Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 71
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَ : اور الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مرد (جمع) وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتیں (جمع) بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلِيَآءُ : رفیق (جمع) بَعْضٍ : بعض يَاْمُرُوْنَ : وہ حکم دیتے ہیں بِالْمَعْرُوْفِ : بھلائی کا وَيَنْهَوْنَ : اور روکتے ہیں عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَيُقِيْمُوْنَ : اور وہ قائم کرتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُؤْتُوْنَ : اور ادا کرتے ہیں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَيُطِيْعُوْنَ : اور اطاعت کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ سَيَرْحَمُهُمُ : کہ ان پر رحم کرے گا اللّٰهُ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور مومن مرد مومن عورتیں ، بعض ان میں سے دوست ہیں بعض کے حکم دیتے ہیں وہ نیک بات کا اور منع کرتے ہیں بری بات سے اور قائم کرتے ہیں نماز کو اور ادا کرتے ہیں زکوٰۃ۔ اور اطاعت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی۔ یہی لوگ ہیں کہ عنقریب اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے گا بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے
ربط آیات : سورۃ انفال اور سورة توبہ کا مرکزی مضمون اسلام کا قانون صلح وجنگ ہے ان میں جہاد کی ضرورت اور فرضیت اور اس کے فوائد کا تذکرہ ہے اور ساتھ ساتھ جہاد کو ترک کرنے کا وبال اور خسارہ بھی بیان کیا گیا ہے ترک جہاد کی وجہ سے قوم پر ادبار اور زوال آتا ہے ، اللہ نے ان سب چیزوں کو بالوضاحت بیان کیا ہے۔ گذشتہ آیات میں اللہ نے جہاد سے پیچھے رہنے والے منافقین کی مذمت بیان فرمائی ہے اور پھر ان کے اوصاف قبیحہ کا ذکر بھی فرمایا ان اوصاف کی وجہ سے منافقین کے انجام کا ذکر بھی کیا۔ گزشتہ درس میں یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ منافق مرد اور عورتیں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں ان کے اخلاق ، عادات اور خصائل ایک جیسے ہیں ، وہ ہمیشہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی کے کام سے منع کرتے ہیں اس کے علاوہ وہ انتہائی درجے کے کنجوس ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ روک لیتے ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو فراموش کردیا ہے تو خدا نے بھی انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے۔ نیز فرمایا کہ کافروں اور منافقوں کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل کریگا۔ اللہ نے منافقین کو سابقہ اقوم کے حالات سے عبرت بھی دلائی کہ انہوں نے نافرمانی کی تو وہ سخت سزا میں مبتلا ہوئے اگر یہ لوگ بھی حق کو قبول نہیں کریں گے اور قبیح حرکات سے باز نہیں آئیں گے تو ان کا حشر بھی سابقہ اقوام سے مختلف نہیں ہوگا۔ بات یہاں سے چلی تھی کہ منافقین جہاد سے گریز کرتے تھے اور اللہ کی راہ میں اپنا مال بخوشی خرچ نہیں کرتے تھے۔ تو ان کے مقابلے میں اب اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور ان کے اوصاف جمیلہ کا ذکر کیا ہے ان کی خصوصیات ، ان کے کام اور پھر ان کا انجام بھی بیان فرمایا ہے قرآن پاک کا یہ اسلوب بیان ہے کہ جہاں ترہیب کی بات کرتا ہے وہاں ترغیب کا ذکر بھی ہوتا ہے چناچہ منافقین کے تذکرے کے بعد اب مومن مردوں اور عورتوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ منافق مردوں اور عورتوں کی طرح مومن مرد و زن بھی ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ منافقین کا تشابہ فی الاخلاق برائی میں ہوتا ہے جب کہ مومنوں کا تشابہ نیکی کے کاموں میں ہوتا ہے۔ مردوزن کی معاشرتی حیثیت : صنف نازک انسانیت کا نصف ہے۔ انسانی گاری مردوزن ہی کے دو پہیوں پر چلتی ہے۔ اللہ نے ابتداء سے ہی (آیت) ” خلق منھا زوجھا “ فرما کر اس کی حکمت ظاہر فرما دی۔ انسانیت کے لیے جتنا مرد ضروری ہے اتنا ہی عورت بھی ضروری ہے دونوں انسانی تمدن کے بنیادی عنصر ہیں۔ ان دونوں میں سے اگر ایک صنف نہ ہو تو دنیا کا نظام ہی نہیں چل سکتا۔ لہٰذا ہر ایک کو اپنی حیثیت کو سمجھنا چاہیے۔ اللہ نے یہ سارے حقائق سورة نساء میں بیان فرما دیے ہیں۔ مرد اور عورت انسانی سوسائٹی کے اہم ترین ارکان ہیں ، البتہ عورت کے مقابلے میں مرد کو اللہ نے فوقیت بخشی ہے۔ اور ہر ایک کے حقوق وفرائض اور ہر ایک کا دائرہ کار مقرر کیا ہے جس طرح مرد مکلف ہیں۔ اسی طرح عورتیں بھی مکلف ہیں اور جس طرح مرد کو عبادات کی ضرورت ہے اور اس کے نتیجے میں نجات کی ضرورت ہے اسی طرح عورت کو بھی ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ البتہ ان دونوں کے درمیان تفریق صنف کی وجہ سے ہے۔ اللہ نے مردوں کو عورتوں پر فوقیت دیکر کچھ مزید فرائض بھی ان کے سپر د کیے ہیں ، تا ہم شریعت کی نظر میں دونوں یکساں مخاطب ہیں۔ مردوزن کا دائرہ کار : امام شاہ ولی اللہ (رح) اپنی معرکۃ الآراء کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ اجتماعی نظام کی ذمہ داری اللہ نے مردوں پر ڈالی ہے۔ مسلمانوں کے امیر کے لیے شرط ہے کہ مسلمان ، عاقل ، بالغ اور مرد ہو ، عورت مسلمانوں کی امیر نہیں ہو سکتی۔ عورت کا کام پچھلی صف میں کھڑا ہونا ہے (آیت) ” اخروا النساء من حیث اخرھن اللہ “ عورتوں کو پیچھے رکھو جہاں اللہ نے ان کا مقام مقرر کیا ہے۔ جب بھی عورتوں کو پہلی صف میں لانے کی کوشش کروگے ، انتشار ہی پیدا ہوگا۔ انگریز عورت کو آگے لائے تو دنیا نے تمام خرابیوں کا مشاہدہ کرلیا۔ اگر ہر دفتر ، محکمے اور ادارے میں عورت کام کریگی تو بگار ہی پیدا ہوگا۔ یہ تو بیسویں صدی ختم ہو رہی ہے گذشتہ صدی کے ایک انگریز مورخ اور فلسفی نے کہا تھا کہ لعنت ہو ہمارے اس قانون پر جو انگریزوں نے وضع کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپ کی پنتالیس کروڑ کی آبادی میں سے یقین کے ساتھ پنتالیس حلال کے آدمی بھی نہیں نکالے جاسکتے۔ عورتوں اور مردوں کو خلط ملط کرنے کا یہی نتیجہ نکلے گا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے ہر چیز کو اپنے اپنے مقام پر رکھا ہے۔ عورت کے فرائض ہیں مگر اپنے دائرہ کار میں رہ کر۔ اگر عورت مردوں کی صف میں کھری ہوگی تو لازما خرابی پیدا ہوگی۔ جہاد جیسا عظیم فرض بھی اصلا مردوں پر فرض ہے ، عورت اس کے لیے مکلف نہیں۔ ہاں عورت مجاہدین کی معاون بن سکتی ہے ان کی خدمت پر مامور ہو سکتی ہے ۔ اگر تلوار لے کر اگلے مورچے پر مردوں کے شانہ بشانہ جانے کی کوشش کریگی۔ تو اس کا یہ عمل خلافِ فطرت اور خرابی کا باعث ہوگا۔ اسی طرح اجتماعی امور میں عورت مقتدی تو بن سکتی ہے مگر امام بن کر نماز نہیں پڑھا سکتی۔ اگر عورت امام بنے گی تو نہ اس کے اپنی نماز ہوگی اور نہ کسی مقتدی کی۔ عام نمازوں کے علاوہ عورت جمعہ اور عیدین کی نماز بھی نہیں پڑھا سکتی ، کیونکہ یہ خالصتا مردوں کی ذمہ داری ہے۔ امام شعرانی (رح) نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ارشاد وتبلیغ کی بنیادی ذمہ داری بھی اللہ نے مردوں پر ڈالی ہے۔ عورتوں کا مردوں کو تبلیغ کرنا خلاف فطرت بات ہے اس سے امریکہ ، روس اور یورپ کا تمدن تو زندہ ہو سکتا ہے۔ اسلام کا تمدن زندہ نہیں ہوگا۔ عورتیں صرف وہ کام کریں جو ان کی ذمہ داری میں ہیں۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے بھی کہا ہے کہ گھر میں رہ کر گھر کی آبادی کے ضمن میں عورت کو بڑی اہمیت حاصل ہے اولاد کی تربیت عورت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ ہر مسلمان کی پہلی یونیورسٹی اس کا گھر ہوتا ہے جہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ مادرت ، درس نختیں باتو داد انسان کو پہلا سبق ماں ہی سکھاتی ہے اور جو کچھ سکھاتی ہے وہ ساری عمر یاد رہتا ہے ۔ اگر کلمہ پڑھائے گی ، قرآن وحدیث کا درس دیگی تو وہ یاد رہے گا اور اگر گالی گلوچ اور گانے سکھائے گی تو بچہ وہی کچھ سیکھے گا۔ جو کچھ پڑھائے گی بچے کے ذہن پر اس کا نقش باقی رہے گا۔ مومن مردوزن کے خواص : ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” والمومنون والمومنٰت “ مومن مرد اور مومن عورتیں (آیت) ” بعضھم اولیاء بعض “ بعض بعض کے رفیق ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور اخلاق و عادات میں آپس میں مشابہت رکھتے ہیں۔ جس طرح کافر کافر کا ، منافق منافق کا اور بےدین بےدین کا رفیق ہوتا ہے۔ اسی طرح مومن مومن کا رفیق ہوتا ہے کسی مومن کا دوست اور سرپرست کوئی کافر نہیں ہو سکتا تو فرمایا مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے آپس میں مشابہت رکھتے ہیں اور ان میں بعض امور یہ ہیں کہ (آیت) ” یامرون بالمعروف “ ان سب کی اچھی خصلت یہ ہے کہ وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں (آیت) ” وینھون عن المنکر “ اور برائی کے کام سے منع کرتے ہیں مومن مرد اور عورتوں کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اچھی بات کرتے ہیں۔ جو کوئی برائی کی تلقین کرے گا وہ منافق بن گیا یا منافقہ یا پھر مشرک اور مشرکہ بن گئے۔ لہٰذا مومن مرد اور عورتیں ایمان کی دعوت دیتے ہیں یا تبلیغ اور جہاد کی طرف بلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مومنین اور مومنات فرائض کی تلقین کرتے اور شریعت مطہرہ سے ثابت اچھائی کی باتوں کا حکم کرتے ہیں ۔ اور جو چیزیں عقل اور شریعت کے نزدیک بری ہیں مثلا شرک ، بدعت ، نفاق ، ظلم وغیرہ ، ان سے روکتے ہیں۔ بداخلاقی ، دھاندلی فتنہ و فساد ، جھوٹ ، فریب اور فراڈ سے منع کرتے ہیں۔ حصول علم کا فریضہ : تبلیغ کا کام اصلا مرد کے ذمہ ہے ، تا ہم عورتیں بھی اپنے ماحول میں اسی وقت تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے سکیں گی جب ان کے پاس معقول علم ہوگا اور ا گر عورتوں کو تعلیم ہی نہیں دی گئی تو وہ اچھائی کی تلقین کیسے کریں گی۔ اسی لیے تعلیم کو انسان کے بنیادی حقوق میں شمار کیا گیا ہے ” طلب العلم فریضہ علی کل مسلم “ علم کا حصول ہر مسلمان کا فرض ہے اس کے ساتھ مسلمۃ کا لفط بھی لگاتے ہیں مگر اس کی ضرورت نہیں۔ بنیادی تعلیم کا حصول دونوں پر فرض ہے اور بنیادی تعلیم وہ ہے جس سے انسان اپنا عقیدہ درست کرسکے ، حقوق و فرائض کو پہچان سکے اور پھر اس کے مطابق عمل کرسکے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس وقت دنیا کی اکثر آبادی اعراف میں ہے ، چھوٹے طبقات کسان ، مزدور وغیرہ تک دین کی بات نہیں پہنچی۔ ان کی تعلیم کا حکومت کوئی انتظام نہیں کرتی حالانکہ ہر شخص کے لیے تعلیم جبری ہونی چاہیے اور پھر اس میں دینی تعلیم کو مقدم رکھا جائے تا کہ ہر شخص اپنے فرائض کو پہچان کر ان پر عمل پیرا ہو سکے۔ اس وقت دنیا میں برائی کی ابتداء عورت سے ہوتی ہے یہ تو مردوں کا کام ہے کہ عورتوں کی صحیح تربیت کریں اور ان کو ایسی تعلیم دیں کہ برائی کا قلع قمع ہو سکے مگر اس کے برخلاف یہ مرد ہی ہیں جو عورت کو خود گھسیٹ کر برائی کے راستے پر لے جاتے ہیں کھیل تماشہ ہو یا سیر و تفریح کا موقع عورتوں کو مرد ہی ساتھ لے جاتے ہیں۔ اگر مرد عورتوں کو صحیح راستے پر لانا چاہیں تو یہ عین ممکن ہے اور اگر مرد ہی بےدین ہون ، ہر وقت عیاشی اور فحاشی کی باتیں کریں تو عورت بھی ویسی ہی ہوگی۔ اچھائی کی تلقین کرنے کے لیے پہلے اچھائی سے واقفیت ضروری ہے اور یہ اچھی تعلیم سے ہوتی ہے لہٰذا حصولِ تعلیم مرد اور عورت دونوں کے فرائض میں داخل ہے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی : فرمایا مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ یہ نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں مگر اس زمانے میں معاملہ بالکل الٹ ہوچکا ہے۔ اب مسلمان آپس میں مشابہ ہونے کی بجائے دوسری اقوام سے اس قدر مشابہ ہیں کہ مسلم اور کافر میں امتیاز ہیں نہیں ہو سکتا۔ کون کسی سوسائٹی کا ممبر ہے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ اب تو تشابہ فی الاخلاق عیسائیوں اور کافروں کے ساتھ ہو رہا ہے بلکہ مسلمان ان سے بھی گئے گزرے ہیں کیونکہ وہ اپنے اصول ہی ترک کرچکے ہیں ۔ اب تو نیکی کی بجائے برائی کی تلقین میں مسلمان پیش پیش ہیں۔ کھیل تماشہ ، سود خور ، برائی اور بدکاری ، شرک اور بدعات ، رسومات باطلہ اور لغویات مسلمانوں کے پسندیدہ مشاغل ہیں اور انہیں کے حق میں پراپیگنڈا کر رہے ہیں ، آج ہر برائی کا اشتہار مسلمان دے رہا ہے۔ اس معاملے میں تو مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی مات کر گئے ہیں جب تک مسلمانوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صفت موجود رہے گی ہم زندہ رہیں گے ، ہماری قوم زندہ رہیگی ۔ چند افراد کی بات نہیں۔ جب تک غالب اکثریت نیکی کی طرف رجوع نہیں کریگی ، اسلامی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ اجتماعی نظام کی تبدیلی افراد کا نہیں ، جماعتوں کا کام ہوتا ہے اور یہ اسی صور ت میں ممکن ہے کہ قوم کی ساٹھ فیصدی آبادی امر مال معروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سنبھال لے اگر ایسا ہوجائے گا تو باقی چالیس فیصدی خود بخود مغلوب ہو کر درست ہوجائیں گے۔ اور اگر اکثریت برائی کی طرف راغب رہیگی تو پھر اصلاح احوال کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ صلوٰۃ وزکوٰۃ : فرمایا مومنوں کے دو کام تو یہ ہیں کہ نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ، نماز ایک ایسی عبادت ہے جس سے تعلق باللہ درست ہوتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ نماز کی مثال ایسی ہے کہ اگر کسی مالک کا بھاگا ہوا۔ غلام واپس آکر آپنے مالک کے حضور پیش ہو کر معافی مانگ لے گا تو مالک کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے اسی طرح جب کوئی بندہ اپنے پروردگار کے سامنے دست بستہ نماز میں کھڑا ہوجاتا ہے تو مالک حقیقی کا غصہ فرو ہوجاتا ہے۔ اور جب کوئی شخص اللہ کے حضور حاضر نہیں ہوتا ، اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اغیار کی اطاعت کا دم بھرتا ہے تو خدا تعالیٰ ناراض ہوجاتا ہے تو نماز کو ترک کرنا خدا تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ مومن نماز کو برپا کرتے ہیں۔ نماز کا قیام گھر سے لے کر حکومتی سطح تک سب کا فریضہ ہے۔ جب حکمران خود نماز پڑھنے لگیں گے اور عوام میں نظام صلوٰۃ رائج کریں گے تو سارا نظام درست ہوجائے گا۔ فرمایا (1۔ الترغیب والترھیب ، ص 195 ، ج ، 1 بحولہ مسند بزار) (فیاض) لا حظ فی الاسلام لمن لا صلوٰۃ لہ “ جس کا نماز میں حصہ نہیں اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔ فرمایا نماز ادا کرنے کے علاوہ مومن مردوں اور عورتوں کا یہ کام بھی (آیت) ” ویوتون الزکوٰۃ “ وہ زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں۔ زکوٰۃ سے دو فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان سے بخل دور ہوتا ہے اور دوسری طرف مجبور اور محتاج انسانوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے اللہ نے اس میں یہ دوہری مصلحت رکھی ہے۔ اللہ اور سول کی اطاعت : اب اہل ایمان کی پانچویں صفت یہ بیان فرمائی ہے (آیت) ” ویطیعون اللہ ورسولہ “ وہ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں ایک مومن کا مطمع نظر یہ ہوتا ہے کہ کسی وقت خدا اور رسول کے احکام کی خلاف ورزی نہ ہوجائے۔ مومن آدمی اور عورت خدا اور رسول کی اطاعت کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بہترین مثال پیش کی ہے۔ سورة بقرہ میں موجود ہے (آیت) ” اذ قال لہ ربہ اسلم “ جب ان کے پروردگار نے ان سے فرمایا۔ فرمانبردار بن جائو تو آپ نے فورا کہا (آیت) ” قال اسلمت لرب العلمین “ میں پروردگار عالم کی اطاعت وفرمانبرداری کے لیے ہر وقت تیار ہوں میں اس کے ہر ارشاد کی تعمیل کے لیے حاضر ہوں۔ ” لبیک اللھم لبیک “ کا بھی یہی معنی ہے کہ مولا کریم میں تیرا ہر حکم بسر وچشم تسلیم کرنے کے لیے حاضر ہوں ۔ ایسے مومن مردوں اور مومن عورتوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” اولئک سیرحمھم “ اللہ یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ یقینا رحم فرمائے گا (آیت) ” ان اللہ عزیز حکیم “ بیشک اللہ تعالیٰ کمال قدرت کا مالک اور حکمت والا ہے وہ اپنی حکمت کے مطابق مومنین کو ضرور انعامات سے نوازے گا۔ مومنوں کے لیے انعامات : فرمایا یاد رکھو ! (آیت) ” وعد اللہ المومنین والمومنٰت جنٰت تجری من تھ تھا الانھر خلدین فیھا “ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغوں کا وعدہ کیا ہے جن کے سامنے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہنے والے ہون گے۔ اس کے علاوہ (آیت) ” ومسکن طیبۃ فی جنت عدن “ ان کو نہایت صاف ستھری اور پاکیزہ رہائش گاہیں نصیب ہوں گی رہائشوں کے باغات میں ۔ باغات تو بغیر رہائشی سہولتوں کے کھلے عام بھی ہوتے ہیں مگر جنتیوں کو ایسے باغات حاصل ہوں گے جن میں رہائش کے لیے کوٹھیاں اور بنگلے ہوں گے۔ یہاں اختصار کے ساتھ انہیں چیزوں کا ذکر کیا ہے ، البتہ دوسرے مقام پر عمدہ لباس ، لذیز ترین ماکولات ومشروبات اور دیگر نعمتوں کا بھی ذکر ہے۔ خاص طور پر بیویوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” ولھم فیھا ازواج مطھرۃ “ ان کے لیے اخلاق و عادات اور شکل و صورت کے اعتبار سے نہایت پاکیزہ بیویاں ہوں گی۔ وہ شخص کتنا سعادت مند ہوگا ، جس کو پاکیزہ بیوی ، پاکیزہ مکان اور پاکیزہ کھانا پینا نصیب ہوگا۔ رضائے الٰہی : بہشت میں ان مادی نعمتوں کے علاوہ ایسی روحانی نعمتیں بھی نصیب ہوں گی جو سکون ، راحت ، فرحت اور روحانی مسرت کا باعث ہوں گی۔ وہ کیا ہے ؟ (آیت) ” ورضوان من اللہ اکبر “ وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہوگی جو سب سے بڑی نعمت ہے ، مادی نعمتیں عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ جنتیوں سے فرمائے گا ، کیا میں تمہیں کچھ مزید عطاکروں ؟ لوگ تعجب سے کہیں گے کے اے مولا کریم ! تو نے ہمیں وہ نعمتیں دی ہیں جو کسی کو نہیں دی ہوں گی اب اور کون سے نعمت باقی ہے۔ اللہ فرمائے گا (آیت) ” احل علیکم رضوانی فلا اسخط علیکم بعدہ ابدا “ میں تمہیں اپنی خوشنودی اور رجا کی نعمت عطا کرتا ہوں اور یہ نعمت تم سے کبھی نہیں چھینی جائیگی۔ میں تم سے آئندہ کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔ چناچہ اہل ایمان کو جتنی خوشی اس بات سے ہوگی کسی اور چیز سے نہیں ہوگی۔ اور پھر دوسری بات یہ کہ (آیت) ” الذین احسنوا الحسنی “ جنہوں نے دنیا میں اچھے کام کیے ان کو اچھائی کا اچھا بدلہ ملے گا (آیت) ” وزیادۃ “ اور کچھ مزید حاصل ہوگا۔ اور وہ اللہ کا دیدار ہوگا۔ یہ روحانی نعمتوں کا بلند ترین مرتبہ ہوگا۔ اس سے زیادہ خوشی والی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ اس مقام پر صرف رضوان کا ذکر ہے جب کہ دوسرے مقام پر دیدار کا ذکر بھی آتا ہے لہٰذا جب بھی کوئی مومن نیک کام کرے تو اس کی خواہش یہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائے۔ ہمارے بزرگوں میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (رح) فرمایا کرتے تھے کہ لوگ لمبی چوڑی دعائیں مانگتے ہیں مگر میں یہ مختصر دعا مانگتا ہوں ” اللھم انی اسئلک رضاک والجنۃ واعوذ بک من سنحطک والنار “ اے اللہ ! میں تجھ سے تیری رضا اور جنت کا سوال کرتا ہوں اور تیری ناراضگی اور جن ہم سے پناہ مانگتا ہوں ۔ جب خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوگئی تو سب کچھ حاصل ہوگیا۔ اگر خدا رضی نہیں ہوگا تو کچھ نہیں ملے گا۔ یہ بہت بڑی دعا ہے جس کو ایک مومن طلب کرتا ہے ۔ فرمایا (آیت) ” ذلک ھو الفوز العظیم “ یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ اللہ کی رضا حاصل ہوجائے۔ اللہ نے منافقوں کا انجام بھی بیان فرمادیا اور مومنوں کے نیک اعمال اور ان کے لیے انعامات کا تذکرہ بھی کردیا ہے۔ تا ہم منافقین کی مذمت کا بیان ابھی جاری ہے۔
Top