Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 195
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے
[وَلْـتَـکُنْ : اور چاہیے کہ ہو ] [مِّنکُمْ : تم لوگوں میں ] [اُمَّـۃٌ : ایک گروہ جو ] [یَّدْعُوْنَ : دعوت دے ] [اِلَی الْخَیْرِ : بھلائی کی طرف ] [وَیَـاْمُرُوْنَ : اور تاکید کرے ] [بِالْمَعْرُوْفِ : نیکی کی ] [وَیَنْہَوْنَ : اور منع کرے عَنِ الْمُنْکَرِ : برائی سے ] [وَاُولٰٓئِکَ : اور وہ لوگ ] [ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : ہی مراد پانے والے ہیں ] ن ک ر نَــکِرَ (س) نَـکَرًا : (1) کسی چیز کا عرفان نہ ہونا ‘ کسی کو اجنبی سمجھنا۔ (2) ناگوار ہونا ‘ برا ہونا (اجنبیت انسان کو اچھی نہیں لگتی) ۔{ نَـکِرَھُمْ وَاَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃًط } (ھود :70) ” انہوں نے اجنبی سمجھا ان کو اور محسوس کیا ان سے خوف۔ “ نَـکِیْرٌ : فَعِیْلٌ کا وزن ہے۔ اسم ذات کے معنی میں آتا ہے۔ ناواقفیت ‘ عدم عرفان۔ { فَـکَیْفَ کَانَ نَـکِیْرِ ۔ } (سبا) ” تو کیسی تھی مجھ سے ناواقفیت ! “ { مَالَـکُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ یَّـوْمَئِذٍ وَّمَالَـکُمْ مِّنْ نَّــکِیْرٍ ۔ } (الشوریٰ ) ” تمہارے لیے نہیں ہوگی کسی قسم کی کوئی پناہ گاہ اس دن اور تمہارے لیے نہیں ہوگا کسی قسم کا کوئی عدم عرفان۔ “ نُکْرٌ اور نُـکُرٌ (صفت) : ناگوار ‘ برا۔ { فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّـکْرًا ۔ } (الکہف) ” تو وہ عذاب دے گا اس کو ایک برا عذاب۔ “{ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰی شَیْئٍ نُّــکُرٍ ۔ } (القمر) ” جس دن بلائے گا بلانے والا ایک ناگوار چیز کی طرف۔ “ اَنْـکَرُ (افعل التفضیل) : زیادہ برا ‘ زیادہ ناگوار۔{ اِنَّ اَنْـکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ ۔ } (لقمٰن) ” بیشک ناگوار ترین آواز گدھے کی آواز ہے۔ “ اَنْـکَرَ (افعال) اِنْکَارًا : واقفیت کا اقرار نہ کرنا ‘ پہچاننے سے انکار کرنا۔ { یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰہِ ثُمَّ یُنْکِرُوْنَھَا } (النحل :83) ” وہ لوگ پہچانتے ہیں اللہ کی نعمت کو ‘ پھر پہچاننے سے انکار کرتے ہیں اس کا۔ “ مُنْکِرٌ (اسم الفاعل) : نہ پہچاننے والا ‘ انکار کرنے والا۔ { فَعَرَفَھُمْ وَھُمْ لَـہٗ مُنْـکِرُوْنَ ۔ } (یوسف) ” تو اس نے پہچانا ان کو اور وہ لوگ اس کو نہ پہچاننے والے تھے۔ “{ قُلُوْبُھُمْ مُّنْکِرَۃٌ} (النحل :22) ” ان کے دل انکار کرنے والے ہیں۔ “ مُنْکَرٌ : اسم المفعول ہے اور صفت کے طور پر بھی آتا ہے۔ (1) نہ پہچانا ہوا ‘ اجنبی۔ (2) ناگواری۔ (3) برائی (جس کو انسانی فطرت نہیں پہچانتی) ۔ { اِنَّـکُمْ قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ ۔ } (الحجر) ” بیشک تم لوگ ایک اجنبی قوم ہو۔ “{ وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰـتُـنَا بَـیِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمُنْکَرَط } (الحج :72) ” اور جب کبھی پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان کو ہماری واضح آیات تو تُو دیکھتا ہے ان کے چہروں میں جنہوں نے کفر کیا ‘ ناگواری کو) ۔ “ برائی کے مفہوم میں آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔ نَـکَّرَ (تفعیل) تَنْکِیْرًا : کسی کو ناقابل پہچان بنانا ‘ کسی کا بھیس بدلنا۔ نَـکِّرْ (فعل امر) : تو بھیس بدل دے۔ { نَـکِّرُوْا لَـھَا عَرْشَھَا } (النمل :41) ” تم لوگ بھیس بدل دو اس کے لیے اس کے تخت کا۔ “ ترکیب :” وَلْتَـکُنْ “ ‘ ” کَانَ “ کا فعل امر غائب میں واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے اور یہ ” کَانَ “ تامہ ہے۔ ” اُمَّـۃٌ“ اس کا فاعل ہے اور نکرہ مخصوصہ ہے۔ ” یَدْعُوْنَ ‘ یَاْمُرُوْنَ “ اور ” یَنْھَوْنَ “ اس کی خصوصیت ہیں۔ ” اُمَّـۃٌ“ مؤنث غیر حقیقی ہے اس لیے مذکر کے صیغے بھی جائز ہیں اور اسم جمع ہے ‘ اس لیے جمع کے صیغے آئے ہیں۔ ” تَفَرَّقُوْا “ فعل ماضی کا جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ ” جَائَ “ کا فاعل ” اَلْاٰیٰتُ “ محذوف ہے۔” اَلْـبَـیِّنٰتُ “ اس کی صفت ہے اور مؤنث غیر حقیقی ہونے کی وجہ سے فعل ” جَائَ تْ “ کے بجائے ” جَائَ “ بھی درست ہے۔ نوٹ : ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں سے کچھ زیادہ وسیع النظر قسم کے افراد اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر فرض تو ہے لیکن یہ فرض کفایہ ہے ‘ فرض عین نہیں ہے۔ لیکن علامہ ابن کثیر (رح) نے یہ مطلب نہیں لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ” یہ یاد رہے کہ ہر ہر متنفس پر تبلیغ حق فرض ہے ‘ تاہم ایک جماعت تو خاص اسی کام میں مشغول رہنی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے اسے ہاتھ سے دفع کر دے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے۔ اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو اپنے دل سے اسے متغیر کرے۔ یہ ضعیف ترین ایمان ہے “۔ (تفسیر ابن کثیر) مفتی محمد شفیع (رح) کا کہنا ہے کہ ” اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی ذمہ داری ہر مسلمان پر ڈالنے کے لیے قرآن کریم میں بہت سے واضح ارشادات وارد ہوئے ہیں “۔ انہوں نے سورة العصر کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق خسارے سے صرف وہی انسان بچے گا جو ایمان اور عمل صالح کے ساتھ دوسروں کو حق اور صبر کی تاکید کرے گا۔ نیز آل عمران :110 کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں پوری امت پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے۔ (معارف القرآن) ہمارے لبرل بھائیوں کے ذہنوں میں اس ضمن میں اور بھی بہت سی الجھنیں ہیں۔ ان کا تسلی بخش جواب مفتی محمد شفیع (رح) نے اس آیت کی تفسیر میں دیا ہے اور حق تو یہ ہے کہ حق ادا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان میں سے چند اہم نکات ہم اپنے الفاظ میں دے رہے ہیں۔ (1) خیر کی تعریف خود رسول اللہ ﷺ نے بیان فرما دی ہے کہ خیر سے مراد قرآن اور میری سنت کا اتباع ہے۔ اسی طرح منکر میں وہ تمام برائیاں داخل ہیں جن کا آپ ﷺ کی طرف سے ناجائز قرار دینا معلوم و معروف ہو۔ (2) کسی شخص کو اگر قرآن و حدیث کے مطابق معروف اور منکر کا علم نہیں تو اس پر یہ علم حاصل کرنا فرض ہے ‘ لیکن اس خدمت کے لیے کھڑا ہو ناجائز نہیں ہے۔ اس لیے جاہل واعظین اور عوام سے سنی سنائی غلط باتوں پر لوگوں سے جھگڑا کرنا جائز نہیں۔ (3) قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امت کے ہر فرد پر لازم ہے۔ البتہ ہر فرد پر اس کی استطاعت اور قدرت کے مطابق یہ فریضہ عائد ہوگا۔ (4) ایک شخص جب تک متعلقہ علم حاصل کرنے کا فرض ادا نہیں کرتا ‘ اس وقت تک یہ فریضہ اس کی استطاعت کے باہر ہے۔ (5) ایک شخص کو ہاتھ سے یا زبان سے کسی برائی کو روکنے میں کوئی شدید خطرہ لاحق ہو تو یہ فریضہ اس کی قدرت سے باہر ہے ‘ اس لیے اس کے ترک کرنے پر اس کو گناہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر کوئی نقصان برداشت کر کے بھی یہ فریضہ سرانجام دیتا ہے تو یہ بڑی فضیلت کی بات ہے ‘ لیکن ایسا کرنا اس پر فرض یا واجب نہیں تھا۔ (6) جو امور واجب ہیں ان میں معروف کا امر اور منکر سے نہی کرنا واجب ہے اور مستحب امور میں ایسا کرنا مستحب ہے ‘ واجب نہیں ہے۔ (7) روکنے ٹوکنے کا معاملہ صرف ان مسائل میں ہوگا جو امت میں مشہور و معروف اور سب کے نزدیک متفق علیہ ہیں۔ اجتہادی مسائل جن میں اصول شرعیہ کے ماتحت آراء ہوسکتی ہیں ان میں یہ روک ٹوک کا سلسلہ نہ ہونا چاہیے۔
Top