Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 85
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَ : اور اِلٰي : طرف مَدْيَنَ : مدین اَخَاهُمْ : ان کے بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : نہیں تمہارا مِّنْ : سے اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق پہنچ چکی تمہارے پاس بَيِّنَةٌ : ایک دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَوْفُوا : پس پورا کرو الْكَيْلَ : ناپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی اشیا وَلَا تُفْسِدُوْا : اور فساد نہ مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور مَدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ (تو) انہوں نے کہا کہ قوم! خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی آچکی ہے تو تم ناپ تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو۔ اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم صاحب ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے
والی مدین اخاہم شعیبا اور ہم نے مدین کی طرف ان کے (نسبی) برادر شعیب ( علیہ السلام) کو بھیجا۔ مدینحضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیٹے کا نام تھا۔ یہاں مدین کی نسل مراد ہے۔ بغوی نے لکھا یہ ہی اصحاب الایکۃ (بن والے) تھے۔ عطاء کا قول ہے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) توبہ بن حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیٹے تھے محمد بن اسحاق نے کہا میکیل کے بیٹے تھے اور میکیل یشجر کے اور یشجر مدین کے اور مدین حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔ ابن اسحاق کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ میکیل حضرت لوط ( علیہ السلام) کی بیٹی کا نام تھا۔ بعض کے نزدیک حضرت شعیب یثرون بن نوس بن مدین کے بیٹے تھے۔ حضرت شعیب ( علیہ السلام) نابینا (ہو گئے) تھے چونکہ اپنی قوم سے خطاب کرنے میں آپ کو کمال تھا اس لئے آپ کا لقب خطیب الانبیاء ہوا۔ آپ کی قوم کافر بھی تھی اور ناپ تول میں بھی کمی کرتی تھی۔ ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا ذکر کرتے تھے تو فرماتے تھے وہ خطیب الانبیاء تھے اس لئے کہ اپنی قوم سے خطاب اچھے اسلوب سے کرتے تھے۔ قال یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ قد جآء تکم بینۃ من ربکم فاوفوا الکیل والمیزان ولا تبخسوا الناس اشیآء ہم ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحہا ذلکم خیر لکم ان کنتم مؤمنین۔ شعیب نے کہا اے میری قوم ! اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آچکی سو تم ناپ تول پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کا ان کی چیزوں (کو ناپ تول کردینے) میں نقصان نہ کیا کرو اور روئے زمین پر درستی کے بعد بگاڑ نہ پیدا کرو یہ ہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر مؤمن ہو (تو اس ہدایت کو مانو) ۔ اُعْبَدُوا اللّٰہ یعنی تنہا اللہ کی پوجا کرو۔ بینۃ یعنی معجزہ (یا واضح دلیل) قرآن مجید میں حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے کسی معجزہ کا ذکر نہیں کیا گیا بعض کے نزدیک بینۃ سے مراد ہے حکمت نصیحت اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا کلام حق باسلوب بلیغ۔ المیزان میعاد کی طرح میزان بھی مصدر ہے بمعنی وزن۔ یا میزان سے مراد ہے ترازو اور وزن محذوف ہے یعنی وزن المیزان۔ یا کیل سے مراد ہے پیمانہ۔ کیل (مصدر) محذوف ہے کیل کا اطلاق کمال پر ایسا ہی جیسے عیش کا اطلاق معاش پر ہوتا ہے۔ نحسٌکے دو مفعول آتے ہیں یہاں الناسپہلا مفعول اور اشیاء ہم دوسرا مفعول ہے محاورہ میں بولا جاتا ہے بَخَسْتُ زَیْدًا حَقَّہٗمیں نے زید کا پورا حق دینے میں کمی کردی۔ اشیاء کا لفظ عموم پر دلالت کر رہا ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ لوگ بڑی چھوٹی اور تھوڑی بہت سب چیزوں کے ناپ تول میں کمی کرتے تھے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ لوگ ذخیرہ اندوز تھے ہر چیز کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔ ولا تفسدوا اور بگاڑ نہ پیدا کرو یعنی کفر اور ظلم۔ بعد اصلاحہا درستی کے بعد یعنی جب اللہ نے پیغمبر کو مبعوث فرما دیا جو تم کو بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے۔ ذلکم یعنی یہ بات جو بات میں نے تم سے کہی اور جس بات کا تم کو حکم دیا۔ خیرلکم تمہارے لئے ظلم کرنے اور ناپ تول میں کمی کرنے سے بہتر ہے۔ اگرچہ ناپ تول میں کمی کرنے سے بظاہر کچھ مالی فائدہ ہوجاتا ہے مگر حقیقت میں دنیا اور آخرت دونوں میں یہ نقصان کا سبب ہے اور حضرت شعیب نے جو ان کو حکم دیا اس میں دنیا اور آخرت دونوں کا فائدہ تھا اس لئے ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحہا ذلکم خیرلکم فرمایا۔ ان کنتم مؤمنین یعنی اگر تم مجھے سچا جانتے ہو تو جو حکم میں دے رہا ہوں اس کی تعمیل کرو اور وہ لوگ واقف ہیں کہ شعیب ( علیہ السلام) جھوٹ کبھی نہیں بولتے۔ (ان کا یہ خیال حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی نبوت سے پہلے تھا۔ نبوت کے دعوے میں وہ جھوٹا ہی سمجھتے تھے) روایت میں آیا ہے کہ اہل مدین سرراہ بیٹھ جاتے اور جو شخص مسلمان ہونے کے لئے حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے پاس جانا چاہتا اس کو روکتے اور کہے شعیب بڑا جھوٹا ہے کہیں تجھے دین کی طرف سے بگاڑ نہ دے۔ یہ لوگ مسلمانوں کو بھی ڈراتے اور قتل کر ڈالنے کی دھمکیاں دیتے تھے کذا اخرج ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم عن ابن عباس ؓ
Top