Tafseer-e-Baghwi - An-Naml : 46
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے مُوْسٰى : موسیٰ کو بِاٰيٰتِنَآ : ساتھ اپنی نشانیوں کے اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون کے وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سرداروں کے فَقَالَ : تو اس نے کہا اِنِّىْ رَسُوْلُ : بیشک میں رسول ہوں رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین کا
اور (اے محمد ﷺ جو اپنے پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے ہیں ان سے دریافت کرلو کیا ہم نے (خدائے) رحمن کے سوا اور معبود بنائے تھے کہ ان کہ عبادت کی جائے
45، واسئل من ارسلنا من قبلک من رسلنا اجعلنا من دون الرحمنالھۃ یعبدون، ان مسئو لین کی تعیین میں اختلاف ہوا ہے۔ عطاء (رح) نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کو معراج کرایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد میں سے جن کو رسول بنا کر بھیجا ان رسولوں کو اٹھا یا۔ پھر جبرئیل (علیہ السلام) نے اذان دی ، پھر اقامت کہی اور کہا اے محمد ! (ﷺ) آگے آئیں اور ان کو نماز پڑحائیں۔ پھر جب آپ (علیہ السلام) نماز سے فارغ ہوئے تو آپ (علیہ السلام) کو جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا، سل یامحمد من ارسلناقبلک من رسلنا، آیت پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، میں نہیں پوچھتا تحقیق میں نے اکتفاء کرلیا۔ اور یہی زہری ، سعید بن جبیر اور ابن زید رحمہم اللہ کا قول ہے ۔ ان حضرات نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) کے لیے رسولوں کو جمع کیا جس رات آپ (علیہ السلام) کو معراج کرایا گیا اور آپ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ان سے پوچھیں ۔ پس آپ (علیہ السلام) نے شک نہیں کیا اور کچھ نہیں پوچھا اور اکثر مفسرین رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ آپ (علیہ السلام) اہل کتاب میں سے ایمان لانے والوں سے پوچھیں جن کی طرف میں نے رسولوں کو بھیجا کہ نہیں آئے ان کے پاس رسول مگر توحید لے کر ؟ اور یہی ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ تمام روایات میں اور مجاہد (رح) ، قتادہ، ضحاک ، سدی حسن اور مقاتل رحمہم اللہ کا قول ہے ۔ اس پر عبد اللہ اور ابی رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی قرأت دلالت کرتی ہے۔ ، واسئل الذین ارسلنا الیھم قبلک رسلنا، اور سوال کا حکم دینے کا معنی قریش کے مشرکین کو تقریرکرنا ہے کہ نہ کوئی رسول اور نہ کوئی کتاب ایسی آئی ہے جو اللہ عزوجل کے غیر کی عبادت کا حکمے۔
Top