یہ سورة التکاثر کا ترجمہ ہے لفظ تکاثر کثرت سے تفاعل کا مصدر ہے۔ یہ باب دونوں طرف سے مقابلہ کرنے کے معنی میں آتا ہے جیسے تقاتل دونوں نے آپس میں مل کر قتال کیا اور تقابل دونوں آپس میں ایک دوسرے کے سامنے آئے، یہاں پر مال کی کثرت میں مقابلہ کرنے کا تذکرہ ہے۔ اہل دنیا کا طریقہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کے لیے کوششیں کرتے ہیں اور جس کے پاس زیادہ مال ہوجائے وہ اس پر فخر کرتا ہے پھر دوسرا شخص اس کے مقابلے میں اپنے مال کی کثرت بیان کرتا ہے اور اگر بیان نہ کرے تو ذہنی مقابلہ تو رہتا ہی ہے اس کو سورة الحدید میں یوں بیان فرمایا ہے ﴿اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِيْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ ﴾ (جان لو کہ دنیا والی زندگی لعب اور لہو ہے اور سجاوٹ ہے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں فخر کرنا ہے اور اموال و اولاد میں آپس میں اپنے کو دوسرے سے بڑھ کر بتانا ہے) ۔
مال کی طلب اور کثرت مال کی مقابلہ بازی لوگوں کو اللہ کی رضا کے کاموں کی طرف سے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے فکر مند ہونے سے غافل رکھتی ہے اسی طرح دنیا گزارتے ہوئے مر کر قبروں میں پہنچ جاتے ہیں غفلت کی زندگی گزاری تھی وہاں کے لیے کچھ کام نہ کیا تھا۔ جب وہاں کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں تو یہ چھوڑا ہوا مال کچھ بھی فائدہ مند نہیں ہوتا اس غفلت کی زندگی کو بیان کرتے ہوئے انسانوں کی عمومی حالت بیان کی اور فرمایا ﴿ اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ001 حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ002﴾ (تم کو مال کی کثرت کی مقابلہ بازی نے غافل رکھا یہاں تک کہ تم قبروں میں چلے گئے) ۔
معالم التنزیل صفحہ (520 ص ج 4) میں اس موقع پر عرب کی مقابلہ بازی کا ایک قصہ بھی لکھا ہے اور وہ یہ کہ بنی عبد مناف بن قصی اور بنی سہم بن عمرو میں وہی دنیاداری والا تفاخر چلتا رہتا تھا۔ ایک دن آپس میں اپنے افراد کی تعداد میں مقابلہ ہوا دیکھو کن کے سرداروں اور اشراف کی تعداد زیادہ ہے، ہر فریق نے اپنی اپنی کثرت کا دعویٰ کیا جب شمار کیا تو بنو عبد مناف تعداد میں زیادہ نکلے، بنی سہم نے کہا کہ ہمارے مردوں کو بھی تو شمار کرو وہ بھی ہم ہی میں سے تھے، ان کے بعد قبروں کو شمار کیا تو بقدر تین گھروں کی آبادی کے بنو سہم کے چند افراد گنتی میں بڑھ گئے، اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے ﴿ اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ001﴾ نازل فرمائی۔ تفسیر ابن کثیر میں بھی اسی طرح مقابلہ بازی کے بعض قصے ذکر کیے ہیں اور انصار کے مقابلہ کے ذیل میں بنی حارثہ اور بنو الحارث کا نام ذکر کیا ہے۔ سبب نزول کے بارے میں جو باتیں نقل کی گئی ہیں کوئی بھی حدیث مرفوع سے ثابت نہیں اور نہ کسی صحابی کی طرف ان واقعات کے تذکرہ کو منسوب کیا اور آیت شریفہ کی تفسیر اور توضیح ان واقعات کے جاننے پر موقوف بھی نہیں ہے۔ آیت شریفہ کا جو مفہوم ذہن میں متبادر ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ تم تفاخر و تکاثر میں ایسے لگے کہ قبروں میں پہنچ گئے اس کے بعد تین مرتبہ لفظ ﴿كَلَّا ﴾ لاکر متنبہ فرمایا، یہ لفظ جھڑکنے، ڈانٹنے اور تنبیہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا ترجمہ ” ہرگز نہیں “ کیا گیا ہے۔ فرمایا ﴿كَلَّا ﴾ (ہرگز ! یہ بات نہیں ہے کہ مالوں کا جمع کرنا اور ان کی کثرت پر مقابلہ کرنا تمہارے لیے مفید ہوگا) دنیا میں تو ہمیشہ نہیں رہنا مرنا بھی تو ہے۔ ﴿ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ003﴾ (عنقریب ہی تم جان لو گے) مکرر فرمایا ثُمَّ كَلَّا (پھر اس بات کو خوب سمجھ لو کہ عنقریب جان لو گے) تیسری بار پھر تاکیداً فرمایا ﴿ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِؕ005﴾ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ جواب شرط محذوف ہے اور مطلب یوں ہے : ( لشغلکم ذلک عن التکاثر) یعنی اگر تم پوری صورت حال خوب یقین والے علم کے ساتھ جان لیتے تو یہ جو تم نے زندگی کا طریقہ بنا رکھا ہے کہ اموال جمع کرتے ہو اور اس کی کثرت پر مقابلہ کرتے ہو اس شغل میں نہ لگتے ﴿عِلْمَ الْيَقِيْنِؕ005﴾ میں موصوف اپنی صفت کی طرف مضاف ہے اور بمعنی العلم الیقین ہے کیونکہ کبھی کبھی علم کا اطلاق غیر یقین کے لیے بھی آجاتا ہے اس کے لیے یہ لفظ لایا گیا جو ﴿ لَوْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ کا مفعول مطلق یا مفعول بہ ہے۔