Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 2
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ
اِنَّمَا : درحقیقت الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ اِذَا : جب ذُكِرَ اللّٰهُ : ذکر کیا جائے اللہ وَجِلَتْ : ڈر جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاِذَا : اور جب تُلِيَتْ : پڑھی جائیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُهٗ : ان کی آیات زَادَتْهُمْ : وہ زیادہ کریں اِيْمَانًا : ایمان وَّ : اور عَلٰي رَبِّهِمْ : وہ اپنے رب پر يَتَوَكَّلُوْنَ : بھروسہ کرتے ہیں
بیشک ایمان والے وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب پڑھی جاتی ہیں ان پر اس کی آیتیں تو زیادہ ہوتا ہے ان کا ایمان اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے جماعتی نظم وضبط کو برقرار رکھنے کے لیے باہمی اختلافات ختم کر کے آپس میں صلح جوئی کی پالیسی اختیار کرنے کی تلقین کی تھی ، اللہ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مال غنیمت پر کسی مجاہد یا غاذی کا براہ راست کوئی حق نہیں۔ یہ اللہ کی ملکیت ہے جس اس کا رسول ہدایت الٰہی کے مطابق تصرف میں لاتا ہے اور اس کو تقسیم کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے مرکزی بات یہ فرمائی کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم پکڑو۔ فرمایا ، اگر ان میں سے کسی معاملہ میں بھی مسلمانوں کی طرف سے کمزوری واقع ہوگی تو دشمن راہ پا کر غلبہ حاصل کرلے گا ، لہٰذا مذکورہ ہدایات پر سختی سے کاربند ہو جائو۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اوصاف بیان فرمائے ہیں جن کی وجہ سے انہیں دینا اور آخرت میں فلاح نصیب ہوگی۔ مومنین کی صفات : 1۔ خوف خدا ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم “ بیشک ایمان والے حقیقت میں وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ اہل ایمان کی یہ پہلی صفت ہے کہ خدا کے ذکر سے ان کے دلوں میں خوف پیدا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خالق ومالک ہے ، وہ بڑی عظمت اور بزرگی والا ہے۔ اگر ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی تو وہ پکڑ لے گا یہی ایمان کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے متعلق بھی فرمایا ہے (آیت) ” یدعوننا رغبا ورھبا وکانوا لنا خشعین “ (الانبیائ) وہ ہمیں پکارتے ہیں اس رغبت اور امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں انعام واکرام حاصل ہو۔ اور ہم سے ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں گرفت نہ ہوجائے۔ دراصل ایمان خوف اور امید کے درمیان ہی ہے۔ اگر کسی آدمی پر اس قدر خوف طاری ہوجائے کہ وہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہی ہوجائے تو ییہ کفر کی نشانی ہے۔ اسی طرح کوئی شخص اتنا پر امید ہوجائے کہ خدا تعالیٰ کا خوف ہی دل سے جاتا رہے یہ بھی نافرمانی اور کفر کی علامت ہے۔ لہٰذا انسان کے دل میں اس کی رحمت امید اور اس کے عذاب کا خوف دونوں چیزیں موجود ہونی چاہیں۔ بہر حال مومنوں کی پہلی صفت یہ فرمائی کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کسی کوتاہی سے ناراض نہ ہوجائے۔ اہل ایمان کو یہ فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے۔ 2۔ ایمان میں اضافہ فرمایا اہل ایمان کی دوسری صفت یہ ہے (آیت) ” واذا تلیت علیھم ایتہ “ جب ان پر اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں (آیت) ” زادتھم ایمانا “ تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یعنی ان کے ایمان میں قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایمان میں زیادتی کے متعلق محدثین اور فقہائے کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حالات کے مطابق ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے مگر امام ابوحنیفہ اور بعض دوسرے فقہا و محدثین فرماتے ہیں کہا یمان تو تصدیق قلبی کا نام ہے جو شخص پورے یقین کے ساتھ اللہ کی وحدانیت ، اس کے بنیاء کی رسالت اور قیامت پر ایمان لاتا ہے۔ اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی ، البتہ حالات کے لحاظ سے ایمان کی کیفیت میں فرق ہو سکتا ہے بعض آدمیوں کا ایمان قوی ہونا ہے اور بعض کا ضعیف ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص تصدیق قلبی کے بعد پورے طریقے سے خدا تعالیٰ کی اطاعت بھی کرتا ہے تو اس کے ایمان کی کیفیت انبیاء کے ایمان کی سی اعلی درجے کی ہوگی۔ برخلاف اس کے جو شخص تصدیق تو کرتا ہے مگر معاصی میں بھی آلودہ ہوتا ہے ، اس کے ایمان کی حالت کامل الایمان لوگوں جیسی تو نہیں ہو سکتی۔ مطلب یہ کہ ایمان میں تصدیق کے اعتبار سے تو کمی بیشی نہیں ہوتی کیونکہ نبی اور کامل الایمان آدمی بھی انہی چیزوں کی تصدیق کرتا ہے جن کی تصدیق ایک عام آدمی کرتا ہے۔ البتہ کیفیت کے اعتبار سے ایک نبی کا ایمان ایک عام امتی کے ایمان سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے بلکہ ان میں آسمان و زمین کا فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا کوئی شخص یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ انبیاء اور عام آدمیوں کا ایمان برابر ہوتا ہے بہرحال یہ مومنین کی دوسری صفت بیان فرمائی گئی ہے کہ جب وہ آیات الٰہی سنتے ہیں تو ان کے ایمان میں تازگی اور قوت پیدا ہوجاتی ہے جسے ایمان میں زیادتی پر محمول کیا گیا ہے۔ 3۔ توکل علی اللہ : فرمایا اہل ایمان کی تیسری صفت یہ ہے (آیت) ” وعلی ربھم یتوکلون “ وہ اپنے رب پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں۔ ان کا اعتماد اسباب کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ آیت ” لا الہ الا ھو فاتخذہ وکیلا (المزمل) اس کے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا کارساز بھی اسی کو پکڑو کہ اس کے سوا کارساز بھی کوئی نہیں۔ ایمان والے یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی سبب موثر بالذات نہیں ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت نہ ہو۔ اللہ چاہے تو کوئی کام بنا دے اور چاہے تو کوئی کام بگاڑ دے۔ اسی لیے اہل ایمان صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ سرمایہ دار کو اپنے سرمایہ پر بھروسہ ہوتا ہے ، ایک تنو مند شخص کو قوت بازو پر بھروسہ ہوتا ہے ہر مادہ پرست اپنے مادہ پر توکل کرتا ہے مگر ایمان والے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ قرآن پاک میں انبیاء کا یہ بیان موجود ہے (آیت) ” وما لنا الا نتوکل علی اللہ وقد ھدنا سبلنا “ (ابراہیم) ہم خدا تعالیٰ کی ذات پر کیوں نہ بھروسہ کریں حالانکہ اسی نے ہمیں سیدھا راستہ بھی دکھایا ہے۔ اور اس پر چلنے کی توفیق بھی وہی دیتا ہے۔ تمام اسباب کا مہیا کرنے والا اور تمام چیزوں پر کنٹرول کرنے والا وہی ہے ، لہٰذا بھروسہ بھی اسی کی ذات پر ہونا چاہیے نہ کہ ان عارضی اور فانی اسباب پر کامل الایمان لوگوں کی یہ تیسری صفت ہوگئی۔ 4۔ اقامت صلوٰۃ فرمایا چوتھی صفت یہ ہے (آیت) ” الذین یقیمون الصلوۃ “ کہ وہ لوگ نماز کو قائم کرتے ہیں ، یہ بھی ایک اہم ترین کام ہے۔ مئوطا امام مالک (رح) (1۔ موطا امام مالک ص 5 (فیاض) میں حضرت عمر ؓ کا وہ سرکلر موجود ہے جو آپ نے تمام صوبوں کے حکام کو بھیجا تھا اور جس میں لکھا تھا ان من اھم امورکم عندی الصلوۃ یعنی میرے نزدیک تمہارے کاموں میں سب سے اہم کام نماز ہے۔ اس پر خود بھی کاربند رہو اور دوسروں سے بھی پابندی کرائو۔ مطلب یہ کہ نماز کوئی پرائیوٹ چیز نہیں ہے کہ جس نے چاہا اس کو ادا کرلیا اور جس نے چاہا چھوڑ دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ جس نے نماز کی حفاظت کی وہ دین کی باقی باتوں کا بھی محافظ ہوگا اور جس نے نماز کو ضائع کردیا وہ باقی امور کو بہت زیادہ ضائع کرنے والا ثابت ہوگا۔ دراصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق درست رکھنے کے لیے نماز بہترین ذریعہ ہے جب کسی شخص کا تعلق باللہ درست ہوگا تو وہ مخلوق کے ساتھ تعلق کو بھی درست کرے گا اور وہ حقوق العباد کا بھی پابند ہوگا۔ برخلاف اس کے جس کا تعلق باللہ ٹھیک نہیں ہے اس کا معاملہ مخلوق کے ساتھ بھی درست نہیں ہوگا ، لہٰذا اہل ایمان کے لیے نماز کی پابندی بڑی ضروری ہے۔ یہ ان کی چوتھی صفت ہے کہ وہ نماز کو ضائع نہیں کرتے۔ نماز باجماعت کے متعلق امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ جنگ میں اگر تین آدمی بھی موجود ہو تو وہ نماز باجماعت ادا کریں ورنہ ان پر شیطان چھا جائیگا۔ البتہ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ نماز جمعہ کے لیے چالیس آدمیوں کا اکٹھا ہونا ضروری ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ تین آدمی بھی کافی ہیں نماز اجتماعیت کا ذریعہ ہے۔ اس میں وقت کی پابندی ، طہارت ، مساوات اور بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی کا درس ملتا ہے اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق استوار ہوتا ہے۔ نماز میں خدا تعالیٰ کے حضور مناجات ہوتی ہے۔ اس میں تلاوتِ قرن بھی ضروری ہے جس کے ذریعے فلاں کا پروگرا م میسر آتا ہے۔ لہٰذا کامل الایمان لوگوں کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ نماز کو قائم کرتے ہیں اور اسے ضائع نہیں ہونے دیتے۔ 5۔ انفاق فی سبیل اللہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی پانچویں صفت یہ بیان فرمائی ہے (آیت) ” ومما رزقنھم ینفقون “ جو روزی ہم نے انہیں دی ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں اگر صاحب نصاب ہیں تو سب سے پہلے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو کہ فرض ہے۔ البتہ زکوۃ کے علاوہ بھی مال کے حقوق ہیں حضور ﷺ کا ارشاد ہے ان فی المال حقا سوی الزکوٰۃ یعنی زکوٰۃ کے علاوہ مالی عبادات میں حج اور عمرہ بھی ہے اس کے علاوہ قربانی اور صدقہ فطر واجبات میں سے ہیں۔ اگر کسی صاحب مال آدمی کا کوئی عزیز رشتہ دار نادار ہو تو اس کی اعانت بھی واجب ہوجاتی ہے امام خصاف نے کتاب النفقات میں لکھا ہے کہ حنفی قانون کے مطابق صاحب ثروت کے لیے اپنے نادار رشتہ دار کا خرچہ واجب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بعض کو بعض پر مالی لحاظ سے فضیلت عطا کرتا ہے تو یہ مال ان کے لیے آزمائش ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ اس کے عطا کردہ مال میں سے غرباء مساکین اور دیگر مستحقین کا حق ادا کیا گیا ہے یا نہیں اللہ نے فرمایا (آیت) ” وات ذا القربی حقہ والمسکین وابن السبیل “ اگر اللہ نے مال دیا ہے تو قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو (آیت) ” ولا تبذر تبذیرا “ (بنی اسرائیل) اور فضول خرچی نہ کرو۔ اس کو کھیل تماشے میں صرف نہ کرو۔ رسوماتِ باطلہ اور حرام کاموں میں دولت خرچ کرنے کا حکم نہیں ہے نھی عن اضاعۃ المال حضور ﷺ نے مال کے ضیاع سے منع فرمایا ہے سرمایہ دارنہ نظام معیشت میں یہی قباحت ہے۔ کہ مال کمانے والا سمجھتا ہے کہ خرچ کرنا بھی بلا شرکت غیر اسی کا حق ہے لہٰذا وہ جس طرح خرچ کرے حالانکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کمائی کے لیے حلال ذرائع کی شرط عائد کی ہے اسی طرح خرچ کرنے کے لیے بھی جائز امور کا حکم دیا ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے آپ کو یہی کہا تھا (آیت) ” اصلوتک تامرک ان نترک ما یعبد ابائونا او ان نفعل فی اموالنا ما نشوا “ (ہود) کیا تمہاری نماز تمہیں یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے آبائو اجداد کرتے آئے ہیں یا یہ کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی سے تصرف نہ کریں مگر اللہ نے فرمایا کہ کامل الایمان وہ لوگ ہیں جو ہمارے عطا کردہ مالوں میں سے ہماری مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں ان اخراجات کی مدات عرض کردی گئی ہیں یہ پانچویں صفت ہوگئی۔ حقیقی مومن : فرمایا جن لوگوں میں یہ پانچ صفات پائی جائیں گی (آیت) ” اولئک ھم المومنون حقا “ یہ سچے مومن ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں کہ اور جب آیات الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان تازہ ہوجاتے ہیں اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پر توکل رکھتے ہیں معاملہ تجارت ہو یا زراعت صلح ہو یا جنگ معیشت ہو یا معاشرت ، وہ لوگ کام انجام دے کر نتیجہ ہمشہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں وہ لوگ نماز کو قائم کرتے ہیں اور اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی کامل الایمان لوگ ہیں اور ان صفات کی حامل جماعت سے ہی اسلامی نظام قائم کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ وہی دنیا میں امن وامان قائم کرسکتے ہیں اور انہیں کی سرکردگی میں انصاف کا بول بالا ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” انتم الاعلون ان کنتم مومنین “ (آل عمران) اگر تم پکے سچے مومن ہو گے تو دنیا میں بالا دستی تمہیں حاصل ہوگی اور جب تمہارے ایمان میں خرابی آ جائیگی ، تعلق باللہ خراب ہوجائیگا تو دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جائو گے۔ عیش پرست اور آرام طلب ہو جائو گے یا حریص اور غلام بن جائو گے نیکی رخصت ہو جائیگی اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی تمہارے شامل حال ہوجائے گی۔ مومنوں کے لیے انعامات : 1۔ درجات : آخر میں اللہ تعالیٰ نے کامل الایمان لوگوں کے لیے انعامات کا ذکر فرمایا ہے (آیت) ” لھم درجٰت عند ربھم “ ایسے لوگوں کے لیے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں۔ سورة احقاف میں (آیت) ” ولکل درجٰت مماعملوا “ ہر آدمی کے لیے اس کے اعمال کے مطابق درجے ہوں گے درجات میں تفاوت اعمال کا نتیجہ ہوگا ایمان جنت کے دروازے کی چابی ہے ایمان ہوگا تو جنت کا دروازہ کھل جائے گا مگر وہاں پر درجات عمل کے اعتبار سے حاصل ہوں گے ، حضور ﷺ کا اور شاد مبارک ہے جنت کے سو درجے ہیں اور ہر درجہ ایک دوسرے سے اتنا بلند ہے جتنا آسمان زمین سے غرضیکہ اہل ایمان کے لیے اپنی اپنی حیثیت ، خلوص اور کارگزاری کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہاں درجات ہوں گے مغفرت : فرمایا مومنین کے لیے دوسرا انعام ومغفرۃ اللہ تعالیٰ کی بخشش ہوگی دنیا میں جو کوتاہی ، لغزش یا خطا ہوگئی تھی اس کی معافی مل جائے گی یہ بھی بہت بڑا انعام ہے ، اسی لیے اللہ نے حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) کی زبان سے کہلوایا کہ مولا کریم ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا (آیت) ” وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخٰسرین “ (اعراف) اگر تو ہماری غلطیوں کو معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں فرمائے گا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے دنیا میں انسانوں سے بہت سی کوتاہیاں سرزد ہوں گی۔ مگر کامل الایمان لوگوں کو معافی مل جائیگی۔ 3۔ باعزت روزی فرمایا تیسرا انعام یہ ہے (آیت) ” ورزق کریم “ اہل ایمان کو باعزت روزی نصیب ہوگی۔ رزق کریم آخرت میں تو یقینا میسر ہوگا اور اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا کہ یہ کتنا بڑا انعام ہوگا مگر اس دنیا میں بھی اطاعت کے ساتھ رزق حلال نصیب ہوجائے تو اس سے بلند کوئی روزی نہیں جو کچھ معصیت کے ساتھ ملتا ہے وہ باعزت رزق نہیں بلکہ ذلت کی روزی ہے ظاہر ہے کہ جو شخص ایمان کو اختیار کریگا حلال ذرائع معاش اختیار کریگا اسے حلال روزی نصیب ہوگی اور وہ صحیح معنوں میں اس کا حقدار ہو گا یہاں پر عزت کا لفظ بتلا رہا ہے کہ گداگری چونکہ عزت کی روزی نہیں ہے لہٰذا یہ انسانیت کی تذلیل ہے الخبز بالکرامۃ یعنی عزت کی روزی ہر آدمی کو ملنی چاہیے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ بیشتر لوگ خود ذلیل روزی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ فلم انڈسٹری اور گانا بجانا وغیر عزت کی روزی نہیں بلکہ تعیش ہے عزت کی روزی وہ ہے جس میں انسان کے لیے تسکین اور بہتری ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان اس دنیا میں حلال ذرائع سے روزی اختیار کرے تا کہ اسے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی رزق کریم میسر آسکے۔ لفظ کریم میں یہ راز پوشیدہ ہے کہ وہ کونسا راستہ ہے جسے اختیار کر کے مسلمانوں کو باعزت روزی نصیب ہو سکتی ہے اور ان کی اقتصادی حالت بہتر ہو سکتی ہے ہم تو انگریز ، امریکہ روس اور دہریوں کے نظام معیشت پر چل رہے ہیں اللہ کا عطا کردہ وہ پروگرام ہماری سمجھ میں نہیں آتا جو رزق کریم کا ذریہ بن سکے اس ایک لفظ سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اسلامی نظام معیشت کے علاوہ تمام نظام باطل ہیں ، کسی میں حلال روزی نہیں ہے ہر صاحب ایمان اپنے ایمان کی وجہ سے صاحب عزت ہے مال و دولت عزت نہیں بلکہ نفاق ہے لوگ برے آدمی کے شر سے بچنے کے لیے اسے سلال کرتے ہیں ، حالانکہ حقیقی عزت کے قابل وہ شخص ہے جسے ایمان کی دولت حاصل ہے۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اس کے کامل الایمان بندوں کا تیسرا انعام یہ ہے کہ انہیں باعزت روزی نصیب ہوتی ہے۔ وہ دنیا میں بھی رزق حلال سے مستفید ہوتے ہیں اور آخرت میں تو بہت بڑے انعامات کے حقدار ہوں گے گداگری حرام ہے : امام شاوہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1۔ حجۃ اللہ البالغہ ص 42۔ ج 1 (فیاض) کہ گداگری چونکہ عزت کی روزی نہیں ہے ، اس لیے ہمارے دین میں یہ حرام ہے۔ یہ بھی چوری اور ڈاکے کی طرح مضر پیشہ ہے مگر ہماری حکومت اس پر قابو پانے سے قاصر ہے انسداد گداگری کے آرڈنینس تجویز ہوتے ہیں مگر نافذ العمل نہیں ہو پاتے نظام زکوٰۃ کے نفاذ سے گداگری کے انسداد کی امید پیدا ہوئی تھی مگر اس مذموم پیشے پر قابو نہیں پایا جاسکا یورپ کے اکثر ممالک میں بیکاری الاونس ملتا ہے جس کی وجہ سے وہاں گداگری نہیں ہے یہ کام تو مسلمانوں کا ورثہ تھا جسے دوسروں نے اپنا لیا ہے مگر ہم اس لعنت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے اس کا خاتمہ قرآنی پروگرام سے ہی ممکن ہے ورنہ ذلت سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔
Top