Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 85
وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
وَلَا تُعْجِبْكَ : اور آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں اَمْوَالُهُمْ : ان کے مال وَاَوْلَادُهُمْ : اور ان کی اولاد اِنَّمَا : صرف يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دے بِهَا : اس سے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَتَزْهَقَ : اور نکلیں اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں وَهُمْ : جبکہ وہ كٰفِرُوْنَ : کافر ہوں
اور نہ تعجب میں ڈالیں آپ کو ان ( منافقوں ) کے مال اور انکی اولاد بیشک اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ سزادے ان کو ان ( کے مالوں اور اولاد) کی وجہ سے دنیا میں ، اور نکلیں ان کی جانیں اس حال میں کہ وہ کفر کرنے والے ہیں
ربط آیات : جہاد سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے منافقین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ منافقین رسول اللہ ﷺ کے بعد پیچھے بیٹھے رہنے پر بڑے خوش ہوئے کہ اچھا ہوا ہم اس دور دراز کے سفر پر نہیں گئے گویا کہ انہوں نے اللہ کے راستے میں مال وجان کھپا دینے کو ناپسند کیا ، وہ ایک دوسرے کو گرمی کی شدت میں سفر کرنے سے منع کرتے تھے مگر اللہ نے فرمایا کہ جہنم کی آگ تو بہت سخت ہے ، اگر اس دنیا کی گرمی برداشت نہیں کرسکتے تو دوزخ کی تپش کیسے برداشت کرو گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ بھی دیا کہ جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آئیں گے تو منافق لوگ آئندہ جہاد میں شمولیت کی پیش کش کریں گے مگر حضور ﷺ کو فرمایا گیا کہ آپ صاف انکار کردیں اور کہ دیں کہ تم پہلی مرتبہ جہاد میں شریک نہیں ہوئے ، اب ہمیشہ کے لیے تمہیں نظر انداز کردیا گیا ہے تم کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک نہیں ہو سکے گے۔ ان کو جماعت المسلمین سے بالکل الگ کردیا جائیگا۔ تا وقتیکہ یہ اسلام میں صدق دل سے داخل ہوجائیں۔ پھر اللہ نے منافقوں کا جنازہ پڑھنے اور ان کی قبر پر کھڑے ہو کر دعائے مغفرت کرنے سے بھی منع فرما دیا۔ مال ذریعہ آزمائش : بعض ذہنوں میں یہ بات آسکتی ہے کہ اگر منافق اللہ کے ہاں اتنے ہی ناپسندیدہ ہیں تو پھر انہیں مال و دولت اور اولاد کی فراوانی کیوں حاصل ہے ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا تعجبک اموالھم واولادھم “ ان کے مال واولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں۔ کافروں اور منافقوں کی خوشحالی کو ان کے حق میں اچھائی کی علامت نہ سمجھا جائے۔ (آیت) ” انما یرید اللہ ان یعذبھم بھا فی الدنیا “ بلکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ وہ ان کو انہی چیزوں کی وجہ سے دنیا میں سزا دے۔ گویا مال واولاد کی فروانی منافقوں کے لے وبال ِ جان بن جائے گی۔ یہ لوگ جب تک اس دنیا میں زندہ رہیں گے مال واولاد کی فکر میں ہی مبتلا رہیں گے۔ کبھی مال جمع کر نیکی فکر ہوگی ، کبھی اس کے اخراجات کے متعلق تفکرات ہوں گے اور کبھی مال کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہمیشہ سر پر سوار رہیگا اور انہیں کسی صورت چین نہیں آئے گا اور یہی چیز ان کے لیے اس دنیا میں بحیثیت عذاب کے ہے۔ نیز فرمایا (آیت) ” وتزھق انفسھم وھم کفرون “ ان کی جانیں اس حالت میں نکلیں گی کہ وہ کفر کرنے والے ہوں گے۔ مقصد یہ کہ مرتے دم تک انہیں ہدایت نصیب نہیں ہوگی بلکہ کفر کی حالت میں ہی ان کی موت واقع ہوگی۔ لہٰذا مال و دولت کی فراوانی نیک آدمی کے حق میں تو اچھی ہو سکتی ہے مگر ایک کافر اور منافق کے لیے یہ سعادت مندی کی علمات ہرگز نہیں۔ بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جب تم دیکھو کہ کوئی شخص نافرمانی ہی کرتا چلاجا رہا ہے اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ مال میں فراوانی اور خوشحالی عطا کر رہا ہے تو ہرگز دھوکہ نہ کھانا کہ یہ شخص اللہ کے ہاں پسندیدہ ہے بلکہ یہ تو استداراج یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی ڈھیل اور مہلت ہے ، اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا۔ اس کی رسی دراز کرے گا اور جب چاہے گا ایسے شخص کو گرفت میں لے لیگا۔ شاہ عبدالقادر (رح) نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ تعجب نہ کر کہ بےدین کو اللہ تعالیٰ نے نعمت کیوں دی ہے۔ اس کے حق میں یہ مال و دولت تو وبال ہے کیونکہ ان کے پیچھے دل پریشان رہتا ہے کبھی مال کے جمع کرنے کے سلسلے میں اور کبھی اسے خرچ کرنے کے معاملہ میں اور یہ فکر مرتے دم تک چھوٹنے نہیں پاتی۔ جب تک انسان مال و دولت کی فکر سے نہیں چھوٹے گا۔ اسے توبہ کرنے یا نیکی کرنے کی توفیق بھی نصیب نہیں ہوگی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا (آیت) ” وتزھق انفسھم وھم کفرون “ ان منافقین کی جانیں اس حالت میں نکلیں گی کہ وہ کافر ہی ہوں گے ، انہیں مرتے دم تک ایمان کی دولت نصیب نہیں ہو سکتی۔ منافقین کو اسی دنیا میں سزا کی ایک صورت مفسرین کرام یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ بعض منافقین کی اولادیں صحیح معنوں میں مومن ہوگئیں ، اس کی مثال عبداللہ بن ابی کا بیٹا عبداللہ ہے جو نہایت مخلص مسلمان تھا۔ جب مسلمان اولاد منافق والدین کے خلاف چلتی تھی تو انہیں سخت اذیت پہنچتی تھی۔ اسی لیے فرمایا کہ مال اور اولاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ منافقوں کو اسی دنیا میں سزا دینا چاہتا ہے اور وہ کفر کی حالت میں ہی مریں گے جس کی وجہ سے آخرت میں دائمی عذاب کے مستحق ہوں گے۔ صاحبان استطاعت کی رخصت طلبی : فرمایا (آیت) ” واذا انزلت سورة ان امنواباللہ “ جب قرآن پاک کی سورة نازل کی جاتی ہے جس میں حکم دیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائو (آیت) ” وجاھدوا مع رسولہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ مل کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو ، دین کی بقا اور ترقی کے لیے جہاد ضروری ہے تو (آیت) ” استاذنک اولوالطول منھم “ ان میں سے مقدور یعنی طاقت رکھنے والے ، جسمانی طور پر تندرست اور مالی لحاظ سے خوشحال لوگ حیلے بہانے بنا کر آپ سے رخصت طلب کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ فلاں کام پڑگیا ہے یا فلاں مجبوری لاحق ہوگی ہے لہٰذا ہم جہاد کے لیے نہیں جاسکتے (آیت) ” وقالو ذرنا نکم مع القعدین “ لہٰذا ہمیں چھوڑ دیں تا کہ ہم پیچھے بیٹھنے والوں کے ساتھ ہوجائیں۔ فرمایا دیکھو ، ان کی ذہنیت کتنی خراب ہے (آیت) ” رضوا بان یکونوا مع الخوالف “ کہ یہ اس بات پر راضی ہیں کہ پیچھے بیٹھنے والی عورتوں کے ساتھ ہم بھی گھر میں بیٹھے رہیں اور مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوں۔ خوالف خالف کی جمع ہے اور یہ لفظ مذکر اور مونث دونوں صنفوں کے لیے استعمال ہوتا ہے کیونکہ خالفتۃ کی جمع بھی خوالف ہی ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ معذور مرد ہیں جو جہاد میں شریک ہونے سے قاصر ہوتے ہیں۔ مثلا بہت بوڑھے ہیں ، نابینا ہیں یا کسی عضو سے معذور ہیں اور اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ منافقین معذوروں مردوں کے ساتھ بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اور اگر خوالف سے مراد پیچھے بیٹھنے والی عورتیں لیا جائے تو یہ بھی درست ہے کیونکہ عورتوں کا مقام ان کا گھر ہی ہے۔ سورة احزاب میں ہے۔ (آیت) ” وقرن فی بیوتکن “ عورتیں اپنے گھروں میں بیٹھی رہیں۔ ان پر جہاد فرض نہیں ہے ہاں نفیر عام کی صورت میں وہ کوئی خدمت انجام دے سکتی ہیں یا کسی مجبوری کے تحت گھر سے نکل سکتی ہیں۔ بہرحال شیخ الہند (رح) نے اس کا ترجمہ عورتیں کیا ہے۔ بعض نے خوالف سے معذور آدمیوں کی جماعتیں مراد لیا ہے اور یہ بھی درست ہے ۔ بہرحال فرمایا کہ منافق اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ وہ جہاد میں شریک نہ ہوں بلکہ پیچھے رہنے والوں میں شامل ہوں۔ فرمایا اس کا نتیجہ یہ ہوا (آیت) ” وطبع علی قلوبھم “ ان کے دلوں پر مہریں لگا دیں گئیں کیونکہ انہوں نے نفاق کی وجہ سے اپنی استعداد کو خراب کرلیا ہے۔ (آیت) ” فھم لا یفقھون “ پس یہ سمجھتے ہی نہیں کہ ہم کیا بری کارگزاری انجام دے رہے ہیں۔ ان کے لیے مناسب تھا کہ سچے دل سے ایمان لاتے اور پھر جہاد میں شریک ہوتے۔ رفاہیت بالغہ : بہر حال اللہ تعالیٰ نے جہاد سے گریز کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے صاحب حیثیت اور صاحب استطاعت لوگوں کے متعلق رفاہیت بالغہ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اسودہ حال لوگوں کا اچھا کھانا ، اچھا پہننا ، اچھی رہائش اور اچھی سواری وغیرہ رفاہیت بالغہ میں داخل ہے ، اور یہ درست نہیں ہے کیونکہ انہی چیزوں کی وجہ سے لوگ آرام طلب ہوجاتے ہیں مال و دولت کی محبت ان کے دلوں میں گھر کر جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جہاد اور مشقت کے دیگر امور کی انجام دہی سے جی چراتے ہیں دین کی طرف رغبت نہیں کرتے۔ یہ سب اولو الطول لوگ ہیں۔ اکثر سرمایہ دار اور ملوک اسی بیماری میں مبتلا ہیں اور مسلمانوں کے لیے بحیثیت قوم تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ اگرچہ بہت بدحالی بھی اچھی نہیں۔ مگر آرام طلبی اور عیش پرستی بھی قوم کے لیے سخت مضر ہے۔ انسان مشقت سے گریز کرنے لگتے ہیں حالانکہ اس کے بغیر فلاح نصیب نہیں ہوسکتی۔ انسان کی تخلیق ہی مشقت میں ہوئی ہے (آیت) ” لقد خلقنا الانسان فی کبد “ ہم نے انسان کو مشقت میں ہی پیدا کیا ہے اور مرتے دم تک وہ مشقت میں ہی مبتلا رہے گا اور اسی مشقت کی وجہ سے فلاح حاصل ہوگی۔ پھر مشقت کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک مشقت محض مال کمانے کے لیے ہوتی ہے یا اولاد کی تربیت کے لیے جدوجہد کی جاتی ہے مگر ایک مشقت ایسی ہے جو انسان اللہ کے دین کے لیے برداشت کرتا ہے اللہ کے رسول نے اسی مشقت کو اختیار کیا ہے اور اپنے پیچھے اس کا نمونہ چھوڑا ہے۔ حضور ﷺ نفاست اور آرام طلبی کے سب سے زیادہ مستحق تھے مگر آپ نے اسے اختیار نہیں کیا بلکہ پوری زندگی مسلسل جہاد میں گزاری ہے۔ حضور ﷺ کے بعد حضرت صدیق اکبر ؓ نے مسند خلافت پر بیٹھ کر جو سب سے پہلا خطبہ دیا تھا وہ حدیث کی کتابوں (1۔ جمع الوسائل شرح الشمائل ، ص 222 ج 2) (فیاض) میں موجود ہے فرمایا ” ما ترک القوم جھاد فی سبیل اللہ الا ذلوا “ یاد رکھو ! جو قوم جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کر دیگی وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیگی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ مومنین کا شیوہ : ادھر اہل ایمان کا شیوہ یہ ہے (آیت) ” لکن الرسول والذین امنوا معہ “ کہ اللہ کا رسول اور جو لوگ آپ کے ساتھ سچے دل سے ایمان لائے (آیت) ” جاھدو باموالھم وانسفھم “ وہ اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں دونوں چیزیں کھپا دیتے ہیں غزوہ تبوک میں مجاہدین کی تعداد تیس ہزار سے لیکر سترہزار تک مختلف روایتوں میں آتی ہے اگرچہ اس میں بعض منافقین بھی شریک تھے مگر اکثریت سچے مسلمانوں کی تھی۔ فرمایا (آیت) ” واولئک لھم الخیرات “ یہی لوگ ہیں جن کے لیے خوبیاں اور اچھائیاں ہیں (آیت) ” واولئک ھم المفلحون “ اور یہی لوگ ہیں جن کو فلاح نصفیب ہوگی۔ فرمایا (آیت) ” اعد اللہ لھم جنت تجری من تحتھا الانھر “ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے عالیشان باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے سامنے نہریں بہتی ہیں (آیت) ” خلدین فیھا “ وہاں انہیں دائمی زندگی نصیب ہوگی کوئی کلفت اور مشقت نہیں اٹھانا پڑے گی انہیں جسمانی ، روحانی ، مادی اور ذہنی سکون حاصل ہوگا۔ (آیت) ” ذلک الفوز العظیم “ اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ حقیقی فلاح یہ ہے کہ انسان حظیرۃ القدس کا ممبر بن جائے اور بہشت بریں میں پہنچ جائے۔ اس دنیا کی فلاح اور عیش و آرام تو بالکل عارضی ہے۔ یہاں کی نعمتیں بھی ختم ہوجانے والی ہیں مگر آخرت کی زندگی دائمی ہے اور وہاں کی نعمتیں بھی نہ ختم ہونے والی ہیں اور یہ چیزیں مجاہدے ، مشقت اور ایمان کی بدولت حاصل ہوتی ہیں۔ اللہ کا رسول اور سچے مومن اسی راستے پر گامزن ہیں جو دائمی فلاح کی طرف جا رہا ہے۔
Top