجزاء) جوڑے جائیں گے۔ ابن ابی داؤد نے بھی البعث میں یہ حدیث نقل کی ہے۔ انس ؓ کی روایت میں اتنی صراحت ہے کہ دونوں مرتبہ صور پھونکنے کی درمیانی مدت چالیس سال کی ہوگی۔ اسی چلہ میں اللہ بارش کرے گا۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ کا بیان نقل کیا ہے کہ دونوں مرتبہ صور پھونکنے کی درمیانی مدت میں جو چالیس کی ہوگی زیرین عرش سے پانی کا ایک نالہ جاری ہوجائے گا (یعنی بارش ہوگی) جس سے انسان چوپایہ اور پرندے کا ہر فنا شدہ حصہ جسم اگ آئے گا اگر پہلے کسی نے ان کو دیکھا ہوگا تو اگنے کے بعد دیکھ کر پہچان لے گا پھر روحوں کو چھوڑ کر اجسام سے ان کا جوڑ لگایا جائے گا آیت ( واذا النفوس زوجت) کا یہی معنی ہے۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر کی روایت سے بھی یہ اثر نقل کیا ہے حلیمی نے کہا تمام روایات کا اتفاق ہے کہ دونوں مرتبہ صور پھونکنے کی درمیانی مدت چالیس سال ہوگی۔ ابن مبارک نے مرسلاً حسن کی روایت سے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے۔
Top