Mutaliya-e-Quran - Al-Qasas : 44
وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَ مَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِیْنَۙ
وَمَا كُنْتَ : اور آپ نہ تھے بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ : مغربی جانب اِذْ : جب قَضَيْنَآ : ہم نے بھیجا اِلٰى مُوْسَى : موسیٰ کی طرف الْاَمْرَ : حکم (وحی) وَ : اور مَا كُنْتَ : آپ نہ تھے مِنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : دیکھنے والے
(اے محمدؐ) تم اُس وقت مغربی گوشے میں موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰؑ کو یہ فرمان شریعت عطا کیا، اور نہ تم شاہدین میں شامل تھے
[وَمَا كُنْتَ [اور آپ ﷺ نہیں تھے ] بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ [مغربی (حصے) کی جانب ] اِذْ قَضَيْنَآ [جب ہم نے فیصلہ کیا ] اِلٰى مُوْسَى [موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف ] الْاَمْرَ [اس حکم کا ] وَمَا كُنْتَ [اور آپ ﷺ نہیں تھے ] مِنَ الشّٰهِدِيْنَ [موقعہ پر موجود ہونے والوں میں سے ] نوٹ۔ 2: آیات 44 تا 46 ۔ میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کی نبوت کی دلیل دیتا ہے کہ ایک وہ شخص جس نے ایک حرف بھی نہ پڑھا ہو ، جو اگلی کتابوں سے نہ آشنا ہو ، جس کی قوم علمی مشاغل سے اور گذشتہ تاریخ سے بالکل بیخبر ہو ، وہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بالکل ٹھیک گذشتہ واقعات کو اس طرح بیان کرے جیسے کہ اس کے اپنے چشم دید ہوں ، کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعہ سے انھیں وہ تمام باتیں بتاتا ہے ۔ (ابن کثیر (رح) ) یہ امر ملحوظ رہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی سر گذشت جس تفصیل اور صحت کے ساتھ قرآن میں بیان ہوئی ہے اس تفصیل و صحت کے ساتھ تورات میں بیان نہیں ہوئی ۔ اگر آپ سر گذشت کے اتنے ہی حصہ کو لے کر ، جتنی اس سورة بیان ہوئی ہے ، تورات کے بیان سے اس کا موازنہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ قرآن کے بیان کے مقابلہ میں تورات کا بیان بےربط ہے اور ان تمام ضروری اجزاء سے خالی ہے جو اس سرگزشت کی اصل روح ہیں ۔ اگر طوالت کا اند یشہ نہ ہوتا تو میں قرآن اور تورات دونوں کے بیانات کا مقابلہ کر کے دکھاتا کہ تورات میں سرگزشت کے اصل اجزاء یا تو غائب ہیں یا مسخ شدہ ہیں ۔ بر عکس اس کے قرآن نے واقعہ کے تمام فطری اجزاء ایسے منطقی ربط و تسلسل کے ساتھ پیش کیے ہیں کہ ان کی موعظت و حکمت دل میں اترتی چلی جاتی ہے ۔ (تدبر قرآن )
Top