Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 42
وَ قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلِلّٰهِ الْمَكْرُ جَمِیْعًا١ؕ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ١ؕ وَ سَیَعْلَمُ الْكُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ
وَقَدْ مَكَرَ : اور چالیں چلیں الَّذِيْنَ : ان لوگوں نے جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لیے الْمَكْرُ : چال (تدبیر) جَمِيْعًا : سب يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا تَكْسِبُ : جو کماتا ہے كُلُّ نَفْسٍ : ہر نفس (شخص) وَسَيَعْلَمُ : اور عنقریب جان لیں گے الْكُفّٰرُ : کافر لِمَنْ : کس کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : عاقبت کا گھر
جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی (بہتیری) چالیں چلتے رہے ہیں سو چال تو سب اللہ ہی کی ہے۔ ہر متنفس جو کچھ کر رہا ہے وہ اسے جانتا ہے۔ اور کافر جلد معلوم کریں گے کہ عاقبت کا گھر (یعنی انجام محمود) کس کے لئے ہے۔
آیت نمبر 42 تا 43 قولہ تعالیٰ : وقد مکر الذین من قبلھم یعنی مشرکین مکہ سے پہلے، ان لوگوں نے رسولوں کے ساتھ مکر کیا، ان کے ساتھ فریب کیا اور ان کا انکار کیا۔ فللہ المکر جمیعا یعنی مکر کرنے والوں کا مکر اسی کا پیدا کردہ ہے، لہٰذا اس کے اذن کے بغیر کوئی نقصان نہیں دیتا۔ ایک قول کے مطابق : فللہ خیر المکر یعنی وہ ان کو اس کی سزا دے گا۔ یعلم ما تکسب کل نفس یعنی خیر اور شر میں سے جو کوئی کرتا ہے وہ جانتا ہے پس اس پر وہ سزا دے گا۔ ویعلم الکافر نافع، ابن کثیر اور ابو عمر کی یہی قرآت ہے جبکہ باقیوں نے الکفار پڑھا ہے۔ ایک قول یہ ہے : اس سے اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کو مراد لیا ہے۔ لمن عقبی الدار یعنی ثواب و عقاب کے اعتبار سے دار دنیا کا انجام یا یہ مراد ہے کہ دار آخرت میں ثواب و عقاب کس کے لیے ہے، یہ تہدید اور وعید ہے۔ قولہ تعالیٰ : ویقول الذین کفروا لست مرسلا حضرت قتادہ نے کہا : یہ عرب کے مشرکین تھے۔ لست مرسلا یعنی تو نہ نبی ہے اور نہ رسول تو صرف جھوٹ بولنے والا ہے (نعوذ باللہ) وہ کسی چیز کا مطالبہ کرتے تو پورا نہ ہونے کی صورت میں یہ کہتے۔ قل کفی باللہ یعنی اے محمد ! ﷺ انھیں فرما دیجئے۔ کفی باللہ یعنی کفی اللہ، اللہ کافی ہے۔ شھیدا بینی وبینکم یعنی میری سچائی اور تمہارے جھوٹ پر بطور گواہ کافی ہے۔ ومن عندہ علم الکتب یہ مشرکین مکہ کے خلاف بطور حجت ہے، کیونکہ وہ تفاسیر میں اہل کتاب کے ایمانداروں کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ایک قول کے مطابق : ان کی گواہی مدمقابل کے قول کے لیے قاطع ہوتی تھی اور وہ اہل کتاب کے مومن ہیں جس طرح حضرت عبد اللہ بن سلام، حضرت سلمان فارسی، حضرت تمیم داری، حضرت نجاشی اور اس کے دوست، یہ حضرت قتادہ اور سعید بن جبیر کا قول ہے۔ ترمذی نے حضرت عبد اللہ بن سلام سے روایت کیا : جب حضرت عثمان ؓ کو شہید کرنے کی کوشش کی گئی تو حضرت عبد اللہ بن سلام آئے تو حضرت عثمان نے انہیں کہا : کیا لے کے آئے ہو ؟ انہوں نے کہا : میں آپ کی مدد کے لیے آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا : لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں مجھ سے دور کرو آپ کا باہر ہونا میرے لیے اندر ہونے سے زیادہ بہتر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام لوگوں کے پاس گئے اور کہا : اے لوگو ! زمانہ جاہلیت میں میرا نام فلاں تھا، رسول اللہ ﷺ نے میرا نام عبد اللہ رکھا، میرے بارے میں کتاب اللہ کی کچھ آیات نازل ہوئی ہیں : وشھید شاھد من بنی اسراء یل علی مثلہ فامن واستکبرتم، ان اللہ لا یھوی القوم الظلمین۔ (الاحقاف) بنی اسرائیل کے ایک گواہ نے اپنے جیسے آدمی کے خلاف گواہی دی، پس وہ ایمان لایا اور تم نے تکبر کیا، بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ میرے بارے میں نازل ہوئی ہے اور قل کفی باللہ شھیدا بینی وبینکم، ومن عندہ علم الکتب آیت کریمہ میرے تعلق نازل ہوئی ہے۔ الحدیث۔ اور ہم (قرطبی) نے یہ پوری حدیث کتاب ” التذکرہ “ میں لکھ دی ہے۔ اس کے بارے میں ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا ہے : ہذا حدیث حسن غریب۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کا نام حصین تھا۔ نبی کریم ﷺ نے عبدا للہ رکھا۔ ابو بشر نے کہا : میں نے سعید بن جبیر کو کہا : ومن عندہ علم الکتب کس نے بارے ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ حضرت عبد اللہ بن سلام ہیں۔ میں (قرطبی) نے کہا : حضرت عبد اللہ بن سلام کیسے مراد ہوسکتے ہیں حالانکہ یہ سورت مکی ہے اور حضرت عبد اللہ بن سلام نے مدینہ میں اسلام قبول کیا ہے ؟ ثعلبی نے اس کو ذکر کیا ہے۔ قشیری نے کہا : ابن جبیر نے کہا کہ سورت مکی ہے اور حضرت ابن سلام نے اس سورت کے نزول کے بعد مدینہ میں اسلام قبول کیا، لہٰذا اس آیت کو ابن سلام پر محمول کرنا درست نہیں۔ ومن عندہ علم الکتب سے جبریل امین مراد ہیں، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ حضرت حسن، مجاہد اور ضحاک نے کہا : وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے : اور وہ ومن عندہ علم الکتب پڑھتے تھے اور جو یہ کہتا کہ یہ حضرت عبد اللہ بن سلام اور حضرت سلمان ؓ ہیں اس کا یہ انکار کرتے تھے، کیونکہ ان کے خیال کے مطابق سورت مکی ہے اور انھوں نے مدینہ میں اسلام قبول کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ومن عندہ علم الکتب پڑھا، اگرچہ روایت میں ضعف ہے۔ اس کو سیلمان بن ارقم نے عن الزہری عن سالم عن ابیہ عن النبی ﷺ روایت کیا ہے اور محبوب نے اسمعیل بن محمد یمانی سے روایت کیا ہے آپ نے اسی طرح پڑھا ہے یعنی ومن عندہ میم، عین اور دال کے کسرہ کے ساتھ علم الکتب عین کے ضمہ اور کتاب کے رفع کے ساتھ۔ عبد اللہ بن عطا نے کہا : میں نے ابو جعفر بن علی بن حسین بن حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ ومن عندہ علم الکتب سے مراد حضرت عبد اللہ بن سلام ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ صرف حضرت علی بن ابی طالب ؓ ہیں، محمد بن حنفیہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ ایک قول کے مطابق : سارے مومنین مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : جہاں تک اس آدمی کا تعلق ہے جس نے کہا ہے کہ یہ حضرت علی ؓ کے متعلق ہے، تو اس کو دو صورتوں میں سے کسی ایک پر محمول کیا جائے گا یا تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ان کے نزدیک وہ سب مومنین سے زیادہ عالم ہوں گے جبکہ معاملہ ایسا نہیں، بلکہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، اور حضرت عثمان ؓ ان سے زیادہ عالم تھے یا پھر نبی کریم ﷺ کا ارشاد انا مدینۃ العلم وعلی بابھا کی وجہ سے تو یہ روایت باطل ہے۔ نبی کریم ﷺ علم کا شہر ہیں اور آپ کے صحابہ اس کے دروازے، علوم میں قدر و منزلت کے مطابق ان میں سے کچھ کھلے دروازے ہیں اور کچھ درمیانی درجے کے البتہ جس نے کہا کہ سارے مومنین مراد ہیں اس نے صحیح کہا، کیونکہ ہر مومن کتاب کو جانتا ہے، اس کے اعجاز کی وجہ کا ادراک رکھتا ہے اور نبی کریم ﷺ کے سچا ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ میں (قرطبی) نے کہا : اس بنیاد پر کتاب سے مراد قرآن ہے۔ اور جہاں تک اس آدمی کا تعلق ہے جس نے حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ کو مراد لیا ہے اس نے ترمذی کی حدیث پر بھروسہ کیا ہے، اور یہ ممتنع نہیں کہ حضرت عبد اللہ بن سلام کے بارے میں کوئی بات نازل ہوئی ہو اور مراد سارے مومنین ہوں، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ویقول الذین کفروا ذکر سب کافروں کا ہے اور مراد قریش ہیں، پس جن کے پاس کتاب کا علم ہے وہ یہود و نصاری کے مومنین ہو سکتے ہیں یعنی وہ لوگ وہ ہیں جو بتوں کی پوجا کرنے والوں کی نسبت نبوت اور کتاب کی معرفت کے زیادہ قریب ہیں۔ نحاس نے کہا : اور جس آدمی نے کہا کہ اس سے مراد حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ اور دیگر ہیں تو اس کی بات کا احتمال بھی ہے کیونکہ جب دلائل بھی صحیح ہوں اور یہ بھی معروف ہو کہ نزول قرآن سے پہلے وہ کتابوں کو پڑھتے تھے تو بات اور زیادہ پختہ ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی حقیقت کو بہتر جانتا ہے۔
Top