Mufradat-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 103
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا١۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاعْتَصِمُوْا : اور مضبوطی سے پکڑ لو بِحَبْلِ : رسی کو اللّٰهِ : اللہ جَمِيْعًا : سب مل کر وَّلَا : اور نہ تَفَرَّقُوْا : آپس میں پھوٹ ڈالو وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِذْ كُنْتُمْ : جب تم تھے اَعْدَآءً : دشمن (جمع) فَاَلَّفَ : تو الفت ڈال دی بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں میں فَاَصْبَحْتُمْ : تو تم ہوگئے بِنِعۡمَتِهٖۤ : اس کی نعمت سے اِخْوَانًا : بھائی بھائی وَكُنْتُمْ : اور تم تھے عَلٰي : پر شَفَا : کنارہ حُفْرَةٍ : گڑھا مِّنَ : سے (کے) النَّارِ : آگ فَاَنْقَذَكُمْ : تو تمہیں بچا لیا مِّنْھَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِھٖ : اپنی آیات لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَھْتَدُوْنَ : ہدایت پاؤ
اور سب مل کر خدا (کی ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝ 0 ۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝ 0 ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۝ 0 ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۝ 103 عصم العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، والاعْتِصَامُ : التّمسّك بالشیء، قال : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ( ع ص م ) العصم کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا۔ الاعتصام کسی چیز کو پکڑ کر مظبوطی سے تھام لینا قرآن میں ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] حبل الحَبْلُ معروف، قال عزّ وجلّ : فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] ، وشبّه به من حيث الهيئة حبل الورید وحبل العاتق، والحبل : المستطیل من الرّمل، واستعیر للوصل، ولكلّ ما يتوصّل به إلى شيء . قال عزّ وجلّ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ، فحبله هو الذي معه التوصل به إليه من القرآن والعقل، وغیر ذلک ممّا إذا اعتصمت به أدّاك إلى جواره، ويقال للعهد حبل، وقوله تعالی: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] ، ففيه تنبيه أنّ الکافر يحتاج إلى عهدين : - عهد من الله، وهو أن يكون من أهل کتاب أنزله اللہ تعالی، وإلّا لم يقرّ علی دينه، ولم يجعل له ذمّة .- وإلى عهد من الناس يبذلونه له . والحِبَالَة خصّت بحبل الصائد، جمعها : حَبَائِل، وروي ( النّساء حبائل الشّيطان) «2» . والمُحْتَبِل والحَابِل : صاحب الحبالة، وقیل : وقع حابلهم علی نابلهم «3» ، والحُبْلَة : اسم لما يجعل في القلادة . ( ج ب ل ) الحبل ۔ کے معنی رسی کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] اس کے گلے میں کھجور کی رسی ہوگی ۔ پھر چونکہ رگ بھی شکل و صورت میں رسی سے ملتی جلتی ہے اس لئے شہ رگ کو حبل الورید اور حبل العاتق کہتے ہیں اور ریت کے لمبے ٹیلے کو حبل الرمل کہاجاتا ہے ۔ استعارتا حبل کے معنی ملا دینا بھی آتے ہیں اور ہر وہ چیز جس سے دوسری چیز تک پہنچ جائے جمل کہلاتی ہے اس لئے آیت کریمہ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] اور سب مل کر خدا کی ( ہدایت کی ) رسی کو مضبوط پکڑی رہنا ۔ میں حبل اللہ سے مراد قرآن پاک اور عقل سلیم وغیرہما اشیاء ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور عہد د پیمان کو بھی حبل کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت کو دیکھو کے کہ ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے یہ خدا اور ( مسلمان ) لوگوں کے عہد ( معاہدہ ) میں آجائیں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کافر کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے دوقسم کے عہد و پیمان کی ضرورت ہے ایک عہد الہی اور وہ یہ ہے کہ وہ شخص اہل کتاب سے ہو اور کسی سمادی کتاب پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اسے اس کے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اسے ذمہ اور امان مل سکتا ہے دوسرا عہدہ ہے جو لوگوں کی جانب سے اسے حاصل ہو ۔ الحبالۃ خاص کر صیاد کے پھندے کو کہا جاتا ہے اس کی جمع حبائل ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (17) النساء حبائل الشیطان کہ عورتیں شیطان کے جال ہیں ۔ المحتبل والحابل پھندا لگانے والا ۔ ضرب المثل ہے :۔ وقع حابلھم علی ٰ نابلھم یعنی انہوں نے آپس میں شرد فساد پیدا کردیا یا ان کا اول آخر پر گھوم آیا ۔ الحبلۃ تفریق والتَّفْرِيقُ أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو : يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] ، (ر ق ) الفرق التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ والإِلْفُ : اجتماع مع التئام، يقال : أَلَّفْتُ بينهم، ومنه : الأُلْفَة ويقال للمألوف : إِلْفٌ وأَلِيفٌ. قال تعالی: إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [ آل عمران/ 103] ، وقال : لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال/ 63] . والمُؤَلَّف : ما جمع من أجزاء مختلفة، ورتّب ترتیبا قدّم فيه ما حقه أن يقدّم، وأخّر فيه ما حقّه أن يؤخّر . ولِإِيلافِ قُرَيْشٍ [ قریش/ 1] مصدر من آلف . والمؤلَّفة قلوبهم : هم الذین يتحری فيهم بتفقدهم أن يصيروا من جملة من وصفهم الله، لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال/ 63] ، وأو الف الطیر : ما ألفت الدار . الالف ( ض ) کے معنی ہیں ہم آہنگی کے ساتھ جمع ہونا ۔ محاورہ ہے ۔ الفت بینم میں نے ان میں ہم آہنگی پیدا کردی اور راضی سے الفت ( بمعنی محبت ) ہے اور کبھی مرمالوف چیز کو الف و آلف کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : { إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ } ( سورة آل عمران 103) جب تم ایک دوسرے کے دشمن نفے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ { لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ } ( سورة الأَنْفال 63) اگر تم دینا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے اور مولف اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس کے مختلف اجزاء کو یکجا جمع کردیا گیا ہو اور ہر جزء کو تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے اس کی صحیح جگہ پر رکھا گیا ہو ۔ اور آیت کریمہ ؛ { لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ } ( سورة قریش 1) قریش کے مالوف کرنے کے سبب میں ایلاف ( افعال کا ) مصدر ہے اور آیت : { وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 60) ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے ۔ میں مولفۃ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی بہتری کا خیال رکھا جائے حتی کہ وہ ان لوگوں کی صف میں داخل ہوجائیں جن کی وصف میں قرآن نے لو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم { لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ } ( سورة الأَنْفال 63) فرمایا ہے یعنی مخلص مسلمان ہوجائیں ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ شفا (کناره) شَفَا البئر وغیرها : حرفه، ويضرب به المثل في القرب من الهلاك . قال تعالی: عَلى شَفا جُرُفٍ [ التوبة/ 109] ، وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران/ 103] ، وأَشْفَى فلان علی الهلاك، أي : حصل علی شفاه، ومنه استعیر : ما بقي من کذا إلّا شَفاً أي : قلیل کشفا البئر . وتثنية شفا شَفَوَانِ ، وجمعه أَشْفَاءٌ ، ( شو ) شفا۔ کنوئیں وغیرہ کے کنارہ کو کہتے ہیں ۔ یہ قرب ہلاکت کے لئے ضرب المثل ہے ۔ قرآن میں ہے : عَلى شَفا جُرُفٍ [ التوبة/ 109] گرجانے والی کھائی کے کنارہ پر ۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران/ 103] ( اور تم ) آگ کے گڑھے کے کنارے تک فلاں ہلاکت کے قریب پہنچ گیا ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور ہر کہا جاتا ہے ما بقي من کذا إلّا شَفاً ۔۔ کہ فلاں چیز تھوڑی سی باقی رہ گئی ہے ( یہ چاند یا سورج کے غروب ہونے یا کسی کی موت کے وقت بولا جا تا ہے ) شفا کا تثنیہ شفوان اور جمع اشفاء آتی ہے ۔ حفر قال تعالی: وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران/ 103] ، أي : مکان محفور، ويقال لها : حَفِيرَة . والحَفَر : التراب الذي يخرج من الحفرة، نحو : نقض لما ينقض، والمِحْفَار والمِحْفَر والمِحْفَرَة : ما يحفر به، وسمّي حَافِر الفرس تشبيها لحفره في عدوه، وقوله عزّ وجل : أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحافِرَةِ [ النازعات/ 10] ، مثل لمن يردّ من حيث جاء، أي : أنحیا بعد أن نموت ؟. وقیل : الحافرة : الأرض التي جعلت قبورهم، ومعناه : أإنّا لمردودون ونحن في الحافرة ؟ أي : في القبور، وقوله : فِي الْحافِرَةِ علی هذا في موضع الحال . وقیل : رجع علی حافرته ورجع الشیخ إلى حافرته، أي : هرم، نحو قوله تعالی: وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] ، وقولهم : ( النقد عند الحافرة) لما يباع نقدا، وأصله في الفرس إذا بيع، فيقال : لا يزول حافره أو ينقد ثمنه، والحَفْر : تأكّل الأسنان، وقد حَفَرَ فوه حَفْراً ، وأَحْفَرَ المهر للإثناء والإرباع ( حر ) الحفر۔ وہ مٹی جو گڑھے سے نکالی جاتی ہے ( یہ اسم مفعول کے معنی میں ہے ) جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے ۔ الحفرۃ والحفیرۃ گڑھا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران/ 103] اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے ۔ المحفار والمحفر والمحفرۃ بیلچہ وغیرہ جس سے گڑھا کھودا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر گھوڑے کے سم کو حافر کہاجاتا ہے کیونکہ وہ درڑتے دقت اپنے سم سے مٹی اڑاتا ہوا چلا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحافِرَةِ [ النازعات/ 10] کیا ہم الٹے پاؤں پھر لوٹیں گے ۔ میں مردود فی الحافرۃ ۔ ایک مثل ہے اور یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو جد ھر سے آئے اسی طرف لوٹا دیا جائے ان کا مطلب یہ تھا ک ہم مرنے کے بعد پھر زندہ ہوں گے ۔ بعض نے کہا ہے ک حافرۃ سے مراد وہ زمین ہے جس میں ان کی قبریں بنائی گئی تھیں اور حافرۃ یہاں موضع حال میں ہے اور معنی یہ ہیں کہ کیا ہم لوٹائے جائیں گے اس حال میں کہ قبروں میں ہوں گے ۔ محاورہ ہے ۔ رجع علی حافرتہ اور جع الشیخ الی حافرتہ یعنی بوڑھا ہوگیا ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] آیا ہے ۔ اور جو چیز لقدر فروخت کی جائے اس کے متعلق عرب لوگ کہتے ہیں ( مثل ) النقد عند الحافرۃ ۔ اور اصل میں یہ گھوڑے کی بیع کے متعلق بولا جاتا ہے ۔ جیسے ؛ لا یذول حافرہ او ینقد ثمنہ کی اس کا سم یہاں سے جدا نہیں ہوگا جب تک کہ اس کی قیمت نقداد ادا نہ کی جائے ۔ الحفر تاکل الاسنان دانتوں کی زردی ان کو کھا جاتی ہے ۔ حفر فوہ حفرا اس کے دانت خراب ہوگئے احفر المھر ۔ بچھڑے کے ثنائی یا رباعی دانت گرگئے نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ نقذ الإِنْقَاذُ : التَّخْلِيصُ من وَرْطَةٍ. قال تعالی: وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها [ آل عمران/ 103] والنَّقْذُ : ما أَنْقَذْتَهُ ، وفَرَسٌ نَقِيذٌ: مأخوذٌ من قومٍ آخرین كأنه أُنْقِذَ منهم، وجمْعُه نَقَائِذُ. ( ن ق ذ) الانقاذ کسی خطرہ یا ہلاکت سے خلاصی دینا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها[ آل عمران/ 103] اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچالیا ۔ النقذ بمعنی چھڑا یا ہوا فر س نقیذ دشمن کے ہاتھ سے چھینا ہوا گھوڑا گویا وہ ان سے بچایا گیا ہے نقا ئذ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو
Top