Mufradat-ul-Quran - At-Tur : 27
فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ
فَمَنَّ اللّٰهُ : پس احسان کیا اللہ نے عَلَيْنَا : ہم پر وَوَقٰىنَا : اور بچا لیا ہم کو عَذَابَ السَّمُوْمِ : لُو کے عذاب سے
تو خدا نے ہم پر احسان فرمایا اور ہمیں لو کے عذاب سے بچا لیا
فَمَنَّ اللہُ عَلَيْنَا وَوَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ۝ 27 منن والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] والثاني : أن يكون ذلک بالقول، وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، ( م ن ن ) المن المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔ اور دوسرے معنی منۃ بالقول یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 56] ، وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد/ 34] ، ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد/ 37] ، قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم/ 6] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 56] اور خدا ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے گا ۔ وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد/ 34] اور ان خدا کے عذاب سے کوئی بھی بچانے والا نہیں ۔ ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد/ 37] تو خدا کے سامنے نہ کوئی تمہارا مدد گار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ۔ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم/ 6] اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش جہنم سے بچاؤ ۔ سمم السَّمُّ والسُّمُّ : كلّ ثقب ضيّق کخرق الإبرة، وثقب الأنف، والأذن، وجمعه سُمُومٌ. قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] ، وقد سَمَّهُ ، أي : دخل فيه، ومنه : السَّامَّةُ «3» للخاصّة الذین يقال لهم : الدّخلل «4» ، الذین يتداخلون في بواطن الأمر، والسّمّ القاتل، وهو مصدر في معنی الفاعل، فإنه بلطف تأثيره يدخل بواطن البدن، والسَّمُومُ : الرّيح الحارّة التي تؤثّر تأثير السّمّ. قال تعالی: وَوَقانا عذاب السَّمُومِ [ الطور/ 27] ، وقال : فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ [ الواقعة/ 42] ، وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] . ( س م م ) السم ( بفتحہ سین وضمہ آں ) کے معنی تنگ سوارخ کے ہیں جیسے سوئی کا ناکہ یا ناک اور کان کا سوراخ ہوتا ہے ۔ اس کی جمع سموم آتی ہے قرآن میں ہے ۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] یاہں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ نکل جائے ۔ اور سمہ ( ن ) کے معنی کسی چیز میں گھس جانا کے ہیں ۔ اور اسی سے السامۃ ہے یعنی وہ خاص لوگ جو ہر معاملہ میں گھس کر اس کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں اور انہیں دخل بھی کہا جاتا ہے ۔ السم ۔ زہر قاتل کو کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنے لطف تاثیر سے بدن کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور یہ اصل میں مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ السموم ( لو ) گرم ہوا جو زہر کی طرح بدن کے اندر سرایت کی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَوَقانا عذاب السَّمُومِ [ الطور/ 27] اور ہمیں لو کے عذاب سے بچالیا ۔ فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ [ الواقعة/ 42]( یعنی دوزخ کی ) لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی میں ۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] اور جنوں کو اس سے بھی پہلے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔
Top