Al-Qurtubi - An-Noor : 72
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
بیشک ابراہیم (لوگوں کے) امام (اور) خدا کے فرمانبرادار تھے۔ جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
آیت نمبر 120 قولہ تعالیٰ : ان ابراھیم کان امۃ قانتا للہ حنیفا آپ ﷺ نے مشرکین عرب کو ملت (دین) ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف دعوت دی، کیونکہ آپ ان کے اباء اور اس گھر کے بانی تھے جس کے ساتھ انہیں عزت حاصل تھی۔ اور الامۃ سے مراد وہ کامل مرد ہے جو خیر اور بھلائی کی صفات کی جامع ہو۔ اور اسے جن جن معنوں پر محمول کیا جاسکتا ہے وہ پہلے گزر چکے ہیں۔ اور ابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ مجھ تک خبر پہنچی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حضرت معاذ پر رحم فرمائے ! وہ امۃ قانتاً (مرد کامل اللہ تعالیٰ کے مطیع) تھے۔ تو آپ کو کہا گیا : اے ابا عبد الرحمن ! بیشک اللہ عزوجل نے تو اس کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیا ہے۔ تو حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : بیشک امت سے مراد وہ ہے جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا ہے، اور بیشک قانت وہ ہے جو مطیع و فرمانبردار ہو۔ تحقیق قنوت کا معنی سورة البقرہ میں اور حنیفا کا معنی سورة الانعام میں گزر چکا ہے۔
Top