Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mazhar-ul-Quran - Al-Kahf : 6
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اِنْفِرُوْا
: تم نکلو
خِفَافًا
: ہلکا۔ ہلکے
وَّثِقَالًا
: اور (یا) بھاری
وَّجَاهِدُوْا
: اور جہاد کرو
بِاَمْوَالِكُمْ
: اپنے مالوں سے
وَاَنْفُسِكُمْ
: اور اپنی جانوں
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
ذٰلِكُمْ
: یہ تمہارے لیے
خَيْرٌ
: بہتر
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
تَعْلَمُوْنَ
: جانتے ہو
(اے لوگو ! ) کوچ کرو ہلکے ہو یا بوجھل اور جہاد کرو اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں یہ بات بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم جانتے ہو
ربط آیات : جہاد کے سلسلہ میں غزوہ تبوک کا ذکر ہو رہا ہے۔ ابتدائی آیات میں جہاد کی ترغیب دی گئی تھی اور پھر جہاد میں شریک نہ ہونے والوں کو تنبیہ کی گئی ایمان والوں کو خبردار کیا گیا کہ اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد نہیں کریں گے یعنی آپ کے ساتھ جہاد میں شامل نہیں ہوں گے تو یہ نہ سمجھیں کہ جہاد محض انہیں پر موقوف ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تمہارے بغیر بھی اپنے نبی کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یاد دلایا کہ اس نے ہجرت کے مشکل ترین موقع پر بھی مدد فرمائی تھی۔ جب مشرکین نے حضور ﷺ کے قتل مصمم ارادہ کرلیا اور مسلح نوجوانوں نے رات کے وقت آپ کے مکان کا محاصرہ کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت کے ساتھ آپ کو وہاں سے نکال کر غار ثور میں پہنچا دیا تھا۔ جہاں آپ نے تین دن قیام فرمایا اور پھر آگے مدینہ طیبہ کے لیے روانہ ہو ئگے۔ اسی غار کے قیام کے متعلق گذشتہ درس میں یہ بیان گزر چکا ہے (آیت) ” ثانی اثنین اذھما فی الغار “ وہ دو میں سے دوسرے تھے ، کہ آپ نے اپنے ساتھی کو تسلی دی تھی کہ غم نہ کھائیں ، اللہ ہمارے ساتھ ہے حضور ﷺ نے اپنے یار حضرت صدیق اکبر ؓ سے یہ بھی فرمایا تھا ” انت صاحبی فی الغار وصاحبی فی الحوض “ اے ابوبکر صدیق ؓ ! جس طرح آپ غار ثور میں میرے رفیق ہیں اسی طرح حوض کوثر پر بھی میرے ساتھی ہوں گے ۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری شمولیت کے بغیر بھی اپنے نبی کی مدد کرسکتا ہے ، تا ہم جہاد میں تمہاری عدم شرکت خود تمہارے ہی لیے وبال جان بن جائیگی۔ فریضہ جہاد : اب آج کی آیات میں تمام اہل ایمان کو جہاد میں شمولیت کی دعوت دی جا رہی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” انفروا خفافا وثقالا “ کوچ کرو ہلکے ہو یا بوجھل ، ہر حالت میں نکل کھڑے ہو (آیت) ” وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ “ اور مال وجان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ فرمایا (آیت) ” ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون “ یہ بات تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو یونی کچھ سمجھ رکھتے ہو۔ جہاد ایک عبادت ہے اور یہ دوصورتوں میں ادا ہوتی ہے۔ جہاد کبھی فرض عین ہوتا ہے اور اس میں مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے ، تندرست بیمار سب کے سب ماخوذ ہوتے ہیں مثلا غزوہ خندق کے موقع پر دشمن نے مدینہ پر زبردست چڑھائی کردی تھی ، ایسے حالات میں ہر کس وناکس پر دفاع فرض عین ہوتا ہے اور اس سے کوئی فرد واحد بھی مستثنیٰ نہیں ہوتا ایسے موقع پر جو کوئی سستی دکھاتا ہے وہ سخت مجرم ہوتا ہے اور اس کا وبال پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ البتہ عام حالات میں جہاد کا فریضہ بطور فرض کفایہ ادا کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا فرض ہوتا ہے کہ قوم کے بعض لوگ ادا کرلیں تو سب کی طرف سے ادا ہوجاتا ہے اور اگر کوئی بھی یہ فریضہ ادا نہ کرے تو سب کے سب گنہگار ہوتے ہیں۔ مثلا مردو کا کفن دفن ، جنازہ ، حدود اللہ کا قیام ، دین کی تعلیم وغیرہ فرائض کفایہ ہیں اور بعض کی ادائیگی سے یہ فرائض سب کے طرف سے ادا سمجھا جائے گا۔ امام ابوبکر جصاص (رح) اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ آپ دس دفعہ قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ اے لوگو ! سن لو ، جہاد فرض ہے جب ان سے مدد طلب کی جائے تو مدد کریں اور جب انہیں ساتھ چلنے کو کہا جائے تو ان کا جانا ضروری ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شخص کی جہاد میں ضرورت نہیں ہے تو بیشک گھر میں بیٹھا رہے اور اگر ضرورت ہے تو پھر اس کو لازما جانا ہوگا ، آگے اسی سورة میں آرہا ہے کہ جو آدمی بیمار ہے ، معذور ہے تو وہ مستثنیٰ ہوگا مگر اس شرط کے ساتھ (آیت) ” اذا نصحوا للہ ورسولہ “ جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حق میں خیر خواہی کرنے والے ہوں اگر جہاد میں بالفعل شریک نہیں ہو سکتا تو زبان سے ہی خیر خواہی کی بات کردے ، اہل ایمان کے حق میں پراپیگنڈا ہی کر دے جس سے مسلمانون کی حوصلہ افزائی اور دشمنوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ شرائط بیعت : جیسا کہ پہلے عرض کیا اس مقام پر غزوہ تبوک کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس موقع پر نضیر عام کا حکم ہوا اور حضور ﷺ نے تمام مسلمانوں کو جہاد میں شرکت کا حکم دیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی بشیر ابن الخصاصیہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ، حضور ! آپ کس چیز پر بیعت لیتے ہیں فرمایا سب سے پہلی بات یہ ہے ” ان تشھد ان الا الہ الا اللہ وانی عبدہ ورسولہ “ کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس کا بندہ اور رسول ہوں ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ تمہیں دن میں پانچ نمازیں ادا کرنا ہوں گی ، رمضان کے روزے رکھنا ہوں گے سال ہے مال ہے تو ہر سال زکوٰۃ دینا ہوگی اور اگر استطاعت ہے تو بیت اللہ کا حج کرنا ہوگا۔ نیز اپنے مال وجان کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہوگا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، میں ان چھ باتوں پر بیعت لیتا ہوں۔ اس پر بشیر کہنے لگا ، حضور عقیدہ تو درست رکھوں گا ، نماز اور روزے بھی ادا کروں گا۔ مگر میرے پاس وافر مال نہیں ہے اس لیے نہ تو میں زکوٰۃ ادا کرسکوں گا اور نہ حج کے لیے جا سکوں گا۔ اس کے علاوہ میں کمزور دل آدمی ہوں لہٰذا جہاد میں بھی شریک نہیں ہوگا اس پر حضور ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک بیعت سے پیچھے ہٹا لیا اور فرمایا اے بشیر ! ” لا جھاد ولا صدقۃ فیما تدخل الجنۃ “ اگر تم جہاد میں شامل نہیں ہو گے اور صدقہ نہیں دو گے تو جنت میں کیسے داخل ہو گے یہ سن کر بشیر نے تمام ارکان پورا کرنے کا وعدہ کر کے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ ارکان اسلام اور جہاد : فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ عقیدے کی اصلاح کے بعد پانچ عبادات ہیں۔ ان میں سے نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ فرض عین ہیں اور پانچویں عبادت جہاد ہے جو کبھی فرض عین ہوتی ہے اور کبھی فرض کفایہ فرض عین کا حکم یہ ہے کہ اگر استطاعت موجود ہو تو وہ ہر حالت میں فرض ہوتی ہے ۔ مثلا نماز اور روزہ ہر عاقل ، بالغ اور تندرست آدمی پر فرض ہے۔ اگر کسی وقت کوئی عذر ہے تو یہ عذر رفع ہونے پر نماز یا روزہ کی قضا دینا ہوگی۔ اسی طرح زکوٰۃ اور حج ہے اگر مال موجود ہے اور نصاب کو پہنچ گیا ہے تو سال میں ایک دفعہ زکوٰۃ ادا کرنا لازمی ہوگا یہ کسی صورت میں بھی ٹل نہیں سکتی۔ اگر سفر خرچ موجود ہے اور آدمی سفر کے قابل ہے تو اسے حج بھی لازما کرنا پڑیگا۔ حضور نے فرمایا جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا۔ وہ ہماری طرف سے یہودی ہو کر مرے یا نصرانی۔ ہمیں کچھ سروکار نہیں۔ حج فرض عین ہے۔ یہ بھی کسی عذر کی وجہ سے مئوخر تو کیا جاسکتا ہے مگر ساقط نہیں ہو سکتا۔ باقی رہا جہاد ، تو جیسا کہ پہلے عرض کیا اس کی دو حالتیں ہیں۔ ایک فرض عین ہے جب کہ نفیر عام ہو تو جہاد کسی چھوٹے ، بڑے ، مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے کو معاف نہیں بلکہ سب کو حصہ لینا پڑے گا۔ البتہ اگر عام لام بندی کی ضرورت نہیں بلکہ مجاہدین دفاع کے لیے کافی تعداد میں موجود ہیں ، تو یہ فرض کفایہ ہوگا اور دفاعی یا اقدامی جنگ لڑنے والے سپاہی ساری قوم کی کفایت کریں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ارکانِ اسلام والی حدیث میں ” بنی الاسلام علی خمس “ کا ذکر ہے یعنی اسلام کے ارکان کی تعداد پانچ ہے۔ اس میں عقیدہ توحید و رسالت کے بعد چار عبادات یعنی نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ تاہم دوسری حدیث میں جہاد کو بھی عبادات میں شامل کیا گیا اور یہ پانچویں فرض عبادت ہے۔ جہاد بطور عبادت : جب سے جہاد کی ذمہ داری عام مسلمانوں کی بجائے صرف فوج پر ڈالی گئی ہے ، اس وقت سے جذبہ جہاد مفقود ہو کر رہ گیا ہے۔ فوج کے افسر اور سپاہی تنخواہ اور مراعات کے بدلے میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں وہ جہاد کو ایک عبادت سمجھ کر نہیں کرتے۔ جہاد کا تعلق ہر مومن کے ایمان کے ساتھ ہے جو اسے نماز اور روزہ کی طرح فرض سمجھ کر بجا لانے کا پانبد ہے نہ کہ محض تنخواہ وصول کرنے کے لیے۔ اگر کوئی مسلمان نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ جیسی عبادات کی ادائیگی کے لیے کوئی معاوضہ وصول نہیں کرتا ، تو پانچویں عبادت جہاد کے لیے کیسے تنخواہ وصول کرسکتا ہے۔ بوقت ضرورت ہر تندرست مومن جہاد میں شریک ہونے کا پابند ہے تا ہم اس کی یہ شرکت اس کی اہلیت کے مطابق ہوگی۔ اگر وہ محاذ پر جا کر لڑ سکتا ہے تو وہاں جائے گا اور ا گر اس قابل نہیں ہے تو مجاہدین کو اسلحہ پہنچانے کا کام کریگا۔ ان کے لیے خوراک کا انتظام کریگا۔ زخمیوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کا کام کریگایا اندرون ملک شہری دفاع کے امور انجام دیگا۔ بہرحال اپنی حیثیت کے مطابق کوئی بھی مسلمان جہاد جیسی عبادات سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ موجودہ دور میں محاذ جنگ پر لڑنے والی فوج کے لیے خصوصی تربیت کی ضرورت ہے جو ملک کے ہر باشندے کو تو نہیں دی جاسکتی۔ تا ہم ضرورت کے مطابق شہری دفاع کی تربیت ہر شخص کے لیے لازمی ہونا چاہیے۔ اور دورانِ جنگ جو شخص جہاں بھی کوئی فرض ادا کرسکتا ہے ، اسے شامل ہونا چاہیے کیونکہ اس وقت جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اور ہر شخص کو بقدر استطاعت حصہ لینا اپنے فرض کی ادائیگی کرنا ہے۔ اگر وہ کوتاہی کرے گا تو عند اللہ ماخوذ ہوگا۔ اسی لیے فرمایا کہ جہاد کے لیے کوچ کرو ، تم ہلکے ہو یا بوجھل مطلب یہ ہے کہ جو بھی ڈیوٹی انجام دے سکتے ہو۔ اس کے لیے نکل کھڑے ہو ۔ ہر حالت میں جہاد : بعض فرماتے ہیں کہ ہلکے اور بوجھل کا مطلب یہ ہے۔ پیدل یا سوار فقیر یا غنی ، جوان یا بوڑھے ، غرضیکہ نفیر عام کے موقع پر کسی کا کوئی عذر مسموع نہیں ہوگا ، ہر حالت میں جہاد کے لیے نکلنا پڑے گا۔ شاہ ولی اللہ (رح) خفاف اور ثقال کے متعلق فرماتے ہیں کہ تمہارے پاس سامان تھوڑا ہے یا زیادہ ، تم بہرحال میدانِ جہاد میں کود پڑو۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کے پاس کتنا سامان تھا ؟ جب معمولی اسلحہ اور معمولی سامان کے ساتھ اللہ کے راستے میں نکل آئے تو اللہ نے فتح سے ہمکنار کیا۔ فرمایا مال اور جان دونوں چیزوں کے ذریعے جہاد میں حصہ لو۔ جس کے پاس دونوں چیزیں ہیں وہ دونوں بروئے کار لائے۔ جو خود شریک نہیں ہو سکتا ، معذور ہے ، وہ مال دے اور جس کے پاس مال نہیں وہ اپنی جان پیش کرے اور اگر دونوں چیزوں سے معذور ہے۔ تو نصیحت کی بات ہی کر دے۔ مجاہدین کی حوصلہ افزائی اور دشمن کی حوصلہ شکنی کی بات کر دے تو اس کے لیے جہاد ہے فرمایا ہر صورت میں جہاد میں شامل ہونا ہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ کیونکہ اگر اس میں سستی دکھائو گے تو پھر ذلت کا منہ دیکھنا پڑیگا۔ پہلے گزر چکا ہے کہ اگر ضعف دکھائو گے تو پھر اللہ کے حکم کے منتظر رہو۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے کہ اگر جہاد سے منہ موڑو گے کمزوری کا اظہار کرو گے ” یسلط اللہ علیکم الذلۃ “ (1۔ جمع الوسائل شرح الشمائل ، ص 222 ج 2) (فیضاض) تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت کو مسلط کر دیگا۔ پھر تمہارا دین بھی ذلیل ہوگا ، غلام بن جائو گے جو کسی قوم کے لیے بدترین سزا ہے۔ منافقین کی حیلہ سازی : اب آگے اللہ تعالیٰ نے منافقین کا حال بیان فرمایا ہے اور یہ آگے دور تک چلا جائے گا۔ جیسا کہ اگلے رکوع میں آرہا ہے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر بعض منافقین حیلے بہانے سے پیچھے رہ گئے اور پھر حضور ﷺ کی واپسی پر عذر پیش کیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں ایسے منافقین کی قلعی کھول کر ان کو رسوا کیا ہے ، ان کے جھوٹ کو ظاہر کیا ہے اور آئندہ کے لیے خبردار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ چال بالکل پسند نہیں۔ غزوہ تبوک کے لیے حضور ﷺ نے روانگی سے کئی ماہ پیشتر بیاری کا حکم دے دیا تھا۔ کیونکہ مدینہ سے بارہ منزل دور تقریبا ایک ہزار میل کا سفر طے کرنا تھا۔ مگر منافقین یون کہنے لگے (آیت) ” لو کان عرضا قریبا “ اگر سامان ہوتا قریب کا یعنی اس سفر میں وافر مال غنیمت ملنے کی توقع ہوتی ” وسفرا قاصدا “ اور سفر درمیانہ یعنی ہلکا ہوتا ” لا تبعوک “ تو ضرور آپ کے پیچھے جاتے یعنی شریک جہاد ہوتے۔ جیسا کہ خیبر کے موقع پر منافق کہتے تھے۔ (آیت) ” ذرونا نتبعکم “ الفتح) ہمیں بھی اپنے ساتھ جانے دیں۔ مگر اللہ نے فرمایا (آیت) ” قل لن تتبعوا ( الفتح) تم بالک ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ منافقین جانتے تھے کہ خیبر میں بہت سے مال غنیمت ملے گا اور سفر بھی قریب تھا ، اس لیے اس معرکہ میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ مگر نبی (علیہ السلام) نے اعلان فرما دیا کہ خیبر کے لیے وہ شخص جائیگا جو حدیبیہ میں شریک ہوا تھا ، لہٰذا منافقین وہاں نہ جاسکے۔ اور ادھر تبوک کے سفر کے لیے حالات ناساز گار اور سفر دراز تھا ، ادھرجانے کے لیے بہانے بناتے تھے۔ فتح تبوک : فرمایا ، منافقین کہتے ہیں کہ اگر سفر ہلکا ہوتا اور سامان قریب ہوتا تو ہم بھی غزوہ تبوک میں شریک ہوجاتے ، مگر اللہ نے فرمایا (آیت) ” ولکن بعدت علیھم السقۃ “ کہ ان پر مسافت بعید ہوگئی ہے۔ ہزار میل کا فاصلہ اور گرمی کا موسم تھا ، قحط سالی کا زمانہ تھا ، راشن ، سامان سفر اور سواریاں بھی کم تھیں ، پانی کی قلت تھی ، راستے میں بیحد تکا لیف اٹھانا پڑیں۔ لشکر اسلام تبوک میں ایک ماہ تک قیام پذیر رہا مگر دشمن کو سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر دہشت طاری کردی اور وہ پسپائی پر مجبور ہوگئے۔ علاقے بھر کی طاقتوں نے وفادری قبول کرلی۔ آپ نے ان سے جزیہ کا معاہدہ کیا ، نیز انہوں نے یہ بھی عہد کیا کہ آئندہ کے لیے وہ مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور رومیوں کی طرفداری نہیں کریں گے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فتح عطا فرمائی اور وہ کامیاب وکامران واپس لوٹے ، یہ اتنا کٹھن سفر تھا کہ آج بھی جب واقعات پڑھتے ہیں تو ہل ایمان کی جانفشانی اور عظیم قربانی پر حیرت ہوتی ہے۔ منافقین کی اظہار معذوری : فرمایا منافقین کا حال یہ ہے (آیت) ” وسیحلفون باللہ “ یہ اللہ کے نام کی قسمیں اٹھاتے ہیں (آیت) ” لواستطعنا لخرجنا معکم “ اگر ہم طاقت ، رکھتے تو ضرور تمہارے ساتھ نکلتے۔ ہم کوئی حیلہ بہانہ نہ کرتے کہ ہمیں فلاں مجبوری ہے فرمایا (آیت) ” یھلکون انفسھم “ جھوٹے بہانے بنا کر خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ ایسے بہانے اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں چل سکتے صحیح حیلہ تو مسموع ہو سکتا ہے مگر جھوٹے بہانے تراش کر یہ خود ہی اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کسی طرح لوگوں کے سامنے ذلیل ہونے سے بچ جائیں مگر آخرت کی رسوائی اور ہلاکت کی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ فرمایا (آیت) ” واللہ یعلم انھم لکذبون “ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ جہاد سے جی چراتے ہیں اور اب جھوٹے بہانے بنا رہے ہیں۔ منافقین کی مذمت کا سلسلہ آگے دور تک جار ہا یہ۔ اللہ نے ان کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔
Top