Mazhar-ul-Quran - Al-Kahf : 6
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اِنْفِرُوْا : تم نکلو خِفَافًا : ہلکا۔ ہلکے وَّثِقَالًا : اور (یا) بھاری وَّجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِكُمْ : اور اپنی جانوں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ ذٰلِكُمْ : یہ تمہارے لیے خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
(اے لوگو ! ) کوچ کرو ہلکے ہو یا بوجھل اور جہاد کرو اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں یہ بات بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم جانتے ہو
ربط آیات : جہاد کے سلسلہ میں غزوہ تبوک کا ذکر ہو رہا ہے۔ ابتدائی آیات میں جہاد کی ترغیب دی گئی تھی اور پھر جہاد میں شریک نہ ہونے والوں کو تنبیہ کی گئی ایمان والوں کو خبردار کیا گیا کہ اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد نہیں کریں گے یعنی آپ کے ساتھ جہاد میں شامل نہیں ہوں گے تو یہ نہ سمجھیں کہ جہاد محض انہیں پر موقوف ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تمہارے بغیر بھی اپنے نبی کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یاد دلایا کہ اس نے ہجرت کے مشکل ترین موقع پر بھی مدد فرمائی تھی۔ جب مشرکین نے حضور ﷺ کے قتل مصمم ارادہ کرلیا اور مسلح نوجوانوں نے رات کے وقت آپ کے مکان کا محاصرہ کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت کے ساتھ آپ کو وہاں سے نکال کر غار ثور میں پہنچا دیا تھا۔ جہاں آپ نے تین دن قیام فرمایا اور پھر آگے مدینہ طیبہ کے لیے روانہ ہو ئگے۔ اسی غار کے قیام کے متعلق گذشتہ درس میں یہ بیان گزر چکا ہے (آیت) ” ثانی اثنین اذھما فی الغار “ وہ دو میں سے دوسرے تھے ، کہ آپ نے اپنے ساتھی کو تسلی دی تھی کہ غم نہ کھائیں ، اللہ ہمارے ساتھ ہے حضور ﷺ نے اپنے یار حضرت صدیق اکبر ؓ سے یہ بھی فرمایا تھا ” انت صاحبی فی الغار وصاحبی فی الحوض “ اے ابوبکر صدیق ؓ ! جس طرح آپ غار ثور میں میرے رفیق ہیں اسی طرح حوض کوثر پر بھی میرے ساتھی ہوں گے ۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری شمولیت کے بغیر بھی اپنے نبی کی مدد کرسکتا ہے ، تا ہم جہاد میں تمہاری عدم شرکت خود تمہارے ہی لیے وبال جان بن جائیگی۔ فریضہ جہاد : اب آج کی آیات میں تمام اہل ایمان کو جہاد میں شمولیت کی دعوت دی جا رہی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” انفروا خفافا وثقالا “ کوچ کرو ہلکے ہو یا بوجھل ، ہر حالت میں نکل کھڑے ہو (آیت) ” وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ “ اور مال وجان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ فرمایا (آیت) ” ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون “ یہ بات تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو یونی کچھ سمجھ رکھتے ہو۔ جہاد ایک عبادت ہے اور یہ دوصورتوں میں ادا ہوتی ہے۔ جہاد کبھی فرض عین ہوتا ہے اور اس میں مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے ، تندرست بیمار سب کے سب ماخوذ ہوتے ہیں مثلا غزوہ خندق کے موقع پر دشمن نے مدینہ پر زبردست چڑھائی کردی تھی ، ایسے حالات میں ہر کس وناکس پر دفاع فرض عین ہوتا ہے اور اس سے کوئی فرد واحد بھی مستثنیٰ نہیں ہوتا ایسے موقع پر جو کوئی سستی دکھاتا ہے وہ سخت مجرم ہوتا ہے اور اس کا وبال پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ البتہ عام حالات میں جہاد کا فریضہ بطور فرض کفایہ ادا کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا فرض ہوتا ہے کہ قوم کے بعض لوگ ادا کرلیں تو سب کی طرف سے ادا ہوجاتا ہے اور اگر کوئی بھی یہ فریضہ ادا نہ کرے تو سب کے سب گنہگار ہوتے ہیں۔ مثلا مردو کا کفن دفن ، جنازہ ، حدود اللہ کا قیام ، دین کی تعلیم وغیرہ فرائض کفایہ ہیں اور بعض کی ادائیگی سے یہ فرائض سب کے طرف سے ادا سمجھا جائے گا۔ امام ابوبکر جصاص (رح) اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ آپ دس دفعہ قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ اے لوگو ! سن لو ، جہاد فرض ہے جب ان سے مدد طلب کی جائے تو مدد کریں اور جب انہیں ساتھ چلنے کو کہا جائے تو ان کا جانا ضروری ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شخص کی جہاد میں ضرورت نہیں ہے تو بیشک گھر میں بیٹھا رہے اور اگر ضرورت ہے تو پھر اس کو لازما جانا ہوگا ، آگے اسی سورة میں آرہا ہے کہ جو آدمی بیمار ہے ، معذور ہے تو وہ مستثنیٰ ہوگا مگر اس شرط کے ساتھ (آیت) ” اذا نصحوا للہ ورسولہ “ جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حق میں خیر خواہی کرنے والے ہوں اگر جہاد میں بالفعل شریک نہیں ہو سکتا تو زبان سے ہی خیر خواہی کی بات کردے ، اہل ایمان کے حق میں پراپیگنڈا ہی کر دے جس سے مسلمانون کی حوصلہ افزائی اور دشمنوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ شرائط بیعت : جیسا کہ پہلے عرض کیا اس مقام پر غزوہ تبوک کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس موقع پر نضیر عام کا حکم ہوا اور حضور ﷺ نے تمام مسلمانوں کو جہاد میں شرکت کا حکم دیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی بشیر ابن الخصاصیہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ، حضور ! آپ کس چیز پر بیعت لیتے ہیں فرمایا سب سے پہلی بات یہ ہے ” ان تشھد ان الا الہ الا اللہ وانی عبدہ ورسولہ “ کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس کا بندہ اور رسول ہوں ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ تمہیں دن میں پانچ نمازیں ادا کرنا ہوں گی ، رمضان کے روزے رکھنا ہوں گے سال ہے مال ہے تو ہر سال زکوٰۃ دینا ہوگی اور اگر استطاعت ہے تو بیت اللہ کا حج کرنا ہوگا۔ نیز اپنے مال وجان کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہوگا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، میں ان چھ باتوں پر بیعت لیتا ہوں۔ اس پر بشیر کہنے لگا ، حضور عقیدہ تو درست رکھوں گا ، نماز اور روزے بھی ادا کروں گا۔ مگر میرے پاس وافر مال نہیں ہے اس لیے نہ تو میں زکوٰۃ ادا کرسکوں گا اور نہ حج کے لیے جا سکوں گا۔ اس کے علاوہ میں کمزور دل آدمی ہوں لہٰذا جہاد میں بھی شریک نہیں ہوگا اس پر حضور ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک بیعت سے پیچھے ہٹا لیا اور فرمایا اے بشیر ! ” لا جھاد ولا صدقۃ فیما تدخل الجنۃ “ اگر تم جہاد میں شامل نہیں ہو گے اور صدقہ نہیں دو گے تو جنت میں کیسے داخل ہو گے یہ سن کر بشیر نے تمام ارکان پورا کرنے کا وعدہ کر کے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ ارکان اسلام اور جہاد : فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ عقیدے کی اصلاح کے بعد پانچ عبادات ہیں۔ ان میں سے نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ فرض عین ہیں اور پانچویں عبادت جہاد ہے جو کبھی فرض عین ہوتی ہے اور کبھی فرض کفایہ فرض عین کا حکم یہ ہے کہ اگر استطاعت موجود ہو تو وہ ہر حالت میں فرض ہوتی ہے ۔ مثلا نماز اور روزہ ہر عاقل ، بالغ اور تندرست آدمی پر فرض ہے۔ اگر کسی وقت کوئی عذر ہے تو یہ عذر رفع ہونے پر نماز یا روزہ کی قضا دینا ہوگی۔ اسی طرح زکوٰۃ اور حج ہے اگر مال موجود ہے اور نصاب کو پہنچ گیا ہے تو سال میں ایک دفعہ زکوٰۃ ادا کرنا لازمی ہوگا یہ کسی صورت میں بھی ٹل نہیں سکتی۔ اگر سفر خرچ موجود ہے اور آدمی سفر کے قابل ہے تو اسے حج بھی لازما کرنا پڑیگا۔ حضور نے فرمایا جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا۔ وہ ہماری طرف سے یہودی ہو کر مرے یا نصرانی۔ ہمیں کچھ سروکار نہیں۔ حج فرض عین ہے۔ یہ بھی کسی عذر کی وجہ سے مئوخر تو کیا جاسکتا ہے مگر ساقط نہیں ہو سکتا۔ باقی رہا جہاد ، تو جیسا کہ پہلے عرض کیا اس کی دو حالتیں ہیں۔ ایک فرض عین ہے جب کہ نفیر عام ہو تو جہاد کسی چھوٹے ، بڑے ، مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے کو معاف نہیں بلکہ سب کو حصہ لینا پڑے گا۔ البتہ اگر عام لام بندی کی ضرورت نہیں بلکہ مجاہدین دفاع کے لیے کافی تعداد میں موجود ہیں ، تو یہ فرض کفایہ ہوگا اور دفاعی یا اقدامی جنگ لڑنے والے سپاہی ساری قوم کی کفایت کریں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ارکانِ اسلام والی حدیث میں ” بنی الاسلام علی خمس “ کا ذکر ہے یعنی اسلام کے ارکان کی تعداد پانچ ہے۔ اس میں عقیدہ توحید و رسالت کے بعد چار عبادات یعنی نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ تاہم دوسری حدیث میں جہاد کو بھی عبادات میں شامل کیا گیا اور یہ پانچویں فرض عبادت ہے۔ جہاد بطور عبادت : جب سے جہاد کی ذمہ داری عام مسلمانوں کی بجائے صرف فوج پر ڈالی گئی ہے ، اس وقت سے جذبہ جہاد مفقود ہو کر رہ گیا ہے۔ فوج کے افسر اور سپاہی تنخواہ اور مراعات کے بدلے میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں وہ جہاد کو ایک عبادت سمجھ کر نہیں کرتے۔ جہاد کا تعلق ہر مومن کے ایمان کے ساتھ ہے جو اسے نماز اور روزہ کی طرح فرض سمجھ کر بجا لانے کا پانبد ہے نہ کہ محض تنخواہ وصول کرنے کے لیے۔ اگر کوئی مسلمان نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ جیسی عبادات کی ادائیگی کے لیے کوئی معاوضہ وصول نہیں کرتا ، تو پانچویں عبادت جہاد کے لیے کیسے تنخواہ وصول کرسکتا ہے۔ بوقت ضرورت ہر تندرست مومن جہاد میں شریک ہونے کا پابند ہے تا ہم اس کی یہ شرکت اس کی اہلیت کے مطابق ہوگی۔ اگر وہ محاذ پر جا کر لڑ سکتا ہے تو وہاں جائے گا اور ا گر اس قابل نہیں ہے تو مجاہدین کو اسلحہ پہنچانے کا کام کریگا۔ ان کے لیے خوراک کا انتظام کریگا۔ زخمیوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کا کام کریگایا اندرون ملک شہری دفاع کے امور انجام دیگا۔ بہرحال اپنی حیثیت کے مطابق کوئی بھی مسلمان جہاد جیسی عبادات سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ موجودہ دور میں محاذ جنگ پر لڑنے والی فوج کے لیے خصوصی تربیت کی ضرورت ہے جو ملک کے ہر باشندے کو تو نہیں دی جاسکتی۔ تا ہم ضرورت کے مطابق شہری دفاع کی تربیت ہر شخص کے لیے لازمی ہونا چاہیے۔ اور دورانِ جنگ جو شخص جہاں بھی کوئی فرض ادا کرسکتا ہے ، اسے شامل ہونا چاہیے کیونکہ اس وقت جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اور ہر شخص کو بقدر استطاعت حصہ لینا اپنے فرض کی ادائیگی کرنا ہے۔ اگر وہ کوتاہی کرے گا تو عند اللہ ماخوذ ہوگا۔ اسی لیے فرمایا کہ جہاد کے لیے کوچ کرو ، تم ہلکے ہو یا بوجھل مطلب یہ ہے کہ جو بھی ڈیوٹی انجام دے سکتے ہو۔ اس کے لیے نکل کھڑے ہو ۔ ہر حالت میں جہاد : بعض فرماتے ہیں کہ ہلکے اور بوجھل کا مطلب یہ ہے۔ پیدل یا سوار فقیر یا غنی ، جوان یا بوڑھے ، غرضیکہ نفیر عام کے موقع پر کسی کا کوئی عذر مسموع نہیں ہوگا ، ہر حالت میں جہاد کے لیے نکلنا پڑے گا۔ شاہ ولی اللہ (رح) خفاف اور ثقال کے متعلق فرماتے ہیں کہ تمہارے پاس سامان تھوڑا ہے یا زیادہ ، تم بہرحال میدانِ جہاد میں کود پڑو۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کے پاس کتنا سامان تھا ؟ جب معمولی اسلحہ اور معمولی سامان کے ساتھ اللہ کے راستے میں نکل آئے تو اللہ نے فتح سے ہمکنار کیا۔ فرمایا مال اور جان دونوں چیزوں کے ذریعے جہاد میں حصہ لو۔ جس کے پاس دونوں چیزیں ہیں وہ دونوں بروئے کار لائے۔ جو خود شریک نہیں ہو سکتا ، معذور ہے ، وہ مال دے اور جس کے پاس مال نہیں وہ اپنی جان پیش کرے اور اگر دونوں چیزوں سے معذور ہے۔ تو نصیحت کی بات ہی کر دے۔ مجاہدین کی حوصلہ افزائی اور دشمن کی حوصلہ شکنی کی بات کر دے تو اس کے لیے جہاد ہے فرمایا ہر صورت میں جہاد میں شامل ہونا ہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ کیونکہ اگر اس میں سستی دکھائو گے تو پھر ذلت کا منہ دیکھنا پڑیگا۔ پہلے گزر چکا ہے کہ اگر ضعف دکھائو گے تو پھر اللہ کے حکم کے منتظر رہو۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے کہ اگر جہاد سے منہ موڑو گے کمزوری کا اظہار کرو گے ” یسلط اللہ علیکم الذلۃ “ (1۔ جمع الوسائل شرح الشمائل ، ص 222 ج 2) (فیضاض) تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت کو مسلط کر دیگا۔ پھر تمہارا دین بھی ذلیل ہوگا ، غلام بن جائو گے جو کسی قوم کے لیے بدترین سزا ہے۔ منافقین کی حیلہ سازی : اب آگے اللہ تعالیٰ نے منافقین کا حال بیان فرمایا ہے اور یہ آگے دور تک چلا جائے گا۔ جیسا کہ اگلے رکوع میں آرہا ہے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر بعض منافقین حیلے بہانے سے پیچھے رہ گئے اور پھر حضور ﷺ کی واپسی پر عذر پیش کیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں ایسے منافقین کی قلعی کھول کر ان کو رسوا کیا ہے ، ان کے جھوٹ کو ظاہر کیا ہے اور آئندہ کے لیے خبردار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ چال بالکل پسند نہیں۔ غزوہ تبوک کے لیے حضور ﷺ نے روانگی سے کئی ماہ پیشتر بیاری کا حکم دے دیا تھا۔ کیونکہ مدینہ سے بارہ منزل دور تقریبا ایک ہزار میل کا سفر طے کرنا تھا۔ مگر منافقین یون کہنے لگے (آیت) ” لو کان عرضا قریبا “ اگر سامان ہوتا قریب کا یعنی اس سفر میں وافر مال غنیمت ملنے کی توقع ہوتی ” وسفرا قاصدا “ اور سفر درمیانہ یعنی ہلکا ہوتا ” لا تبعوک “ تو ضرور آپ کے پیچھے جاتے یعنی شریک جہاد ہوتے۔ جیسا کہ خیبر کے موقع پر منافق کہتے تھے۔ (آیت) ” ذرونا نتبعکم “ الفتح) ہمیں بھی اپنے ساتھ جانے دیں۔ مگر اللہ نے فرمایا (آیت) ” قل لن تتبعوا ( الفتح) تم بالک ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ منافقین جانتے تھے کہ خیبر میں بہت سے مال غنیمت ملے گا اور سفر بھی قریب تھا ، اس لیے اس معرکہ میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ مگر نبی (علیہ السلام) نے اعلان فرما دیا کہ خیبر کے لیے وہ شخص جائیگا جو حدیبیہ میں شریک ہوا تھا ، لہٰذا منافقین وہاں نہ جاسکے۔ اور ادھر تبوک کے سفر کے لیے حالات ناساز گار اور سفر دراز تھا ، ادھرجانے کے لیے بہانے بناتے تھے۔ فتح تبوک : فرمایا ، منافقین کہتے ہیں کہ اگر سفر ہلکا ہوتا اور سامان قریب ہوتا تو ہم بھی غزوہ تبوک میں شریک ہوجاتے ، مگر اللہ نے فرمایا (آیت) ” ولکن بعدت علیھم السقۃ “ کہ ان پر مسافت بعید ہوگئی ہے۔ ہزار میل کا فاصلہ اور گرمی کا موسم تھا ، قحط سالی کا زمانہ تھا ، راشن ، سامان سفر اور سواریاں بھی کم تھیں ، پانی کی قلت تھی ، راستے میں بیحد تکا لیف اٹھانا پڑیں۔ لشکر اسلام تبوک میں ایک ماہ تک قیام پذیر رہا مگر دشمن کو سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر دہشت طاری کردی اور وہ پسپائی پر مجبور ہوگئے۔ علاقے بھر کی طاقتوں نے وفادری قبول کرلی۔ آپ نے ان سے جزیہ کا معاہدہ کیا ، نیز انہوں نے یہ بھی عہد کیا کہ آئندہ کے لیے وہ مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور رومیوں کی طرفداری نہیں کریں گے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فتح عطا فرمائی اور وہ کامیاب وکامران واپس لوٹے ، یہ اتنا کٹھن سفر تھا کہ آج بھی جب واقعات پڑھتے ہیں تو ہل ایمان کی جانفشانی اور عظیم قربانی پر حیرت ہوتی ہے۔ منافقین کی اظہار معذوری : فرمایا منافقین کا حال یہ ہے (آیت) ” وسیحلفون باللہ “ یہ اللہ کے نام کی قسمیں اٹھاتے ہیں (آیت) ” لواستطعنا لخرجنا معکم “ اگر ہم طاقت ، رکھتے تو ضرور تمہارے ساتھ نکلتے۔ ہم کوئی حیلہ بہانہ نہ کرتے کہ ہمیں فلاں مجبوری ہے فرمایا (آیت) ” یھلکون انفسھم “ جھوٹے بہانے بنا کر خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ ایسے بہانے اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں چل سکتے صحیح حیلہ تو مسموع ہو سکتا ہے مگر جھوٹے بہانے تراش کر یہ خود ہی اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کسی طرح لوگوں کے سامنے ذلیل ہونے سے بچ جائیں مگر آخرت کی رسوائی اور ہلاکت کی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ فرمایا (آیت) ” واللہ یعلم انھم لکذبون “ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ جہاد سے جی چراتے ہیں اور اب جھوٹے بہانے بنا رہے ہیں۔ منافقین کی مذمت کا سلسلہ آگے دور تک جار ہا یہ۔ اللہ نے ان کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔
Top