Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاخْتِلَافِ : اور آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّھَارِ : اور دن لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں
[اِنَّ : یقینا ] [فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں ] [وَاخْتِلَافِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ : اور دن اور رات کے مختلف ہونے (یعنی آنے جانے) میں ] [لَاٰیٰتٍ : بیشک کچھ نشانیاں ہیں ] [لّاُولِی الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے ] ج ن ب جَنَبَ (ن) جَنْـبًا : پہلو پر مارنا ‘ کسی سے کسی چیز کو ہٹانا ‘ دُور کرنا۔ اُجْنُبْ (فعل امر) : تو دور کر ۔ { وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ۔ } (ابراھیم) ” تو دور کر دے مجھے اور میرے بیٹوں کو کہ ہم پرستش کریں بتوں کی۔ “ جَنِبَ (س) جَنَابَۃً : ناپاک ہونا۔ (اس حالت میں انسان دوسروں سے اور عبادات سے دور رہتا ہے) ۔ جَنَّبَ (تفعیل) تَجْنِیْبًا : کسی کو کسی چیز سے ہٹانا ‘ بچانا۔ { وَسَیُجَنَّـبُھَا الْاَتْقَی ۔ } (الیل) ” اور بچایا جائے گا اس سے زیادہ پرہیزگار کو۔ “ تَجَنَّبَ (تفعّل) تَجَنُّـبًا : دور ہونا۔ { وَیَتَجَنَّـبُھَا الْاَشْقَی ۔ } (الاعلٰی) ” اور دور ہوتا ہے اس سے زیادہ بدبخت۔ “ اِجْتَنَبَ (افتعال) اِجْتِنَابًا : کسی چیز سے اہتمام سے بچنا ‘ دور رہنا۔ { وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓــئِرَ الْاِثْمِ } (الشوریٰ :37) ” اور وہ لوگ جو دور رہتے ہیں کبیرہ گناہوں سے۔ “ اِجْتَنِبْ : تو بچ ‘ تو دور رہ۔ { وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ۔ } (الحج) ” اور تم لوگ دور رہو جھوٹی بات سے۔ “ جَنْبٌ ج جُنُوْبٌ : (1) پہلو ‘ کروٹ (2) پہلو والا ‘ قربت والا۔ { وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَــآئِمًاج } (یونس :12) ” اور جب کبھی چھوتی ہے انسان کو تکلیف تو وہ پکارتا ہے ہم کو اپنی کروٹ سے یا بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے “۔ { وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِلا } (النسآئ :36) ” اور کروٹ کے ساتھی سے اور مسافر سے۔ “ جُنُبٌ : (1) دوری والا (2) ناپاک۔ { وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ } (النسآ :36) ” اور دور کے پڑوسی اور قریبی ساتھی سے “۔ { وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُـبًا فَاطَّھَّرُوْاط } (المآئدۃ :6) ” اگر تم لوگ ناپاک ہو تو خوب پاک ہو جائو۔ “ جَانِبٌ (فَاعِلٌ کا وزن) : (1) کسی چیز کا کنارہ ۔ (2) کسی کی طرف ۔ { اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ } (بنیٓ اسرائیل :68) ” تو کیا تم لوگ امن میں ہوگئے اس سے کہ وہ دھنسا دے تمہارے ساتھ زمین کے کنارے کو “۔ { وَنَادَیْنٰـہُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ } (مریم :52) ” اور ہم نے آواز دی اس کو طور کی داہنی طرف سے۔ “ ترکیب : ” لَاٰیٰتٍ “ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور ” اِنَّ “ کا اسم ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے۔ ” فِیْ خَلْقِ “ سے ” وَالنَّھَارِ “ تک قائم مقام خبر ہے اور ” لِاُولِی الْاَلْبَابِ “ متعلق خبر ہے۔ ” قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا “ حال ہے ” اُولِی الْاَلْبَابِ “ کا۔” رَبَّـنَا مَا خَلَقْتَ “ سے پہلے ” فَـیَقُوْلُوْنَ “ محذوف ہے۔ ” خَلَقْتَ “ کا مفعول ” ھٰذَا “ ہے اور ” بَاطِلًا “ حال ہے ” ھٰذَا “ کا۔ ” مَنْ “ شرطیہ ہے اس لیے ” تُدْخِلِ “ مجزوم ہے۔ نوٹ 1 : اگر آپ کسی باغ (park) میں دیکھتے ہیں کہ گھاس اور پودے بےترتیبی سے جھاڑ جھنکاڑ کی طرح اگے ہوئے ہیں ‘ تو آپ کی عقل تسلیم کرے گی کہ یہ گھاس اور پودے خود بخود اُگ آئے ہیں اور ان کا کوئی مالی نہیں ہے۔ پھر آپ کسی دوسرے باغ میں دیکھتے ہیں کہ وہاں کی گھاس اور پودوں کے اگنے میں ایک نظم ‘ ترتیب اور حسن ہے ‘ تو آپ کی عقل تسلیم کرلے گی کہ اس باغ کا ایک مالی ہے ‘ خواہ وہ مالی کہیں نظر نہ آ رہا ہو۔ اس کائنات میں ہم دیکھتے ہیں کہ زمین ‘ چاند ‘ سورج ‘ سیارے ‘ یہاں تک کہ ایک حقیر سے ذرّے ایٹم کے اندر الیکٹرون تک گردش کر رہے ہیں۔ ہر چیز کی گردش دائیں سے بائیں جانب (anti clockwise ) ہے۔ ہر ایک کی گردش کا ایک مقررّہ مدار (orbit) ہے۔ ہر ایک کی شکل بیضوی ہے۔ باغ میں سب پودوں کو پانی ایک ہی دیا جاتا ہے لیکن پھل غذائیت اور ذائقے کے لحاظ سے مختلف آتے ہیں۔ دودھ دینے والے جانور چارہ کھاتے ہیں ‘ اسی سے خون بھی بنتا ہے اور گوبر بھی ‘ پھر انہی کے درمیان سے خالص دودھ نکلتا ہے۔ یہ اور ایسی بیشمار نشانیوں کے ذکر سے قرآن مجید بھرا پڑا ہے جن سے ہر دور کا انسان اپنی ذہنی سطح کے مطابق بہت آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ یہ کائنات خود بخود وجود میں آنے والی چیز نہیں ہے ‘ بلکہ اس کا ایک خالق اور مالک ہے ‘ خواہ ہم کو وہ نظر نہ آئے۔ یہ وہ راستہ ہے جس کے ذریعے ہر ایک غیر متعصب ّذہن ایمان باللہ تک خود بخود رسائی حاصل کرسکتا ہے اور جس کے لیے وہ کسی نبی یا رسول کی دعوت کا محتاج نہیں ہے۔ نوٹ 2: کسی الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کی کوشش میں جب ڈور کا سرا ہاتھ آجاتا ہے تو پھر اسے مضبوطی سے پکڑ کر ہم ڈور کو مزید سلجھاتے ہیں۔ اسی طرح ایمان باللہ تک رسائی ہوجانے کے بعد جب انسان اللہ کو یاد کرتے ہوئے کائنات پر مزید غور و فکر کرتا ہے ‘ تو اس کا ذہن کچھ مزید حقائق تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک تو کوئی اور ہے لیکن اس پر تصرف کا اختیار انسان کو حاصل ہے۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ انسان میں غلط اور صحیح کی تمیز اور ایک اخلاقی حس موجود ہے۔ لیکن صحیح پر انعام اور غلطی پر سزا نہیں ملتی۔ اخلاقی قوانین کا نتیجہ اوّل تو نکلتا نہیں اور اگر کبھی نکلتا بھی ہے تو وہ غیر متناسب ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مادی قوانین کا نتیجہ لازمی نکلتا ہے ‘ البتہ اس کے ظہور میں وقفہ حائل ہوتا ہے۔ گندم کے بیج سے گندم ہی نکلتی ہے لیکن تین چار ماہ بعد۔ آم کے بیج سے آم ہی نکلتا ہے لیکن چار پانچ سال بعد۔ کھجور اور جامن کے بیج کا نتیجہ نکلنے میں تیس چالیس سال کا وقفہ حائل ہوتا ہے۔ یہ مشاہدہ ہر غیر متعصب ّذہن کو اس نتیجہ تک پہنچا دیتا ہے کہ اس کائنات پر تصرف ّکا اختیار اس کے خالق ومالک کی مرضی کے مطابق کرنے یا نہ کرنے کا نتیجہ اور دیگر اخلاقی قوانین کا نتیجہ لازماً نکلتا ہے ‘ البتہ اس کے ظہور میں ہر انسان کی اپنی زندگی کا وقفہ حائل ہوتا ہے جو عام طور پر ستر اسّی (70 ۔ 80) سال کا ہوتا ہے۔ ایک حکیمانہ قول کے مطابق جب کسی انسان کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی قیامت قائم ہوجاتی ہے۔ اس طرح ہر ایک غیرمتعصب ذہن ایمان بالآخرۃ تک از خود رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ نوٹ 3: اپنے مشاہدے اور غور و فکر کے نتیجے میں جن لوگوں کا ذہن ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کا ایک اجمالی تصو ّر حاصل کرلیتا ہے ‘ ان کے سامنے جب کسی نبی یا رسول کی دعوت پیش کی جاتی ہے تو وہ لپک کر اس کو قبول کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے اپنے دل کی آواز ہوتی ہے۔ پھر وہ نبی یا رسول علم ِ وحی کے ذریعے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کے اجمالی خاکے میں تفصیلات کا رنگ بھرتا ہے۔ اس طرح ایمانیاتِ ثلاثہ یعنی ایمان باللہ ‘ ایمان بالآخرہ اور ایمان بالرسالت کی تکمیل ہوتی ہے۔
Top