غافل رکھا تمہیں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس نے یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔
اس میں پانچ مسائل ہیں :
لغوی تشریح اور شان نزول :
مسئلہ نمبر 1 : الھکم التکاثر۔ تمہیں غافل کردیا۔ فالھی تھا عن ذی تمائم مغیل میں نے اسے مکمل سال کے بچے جو دودھ پیتا تھا سے غافل کردیا۔ آیت کا معنی یہ ہے مال اور تعداد کی کثرت پر فخر و مباہات نے تمہیں اللہ کی طاعت سے غافل کردیا ہے، یہاں تک کہ تم مر گئے اور قبروں میں دفن کردیئے گئے۔ ایک قول یہ کیا گیا ؛ الھکم کا معنی ہے تمہیں بھلا دیا۔ التکاثر یعنی اموال اور اولاد کی کثرت پر فخر کرنا۔ یہ حضرت ابن عباس اور حضرت حسن بصری کا قول ہے۔ قتادہ نے کہا : قبائل پر فخر کرنا، ضحاک نے کہا ؛ معاش اور تجارت پر فخر نے تمہیں غافل کردیا۔ یہ جملہ کہا جاتا ہے ؛ لھیت عن کذا، الھی لھیا ولھیانا۔ جب تو اسے بھول جائے، اسے ترک کدے اور اس سے اعراض کرے۔ الھاہ اسے غافل کردے۔ لھاہ بہ تلھیۃ اسے مشغول کردیا۔ تکاثر کا معنی کثرت میں مقابلہ کرنا۔ مقاتل، قتادہ اور دوسرے علماء نے کہا ؛ یہ یہودیوں کے حق میں بات نازل ہوئی ،۔ جب انہوں نے کہا ؛ ہم بنی فلاں سے زیادہ ہیں۔ بنی فلاں، بنی فلاں سے زیادہ نہیں انہیں اس چیز نے غافل کردیا یہاں تک کہ وہ گمراہی میں مرگئے۔ ابن زید نے کہا : یہ انصار کے ایک خاندان کے بارے میں نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس، مقاتل اور کلبی نے کہا : یہ قریش کے دو قبیلوں کے بارے میں نازلہوئی جو بنو عبد مناف اور بنو سہم تھے۔ انہوں نے دور اسلام میں سرداروں اور اشراف کے اعتبار سے باہم گنتی کی اور فخر و مباہات کیا۔ ہر ایک خاندان نے کہا : ہم سے ایک زیادہ سردار رکھتا ہے، غلبہ رکھتا ہے، تعداد زیادہ رکھتا ہے اور پناہ دینے والا زیادہ رکھتا ہے تو بنو عبد مناف، بنو سہم پر غالب آگئے پھر انہوں نے مردوں کا شمار کیا تو بنو سہم ان پر غالب رہے۔ تو یہ آیات نازل ہوئیں کہ تم نے زندوں کے ساتھ باہم کثرت کا مقابلہ کیا تو تم راضی نہ ہوئے یہاں تک کہ تم مردوں کے ساتھ فخر کرنے تک جا پہنچے۔
سعید نے قتادہ سے یہ روایت نقل کی ہے وہ کہا کرتے تھے : ہم بنی فلاں سے زیادہ ہیں، ہم بنی فلاں سے زیادہ تعداد والے ہیں۔ اس میں سے ہر روز کوئی نہ کوئی کم ہوتا رہا اللہ کی قسم ! وہ اسی طرح رہے، یہاں تک کہ وہ سارے کے سارے اہل قبور میں سے ہوگئے۔ عمرو بن دینار سے مروی ہے : انہوں نے قسم اٹھائی کہ یہ تاجروں کے بارے میں نازل ہوئی۔ شیبان نے قتادہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ یہ اہل کتاب کے حق میں نازل ہوئی۔
میں کہتا ہوں : جو اقوال ذکر کیے گئے ہیں آیت انہیں اور غیر کو بھی عام ہے۔ صحیح مسلم میں مطرف سے مروی ہے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ الھکم التکاثر پڑھ رہے تھے فرمایا انسان کہتا ہے مالی مالی وھل لک یا ابن آدم من مالک الا ما اکلت فافنیت او لبست فابلیت او تصدقت فامضیت وما سوی ذلک فذاھب و تارکہ للناس۔ میرا مال، میرا مال اے انسان ! تیرا مال نہیں مگر جو تو نے کھالیا تو نے اسے فنا کردیا یا پہن لیا تو نے اسے بوسیدہ کرنا یا صدقہ کردیا تو آگے بھیج دیا اس کے سوا سب جانے والے ہے اور اسے لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے۔
بخاری نے ابن شہاب سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت انس بن مالک نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : لو ان لابن آدم وادیا من ذھب لاحب ان یکون لہ وادیان ولن یملا فاہ الا التراب و یتوب اللہ علی من تاب۔ اگر انسان کی سونے کی ایک وادی ہو تو وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی دو وادیاں ہوں مٹی کے سوا کوئی چیز اس کا منہ نہیں بھر سکتی اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے نظر رحمت فرماتا ہے۔
ثابت نے انس سے انہوں نے حضرت ابی سے یہ قول نقل کیا ہے : ہم اسے قرآن کا حصہ خیال کرتے ہیں یہاں تک کہ الھکم التکاثر سورت نازل ہوئی۔ ابن عربی نے کہا : یہ صحیح اور عمدہ نص ہے اہل تفسیر سے غائب رہی وہ خود بھی جاہل رہے اور دروسروں کو بھی جہالت میں رکھا اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے اس کی معرفت نصیب فرمائی۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا : نبی کریم نے یہ سورت پڑھی فرمایا : تکاثر اموال کا مطلب ہے ناحق اسے جمع کرنا، اس کے حق کو روک لینا اور برتنوں میں اسے باند کر رکھنا۔
زیارت مقابر کا معنی و مفہوم :
مسئلہ نمبر 2: حتی زرتم المقابر۔ یہاں تک کہ تمہیں موت آپہنچی تو تم قبروں میں زائر کی طرح ہوگئے تم ان سے لوٹو گے جس طرح زائر اپنے گھر کی طرف لوٹتا ہے وہ گھر جنت ہو یا جہنم ہو، جو آدمی فوت ہوجاتا ہے اس کے لیے یہ جملہ بولتے ہیں : قد زار قبرہ۔
ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے تعداد کی کثرت پر باہم فخر نے تمہیں غافل کردیا یہاں تک کہ تم نے مردوں کو شمار کیا۔ جس طرح پہلے گزر چکا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ وعید ہے یعنی تم دنیا کے مفاخر میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ تم قبروں کی زیارت کرنے لگے تو اللہ کا عذاب تم پر نازل ہوگا وہ تم ضرور دیکھو گے۔
مقابر کی لغوی تشریح :
مسئلہ نمبر 3: مقابر، مقبرہ اور مقبرہ کی جمع ہے جس کا معنی قبریں ہیں۔ شاعر نے کہا :
اری اھل القصور اذا امیتوا۔۔۔ بنوا فوق المقابر بالصخور
ابوا الا مباھاۃ و فخرا۔۔۔ علی الفقراء حتی فی القبور
میں محلات والوں کو دیکھتا ہوں جب وہ مرتے ہیں تو وہ قبروں پر بڑے بڑے پتھر لگاتے ہیں۔ انہوں نے یہ عمل فقرا پر فخر و مباہات کے لیے کیا یہاں قبروں میں بھی یہی طرز عمل اپنایا۔
ایک شاعر نے کہا :
لکل اناس مقبر بفنائھم۔۔۔ فھم ینقصون والقبور تزید
تمام انسانوں کے لیے ان کے اپنے اپنے میدانوں میں قبرستان ہیں لوگ کم ہورہے ہیں اور قبریں زیادہ ہورہی ہیں۔
ابو سعید مقبری کے لیے دونوں طرح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مقبری اور مقبری، وہ قبرستان میں رہا کرتے تھے۔ قبرت المیت اقبرہ، اقبرہ قبرا، یعنی میں نے اسے دفن کیا۔ اقبرتہ یعنی میں نے اسے دفن کرنے کا حکم دیا۔ اس بارے میں گفتگو سورة عبس میں گزر چکی ہے۔
زیارت قبور کی شرعی حیثیت اور اس کے فوائد :
مسئلہ نمبر 4: قرآن حکیم میں مقابر ذکر صرف اس سورت میں ہوا ہے قبروں کی زیارت سخت دل والے کے لیے زبردست دوا ہے کیونکہ یہ عمل موت اور آخرت کی یاد دلا تا ہے یہ چیز انسان کی امیدیں کم رکھنے، دنیا میں زہد اختیار کرنے اور اس میں رغبت کی کمی پر بر انگیختہ کرتا ہے۔ نبی کریم کا فرمان ہے : کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروا القبور فانھا تذھد فی الدنیا وتذکر الاخرۃ۔ میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا اب قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ چیز دنیا میں زہد پیدا کرتی ہے اور موت کی یاد دلاتی ہے ؛ اسے حضرت ابن مسعود نے روایت کیا ابن ماجہ نے اسے نفقل کیا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے : یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ ترمذی میں حضرت بریدہ سے مروی ہے کہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے، اس میں حضرت ابوہریرہ سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں میں لعنت کی ہے، کہا : اس باب میں حضرت ابن عباس اور حضرت حسان بن ثابت سے روایت مروی ہے۔ ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ بعض علماء کی رائے ہے کہ عورتوں پر لعنت والا حکم اس سے قبل کا ہے جس میں رسول اللہ نے قبروں کی زیارت کی رخصت دی۔ جب حضور نے رخت دی تو اس رخصت میں مرد اور عورتیں شامل ہوگئیں۔ بعض علماء نے کہا : عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت اس لیے مکرو ہے کیونکہ وہ کم صبر والی اور زیادہ جزع فزع کرنے والی ہوتی ہیں۔
عورتوں کے لیے زیارت قبور کا حکم :
میں کہتا ہوں : مردوں کے لیے قبروں پر جانا جائز ہے، یہ متفق علیہ حکم ہے۔ عورتوں کے بارے میں مختلف فیہ ہے۔ جہاں تک نوجوان بچیوں کا تعلق ہے ان کے لیے باہر نکلنا حرام ہے جہاں تک گھروں میں بیٹھ رہنے والی عورتوں یعنی جن کی عمر ڈھل چکی ہو ان کے لیے مباح اور جائز سب کے لیے ہے یہ اس وقت ہوگا جب وہ مردوں سے الگ ہو کر نکلیں اس میں انشاء اللہ کوئی اختلاف نہیں اس تاویل کی بنا پر رسول اللہ کا ارشاد دورو القبور عام ہوگا جہاں تک ایسی جگہ یا وقت کا تعلق ہے جس جگہ مردوں اور عورتوں کے جمع ہونے سے فتنہ کا خوف ہو تو پھر حلال اور جائز نہیں۔ اس اثنا میں کہ ایک آدمی نکلتا ہے اس کا مقصود عبرت ہوتا ہے تو اس کی نظر کسی عورت پر جا پڑتی ہے تو وہ فتنہ میں جا پڑتا ہے اور اس کے برعکس بھی صورتحال ہوسکتی ہے کہ مرد اور عورت میں سے ایک گناہگار ہوگا ماجور نہیں ہوگا۔
دل کے علاج کا نسخہ اور زیارت قبول کے وقت کیا نیت اور ارادہ ہو تو یہ عمل نفع بخش بنتا ہے :
مسئلہ نمبر 5: علماء نے کہا : جو آدمی اپنے دل کا علاج کرنا چاہتا ہے اور ظلم و قہر کی زنجیروں سے آزاد ہو کر اپنے رب کی طاعت کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ لذات کو ختم کرنے والی، جماعتوں کو جدا کرنے والی، بیٹوں اور بیٹیوں کو یتیم کرنے والی کا ذکر کثرت سے کرے جو لوگ موت وحیات کی کشمکش میں ہیں ان کی ملاقات پر مواظبت اختیار کرے اور مسلمانوں کی قبروں کی زیارت میں ہمیشگی اختیار کرے۔ یہ تین امور ہیں جس آدمی کا دل سخت ہو، گناہ اس کی اپنی گرفت میں لے چکا ہو تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف اس سے مدد لے اور شیطان اور اس کے دوستوں کے فتنوں کے خلاف ان سے مدد لے اگر موت کا ذکر کثرت سے کرنے سے اس نے فائدہ اٹھا لیا اور اس کے دل کی سختی چھٹ گئی تو یہی اس کا مقصود ہے اگر اس پر دل کا میل بڑھ گیا اور گناہ کے اسباب مستحکم ہوگئے تو موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا لوگوں کے پاس جانا اور مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کرنا ان گناہوں کو دور کرنے میں وہاں تک پہنچ سکتا ہے جہاں تک پہلی صورت نہ پہنچ پائی تھی۔ کیونکہ کو ت کا ذکر دل کے لیے ایک خبر ہے جس کی طرف اس کا ٹھکانہ ہے اور یہ اسے خبردار کرنے کے قائم مقام ہے۔ جو آدمی موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اس کے پاس جانا اور مسلمانوں میں سے جو کوئی مرچکا ہے اس کی قبر کی زیارت کرنا یہ آنکھوں سے مشاہدہ ہے اس وجہ سے دوسری صورت پہلی سے زیادہ موثر ہے رسول اللہ کا ارشاد ہے : لیس الخبر کالمعاینۃ خبر آنکھوں دیکھی چیز جیسی نہیں ہوتی۔ اسے حضرت ابن عباس نے روایت کیا ہے۔ جو لوگ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے حال سے عبرت حاصل کرنا ہر وقت ممکن نہیں ہوتا جو آدمی اپنے دل کا علاج کرنا چاہتا ہے اس کا علاج بعض اوقات ایک لمحے میں نہیں ہوپاتا، جہاں تک زیارت قبول کا تعلق ہے تو اس کا وجود یعنی اثر بہت تیز ہوتا ہے اور ان سے نفع حاصل کرنا زیادہ مناسب اور موزوں ہوتا ہے۔ جو آدمی قبروں کی زیارت کا ارادہ کرتا ہے اس کے لیے مناسب یہ ہے وہ اس کے آداب اپنائے، آتے وقت اس کا دل حاضر ہو اس کے پیش نظر صرف قبر کی زیارت نہ ہو کیونکہ یہ تو صرف اس کی ایسی حالت ہے جس میں حیوان بھی اس کے ساتھ شریک ہیں ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں، بلکہ اس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اپنے فاسد دل کی اصلاح ہونی چاہیے۔ یا میت کو نفع پہنچانے کا ارادہ ہونا چاہیے جو زیارت کرنے والا اس کے پاس قرآن پڑھے گا، دعا کرے گا، قبروں کے اوپر چلنے اور ان پر بیٹھنے سے اجتناب کرے جب قبرستان میں داخل ہو تو وہ انہیں سلام کرے جب وہ اپنے میت کی قبر تک پہنچے جسے وہ پہچانتا ہے تو اسے بھی سلام کرے اور اس کے چہرے کی جانب سے آئے کیونکہ وہ اس کی زیارت میں اس طرح ہے جس طرح وہ زندہ حالت میں اس سے مخاطب تھا اگر زندہ حالت میں اس سے خطاب کرتا تو آداب یہی ہوتے کہ اس کے چہرے کے بالمقابل ہوتا یہاں بھی اسی ہے پھر جو مٹی کے نیچے جا چکا ہے اپنے گھر والوں اور احباب سے الگ ہوچکا ہے اس سے عبرت حاصل کرنے کے بعد کہ اس میت نے چھوٹے بڑے لشکروں کی قیادت کی ہوگی، ساتھیوں اور قبائل سے مقابلہ کیا ہوگا اموال اور ذخائر کو جمع کیا ہوگا تو اسے موت ایسے وقت میں آپہنچی کہ اسے گمان تک نہ تھا ایسی ہولناکی میں موت آئی جس کا اسے کوئی انتظار نہ تھا تو زیارت کرنے والے کو اس بھائی کی حالت میں غور کرنا چاہیے جو گزر چکا ہے اور ان ساتھیوں میں شامل ہوچکا ہے جنہوں نے امیدوں کو پایا اور اموال کو جمع کیا کہ ان کی آرزوئیں کیسے ختم ہوگئیں، ان کے اموال نے انہیں کوئی نفع نہ دیا، مٹی نے ان کے چہروں کے محاسن کو مٹا دیا اور قبروں میں ان کے اجزا بکھر گئے، ان کے بعد ان کی بیویاں بیوہ ہوگئیِ ان کی اولادیں یتیم ہوگئیں، دوسروں نے ان کے عمدہ اموال کو تقسیم کرلیا تاکہ اسے ان کا مقاصد میں گھومنا پھرنا، حصول مطالب میں ان کا حرص، اسباب کے حصول میں ان کا دھوکہ اور جوانی اور صحت کی طرف ان کا میلان سب کو یاد کرسکے اور یہ بھی جان سکے کہ اس کا لہو و لعب کی طرف میلان ان کے میلان اور غفلت کی طرح ہے جس کے سامنے خوفناک موت اور تیز ہلاکت ہے یقینا وہ اس طرف جارہا ہے جس طرف وہ گئے تھے اسے اپنے دل میں اس آدمی کے ذکر کو یاد کرنا چاہیے جو اپنی اغراض میں متردد تھا کہ اس کے پاؤں کیسے ٹوٹ گئے، وہ اپنے دوستوں کو دیکھ کر لذت حاصل کرتا تھا جبکہ اب اس کی آنکھیں بہہ چکی ہیں، وہ اپنی قوت گویائی کی بلاغت سے حملہ کیا کرتا تھا جبکہ کیڑے اس کی زبان کو کھا گئے ہیں، وہ لوگوں کی موت پر ہنسا کرتا تھا جب کہ مٹی نے اس کے دانتوں کو بوسیدہ کردیا ہے، وہ یقین کرلے کہ اس کا حال اس کے حال جیسا ہوگا اور اس کا انجام اس کے انجام جیسا ہوگا۔ اس یاد اور عبرت کی وجہ سے اس سے تمام دنیوی غیرتیں زائل ہوجائیں گی اور اور وہ اخروی اعمال پر متوجہ ہوگا۔ وہ دنیا میں زہد اختیار کرے گا اپنے رب کی اطاعت کی طرف متوجہ ہوگا اس کا دل نرم ہوجائے گا اور اعضاء میں خشوع واقع ہوجائے گا۔