Mufradat-ul-Quran - An-Nisaa : 56
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًا١ؕ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : کفر کیا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کا سَوْفَ : عنقریب نُصْلِيْهِمْ : ہم انہیں ڈالیں گے نَارًا : آگ كُلَّمَا : جس وقت نَضِجَتْ : پک جائیں گی جُلُوْدُھُمْ : ان کی کھالیں بَدَّلْنٰھُمْ : ہم بدل دیں گے جُلُوْدًا : کھالیں غَيْرَھَا : اس کے علاوہ لِيَذُوْقُوا : تاکہ وہ چکھیں الْعَذَابَ : عذاب اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ان کو ہم عنقریب آگ میں داخل کریں گے جب ان کی کھالیں گل اور جل جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ (ہمشہ) عذاب (کا مزہ) چکھتے رہیں بیشک خدا غالب حکمت والا ہے
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْہِمْ نَارًا۝ 0ۭ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ۝ 0ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا۝ 56 الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ نضج يقال : نَضَجَ اللَّحْمُ نُضْجاً ونَضْجاً : إذا أدْرَكَ شَيّه . قال تعالی: كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها[ النساء/ 56] ، ومنه قيل : ناقة مُنَضِّجَةٌ: إذا جاوزتْ بحَمْلها وقتَ وِلادَتِهَا، وقد نَضَّجَتْ ، وفلان نَضِيجُ الرَّأْي : مُحْكَمُهُ ( ن ض ج ) نضج الاحم ( ض ) نضجا ونضجا کے معنی گوشت کے پوری طرح پک جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها[ النساء/ 56] جب ان کی کھالیں گل اور جل بائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے ۔ اسی سے ناقۃ منضجۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی حاملہ اونٹنی کے مدت دلادت سے تجاوز کر جانے کے ہیں ۔ اور پختہ رائے آدمی کو نضیج الراء ی کہا جاتا ہے ۔ جلد الجِلْد : قشر البدن، وجمعه جُلُود . قال اللہ تعالی: كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء/ 56] ، وقوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] . والجُلُود عبارة عن الأبدان، والقلوب عن النفوس . وقوله عزّ وجل : حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت/ 20] ، وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت/ 21] ، فقد قيل : الجلود هاهنا کناية عن الفروج «2» ، وجلَدَهُ : ضرب جلده، نحو : بطنه وظهره، أو ضربه بالجلد، نحو : عصاه إذا ضربه بالعصا، وقال تعالی: فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور/ 4] . والجَلَد : الجلد المنزوع عن الحوار، وقد جَلُدَ جَلَداً فهو جَلْدٌ وجَلِيد، أي : قويّ ، وأصله لاکتساب الجلد قوّة، ويقال : ما له معقول ولا مَجْلُود أي : عقل وجَلَد . وأرض جَلْدَة تشبيها بذلک، وکذا ناقة جلدة، وجَلَّدْتُ كذا، أي : جعلت له جلدا . وفرس مُجَلَّد : لا يفزع من الضرب، وإنما هو تشبيه بالمجلّد الذي لا يلحقه من الضرب ألم، والجَلِيد : الصقیع، تشبيها بالجلد في الصلابة . ( ج ل د ) الجلد کے معنی بدن کی کھال کے ہیں اس کی جمع جلود آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء/ 56] جب ان کی کھالیں گل ( اور جل ) جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] اور خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب ) جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دہرائی جاتی رہیں ) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے اس سے رونکتے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم ( ہوکر ) کی یاد کی طرف ( متوجہ ) ہوجاتے ہیں ۔ میں جلود سے مراد ابدان اور قلوب سے مراد نفوس ہیں اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت/ 20] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کان اور آنکھیں اور چمڑے ( یعنی دوسرے اعضا ) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے اور وہ اپنے چمڑوں ( یعنی اعظا ) سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں کیوں شہادت دی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جلود سے فروج یعنی شرمگاہ ہیں مراد ہیں ۔ جلدۃ ( ض ) کیس کے چمڑے پر مارنا ۔ جیسے اور اس کے دوسرے معنی درے لگانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے عصاہ ( یعنی لاٹھی کے ساتھ مارنا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور/ 4] تو ان کے اسی اور سے مارو ۔ الجلد والجلد اونٹنی کے بچہ کی بھس بھری ہوئی کھال ۔ جلد ( ک ) جلدا کے معنی قوی ہونے کے ہیں صیغہ صفت جلدۃ وجلدۃ ہے اور اس کے اصل معنی اکتساب الجلدۃ قوۃ یعنی بدن میں قوت حاصل کرنے گے ہیں ۔ محاورہ ہے ؟ ۔ مالہ معقول ولا مجلود اس میں نہ عقل ہے نہ قوت ۔ اور تشبیہ کے طور پر سخت کو اوض جلدۃ کہا جاتا ہے اس طرح قوی اونٹنی کو ناقۃ جلدۃ کہتے ہیں ۔ جلذت کذا میں نے اس کی جلد باندھی ۔ فرس مجلہ مار سے نہ ڈرونے والا گھوڑا یہ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ مجلد اس شخص کو کہتے ہیں جسے مارنے سے دور نہ ہو الجلید پالا یخ گویا صلابت میں چمڑے کے متشابہ ۔ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
Top