Mufradat-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 69
قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ
قُلْنَا : ہم نے حکم دیا يٰنَارُكُوْنِيْ : اے آگ تو ہوجا بَرْدًا : ٹھنڈی وَّسَلٰمًا : اور سلامتی عَلٰٓي : پر اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
ہم نے حکم دیا اے آگے سرد ہوجا اور ابراہیم پر (موجب) سلامتی (بن جا)
قُلْنَا يٰنَارُ كُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰہِيْمَ۝ 69ۙ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ برد أصل البرد خلاف الحر، فتارة يعتبر ذاته فيقال : بَرَدَ كذا، أي : اکتسب بردا، وبرد الماء کذا، أي : أكسبه بردا، نحو : 48- ستبرد أکبادا وتبکي بواکيا «4» ويقال : بَرَّدَهُ أيضا، وقیل : قد جاء أَبْرَدَ ، ولیس بصحیح «5» ، ومنه البَرَّادَة لما يبرّد الماء، ويقال : بَرَدَ كذا، إذا ثبت «6» ثبوت البرد، واختصاص للثبوت بالبرد کا ختصاص الحرارة بالحرّ ، فيقال : بَرَدَ كذا، أي : ثبت، كما يقال : بَرَدَ عليه دين . قال الشاعر : 49- الیوم يوم بارد سمومه «7» وقال الآخر : 50- .... قد برد المو ... ت علی مصطلاه أيّ برود «1» أي : ثبت، يقال : لم يَبْرُدْ بيدي شيء، أي : لم يثبت، وبَرَدَ الإنسان : مات . وبَرَدَه : قتله، ومنه : السیوف البَوَارِد، وذلک لما يعرض للمیت من عدم الحرارة بفقدان الروح، أو لما يعرض له من السکون، وقولهم للنوم، بَرْد، إمّا لما يعرض عليه من البرد في ظاهر جلده، أو لما يعرض له من السکون، وقد علم أنّ النوم من جنس الموت لقوله عزّ وجلّ : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها [ الزمر/ 42] ، وقال : لا يَذُوقُونَ فِيها بَرْداً وَلا شَراباً [ النبأ/ 24] أي : نوما . بارد، أي : طيّب، اعتبارا بما يجد الإنسان في اللذة في الحرّ من البرد، أو بما يجد من السکون . والأبردان : الغداة والعشي، لکونهما أبرد الأوقات في النهار، والبَرَدُ : ما يبرد من المطر في الهواء فيصلب، وبرد السحاب : اختصّ بالبرد، وسحاب أَبْرَد وبَرِد : ذو برد، قال اللہ تعالی: وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِنْ جِبالٍ فِيها مِنْ بَرَدٍ [ النور/ 43] . والبرديّ : نبت ينسب إلى البرد لکونه نابتا به، وقیل : «أصل کلّ داء البَرَدَة» «2» أي : التخمة، وسمیت بذلک لکونها عارضة من البرودة الطبیعية التي تعجز عن الهضم . والبَرُود يقال لما يبرد به، ولما يبرد، فيكون تارة فعولا في معنی فاعل، وتارة في معنی مفعول، نحو : ماء برود، وثغر برود، کقولهم للکحل : برود . وبَرَدْتُ الحدید : سحلته، من قولهم : بَرَدْتُهُ ، أي : قتلته، والبُرَادَة ما يسقط، والمِبْرَدُ : الآلة التي يبرد بها . والبُرُد في الطرق جمع البَرِيد، وهم الذین يلزم کل واحد منهم موضعا منه معلوما، ثم اعتبر فعله في تصرّفه في المکان المخصوص به، فقیل لكلّ سریع : هو يبرد، وقیل لجناحي الطائر : بَرِيدَاه، اعتبارا بأنّ ذلک منه يجري مجری البرید من الناس في كونه متصرفا في طریقه، وذلک فرع علی فرع حسب ما يبيّن في أصول الاشتقاق . ( ب ر د ) البرد ( ٹھنڈا ) اصل میں یہ حر کی ضد ہے ۔ محاورہ میں کبھی اس کی ذات کا اعتبار کرکے کہا جاتا ہے : برد ( ن ک ) کذا اس نے ٹھند حاصل کی برد ( ن) الماء کذا پانی نے اسے ٹھنڈا کردیا ۔ جیسے ع ( الطویل ) ( 47 ) ستبرد اکباد وتبلی بو کیا تو بہت سے کلیجوں کو ٹھنڈا کیا اور بہت سی رونے والیوں کو رلا ڈالے گی اور برد تفعیل ) بھی اس معنی میں استعمال ہوتا ہے بعض کے نزدیک ابردر ( افعال ) بھی اس معنی میں آجاتا ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے اسی سے البرادۃ ہے جس کے معنی پانی ٹھنڈا کرنے والی چیز کے ہیں اور محاورہ میں برد کذا کے معنی کسی چیز کے البرد ا ولے کی طرح جامد اور ثابت ہونا بھی آتے ہیں جس طرح حر کو حرکت لازم ہی اسی طرح برد کے ساتھ کسی چیز کا ثبات مختص ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے ۔ برد علیہ دین ۔ اس پر قرض ٹھہر گیا ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ) ( 48 ) الیوم باردسمومہ ۔ آج باد سموم جامد ہے ۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) ( 49 ) ۔۔۔۔۔۔ قدبرد الموت ۔۔ ت علی مصطلاہ ۔۔۔۔ کہ اس کے ہاتھ اور چہرہ پر موت طاری ہوگئی ۔ لم یبرد بیدی شیئ میرے ہاتھ میں کوئی چیز قرار نہیں پکڑتی ۔ برد الانسان مرجانا فوت ہوجانا ۔ بردہ اسے قتل کر ڈالا اسی سے سیوف کو بوارد کہا جاتا ہے کیونکہ ہیت بھی فقدان روح سے سرد پڑجاتی ہے اور اسے سکون کا حق ہوتا ہے ۔ یا ظاہری طور پر جلد میں خنکی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور یہ معلوم ہے کہ نیند بھی ایک طرح کی موت ہے ۔ جیسا کہ قران میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها [ الزمر/ 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی دو روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ؟ اور آیت کریمہ : لا يَذُوقُونَ فِيها بَرْداً وَلا شَراباً [ النبأ/ 24] میں بھی برد بمعنی نیند ہے یعنی ہاں کسی قسم کی راحت اور زندگی کی خوشگواری نصیب ہیں ہوگی اور اس اعتبار سے کہ گرمی میں سردی سے احت اور سکون حاصل ہوتا ہے خوشگوار زندگی لے لئے عیش بارد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے الابردان صبح وشام کیونکہ یہ دونوں وقت ٹھنڈ ہی ہوتے ہیں ۔ البرد کے معنی اولے کے ہیں اور برد السحاب کے معنی ہیں بادل نے ژالہ باری کی سحاب ابرد وبرد ۔ اور اولے برسانے والے بادل قرآن میں ؟ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِنْ جِبالٍ فِيها مِنْ بَرَدٍ [ النور/ 43] اور آسمان کے پہاڑوں سے اولے نازل کرتا ہے ۔ لبرد دی نرکل کی قسم کا ایک پونا ۔ یہ برد کی طرف منسوب ہے کیونکہ یہ بھی پانی میں پیدا ہوتا ہے غل مشہور ہے اصل کل داء البردۃ کہ بدہضمی الا مراض ہے بدہضمی کو بردۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس برودت طبعی کی وجہ سے عارض ہوتی ہے س سے قوت ہضم ناقابل ہوجاتی ہے ۔ البردود ٹھنڈا پہنچانے والی چیز کو کہتے ہیں اور کبھی ٹھنڈی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں کیونکہ فعول کبھی بمعنی فاعل ہوتا ہے اور کبھی بمعنی مفعول آتا ہے ۔ جیسے ماء برود ( ٹھنڈا پانی ) ثغر یرود ( خنک دانت ) جیسا کہ آنکھ کو ٹھنڈک پہنچانے والے سرمہ کو برود کہا جاتا ہے بردت الحدید میں نے لو ہے ریتی سے رگڑ یہ بردتہ بمعنی قتلتہ سے مشتق ہے اور لوہ چون کو برادۃ کہا جاتا ہے ۔ المبرۃ ( آلہ ) ریتی جس سے لوہے کو ریتتے بیں ۔ ۔ ا البرد یہ البرید کی جمع ہے اور محکمہ مواصلات کی صطلاح میں برد ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ پر پیغام رسانی کے لئے متعین رہتے ہیں ۔ وہ ہر کارے چونکہ سرعت سے پیغام رسانی کا کام کرتے تھے اس لئے ہر تیز رو کے کے لئے ھو یبرد کا محاورہ استعمال ہونے لگا ہے ۔ اور پرند گے ہر وں کو برید ان کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی اسے برید کا کام دیتے ہیں تو یہ بناء الفرح علی الفرع کے قبیل سے ہے جیسا کہ علم الا شتقا ا میں بیان کیا جاتا ہے ۔
Top