Mutaliya-e-Quran - An-Najm : 30
ذٰلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدٰى
ذٰلِكَ : یہی مَبْلَغُهُمْ : ان کی انتہا ہے مِّنَ الْعِلْمِ ۭ : علم میں سے اِنَّ رَبَّكَ : بیشک رب تیرا هُوَ اَعْلَمُ : وہ زیادہ جانتا ہے بِمَنْ ضَلَّ : اس کو جو بھٹک گیا عَنْ سَبِيْلِهٖ ۙ : اس کے راستے سے وَهُوَ اَعْلَمُ : اور وہ زیادہ جانتا ہے بِمَنِ اهْتَدٰى : اس کو جو ہدایت پا گیا
اِن لوگوں کا مبلغ علم بس یہی کچھ ہے، یہ بات تیرا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ اُس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور کون سیدھے راستے پر ہے
ذٰلِكَ مَبْلَغُهُمْ [ یہ ان کے پہنچنے کی جگہ ہے ] مِّنَ الْعِلْمِ ۭ [علم میں سے ] اِنَّ رَبَّكَ [بیشک آپ کا رب ] هُوَ اَعْلَمُ [ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے ] بِمَنْ ضَلَّ [ اس کو جو بھٹک گیا ] عَنْ سَبِيْلِهٖ ۙ [ اس کے راستے سے ] وَهُوَ اَعْلَمُ [ اور وہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے ] بِمَنِ اهْتَدٰى [اس کو جس نے ہدایت پائی ] نوٹ ۔ 1: آیت ۔ 30 ۔ میں ذلک کا اشارہ گزشتہ آیت میں الحیوۃ الدنیا کی طرف ہے ۔ اس طرح آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان کا علم دنیوی زندگی تک محدود ہے ۔ نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ آیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ علم کی پہنچ دنیوی زندگی تک ہے ۔ کیونکہ علم کی پہنچ تو اس سے آگے بھی ہے ۔ اس لیے یہ کہا گیا ہے کہ علم کے ذریعہ یہ لوگ دنیوی زندگی کی سہولیات حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس سے آگے کا علم حاصل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ یہی بات سورة روم کی آیت ۔ 7 ۔ میں اس طرح کہی گئی کہ یہ لوگ دنیوی زندگی میں سے کچھ ظاہر کا علم رکھتے ہیں اور اس کے انجام یعنی آخرت سے غفلت برتنے والے ہیں یعنی ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ بھی اور دوسرے لوگ بھی دنیوی زندگی کے انجام کا علم حاصل نہ کریں اور اس سے غافل ہی رہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے توہمات اور تمناؤں کی بنیاد پر انہوں نے جو خیالی محل سجا رکھے ہیں آخرت کا علم انھیں چکنا چور کردیتا ہے اس لیے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے وہ بنکارتے ہیں کہ کہاں ہے بلی ۔ بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی ۔ پھر یہ لوگ اپنے طرز فکر کو منطقی استدلال کا جامہ بھی پہناتے ہیں یعنی اسے Ratioalise بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو چیز ہمارے حواس خمسہ کے دائرے کے اندر ہے اسے تو ماننا چاہیے اور ہم مانتے ہیں ۔ دانشمندی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ تحقیق کرنے کے بعد ایسی چیزوں کو مان لیا جائے لیکن جس چیز کو ہم نے چھوا نہیں ، چکھا نہیں ، سونگھا نہیں ، سنا نہیں ، دیکھا نہیں ، اس پر ہم تحقیق نہیں کرسکتے ۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسی خیالی چیزوں کو ماننے سے انکار کردیا جائے ۔ زمانہ جاہلیت کی اس دانشمندی کو آج کے ترقی یافتہ دور میں سائنٹفک طرز فکر کہتے ہیں ۔ زمانہ جاہلیت میں ” خیالی چیزوں “ کو ماننے والوں کو بطور تضیحک اور استھزاء ” سفھاء “ کہا جاتا تھا ، آج بالکل اسی انداز میں ایسے لوگوں کی سوچ کو غیر سانٹفک قرار دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ جس سانٹفک طرز فکر پر یہ اتنا اتراتے ہیں اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ ایک شخص کو کسی جگہ سے دھواں اٹھتا نظر آتا ہے تو وہ مان لیتا ہے کہ ہاں ! وہاں دھواں ہے لیکن جب ہم اسے بتاتے ہیں کہ وہاں آگ لگی ہوئی ہے، تو وہ بنکارتا ہے کہ کہاں ہے آگ ! کیونکہ آگ نظر نہیں آرہی ہے ، جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ دھواں آگ کی علامت ہے ۔ دھویں کا وجود آگ کے وجود کا ثبوت ہے۔ اب ” اسلام کا جائزہ “ کورس میں ” وجود باری تعالیٰ “ کے سبق کو ذہن میں تازہ کریں جس میں آپ کو بتایا جاچکا ہے کس طرح انسان کو بہت کچھ سکھا پڑھا کر اور بہت سی صلاحیتوں سے آراستہ کرکے دنیا کی امتحان گاہ میں بھیجا گیا ہے ۔ ان میں ایک صلاحیت یہ بھی کہا گیا ہے ۔ اس امتحان گاہ میں انسان کو جو امتحان کا پرچہ ملتا ہے، اس کا پہلا سوال اسی صلاحیت کے استعمال سے متعلق ہے اور یہ سوال لازمی (Compulsory) ہے اسے انسان (Choice) میں چھوڑ نہیں سکتا ۔ اس صلاحیت کو استعمال کرنے سے انکار کو ہمارے دانشمند اور سائنسدان بڑے فخر سے سائنٹفک طرز فکر کہتے ہیں اور قرآن ہمیں بتارہا ہے کہ یہ ہے ان کے پہنچنے کی وہ جگہ جہاں تک وہ لوگ اپنے علم سے پہنچ سکے ہیں ۔
Top