Al-Qurtubi - Hud : 69
وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ
وَلَقَدْ جَآءَتْ : اور البتہ آئے رُسُلُنَآ : ہمارے فرشتے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم بِالْبُشْرٰي : خوشخبری لے کر قَالُوْا : وہ بولے سَلٰمًا : سلام قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام فَمَا لَبِثَ : پھر اس نے دیر نہ کی اَنْ : کہ جَآءَ بِعِجْلٍ : ایک بچھڑا لے آیا حَنِيْذٍ : بھنا ہوا
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابرہیم) بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔
آیت نمبر 69 تا 71 اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ولقدجآءت رسلنآابرٰھیم بالبشرٰییہ حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ ہے اور وہ قرابت کے لحاظ سے حضرت ابراہیم کے چچا کے بیٹے ہیں، حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیاں شام کے نواح میں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بستیاں فلسطین کے شہروں میں تھیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے قوم لوط پر عذاب نازل کرنے کے لیے فرشتوں کو اتارہ تو وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے گزرے اور ان کے پاس مہمان بنے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جو بھی مہمان بنتا آپ اس کی ضافت بہت اچھے طریقے سے کرتے۔ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بشارت لے کر گزرے تو آپ نے انہیں مہمان سمجھا۔ جبریل، میکائیل اور اسرافیل (علیہم السلام) تھے۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ ضحاک نے کہا : یہ نو فرشتے تھے۔ سدی نے کہا : وہ گیارہ فرشتے تھے جو نہایت خوبصورت اور روشن چہروں والے جوانوں کی شکل میں تھے۔ بالبشرٰیایک قول یہ ہے : بچے کی (خوشخبری) ایک قول یہ ہے : قوم لوط کی ہلاکت کی خوشخبری اور ایک قول یہ ہے : انہوں نے آپ کو خوشخبری دی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہیں، اور یہ کہ آپ پر کوئی خوف نہیں۔ قالواسلٰمًایہ منصوب ہے اس پر فعل کے واقع ہونے کی وجہ سے، جس طرح آپ کہتے ہیں : قالواخیرا انہوں نے اچھی بات کہی۔ یہ طبری کا اختیار کردہ قول ہے۔ اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کے ارشاد سیقولون ثلٰثۃ (الکہف :22) کا تعلق ہے، اس میں ثلاثۃ اسم ہے مقولہ نہیں۔ اور اگر دونوں کو رفع دیا جائے یا دونوں کو نصب دیا جائے قالواسلٰمًا ؕ قال سلٰمتو لغت عرب میں جائز ہے۔ ایک قول یہ ہے : مصدر ہونے کی وجہ سے نصب دی گئی۔ ایک قول یہ ہے : قالواسلٰما یعنی انہوں نے آپ کو صحیح قول کے ذریعے مخاطب کیا۔ جس طرح فرمایا : واذاخاطبھم الجٰھلون قالواسلٰمًا۔ (الفرقان) یعنی صحیح بات۔ پسسلٰمًاان کے قول کا معنی ہے نہ کہ اس کا لفظ، ابن عربی نے اس کو اس کا معنی کہا اور اسی کو اختیار کیا۔ ابن عربی نے کہا : کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے جب لفظ کے ذکر کا ارادہ فرمایا پس فرشتوں کی طرف سے خبر دیتے ہوئے فرمایا : سلٰم علیکم بما صبرتم (الرعد :24) سلٰم علیکم طبتم (الزمر : 73) اور کہا گیا ہے : انہوں نے آپ کے لیے دعا کی اور معنی ہوگا سلمت سلاما، قال سلماس کے رفع کی دو وجہیں ہیں : ایک مبتدا کے مضمر ہونے کے طور پر یعنیھوسلام اور امری سلام اور دوسری (وجہ یہ ہے کہ) بمعنی سلام علیکم ہے اس کو تحیتہ کے معنی میں لیا خبر کو مضمر کردیا گیا اور سلام کو کثرت استعمال کی وجہ سے نکرہ ذکر کرنا جائز ہے۔ الف لام کو حذف کردیا گیا جس طرح اللھم میں الف لام کو حذف کیا جاتا ہے اور سلمبھی پڑھا گیا ہے، فراء نے کہا : السلم اور السلام ایک ہی معنی ہیں جس طرحالحل اور الحلال۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فمالبث ان جاء بعجل حنیذٍاس میں چودہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : فمالمث ان جآء، انبمعنیحتی ہے یہ بڑے بڑے نحویوں کا قول ہے، ابن عربی نے اسے بیان کیا۔ تقدیر عبارت یوں ہوگی فمالبث حتی جاء یعنی بچھڑے کو لانے میں آپ نے سستی نہ کی۔ پس جب حرف جر کو حذف کیا گیا تو انمحل نصب میں باقی رہا۔ اور لبث میں ضمیر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نام کی ہے اور مانافیہ ہے۔ یہ سیبویہ کا قول ہے اور فراء نے کہا : فمالبث مجیہ یعنی اس کا آنا ست نہ ہوا۔ پس انمحل رفع میں ہے اور لبث میں کوئی ضمیر نہیں جب کہ مانافیہ ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ مابمعنی الذیہو اور لبث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ہو (یعنی اس کا فاعل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہوں) اور ان جاء، ما کی خبر ہو یعنی کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جلدی کیا وہ آپ کا بھنے ہوئے بچھڑے کو لانا ہے اور حنیذبھنا ہوا۔ ایک قول یہ ہے : وہ پتھر کی گرمی کے ذریعے بھنا ہوا تھا آگ کا اس کو چھوئے بغیر۔ کہا جاتا ہے : حنذت الشاۃ احنذھاحنذا یعنی میں نے اسے بھونا، اور میں نے اس کے اوپر گرم پتھر رکھا تاکہ وہ اسے بھون دے پس وہ بھنا ہوا ہے۔ اور حنذت الفرس أحنذہ (کہا جاتا ہے) اس سے مراد یہ ہے کہ تو اسے ایک یا دو چکر دوڑائے پھر اس کو دھوپ میں جل ڈال دے تاکہ اسے پسینہ آئے تو وہ محنوذ اور حنیذ کہلائے گا اور اگر اسے پسینہ نہ آئے تو اسے کبا کہا جائے گا۔ حنذ مدینہ طیبہ کے قریب ایک جگہ ہے۔ اور ایک قول یہ ہے حنیذ سے مراد بال صاف کیا ہوا، بھنا ہوا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور دیگر نے کہا : حنیذ سے مراد پکا ہوا گوشت ہے اور حنیذبمعنیمحنوذ ہے اور آپ بچھڑا لائے کیونکہ آپ کے مال میں گائے زیادہ تھیں۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اس آیت میں مہمان کے آداب میں سے یہ بات ہے کہ اس کی ضیافت میں جلدی کی جائے پس جو اس وقت موجود اور میسر ہو وہ پیش کردیا جائے پھر اس کے بعد اس کے علاوہ پیش کردیا جائے اگر اس کو پیش کرنا ضروری ہو تو اسے اس چیز کا مکلف نہ بنایا جائے جو اس کے لیے تکلف کا باعث ہو۔ ضیافت، مکارم اخلاق، آداب اسلام اور انبیاء وصلحاء کے اخلاق میں سے ہے۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے آدمی ہیں جنہوں نے ضیافت کی جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر گیا۔ عام اہل علم کے نزدیک یہ واجب نہیں نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ ” ضیافت تین دن ہے اور اس کا جائزہ ایک دن اور ایک رات ہے جو اس کے بعد ہے تو وہ صدقہ ہے “ اور جائزہ سے مراد عطیہ اور وہ صلہ ہے جس کی اصل استحبات ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا :” جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کی عزت کرنی چاہیے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے “۔ اور پڑوسی کا اکرام واجب نہیں تو ضیافت بھی اسی طرح ہوگی۔ واللہ اعلم۔ لیث اس کے وجوب کی طرف گئے ہیں نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے دلیل پکڑتے ہوئے لیلۃ الضیف حق اور دیگر احادیث سے استدلال کرتے ہوئے۔ اس سلسلہ میں جو ہم نے اشارہ کیا وہ کافی ہے اور اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق دینے والا ہے۔ ابن عربی نے کہا : یہ بہت سارے لوگوں کا قول ہے : ضیافت کا وجوب ابتداء اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا۔ یہ ضعیف ہے، کیونکہ وجوب ثابت نہیں اور ناسخ وار وہی نہیں ہوا۔ انہوں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کی حدیث ذکر کی ہے جسے ائمہ نے روایت کیا ہے اس میں فاستضفنا ھم فابوا ان یضیفونا فلدغ سید ذالک الحییالحدیث کے الفاظ ہیں یعنی ہم نے ان کا مہمان بننا چاہا تو انہوں نے ہمیں مہمان بنانے سے انکار کردیا تو اس گاؤں کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔ ابن عربی نے کہا : یہ روایت اس بات میں ظاہر ہے کہ اگر ضیافت لازم ہوتی تو نبی کریم ﷺ ضیافت سے انکار کرنے والے لوگوں کو ضرور ملامت فرماتے اور ان کے سامنے اس کو ضرور بیان فرماتے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ اس کا مخاطب کون ہے ؟ امام شافعی اور محمد بن عبدالحکیم اس جانب گئے ہیں کہ اس کے محاطب شہری اور دیہاتی لوگ ہیں۔ امام مالک (رح) نے کہا : شہری لوگوں پر ضیافت نہیں۔ سحنون نے کہا : ضیافت صرف دیہاتیوں پر ہے جہاں تک شہریوں کا تعلق ہے تو شہروں میں مسافر ہوٹلوں میں آتے ہیں۔ انہوں نے حدیث ابن عمرؓ سے دلیل پکڑی انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” ضیافت دیہاتی لوگوں پر ہے اور شہریوں پر نہیں “۔ یہ حدیث صحیح نہیں، ابراہیم بن اخی عبدالرزاق متروک الحدیث اور جھوٹ کی طرف منسوب ہے اور یہ روایت ان روایات میں سے ہے جن کو اس نے اکیلا روایت کیا ہے اور اس کی وضع کی طرف منسوب ہے۔ یہ ابو عمر بن عبدالبر کا قول ہے۔ ابن عربی نے کہا : ضیافت درحقیقت فرض کفایہ ہے، کسی آدمی نے کہا : یہ دیہاتوں میں واجب ہے جہاں کوئی کھانا اور ٹھکانا نہیں ہوتا، بخلاف شہروں کے کیونکہ یہ تو ٹھکانوں اور کھانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہمان کریم ہے اور ضیافت کرامت ہے، پس اگر وہ اجنبی ہو تو یہ فرض ہوگی۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ ابن عربی نے کہا : ہمارے بعض علماء نے کہا ہے : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ضیافت تھوڑی تھی پس حبیب نے حبیب کی طرف سے اس کا شکر ادا کیا۔ یہ قطعیت کے مقام پع ظنیت اور نقل کی جگہ قیاس کے ذریعے فیصلہ ہے، ان کو کہاں سے پتہ چلا کہ وہ تھوڑی تھی ؟ بلکہ مفسرین نے ثقل کیا کہ فرشتے تین تھے، جبریل، میکائیل اور اسرافیل (علیہم السلام) اور تین کی خاطر بچھڑا تو بہت زیادہ ہے، پس کتاب کی یہ تفسیر رائے کے ساتھ کیسی ہوئی ؟ اللہ تعالیٰ کی قسم ! یہی وہ تفسیر مذموم ہے پس اس سے اجتناب کرو، پس تم نے اس کو جان لیا۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ سنت یہ ہے کہ جب مہمان کو کھانا پیش کا جائے تو پیش کرنے والا کھانے میں جلدی کرے پس مہمان کی تکریم پیش کرنے میں جلدی کرنا ہے اور گھر والے کی تکریم اس کے قبول کرنے میں جلدی کرنا ہے۔ پس جب انہوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو اجنبی خیال کیا، کیونکہ وہ عادت سے نکل گئے اور انہوں نے معمول کی مخالفت کی۔ آپ کو اندیشہ ہوا کہ ان کے پیچھے کوئی ناپسندیدہ بات ہے جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک روایت ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں میں موجود (نوک اور پر کے بغیر) تیروں کے ذریعے غور وفکر کرتے ہوئے گوشت کو کرید رہے تھے اور ان کے ہاتھ گوشت تک نہیں پہنچ رہے تھے تو آپ نے جب ان کی طرف سے یہ دیکھا تو نکرفم واوجس منھم خیفۃ یعنی دل میں، اور ایک قول ہے : آپ نے محسوس کیا، وجوس سے مراد دخول ہے۔ شاعر نے کہا : جاء البرید بقرطاس یخب بہ فأوجس القلب من فرطاسہ جزعا خیفۃً یعنی دہشت زدہ ہونا اور وہ جب مہمان کو نہ کھاتے ہوئے دیکھتے تو اس کو برا سمجھتے تھے تو فرشتوں نے کہا : لاتخف انآارسلنآالیٰ قوم لوطٍ ڈریے نہیں ہمیں تو بھیجا گیا ہے قوم لوط کی طرف۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ کھانے کے آداب میں سے ہے کہ میزبان کو اپنے مہمان کے بارے میں دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ کھا رہا ہے یا نہیں ؟ یہ کام توجہ اور اچٹتی نظر ڈالنے سے ہونا چاہیے نہ کہ نظر گاڑدینے سے، بیان کیا گیا ہے کہ ایک بدوی نے سلیمان بن عبدالملک کے ساتھ کھانا کھایا، سلیمان نے بدوی کے لقمے میں بال دیکھ لیا تو اسے کہا : بال کو اپنے لقمے سے ہٹایئے۔ اس (بدوی) نے کہا : کیا تو میری طرف اس آدمی کی طرح دیکھ رہا ہے جو میرے لقمے میں بال کو دیکھتا ہے ؟ (یعنی اتنی توجہ سے دیکھ رہا ہے) اللہ کی قسم میں تیرے ساتھ نہیں کھاؤں گا۔ میں (قرطبی) نے کہا : ذکر کیا گیا ہے یہ قصہ ہشام بن عبدالملک کے ساتھ ہوا نہ کہ سلیمان کے ساتھ اور بدوی اس کے پاس سے یہ کہتا ہوانکلا : وللموت خیر من زیارۃ باخل یلاحظ أطراف الاکیل علی عمد ” موت بہتر ہے ایسے بخیل کی زیارت سے جو کھانے والے کی اطراف کو جان بوجھ کرملاحظہ کرتا ہے “۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فلمارآایدیھم لاتصل الیہ نکرھم، نکر بمعنی انکر ہے یعنی آپ نے ان کو نہ جانا، آپ کہتے ہیں : نکرتک وانکرتک واستنکرتک جب آپ اسے وعدہ خلافی پر پائیں۔ شاعر نے کہا : وأنکرتنی وما کان الذی نکرت من الحوادث إلا الشیب والصلعا دونوں لغتوں کو جمع کردیا اور نکرت اس کے لیے ہے جسے تو اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھے اور انکرت اس کے لیے ہے جسے تو اپنے دل کے ساتھ دیکھے۔ مسئلہ نمبر 8 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وامراتہ قآئمۃ مبتدا اور خبر ہے یعنی وہ کھڑی فرشتوں کو دیکھ رہی تھی، کہا گیا ہے : وہ پردے کے پیچھے تھی۔ ایک قول یہ ہے : وہ فرشتوں کی خدمت کر رہی تھی اور آپ (ابراہیم علیہ السلام) بیٹھے تھے۔ محمد بن اسحاق نے کہا : وہ کھڑی نماز پڑھی رہی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت میں۔ وامراتہ قآئمۃ وھوقاعد ہے (یعنی آپ کی بیوی کھڑی تھی اور آپ بیٹھے تھے) مسئلہ نمبر 9 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فضحکتمجاہد اور عکرمہ نے کہا : اس کو حیض آیا، حالانکہ وہ آیستہ تھی، بشارت کو ثابت کرنے کے لیے، اس پر لغویوں نے شعر پڑھا : وإنی لآنی العرس عند طھورھا وأھجرھا یوماً إذا تک ضاحکا دوسرے نے کہا : وضحک الأرانب فوق الصفا کمثل دم الجوف یوم اللقاء اور عرب کہتے ہیں : ضحکت الأرنبجب اسے حیض آئے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور عکرمہ سے روایت ہے کہ یہ عربوں کے قول ضحکت الکافورہ سے لیا گیا ہے۔ اور یہ اس گابھے کا چھلکا ہے جب وہ پھٹ جائے۔ بعض لغویوں نے کلام عرب میں ضحکتبمعنیحاضتہونے کا انکار کیا ہے اور جمہور نے کہا : یہ ضحک معروف ہے اور اس میں ان کا اختلاف ہے۔ ایک قول ہے : وہ تعجب کا ہنسنا ہے ابوذؤیب نے کہا : فجاء بمزج لم یر الناس مثلہ ھو الضحک إلا أنہ عمل النحل مقاتل نے کہا : وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خوف سے ہنسی اور تین آدمیوں کی جماعت کے سبب آپ سے لرزاٹھی۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اکیلے سو آدمی کے قائم مقام تھے۔ اس نے کہا : لغت میں ضحک سے مراد حیض لینا درست نہیں، ابو عبید اور فراء نے اس کا انکار کیا ِ فراء نے کہا : میں نے یہ کسی ثقہ آدمی سے نہیں سنا، یہ صرف کنایۃ ہے۔ روایت میں ہے کہ فرشتوں نے بچھڑے پر ہاتھ پھیرا۔ آپ (علیہ السلام) اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنی ماں کے پاس چلے گئے اس وقت حضرت سارہ ہنسیں تو انہوں نے آپ (حضرت سارہ) کو اسحاق کی خوشخبری دی۔ کہا جاتا ہے : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنے مہمانوں کی تکریم کا ارادہ کیا تو سارہ کو ان کی خدمت کے لیے کھڑا کیا، یعنی اللہ تعالیٰ کا فرمان : وامراتہ قآئمۃ ہے یعنی وہ ان کی خدمت کے سلسلہ میں کھڑی ہوئی اور کہا جاتا ہے : قآئمۃ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خوف کی وجہ سے۔ فضحکت یعنی ان کے قول لاتخف کی وجہ سے امن کی وجہ سے خوش کی وجہ سے خوش ہوتے ہوئے ہنسی۔ فراء نے کہا : اس میں تقدیم وتاخیر ہے، معنی یہ ہے : پس ہم نے اس کو اسحاق کی خوشخبری دی تو وہ ہنس پڑی یعنی بچے کی وجہ سے خوش ہوتے ہوئے ہنسی اس حال میں کہ وہ بوڑھی تھی، اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ (ہنسنا) کس وجہ سے تھا۔ نحاس نے کہا : اس بارے میں کئی اقوال ہیں : ان میں سے سب سے عمدہ قول یہ ہے کہ جب انہوں نے نہ کھایا آپ (علیہ السلام) نے ان کو نہ پہچانا اور ان سے خوف زدہ ہوئے پھر جب انہوں نے کہا : آپ نہ ڈریئے اور انہوں نے آپ کو خبر دی کہ وہ اللہ کے فرستادہ ہیں تو آپ اس وجہ سے خوش ہوئے، پس آپ کی بیوی بھی آپ کی خوشی کی وجہ سے خوشی ہو کر ہنسی۔ ایک قول یہ ہے کہ اس (سارہ) نے آپ کو کہا تھا میرا گمان ہے کہ یہ لوگ عنقریب ان پر عذاب لے کر آئیں گے پس وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو آپ سے ملادے گا، پس جب فرشتے وہ لے آئے جو اس نے کہا تو وہ اس کی وجہ سے خوش ہوئی اور ہنس پڑی۔ نحاس نے کہا : اگر اس کی سند صحیح ہے تو یہ حسن ہے۔ ضحاک دانتوں کا ظاہر ہونا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ضحک چہرے کا روشن ہونا ہو آپ کہتے ہیں : رایت فلانا ضاحکاتو اس سے مراد ہے مشرقا اور أتیت علی روضۃ تضحک یعنی مشرقۃ، حدیث میں ہے ” اللہ تعالیٰ بادلوں کو بھیجتا ہے فیضحک احسن الضحکنبی کریم ﷺ نے بجلی سے اس کے روشن ہونے کو ضحک بنادیا۔ یہ کلام مستعار ہے۔ (اس میں استعارہ ہے) مکہ کے قراء میں سے ایک آدمی سے روایت ہے جس کو محمد بن زیادا عرابی کہا جاتا ہے۔ فضحک حا کے فتحہ کے ساتھ۔ مہدوی نے کہا : فضحک میں حا کا فتح غیر معروف ہے اور ضحک یضحک، ضحکا وضحکا وضحکا چار لغتیں ہیں اور الضحکۃ سے مراد ایک مرتبہ کا ہنسنا ہے۔ اسی سے کثیر کا قول ہے : غلقت لضحکتہ رقاب المال یہ جوہری نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 10 ۔ امام مسلم نے حضرت سہیل بن سعد سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا : حضرت ابواسید ساعدی نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی شادی کے ولیمہ میں دعوت دی۔ اس کی بیوی اس دن ان کی خدمت کرنے والی تھی حالانکہ وہ دلہن تھی۔ حضرت سہیل نے کہا : کیا تم جانتے ہو کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو کیا پلایا ؟ کیا اس نے آپ ﷺ کے لیے رات کے وقت کھجوروں کا رس نکالا تور (برتن جس میں عربی پیتے تھے) میں، پس جب آپ نے تناول فرمایا تو اس نے وہی رس آپ کو پلایا۔ امام بخاری نے اس کو روایت کیا ہے۔ اور اس کا عنوان باندھا باب قیام المراۃ علی الرجال فی العرس وخد متھم بالنفس ہمارے علماء نے کہا : اس میں بیوی کا اپنی شادی کے مواقع پر اپنے شوہر اور اس کے دوستوں کی خدمت کا جواز ہے۔ اور اس میں یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی اپنے اہل (بیویوں) کو اپنے نیک دوستوں کے سامنے پیش کرے اور ان سے ان (دوستوں) کی خدمت لے، یہ احتمال بھی ہے کہ یہ پردہ کے نزول سے پہلے ہو۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 11 ۔ طبری نے ذکر کیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب بچھڑا پیش کیا تو انہوں نے کہا : ہم کھانا بغیر قیمت کے نہیں کھاتے۔ تو آپ نے ان کو کہا : اس کی قیمت یہ ہے کہ تم اس کی ابتدا میں اللہ کا ذکر کرو اور اس کے آخر میں اس کی حمد کرو۔ جبریل امین نے اپنے اصحاب کو کہا : حق کی قسم اللہ نے اس کو خلیل بنایا۔ ہمارے علماء نے کہا : انہوں نے نہ کھایا کیونکہ فرشتے نہیں کھاتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے لیے اس بات کو آسان بنادیا ہے کہ وہ جسم اور ہیئت کے اعتبار سے آدمی کی شکل اختیار کرلیں اس نے ان کے لیے کھانا کھانا بھی آسان بنادیا ہو، مگر یہ کہ علماء کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو آدمی کی صفت پر بھیجا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ضیافت کا مکلف بنایا یہاں تک کہ جب آپ نے توقف کو دیکھا اور ڈرے تو اچانک وہ آپ کے پاس خوشخبری لے آئے۔ مسئلہ نمبر 12 ۔ یہ (آیت) اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کھانے کی ابتدا میں بسم اللہ اور اس کے آخر میں الحمد للہ ہم سے پہلی امتوں میں بھی مشروع رہا، اسرائیلیات میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اکیلے کھانا تناول فرماتے تھے، جب کھانا پر بیٹھا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے فرمایا : بسم اللہ پڑھو، آدمی نے کہا : میں نہیں جانتا کہ اللہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : میرے کھانے سے نکل جا، جب وہ نکل گیا تو آپ پر جبرئیل امین نازل ہوئے، اس نے آپ کو کہا : اللہ فرماتا ہے کہ وہ اس کو اس کی ساری عمر اس کے کفر کے باوجود رزق دیتا رہا اور آپ نے ایک لقمہ کا بخل کیا، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پریشان حال نکلے اس حال میں کہ اپنی چادر کو کھنچ رہے تھے اور فرمایا : لوٹ آ، اس نے کہا : میں نہیں لوٹوں گا یہاں تک کہ تو مجھے خبر دے کہ تو مجھے بغیر کسی سبب کے کیوں واپس لوٹا رہا ہے ؟ آپ نے اس کو معاملہ کے بارے میں خبر دی۔ تو اس نے کہا : یہ کریم پروردگار ہے، میں اس پر ایمان لایا، اور وہ داخل ہوا اور اس نے بسم اللہ پڑھی اور حالت ایمان میں کھانا کھایا۔ مسئلہ نمبر 13 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فبشیرنٰھاباسحٰقجب حضرت ہاجرہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بیٹا پیدا ہوا تو سارہ نے خواہش کی کہ اس کا بھی بیٹا ہو اور وہ اپنے بڑھاپے کی وجہ سے مایوس ہوچکی تھی، تو انہوں نے ایسے بیٹے کی خوشخبری دی جو نبی ہوگا اور نبی کو پیدا کرے گا، تو یہ اس (سارہ) کے لیے خوشخبری تھی کہ وہ اپنے پوتے کو دیکھے گی۔ مسئلہ نمبر 14 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ومن ورآء اسحٰق یعقوبحمزہ اور عبداللہ بن عامر نے یعقوب نصب کے ساتھ پڑھا اور باقیوں نے اس کو مرفوع پڑھا۔ رفع اس معنی کی بنیاد پر ہوگا : ویحدث لھا من وراء یعقوبیہ بھی جائز ہے کہ یہ اس فعل کی وجہ مرفوع ہو جو من میں عامل ہے گویا کہ معنی یہ ہوگا ؛ وثبت لھا من وراء اسحق یعقوبیہ جائز ہے کہ یہ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہو، اور یہ حال کے مقام پر ہو، یعنی بشروھاباسحق مقابلالہ یعقوب اور نصب اس معنی پر ہوگی : ووھبنا لھامن وراء اسحاق یعقوب، کسائی، اخفش اور ابو حاتم نے اس بات کو جائز قرار دیا کہ یعقوب محل جر میں ہو اس معنی کی بنیاد پر وبشرناھا من وراء اسحاق بیعقوب۔ فراء نے کہا : جر جائز نہیں مگر حرف جر کے اعادے کے ساتھ، سیبویہ نے کہا اگر آپ کہیں مررت بزیدأول من أمس وأمس عمروتو یہ قبیح اور غلط ہوگا کیونکہ آپ نے مجرور اور جو اس کے ساتھ شریک ہے اور وہ واؤ ہے اس میں تفریق کردی جس طرح آپ جار اور مجرور کے درمیان تفریق کرتے ہیں، کیونکہ جار اور مجرور کے درمیان فاصلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی جار اور واؤ کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔
Top