Mufradat-ul-Quran - Az-Zumar : 63
لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
لَهٗ مَقَالِيْدُ : اس کے پاس کنجیاں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات کے اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ پانے والے
اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں اور جنہوں نے خدا کی آیتوں سے کفر کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں
لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ 0 ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝ 63ۧ قلد الْقَلْدُ : الفتل . يقال قَلَدْتُ الحبل فهو قَلِيدٌ ومَقْلُودٌ ، والْقِلَادَةُ : المفتولة التي تجعل في العنق من خيط وفضّة وغیرهما، وبها شبّه كلّ ما يتطوّق، وكلّ ما يحيط بشیء . يقال : تَقَلَّدَ سيفه تشبيها بالقِلادة، کقوله : توشّح به تشبيها بالوشاح، وقَلَّدْتُهُ سيفا يقال تارة إذا وشّحته به، وتارة إذا ضربت عنقه . وقَلَّدْتُهُ عملا : ألزمته . وقَلَّدْتُهُ هجاء : ألزمته، وقوله : لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر/ 63] أي : ما يحيط بها، وقیل : خزائنها، وقیل : مفاتحها والإشارة بكلّها إلى معنی واحد، وهو قدرته تعالیٰ عليها وحفظه لها . ( ق ل د ) القلد کے معنی رسی وغیرہ کو بل دینے کے ہیں ۔ جیسے قلدت الحبل ( میں نے رسی بٹی ) اور بٹی ہوئی رسی کو قلید یامقلود کہاجاتا ہے اور تلاوۃ اس بٹی ہوئی چیز کو کہتے ہیں جو گردن میں ڈالی جاتی ہے جیسے ڈور اور چاندی وغیرہ کی زنجیر اور مجازا تشبیہ کے طور پر ہر اس چیز کو جو گردن میں ڈال جائے یا کسی چیز کا احاطہ کرے قلاوۃ کہاجاتا ہے اور اسی تقلد سیفہ کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ وہ بھی قلاوۃ کی طرح گردن میں ڈال کر لٹکائی جاتی ہے ۔ جیسے وشاح ( ہار) سے توشح بہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور قلدتہ سیفا کے معنی کسی کی گردن میں تلوار یا باندھنے باتلوار سے اس کی گردن مارنے کے ہیں ۔ قلدتہ عملا کوئی کام کسی کے ذمہ لگا دینا ؛ قلدتہ ھجاء کسی پر ہجوم کو لازم کردینا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر/ 63] اس کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں ۔ میں مقالید سے مراد وہ چیز ہے جو ساری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ بعض نے اس سے خزانے اور بعض نے کنجیاں مراد لی ہیں لیکن ان سب سے اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور حفاظت کی طرف اشارہ ہے جو تمام کائنات پر محیط ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
Top