Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 21
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ
اِنَّمَا
: درحقیقت
الْمُؤْمِنُوْنَ
: مومن (جمع)
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ
اِذَا
: جب
ذُكِرَ اللّٰهُ
: ذکر کیا جائے اللہ
وَجِلَتْ
: ڈر جائیں
قُلُوْبُهُمْ
: ان کے دل
وَاِذَا
: اور جب
تُلِيَتْ
: پڑھی جائیں
عَلَيْهِمْ
: ان پر
اٰيٰتُهٗ
: ان کی آیات
زَادَتْهُمْ
: وہ زیادہ کریں
اِيْمَانًا
: ایمان
وَّ
: اور
عَلٰي رَبِّهِمْ
: وہ اپنے رب پر
يَتَوَكَّلُوْنَ
: بھروسہ کرتے ہیں
بیشک ایمان والے وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب پڑھی جاتی ہیں ان پر اس کی آیتیں تو زیادہ ہوتا ہے ان کا ایمان اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے جماعتی نظم وضبط کو برقرار رکھنے کے لیے باہمی اختلافات ختم کر کے آپس میں صلح جوئی کی پالیسی اختیار کرنے کی تلقین کی تھی ، اللہ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مال غنیمت پر کسی مجاہد یا غاذی کا براہ راست کوئی حق نہیں۔ یہ اللہ کی ملکیت ہے جس اس کا رسول ہدایت الٰہی کے مطابق تصرف میں لاتا ہے اور اس کو تقسیم کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے مرکزی بات یہ فرمائی کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم پکڑو۔ فرمایا ، اگر ان میں سے کسی معاملہ میں بھی مسلمانوں کی طرف سے کمزوری واقع ہوگی تو دشمن راہ پا کر غلبہ حاصل کرلے گا ، لہٰذا مذکورہ ہدایات پر سختی سے کاربند ہو جائو۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اوصاف بیان فرمائے ہیں جن کی وجہ سے انہیں دینا اور آخرت میں فلاح نصیب ہوگی۔ مومنین کی صفات : 1۔ خوف خدا ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم “ بیشک ایمان والے حقیقت میں وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ اہل ایمان کی یہ پہلی صفت ہے کہ خدا کے ذکر سے ان کے دلوں میں خوف پیدا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خالق ومالک ہے ، وہ بڑی عظمت اور بزرگی والا ہے۔ اگر ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی تو وہ پکڑ لے گا یہی ایمان کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے متعلق بھی فرمایا ہے (آیت) ” یدعوننا رغبا ورھبا وکانوا لنا خشعین “ (الانبیائ) وہ ہمیں پکارتے ہیں اس رغبت اور امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں انعام واکرام حاصل ہو۔ اور ہم سے ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں گرفت نہ ہوجائے۔ دراصل ایمان خوف اور امید کے درمیان ہی ہے۔ اگر کسی آدمی پر اس قدر خوف طاری ہوجائے کہ وہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہی ہوجائے تو ییہ کفر کی نشانی ہے۔ اسی طرح کوئی شخص اتنا پر امید ہوجائے کہ خدا تعالیٰ کا خوف ہی دل سے جاتا رہے یہ بھی نافرمانی اور کفر کی علامت ہے۔ لہٰذا انسان کے دل میں اس کی رحمت امید اور اس کے عذاب کا خوف دونوں چیزیں موجود ہونی چاہیں۔ بہر حال مومنوں کی پہلی صفت یہ فرمائی کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کسی کوتاہی سے ناراض نہ ہوجائے۔ اہل ایمان کو یہ فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے۔ 2۔ ایمان میں اضافہ فرمایا اہل ایمان کی دوسری صفت یہ ہے (آیت) ” واذا تلیت علیھم ایتہ “ جب ان پر اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں (آیت) ” زادتھم ایمانا “ تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یعنی ان کے ایمان میں قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایمان میں زیادتی کے متعلق محدثین اور فقہائے کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حالات کے مطابق ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے مگر امام ابوحنیفہ اور بعض دوسرے فقہا و محدثین فرماتے ہیں کہا یمان تو تصدیق قلبی کا نام ہے جو شخص پورے یقین کے ساتھ اللہ کی وحدانیت ، اس کے بنیاء کی رسالت اور قیامت پر ایمان لاتا ہے۔ اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی ، البتہ حالات کے لحاظ سے ایمان کی کیفیت میں فرق ہو سکتا ہے بعض آدمیوں کا ایمان قوی ہونا ہے اور بعض کا ضعیف ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص تصدیق قلبی کے بعد پورے طریقے سے خدا تعالیٰ کی اطاعت بھی کرتا ہے تو اس کے ایمان کی کیفیت انبیاء کے ایمان کی سی اعلی درجے کی ہوگی۔ برخلاف اس کے جو شخص تصدیق تو کرتا ہے مگر معاصی میں بھی آلودہ ہوتا ہے ، اس کے ایمان کی حالت کامل الایمان لوگوں جیسی تو نہیں ہو سکتی۔ مطلب یہ کہ ایمان میں تصدیق کے اعتبار سے تو کمی بیشی نہیں ہوتی کیونکہ نبی اور کامل الایمان آدمی بھی انہی چیزوں کی تصدیق کرتا ہے جن کی تصدیق ایک عام آدمی کرتا ہے۔ البتہ کیفیت کے اعتبار سے ایک نبی کا ایمان ایک عام امتی کے ایمان سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے بلکہ ان میں آسمان و زمین کا فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا کوئی شخص یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ انبیاء اور عام آدمیوں کا ایمان برابر ہوتا ہے بہرحال یہ مومنین کی دوسری صفت بیان فرمائی گئی ہے کہ جب وہ آیات الٰہی سنتے ہیں تو ان کے ایمان میں تازگی اور قوت پیدا ہوجاتی ہے جسے ایمان میں زیادتی پر محمول کیا گیا ہے۔ 3۔ توکل علی اللہ : فرمایا اہل ایمان کی تیسری صفت یہ ہے (آیت) ” وعلی ربھم یتوکلون “ وہ اپنے رب پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں۔ ان کا اعتماد اسباب کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ آیت ” لا الہ الا ھو فاتخذہ وکیلا (المزمل) اس کے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا کارساز بھی اسی کو پکڑو کہ اس کے سوا کارساز بھی کوئی نہیں۔ ایمان والے یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی سبب موثر بالذات نہیں ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت نہ ہو۔ اللہ چاہے تو کوئی کام بنا دے اور چاہے تو کوئی کام بگاڑ دے۔ اسی لیے اہل ایمان صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ سرمایہ دار کو اپنے سرمایہ پر بھروسہ ہوتا ہے ، ایک تنو مند شخص کو قوت بازو پر بھروسہ ہوتا ہے ہر مادہ پرست اپنے مادہ پر توکل کرتا ہے مگر ایمان والے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ قرآن پاک میں انبیاء کا یہ بیان موجود ہے (آیت) ” وما لنا الا نتوکل علی اللہ وقد ھدنا سبلنا “ (ابراہیم) ہم خدا تعالیٰ کی ذات پر کیوں نہ بھروسہ کریں حالانکہ اسی نے ہمیں سیدھا راستہ بھی دکھایا ہے۔ اور اس پر چلنے کی توفیق بھی وہی دیتا ہے۔ تمام اسباب کا مہیا کرنے والا اور تمام چیزوں پر کنٹرول کرنے والا وہی ہے ، لہٰذا بھروسہ بھی اسی کی ذات پر ہونا چاہیے نہ کہ ان عارضی اور فانی اسباب پر کامل الایمان لوگوں کی یہ تیسری صفت ہوگئی۔ 4۔ اقامت صلوٰۃ فرمایا چوتھی صفت یہ ہے (آیت) ” الذین یقیمون الصلوۃ “ کہ وہ لوگ نماز کو قائم کرتے ہیں ، یہ بھی ایک اہم ترین کام ہے۔ مئوطا امام مالک (رح) (1۔ موطا امام مالک ص 5 (فیاض) میں حضرت عمر ؓ کا وہ سرکلر موجود ہے جو آپ نے تمام صوبوں کے حکام کو بھیجا تھا اور جس میں لکھا تھا ان من اھم امورکم عندی الصلوۃ یعنی میرے نزدیک تمہارے کاموں میں سب سے اہم کام نماز ہے۔ اس پر خود بھی کاربند رہو اور دوسروں سے بھی پابندی کرائو۔ مطلب یہ کہ نماز کوئی پرائیوٹ چیز نہیں ہے کہ جس نے چاہا اس کو ادا کرلیا اور جس نے چاہا چھوڑ دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ جس نے نماز کی حفاظت کی وہ دین کی باقی باتوں کا بھی محافظ ہوگا اور جس نے نماز کو ضائع کردیا وہ باقی امور کو بہت زیادہ ضائع کرنے والا ثابت ہوگا۔ دراصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق درست رکھنے کے لیے نماز بہترین ذریعہ ہے جب کسی شخص کا تعلق باللہ درست ہوگا تو وہ مخلوق کے ساتھ تعلق کو بھی درست کرے گا اور وہ حقوق العباد کا بھی پابند ہوگا۔ برخلاف اس کے جس کا تعلق باللہ ٹھیک نہیں ہے اس کا معاملہ مخلوق کے ساتھ بھی درست نہیں ہوگا ، لہٰذا اہل ایمان کے لیے نماز کی پابندی بڑی ضروری ہے۔ یہ ان کی چوتھی صفت ہے کہ وہ نماز کو ضائع نہیں کرتے۔ نماز باجماعت کے متعلق امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ جنگ میں اگر تین آدمی بھی موجود ہو تو وہ نماز باجماعت ادا کریں ورنہ ان پر شیطان چھا جائیگا۔ البتہ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ نماز جمعہ کے لیے چالیس آدمیوں کا اکٹھا ہونا ضروری ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ تین آدمی بھی کافی ہیں نماز اجتماعیت کا ذریعہ ہے۔ اس میں وقت کی پابندی ، طہارت ، مساوات اور بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی کا درس ملتا ہے اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق استوار ہوتا ہے۔ نماز میں خدا تعالیٰ کے حضور مناجات ہوتی ہے۔ اس میں تلاوتِ قرن بھی ضروری ہے جس کے ذریعے فلاں کا پروگرا م میسر آتا ہے۔ لہٰذا کامل الایمان لوگوں کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ نماز کو قائم کرتے ہیں اور اسے ضائع نہیں ہونے دیتے۔ 5۔ انفاق فی سبیل اللہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی پانچویں صفت یہ بیان فرمائی ہے (آیت) ” ومما رزقنھم ینفقون “ جو روزی ہم نے انہیں دی ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں اگر صاحب نصاب ہیں تو سب سے پہلے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو کہ فرض ہے۔ البتہ زکوۃ کے علاوہ بھی مال کے حقوق ہیں حضور ﷺ کا ارشاد ہے ان فی المال حقا سوی الزکوٰۃ یعنی زکوٰۃ کے علاوہ مالی عبادات میں حج اور عمرہ بھی ہے اس کے علاوہ قربانی اور صدقہ فطر واجبات میں سے ہیں۔ اگر کسی صاحب مال آدمی کا کوئی عزیز رشتہ دار نادار ہو تو اس کی اعانت بھی واجب ہوجاتی ہے امام خصاف نے کتاب النفقات میں لکھا ہے کہ حنفی قانون کے مطابق صاحب ثروت کے لیے اپنے نادار رشتہ دار کا خرچہ واجب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بعض کو بعض پر مالی لحاظ سے فضیلت عطا کرتا ہے تو یہ مال ان کے لیے آزمائش ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ اس کے عطا کردہ مال میں سے غرباء مساکین اور دیگر مستحقین کا حق ادا کیا گیا ہے یا نہیں اللہ نے فرمایا (آیت) ” وات ذا القربی حقہ والمسکین وابن السبیل “ اگر اللہ نے مال دیا ہے تو قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو (آیت) ” ولا تبذر تبذیرا “ (بنی اسرائیل) اور فضول خرچی نہ کرو۔ اس کو کھیل تماشے میں صرف نہ کرو۔ رسوماتِ باطلہ اور حرام کاموں میں دولت خرچ کرنے کا حکم نہیں ہے نھی عن اضاعۃ المال حضور ﷺ نے مال کے ضیاع سے منع فرمایا ہے سرمایہ دارنہ نظام معیشت میں یہی قباحت ہے۔ کہ مال کمانے والا سمجھتا ہے کہ خرچ کرنا بھی بلا شرکت غیر اسی کا حق ہے لہٰذا وہ جس طرح خرچ کرے حالانکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کمائی کے لیے حلال ذرائع کی شرط عائد کی ہے اسی طرح خرچ کرنے کے لیے بھی جائز امور کا حکم دیا ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے آپ کو یہی کہا تھا (آیت) ” اصلوتک تامرک ان نترک ما یعبد ابائونا او ان نفعل فی اموالنا ما نشوا “ (ہود) کیا تمہاری نماز تمہیں یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے آبائو اجداد کرتے آئے ہیں یا یہ کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی سے تصرف نہ کریں مگر اللہ نے فرمایا کہ کامل الایمان وہ لوگ ہیں جو ہمارے عطا کردہ مالوں میں سے ہماری مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں ان اخراجات کی مدات عرض کردی گئی ہیں یہ پانچویں صفت ہوگئی۔ حقیقی مومن : فرمایا جن لوگوں میں یہ پانچ صفات پائی جائیں گی (آیت) ” اولئک ھم المومنون حقا “ یہ سچے مومن ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں کہ اور جب آیات الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان تازہ ہوجاتے ہیں اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پر توکل رکھتے ہیں معاملہ تجارت ہو یا زراعت صلح ہو یا جنگ معیشت ہو یا معاشرت ، وہ لوگ کام انجام دے کر نتیجہ ہمشہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں وہ لوگ نماز کو قائم کرتے ہیں اور اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی کامل الایمان لوگ ہیں اور ان صفات کی حامل جماعت سے ہی اسلامی نظام قائم کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ وہی دنیا میں امن وامان قائم کرسکتے ہیں اور انہیں کی سرکردگی میں انصاف کا بول بالا ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” انتم الاعلون ان کنتم مومنین “ (آل عمران) اگر تم پکے سچے مومن ہو گے تو دنیا میں بالا دستی تمہیں حاصل ہوگی اور جب تمہارے ایمان میں خرابی آ جائیگی ، تعلق باللہ خراب ہوجائیگا تو دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جائو گے۔ عیش پرست اور آرام طلب ہو جائو گے یا حریص اور غلام بن جائو گے نیکی رخصت ہو جائیگی اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی تمہارے شامل حال ہوجائے گی۔ مومنوں کے لیے انعامات : 1۔ درجات : آخر میں اللہ تعالیٰ نے کامل الایمان لوگوں کے لیے انعامات کا ذکر فرمایا ہے (آیت) ” لھم درجٰت عند ربھم “ ایسے لوگوں کے لیے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں۔ سورة احقاف میں (آیت) ” ولکل درجٰت مماعملوا “ ہر آدمی کے لیے اس کے اعمال کے مطابق درجے ہوں گے درجات میں تفاوت اعمال کا نتیجہ ہوگا ایمان جنت کے دروازے کی چابی ہے ایمان ہوگا تو جنت کا دروازہ کھل جائے گا مگر وہاں پر درجات عمل کے اعتبار سے حاصل ہوں گے ، حضور ﷺ کا اور شاد مبارک ہے جنت کے سو درجے ہیں اور ہر درجہ ایک دوسرے سے اتنا بلند ہے جتنا آسمان زمین سے غرضیکہ اہل ایمان کے لیے اپنی اپنی حیثیت ، خلوص اور کارگزاری کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہاں درجات ہوں گے مغفرت : فرمایا مومنین کے لیے دوسرا انعام ومغفرۃ اللہ تعالیٰ کی بخشش ہوگی دنیا میں جو کوتاہی ، لغزش یا خطا ہوگئی تھی اس کی معافی مل جائے گی یہ بھی بہت بڑا انعام ہے ، اسی لیے اللہ نے حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) کی زبان سے کہلوایا کہ مولا کریم ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا (آیت) ” وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخٰسرین “ (اعراف) اگر تو ہماری غلطیوں کو معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں فرمائے گا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے دنیا میں انسانوں سے بہت سی کوتاہیاں سرزد ہوں گی۔ مگر کامل الایمان لوگوں کو معافی مل جائیگی۔ 3۔ باعزت روزی فرمایا تیسرا انعام یہ ہے (آیت) ” ورزق کریم “ اہل ایمان کو باعزت روزی نصیب ہوگی۔ رزق کریم آخرت میں تو یقینا میسر ہوگا اور اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا کہ یہ کتنا بڑا انعام ہوگا مگر اس دنیا میں بھی اطاعت کے ساتھ رزق حلال نصیب ہوجائے تو اس سے بلند کوئی روزی نہیں جو کچھ معصیت کے ساتھ ملتا ہے وہ باعزت رزق نہیں بلکہ ذلت کی روزی ہے ظاہر ہے کہ جو شخص ایمان کو اختیار کریگا حلال ذرائع معاش اختیار کریگا اسے حلال روزی نصیب ہوگی اور وہ صحیح معنوں میں اس کا حقدار ہو گا یہاں پر عزت کا لفظ بتلا رہا ہے کہ گداگری چونکہ عزت کی روزی نہیں ہے لہٰذا یہ انسانیت کی تذلیل ہے الخبز بالکرامۃ یعنی عزت کی روزی ہر آدمی کو ملنی چاہیے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ بیشتر لوگ خود ذلیل روزی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ فلم انڈسٹری اور گانا بجانا وغیر عزت کی روزی نہیں بلکہ تعیش ہے عزت کی روزی وہ ہے جس میں انسان کے لیے تسکین اور بہتری ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان اس دنیا میں حلال ذرائع سے روزی اختیار کرے تا کہ اسے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی رزق کریم میسر آسکے۔ لفظ کریم میں یہ راز پوشیدہ ہے کہ وہ کونسا راستہ ہے جسے اختیار کر کے مسلمانوں کو باعزت روزی نصیب ہو سکتی ہے اور ان کی اقتصادی حالت بہتر ہو سکتی ہے ہم تو انگریز ، امریکہ روس اور دہریوں کے نظام معیشت پر چل رہے ہیں اللہ کا عطا کردہ وہ پروگرام ہماری سمجھ میں نہیں آتا جو رزق کریم کا ذریہ بن سکے اس ایک لفظ سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اسلامی نظام معیشت کے علاوہ تمام نظام باطل ہیں ، کسی میں حلال روزی نہیں ہے ہر صاحب ایمان اپنے ایمان کی وجہ سے صاحب عزت ہے مال و دولت عزت نہیں بلکہ نفاق ہے لوگ برے آدمی کے شر سے بچنے کے لیے اسے سلال کرتے ہیں ، حالانکہ حقیقی عزت کے قابل وہ شخص ہے جسے ایمان کی دولت حاصل ہے۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اس کے کامل الایمان بندوں کا تیسرا انعام یہ ہے کہ انہیں باعزت روزی نصیب ہوتی ہے۔ وہ دنیا میں بھی رزق حلال سے مستفید ہوتے ہیں اور آخرت میں تو بہت بڑے انعامات کے حقدار ہوں گے گداگری حرام ہے : امام شاوہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1۔ حجۃ اللہ البالغہ ص 42۔ ج 1 (فیاض) کہ گداگری چونکہ عزت کی روزی نہیں ہے ، اس لیے ہمارے دین میں یہ حرام ہے۔ یہ بھی چوری اور ڈاکے کی طرح مضر پیشہ ہے مگر ہماری حکومت اس پر قابو پانے سے قاصر ہے انسداد گداگری کے آرڈنینس تجویز ہوتے ہیں مگر نافذ العمل نہیں ہو پاتے نظام زکوٰۃ کے نفاذ سے گداگری کے انسداد کی امید پیدا ہوئی تھی مگر اس مذموم پیشے پر قابو نہیں پایا جاسکا یورپ کے اکثر ممالک میں بیکاری الاونس ملتا ہے جس کی وجہ سے وہاں گداگری نہیں ہے یہ کام تو مسلمانوں کا ورثہ تھا جسے دوسروں نے اپنا لیا ہے مگر ہم اس لعنت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے اس کا خاتمہ قرآنی پروگرام سے ہی ممکن ہے ورنہ ذلت سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔
Top