Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 11
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَ : اور اِلٰي : طرف مَدْيَنَ : مدین اَخَاهُمْ : ان کے بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : نہیں تمہارا مِّنْ : سے اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق پہنچ چکی تمہارے پاس بَيِّنَةٌ : ایک دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَوْفُوا : پس پورا کرو الْكَيْلَ : ناپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی اشیا وَلَا تُفْسِدُوْا : اور فساد نہ مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (ہم نے رسول بنا کر بھیجا) انہوں نے کہا ، اے میری قوم کے لوگو ! عبادت کرو اللہ کی۔ نہیں ہے تمہارے لئے اس کے سوا کوئی الہ تحقیق آئی ہے تمہارے لئے اس کے سوا کوئی الہ تحقیق آئی ہے تمہارے پاس کھلی نشانی تمہارے رب کی طرف سے پس پورا کرو ماپ اور تول اور نہ گھٹائو لوگوں سے ان ک یچیزوں کو اور نہ فساد کرو زمین میں اس ک یاصلاح کے بعد یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو
ربط آیات تبلیغ رسالت کے سلسلے میں اس سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ہود (علیہ السلام) ، حضرت صالح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوچکا ہے اب پانچویں نمبر پر اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا حال بیان فرمایا ہے اگرچہ ان انبیاء کی پوری تفصیلات تو یوں بیان نہیں کی گئیں تاہم یہ ان کی تاریخ کے بعض اہم حصے ہیں شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے واقعات سورة ، سورة شعراء اور بعض دیگر سورتوں میں بھی بیان ہوئے ہیں ان واقعات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء نے کس قدر نامساعد حالات میں تبلیغ کا حق ادا کیا اور لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچایا امت آخر الزمان کو ترغیب دلائی گئی ہے کہ وہ بھی تبلیغ دین کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں اور لوگوں سے پوری پوری خیر خواہی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ کا پیغام دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچا دیں تسلسلہ تبلیغ کی آخری کڑی حضور خاتم النبیین ﷺ کی نبوت و رسالت ہے جو اس باب کے آخر میں بیان ہوگی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) ارشاد ہوتا ہے والی مدین اخام شعیباً ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا یہ بھی اس کے باب کے ابتدائی الفاظ ” لقد ارسلنا نوحا الٰی قومہ “ پر عطف ہے۔ اس لیے یہاں پر لقد ارسلنا کے الفاظ محذوب ہیں مدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کا نام ہے جو آپ کی بیوی قتورا کے بطن سے تھا اسی نام سے بعد میں ایک قبیلہ مشہور ہوا اور جس بستی یا علاقے میں وہ مقیم تھے اس کا نام بھی مدین پڑگیا شعیب (علیہ السلام) اسی مدین کی اولاد میں سے تھے اسی علاقے اور بستی میں پیدا ہوئے آپ کو نبوت عطا ہوئی اور آپ اپنی ہی قوم کی طرف مبعوث ہوئے اسی لیے یہاں پر فرمایا کہ ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے سلسلہ نسب میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے تاہم محمد ابن اسحاق (رح) کے مطابق شجرہ نسب اس طرح ہے شعیب (علیہ السلام) بن میکائیل بن شیجر بن مدین بن ابراہیم (علیہ السلام) ہوسکتا ہے کہ درمیان میں کچھ اور کڑیاں بھی ہوں اس سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا بائیبل میں شعیب (علیہ السلام) کے لیے پیرو اور حوباب کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ممکن ہ کے آپ ان ناموں پر بھی موسوم ہوں تاہم قرآن پاک میں آپ کا نام صراحتاً شعیب آیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دو قوموں یعنی مدین اور ایکہ کی طرف مبعوث فرمایا ایکہ جنگل کو کہتے ہیں مدین کی بستی کے قریب بہت بڑا جنگل بھی تھا شاید اسی لیے وہ ایکہ والے مشہور ہیں بعض کہتے ہیں کہ مدین اور ایکہ والے ایک ہی قوم ہیں تاہم صحیح بات یہ ہے کہ مدین اور ایکہ الگ الگ خاندان تھے الگ الگ قبیلے یا قومیں تھیں اور حضرت شعیب (علیہ السلام) دونوں قبائل کے رسول تھے ، قرآن پاک میں دونوں کا ذکر آتا ہے۔ مدین کی بستی مدین حجاز سے شمال مغرب اور فلسطین سے بطرف جنوب خلیج عقبہ اور بحر احمر کے کنارے ایک مشہور شہر اور تجارتی منڈی تھی یہ شہر مکہ سے مصر اور شام جانے والی بڑی شاہراہ پر واقع تھا اردگرد کے لوگ تجارت کے لیے اسی شاہراہ کو اختیار کرتے تھے یہ شہر اسی شاہراہ پر واقع تھا جہاں سے یمن ، مکہ ، شام اور مصر کو راستے جاتے تھے اس لحاظ سے مدین بہت بڑا تجارتی مرکز بن گیا تھا یہ وہی مدین کی بستی ہے جس کا ذکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی آتا ہے جب آپ سے ایک قبطی آدمی قتل ہوگیا اور آپ کا مصر میں رہنا دشوار ہوگیا تو آپ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور کئی دن کی مسافت طے کرنے کے بعد مدین پہنچے جہاں شعیب (علیہ السلام) سے ان کی ملاقات ہوئی اس امر میں اختلاف ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جس شخص کے پاس ٹھہرے وہ خود شعیب (علیہ السلام) تھے یا ان کے بھانجے تھے تاہم وہ معمر آدمی تھے خدا کے نبی اور رسول تھے آپ کی بینائی کمزور ہوچکی تھی اور کام کاج میں عملی طور پر حصہ نہیں لے سکتے تھے موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی آتا ہے کہ جب آپ مدین پہنچے تو آپ نے کنویں پر دو لڑکیوں کو پایا جو جانوروں کو پانی پلانے کے لیے آئی ہوئی تھیں موسیٰ (علیہ السلام) کو اس پر تعجب ہوا تو لڑکیوں نے بتایا کہ ان کا باپ کافی بوڑھا ہوچکا ہے اور کام کاج کے قابل نہیں ہے اس لیے جانوروں کی دیکھ بھال انہیں کرنا پڑتی ہے۔ درس توحید جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے اللہ کے تمام انبیاء اپنی اپنی قوموں کو سب سے پہلے توحید کا درس ہی دیتے ر ہے چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو نبوت و رسالت عطا فرمائی تو آپ نے بھی اپنی قوم کو سب سے پہلے ہی سبق پڑھایا قال یقوم اعبدوا اللہ فرمایا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو مالکم من الہ غیرہ اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے جیسا کہ گزشتہ دروس میں بھی بیان ہوچکا ہے عقیدہ کی اصلاح اور فکر کی پاکیزگی کے لیے توحید کا درس ضروری ہے اس کے بغیر انسان کا باطن ناپاک رہتا ہے عقیدے کا فساد شرک کی علامت ہے اور مشرک کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے انما المشرکون نجس (توبہ) یعنی مشرک ناپاک ہیں مقصد یہ ہے کہ توحید باری تعالیٰ طہارت کا پہلا سبق ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اور مجدد الف ثانی (رح) اپنی کتابوں میں فرماتے ہیں کہ تمام شدان برحق ، نیک اور صالح لوگ اپنے مریدوں کو سب سے پہلا درس توحید ہی کا دیتے ہیں تاکہ باطن پاک ہوجائے عقیدہ درست ہوجائے اور تاکہ اس بنیاد کی استواری کے بعد اس پر عمل اور اخلاق کی عمارت تعمیر کی جاسکے اگر کسی شخص کا عقیدہ درست نہیں ہے تو اس کا عمل اور اخلاق بیکار ہے اس کا کچھ فائدہ نہیں ہے لہٰذا عقیدے کی درستگی کو اولیت حاصل ہے اسی طریقے کے مطابق حضرت شعیب (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو توحید کا درس دے کر شرک کی جڑ کاٹی اور پھر اس کے بعد ان کی معاشرتی خرابی یعنی ماپ تول میں کمی کی طرف توجہ دی یہ لوگ بدترین قسم کی تجارتی بددیانتی میں مبتلا تھے لوگوں کے حقوق ضائع کرتے تھے جب خود کوئی چیز ماپ کر یاتول کرلیے تو پورا پورا لیتے اور جب دوسروں کو دیتے تو کم دیتے اس کا بیان آگے آرہا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بتینہ آپ نے قوم سے فرمایا قد جاء تکم بینۃ من ربکم تحقیق تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف بینہ ، نشانی یا معجزہ آگیا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کوئی نہ کوئی معجزہ یا نشانی عطا کی ہے جسے بینہ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس مقام پر حضرت شعیب (علیہ السلام) کی کسی خاص نشانی یا معجزے کی نشاندہی نہیں کی گئی تاہم آپ کو بھی اللہ نے کوئی نہ کوئی واضح نشانی ضرور عطا کی ہوگی جس کے متعلق فرمایا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے کھلی دلیل آچکی ہے بعض فرماتے ہیں کہ بینہ کا لفظ حکم اور دلیل پر بھی بولا جاتا ہے اور بحیثیت نبی اللہ تعالیٰ نے آپ کو کئی احکام اور دلائل دیے جن کی طرف یہاں پر اشارہ کیا گیا ہے بینہ کا لفظ خود نبی کی ذات پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ سورة بینہ میں اللہ تعالیٰ ن دو دفعہ اس لفظ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات مراد لی ہے نبی کا قول فعل اور عمل سب بینہ ہوتا ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ یہاں پر بینہ سے مراد خود شعیب (علیہ السلام) کی ذات ہو اس کے علاوہ بینہ کا لفظ نبی کے چہرہ اور آواز پر بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ مولانا رومی (رح) کہتے ہیں ” روئے و آواز پیغمبر معجزاست “ یعنی نبی کا چہرہ اور آواز معجزہ ہوتا ہے اگر کوئی خاص معجزہ مراد نہ بھی ہو تو بہرحال اس سے نبی کی ذات مراد ہوسکتی ہے۔ ماپ تول میں کمی اس کے بعد شعیب (علیہ السلام) نے قوم کی توجہ ان کی معاشرتی خرابی کی طرف دلائی فاوفو الکیل والمیزان پس پورا کرو ماپ اور تول کو ولا تبخسو الناس اشیاء ھم اور نہ گھٹائو لوگوں کو ان کی چزیں مقصد یہ ہے کہ ماپ تول میں ڈنڈی مار کر لوگوں کا حق ضائع نہ کرو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے تاجروں کی گندی ذہنیت کا تذکرہ کیا ہے سورة مطففین میں اللہ کا ارشاد اس طرح ہے اذا کالوھم او وزنوھم یخسرون یعنی جب لوگوں سے ماپ کر یا تول کر خود لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں جب دوسروں کو دیتے ہیں تو اس میں کمی کر جاتے ہیں عام طور پر تاجر اسی ذہن کے مالک ہوتے ہیں الا ماشاء اللہ حضور ﷺ نے ایماندار تاجر کو خوشخبر سنائی ہے کہ اس کا حشر انبیائ ، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا وہ تو حلال و حرام کا امتیاز رکھے گا کسی ا حق تلف نہیں کرے گا۔ مگر کمزور ایمان والوں ، مشرکوں اور کافروں کے پیش نظر محض فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی مذمت بیان فرمائی ہے ۔ سورۃ ہود میں آتا ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم سے کہا بقیت اللہ خیرلکم ان کنتم مومنین لوگوں کے حقوق ادا کرنے کے بعد تمہارے پاس جو کچھ بچ رہے گا وہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو قوم نے جواب دیا یشعیب اصلوتک تامرک ان نترک مایعبد ابائونا آئو ان تفعل فی اموالنا مانشوء اے شعیب ! تیری نمازیں یہ کہتی ہیں کہ ہم اپنے آبائو اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں یا اپنے اموال میں تصرف کرنا ترک کردیں ؟ ہم جس طرح چاہیں گے کمائیں گے اور جس طرح چاہیں گے خرچ کریں گے تو اپنی نمازوں کی فکر کر ، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی کہ حرام کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی اس میں تردد اور شبہات پائے جاتے ہیں روحانیت تباہ ہوجاتی ہے لہٰذا حلال ذرائع سے کمائو اور پھر اس میں سے مستحقین کے حقوق ادا کرو اس کے بعد جو کچھ بچے گا وہی بابرکت ہوگا مگر قوم نے ایک نہ سنی۔ فساد فی الارض فرمایا ولاتفسدو فی الارض بعد اصلاحھا نہ فساد کرو زمین میں اس کی اصلاح کے بعد ، حضرت شعیب علیہ لاسلام کی یہ تقریر اس زمانے کی ہے جب ان کے اردگرد ہر طرف فساد ہی فساد تھا مگر یہاں پر بعد اصلاحھا سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے زمین میں بالکل امن وامان تھا اور اس کے بعد فساد کا بازار گرا ہوا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اصلاح سے مراد وہ اصلاحی پروگرام ہے جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی طرف بھیجا خدا وند تعالیٰ نے اس سلسلے میں انبیاء مبعوث فرمائے ، کتابیں نازل فرمائیں قانون اور شریعت دی تاکہ لوگ اس پروگرام پر عمل کرکے دنیا میں امن قائم کریں مگر ان لوگوں نے اس پروگرام کی طرف توجہ نہ دی ظاہر ہے کہ اس پروگرام کی آمد کے بعد جو شخص اس قانون کو توڑتا ہے اور اس کے خلاف چلتا ہے وہ باغی ، شریر اور مفسد فی الارض ہے اور سزا کا مستحق ہے امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں ان من اعظم مقاصد بعثۃ الانبیاء رفع التظالم من بین الناس فان تظالھم بضیق علیھم یعنی انبیاء کی بعثت کے اہم ترین مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں یہ ایسی چیز ہے جو لوگوں پر تنگی ڈال دیتی ہے اور لوگ مصیبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی ارشاد گرامی ہے انی حرمت الظم علی نفسی جعلتہ بینکم حراماً فلا تظا لمو اے لوگو ! میں نے ظلم کو اپنے اوپر بھی حرام قرار دیا ہ کے اور تم پر بھی حرام کیا ہے لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو شرک اور کفر ظلم ہے کسی کا حق غضب کرنا ، کسی کے ساتھ ناانصافی کرنا ، چوری ، زنا ، ہم جنسی وغیرہ سب ظلم کی تعریف میں آتے ہیں اللہ نے ان سے منع فرمایا ہے تو شعیب (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم سے یہی کہا کہ زمین میں فساد نہ کرو یعنی ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی سے باز آجائو۔ امام بیضادی (رح) فرماتے ہیں کہ اخلال بالشرائع یعنی خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون شریعت کے خلاف فساد فی الارض میں شامل ہے ہر برائی فساد ہے جس سے منع کیا گیا ہے فرمایا فساد نہ کرو بلکہ امن اور چین قائم کرو ذلکم خیرلکم ان کنتم مومنین یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو تجارتی بددیانتی اس امت میں بھی موجود ہے اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا ، اے تاجرو ! پہلی امتوں کو خدا تعالیٰ نے ماپ تول کا متولی بنایا تھا انہوں نے اس معاملہ میں تعدی کی وہ ماپ تول میں کمی کرتے تھے لہٰذا ہلاک ہوگئے اب تمہاری باری ہے دیکھو ! کسی پر زیادتی نہ کرنا کہ پہلے قومیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ راستے کی رکاوٹ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے یہ بھی فرمایا ولاتقعدوا بکل صراط ہر راستے میں مت بیٹھو توعدون وتصدون عن سبیل اللہ من امن بہ تم لوگوں کو ڈراتے ہو اور ایمان لانے والے کو اللہ کے راستے سے روکتے ہو ، ڈرانے سے مراد یہ ہے کہ تم شاہرائوں پر ڈاکے ڈالتے ہو ، لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان سے مال چھین لیتے ہو اور اگر کوئی مزاحمت کرے تو جان سے مار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے قوم شعیب کا یہ قبیح طریقہ آج بھی جاری ہے ہر روز اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ فلاں شاہراہ پر ڈاکوئوں نے بس کو لوٹ لیا یا فلاں مقام پر ڈاکو ساری رات بسوں اور ٹرکوں کو لوٹتے رہے ان کا طریقہ واردات بھی عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی بس میں سوار ہوجاتا ہے اور اس کے باقی ساتھی کسی مقررہ مقام پر انتظار کرتے ہیں رات کو جب بس غیر آباد مقام پر پہنچتی ہے تو بس کو روک لیا جاتا ہے اور پھر تمام ڈاکو مسافروں سے نقدی ، گھڑیاں اور زیورات چھین کر فرار ہوجاتے ہیں اب تو دن دہاڑے ڈاکے پڑنے لگے ہیں یورپ اور امریکہ جیسے متمدن ممالک میں کار چوری کی وارداتیں کثرت سے ہورہی ہیں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کو اس قبیح فعل سے منع فرمایا۔ اہل ایمان کو اللہ کے راستے سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا پراپیگنڈہ کیا جائے جس سے متاثر ہو کر لوگ اللہ کے راستے کو چھڑ دیں اور نئے آنے والے رک جائیں جو لوگ شعیب (علیہ السلام) کی بات سننا چاہتے تھے قوم کے لوگ انہیں حیلے بہانے سے آپ کے پاس جانے سے روکتے تھے اور آپ کے خلاف غلط پراپیگنڈا کرکے لوگوں کو آپ سے متنفر کرتے تھے مشرکین مکہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ان کی بھی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی نووارد حضور ﷺ سے ملاقات نہ کرسکے وہ جانتے تھے کہ اگر ایک دفعہ کسی نے حضور ﷺ کی بات سن لی تو وہ انہی کا ہو کر رہ جائے گا حضرت ضماد ؓ کا واقعہ مشہور ہے آپ اسلام لانے سے پہلے بہت بڑے کاہن اور طبیب تھے مکہ آئے تو حضور ﷺ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی مشرکین نے کہا وہ تو پاگل ہے اس کے پاس جاکر کیا کرو گے کہنے لگے میں طبیب ہوں ، اگر وہ بیمار ہیں تو ان کا علاج کروں گا آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر علاج کی پیش کش کی تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا پس آپ کی بات سننا تھا کہ گھائل ہوگیا اور حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرکے واپس آیا تو راستے سے روکنے کا یہی مطلب ہے۔ کجی کی تلاش شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم اللہ کے راستے سے روکتے ہو وتبعو نھا عوجاً اور دین کے راستے میں کچی تلاش کرتے ہو دین میں ایسی خامیاں تلاش کرتے ہو جن کا پراپیگنڈا کرکے لوگوں کو برگشتہ کرنا چاہتے ہو مشرکین اور کفار ہمیشہ یہی کرتے آتے ہیں یہود و نصاریٰ بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے لیے کوئی مواد ہاتھ آئے آج کے نام نہاد مستشرقین بھی یہی کر رے ہیں تحریروں اور تقریروں کے ذریعے اسلام کی خامیاں بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ اس سے متنفر ہوجائیں کبھی دین کے مسائل کو غلط رنگ میں پیش کریں گے جیسے ایک لندن پلٹ اعلیٰ ڈگری یافتہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ مسلمانوں کا دین کیسا ہے کہ جانور کو چھری سے رگڑ رگڑ کر ذبح کرتے ہیں یہ تو جانور کے ساتھ ظلم ہے کیوں نہ ایک ہی وار میں جانور کا سر تن سے جدا کردیاجائے۔ اس قسم کا پراپیگنڈا کرتے ہیں حالانکہ تیز چھری کے ساتھ حلق سے ذبح کنا ملت ابراہیمی کا مسلمہ اصول اور فطرت کے عین مطابق ہے بیک وار گردن قلم کردینا غلط ہے اور اس سے مذبوحہ جانور مکروہ تحریمی بن جاتا ہے یہ بدبخت پیغمبر اسلام کی ذات مبارکہ کو بھی اپنے غلط پراپیگنڈا کا نشانہ بناتے ہیں حضور ﷺ پر نعوذ باللہ بادشاہ اور عیاش ہونے کا الزام لگاتے ہیں افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ عیسائی ، یہودی ، ہندو اور دہریوں کی اسلام دشمنی میں ان کے مسلمان شاگرد بھی شامل ہوجاتے ہیں اور پھر ان کی ڈیوٹی یہ انجام دینے لگتے ہیں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بھی یہی کام کرتے تھے جس سے آپ نے منع فرمایا۔ عددی برتری حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کو اللہ کا یہ احسان بھی یاد دلایا و اذکرو اذکنتم قلیلاً فکثرکم اور یاد کرو جب تم قلیل تعداد میں تھے تو اللہ نے تمہیں زیادہ کرودیا تمہاری نسل میں برکت دی جو خوب پھیلی اور تمہیں عددی اکثریت حاصل ہوگئی کثرت تعداد اللہ تعالیٰ کا انعام ہے مگر اس زمانے میں اسے وبال جان سمجھا جانے لگا ہے انگریز نے ایسی پٹی پڑھائی ہے کہ آبادی بڑھ جانے سے خوراک کی قلت پیدا ہوجائے گی لہٰذا آبادی پر کنٹرول ہونا چاہیے بچے کم پیدا کرو ، خاندانی منصوبہ بندی کو اپنائو وغیرہ وغیرہ ، دنیا پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ اکثریت نے اقلیت کو مغلوب کیا قبرض اور لبنان میں کیا ہوا ، عیسائیوں کی عددی اکثریت کی وجہ سے مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہمیں ہندوستان سے کیوں علیحدہ ہونا پڑا کہ ہندو اکثریت میں تھے اگر ہم اکثریت میں ہوتے تو پورا ملک ہمارا ہوتا۔ عددی اکثریت دو طریقوں سے حاصل ہوتی ہے یا تو فکری جذبہ کے تحت تبلیغ عام کی جائے تاکہ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوں یا پھر دوسرا طریقہ تعداد ازواج کا ہے حضور ﷺ نے فرمایا مسلمانوں کی عددی برتری میرے لیے باعث فخر ہے آبادی میں کمی کرنا مشرکانہ اور جاہلانہ تصور ہے اگر وسائل رزق کی تقسیم صحیح ہوجائے تو کسی چیز کی قلت نہیں پیدا ہوگی مشکل تو یہی ہے کہ ہم اسلامی اصولوں کو اپنانے کی بجائے انہیں مٹانے پر کمر بستہ ہیں بعض لوگ دن میں چھ چھ مرتبہ پر تکلف کھانا کھاتے ہیں اور بعض کو ایک وقت بھی سیر ہو کر میسر نہیں ہم نے کاروبار ، ملازمت ، تعلیم کوئی بھی چیز اسلامی اصولوں کے مطابق تقسیم نہیں کی جس کی وجہ سے بےچینی پائی جاتی ہے اگر بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح ہو تو جتنی عددی اکثریت ہوگی اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہوگا بنگال کے کچھ لوگ تبلیغ کے لیے روس میں گئے تو وہاں کے مفتی نے کہا کہ خدا سے دعا کرو کہ یہاں کے لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوجائے وہ کم از کم عبادت تو کھلے بندوں کرسکیں ہمیں تو کوئی عبادت بھی نہیں کرنے دیتا کیونکہ ہم اقلیت میں ہیں غرضیکہ عددی برتری کو اللہ نے بطور احسان یاد دلایا ہے۔ فرمایا وانظروا کیف کان عاقبۃ المفسدین دیکھو فساد کرنے والوں کا کتنا برا انجام ہوا دنیا میں جس نے بھی من مانی کی ظلم و ستم کا بازار گرم کیا وہی قوم باعث عبرت بن گئی اللہ نے مختلف قوموں کا حال بیان کرکے بعد میں آنے والوں کی توجہ دلائی ہے کہ دیکھو قوم نوح کا کیا حال ہوا قوم عاد اور ثمود کس انجام کو پہنچی قوم لوط کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا وانکم لتمرون علیھم (الصفت) تم ان پر صبح شام گزرتے ہو کیا یہ باعث عبرت نہیں ہے۔ خدائی فیصلے کا انتظار فرمایا وان کان طائفۃ منکم امنو بالذی ارسلت بہ تم میں سے ایک گروہ ایمان لایا ہے اس چیز پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے اپنا پیغام دین اور شریعت بھیجی ہے تمہارے لیے اصلاح کی دعوت بھیجی ہے جس پر ایک گروہ ایمان لاچکا ہے وطائفۃ یومنو اور ایک گروہ ایمان نہیں لایا وہ الٹا دین کے راستے میں روڑے اٹکاتا ہے لوگوں کو دین کے راستے سے روکتا ہے فرمایا اس کا علاج یہ ہے کہ دل برداشتہ نہ ہو بلکہ فاصبرو کا دامن تھامے رکھیں اور اس وقت کا انتظار کریں حتیٰ یحکم اللہ بیننا یہاں تک اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کردے حضور ﷺ نے بھی یہی سبق دیا موسیٰ (علیہ السلام) اور شعیب (علیہ السلام) نے یہی طریقہ اختیار کیا اور اہل ایمان کو صبر کی تلقین کی آگے آرہا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم سے استعینو باللہ واصبرو (اعراف) اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو خود حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے آپ اس کا اتباع کریں واصبر حتی یحکم اللہ (یونس) اور صبر کریں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کوئی فیصلے د یہی بات شعیب (علیہ السلام) نے کہی کہ صبر کرو حتیٰ کہ اللہ ہمارے درمیان کوئی فیصلہ کردے وھو خیرالحکمین اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے آخری فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ اہل ایمان کے حق میں ہوگا انہ لا یفلح الظلمون (الانعام) اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو کبھی فلاح نہیں دیتا بلکہ وہ ہمیشہ نامراد رہتے ہیں آخری کامیابی اہل ایمان کی ہوگی۔
Top