Jawahir-ul-Quran - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے
آیت نمبر 11 قولہ تعالیٰ : ویدع الانسان بالشر دعآءہ بالخیر حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے کہا ہے : یہ آدمی کا اپنی ذات اور اپنی اولاد کے خلاف غصے اور تنگی کی حالت میں دعا کرنا ہے ایسی شے کے بارے جس کے قبول ہونے کو وہ پسند نہیں کرتا کہ اے اللہ ! اسے ہلاک کردے وغیرہ دعآءہ بالخیرجیسا کہ وہ اپنے رب سے یہ دعا کرتا ہے کہ وہ اس کو عافیت عطا فرمائے پس اگر اللہ تعالیٰ شر اور برائی کے بارے اس کی دعا اس کے اپنے خلاف قبول کرلے تو وہ ہلاک ہوجائے لیکن وہ اپنے فضل کے ساتھ اس کے لئے اسے قبول نہیں کرتا۔ اس کی نظیریہ ہے : ولو یعجل اللہ للناس الشراستعجالھم بالخیر (یونس :11) (اور اگر جلد بازی کرتا اللہ تعالیٰ لوگوں کو شر پہنچانے میں کیسے وہ جلدبازی کرتے ہیں بھلائی کے لئے) اس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ دعا مانگ رہا تھا اور کہہ رہا تھا : اللھم ان کان ھٰذا الحق من عندک فامطر علینا حجارۃً من السمآء اوئتنا بعذاب الیم۔ (الانفال) (اے اللہ ! اگر ہو یہی (قرآن) سچ تیری طرف سے تو برساہم پر پتھر آسمان سے اور لے آہم پر دردناک عذاب۔ ) اور کہا گیا ہے کہ وہ ممنوع چیز کی طلب میں دعا مانگتا ہے جیسا کہ مباح چیز کی طلب میں دعا مانگتا ہے۔ جیسا کہ شاعر ابن جامع نے کہا ہے : أطوف بالبیت فیمن یطوف وأرفع من مئزری المسبل میں بیت اللہ کا طواف کرنے والوں میں اس کا طواف کرتا ہوں اور اپنی لٹکی ہوئی چادر اٹھالیتا ہوں۔ وأسجد باللیل حتی الصباح وأتلو من المحکم المنزل اور میں رات کے وقت صبح تک عبادت کرتا ہوں اور نازل کی گئی محکم کتاب کی تلاوت کرتا ہوں۔ عسی فارج الھم عن یوسف یسخرلی ربہ المحمل پس قریب ہی تو یوسف سے غم دور ہونے کا امید وار وہ، وہ میرے لئے محمل کے مالک کو تابع کر دے گا۔ علامہ جوہری نے کہا ہے : کہا جاتا ہے ماعلی فلان محمل جیسا کہ مجلس ہے یہ بمعنی معتمد ہے یعنی (فلاں پر اعتماد نہیں) اور محمل، محامل الحاج کا واحد بھی ہے (حاجیوں کو اٹھانے والا ہو وج) اور محمل جیسا کہ مرجل ہے اس کا معنی ہے تلوار کی پیٹی۔ اور ویدع الانسان سے لفظ اور خط (یعنی پڑھنے اور لکھنے) میں واوحذف کردی گئی لیکن معنی میں یہ حذف نہیں ہوئی کیونکہ یہ محل رفع میں ہے لیکن اس کے سامنے لام ساکن آنے کی وجہ سے اسے حذف کردیا گیا ہے، جیسا کہ قول باری تعالیٰ ہے : سندع الزبانیۃ۔ (العلق) ویمح اللہ الناطل (الشوریٰ : 24) وسوف یؤت اللہ المؤمنین (النساء :146) ینادالمناد (ق :41) فماتغن النذر (القمر) (ان میں پہلی دو آیتوں میں واؤ آخری تین میں یاء لام ساکنہ کی وجہ سے حذف کردی گئی ہیں ) ۔ وکان الانسان عجولاً یعنی انسان کے مزاج اور طبیعت میں جلد بازی اور تیزی ہے، پس یہ برائی کے سوال میں اسی طرح جلد بازی اور تیزی کرتا ہے جس طرح خیر اور بھلائی مانگنے میں جلدی کرتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے اشارہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف ہے کہ جس وقت وہ روح کے مکمل طور پر اپنے بدن میں داخل ہونے سے پہلے بھی اٹھ بیٹھے۔ حضرت سلمان ؓ نے بیان کیا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا سر تخلیق فرمایا پس وہ دیکھتے رہے رد آنحالیکہ ان کا جسم تخلیق ہوتا رہا۔ پس جب عصر کا وقت ہوا ان کی ٹانگیں ابھی باقی تھیں ان میں روح نہیں پھونکی گئی تھی تو انہوں نے کہا : اے میرے پروردگار ! رات آنے سے پہلے پہلے جلدی کیجئے : تو اسی کے بارے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکان الانسان عجولاً اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : جب پھونک ان کی ناف تک پہنچ گئی تو انہوں نے اپنے جسم کی طرف دیکھا اور اٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ قادر نہ ہوسکے : پس اس کے بارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : و کان الانسان عجولاً اور حضرت مسعود ؓ نے بیان فرمایا : جب روح ان کی آنکھوں میں داخل ہوئی تو انہوں نے جنت کے پھلوں کی طرف دیکھا، اور جب ان کے پیٹ میں داخل ہوئی توط کھانے کی چاہت پیدا ہوئی تو روح کے اپنی ٹانگوں کی طرف پہنچنے سے پہلے ہی جنت کے پھلوں کیطرف جلدی سے اچھل پڑے، تو اسی وقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : خلق الانسان من عجل (الابنیاء :37) (انسان کی سرشت میں جلد بازی ہے) اسے بیہقی نے ذکر کیا ہے۔ اور صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی تصویر بنائی تو جتنا اللہ تعالیٰ نے چھوڑنا چاہا اسے چھوڑ دیا تو ابلیس اس کے اردگرد چکر لگاتا رہا اور دیکھتا رہا کہ وہ کیا ہے ؟ پس جب اس نے آپ کا پیٹ دیکھا تو وہ پہچان گیا کہ یہ ایسی مخلوق پیدا کی گئی ہے جو اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکے گی “۔ یہ روایت پہلے بھی کزر چکی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : آپ ﷺ نے ایک قیدی حضرت سودہ ؓ کے حوالے کیا تو وہ رات کے وقت کر اہنے لگا، آپ نے اس سے وجہ دریافت کی تو اس نے کہا : میرے کر اہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ چمڑے کا تسمہ شدید اور سخت بندھا ہوا ہے، چناچہ آپ نے اسے بندھے ہوئے تسمے کو تھوڑا ڈھیلا کردیا پس جب آپ سوگئیں تو وہ بھاگ گیا، تو آپ نے اس کی اطلاع حضور نبی مکرم ﷺ کو دی تو آپ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ تیرے پاتھ کاٹ دے “۔ پس جب صبح ہوئی تو آپ اس آفت کی توقع کرنے لگیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا :” بلاشبہ میں نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی ہے کہ وہ میری دعا اس کے خلاف کردے جو میری اہل میں رحمت کا مستحق نہیں ہے کیونکہ میں بھی انسان ہوں غصے میں ہوجاتا ہوں جیسا کہ انسان غصے میں ہوجاتا ہے “۔ اور یہ آیت نازل ہوئی : اسے ابونصر قشیری نے ذکر کیا ہے۔ اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :” اے اللہ ! بلاشبہ محمد ﷺ بشر ہے غضبناک ہوتا ہے جیسے انسان غصے میں ہوتا ہے اور بلاشبہ میں نے تجھ سے ایک عہدلے رکھا ہے اور تو ہرگز میرے ساتھ اس کا خلاف نہیں کرے گا پس جس مومن کو بھی کوئی اذیت پہنچاؤں یا اسے گالی دوں یا اسے کوڑے کے ساتھ ماروں تو تو اسے اسکے لئے کفارہ اور ذریعہ قربت بنادے اسے اس کے سبب قیامت کے دن اپنا قرب عطا فرمانا “ اور اس باب میں حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت جابر ؓ سے بھی روایات ہیں۔ اور کہا گیا ہے : وکان الانسان عجولاً کا معنی ہے کہ وہ جلدی ملنے والی شے (دنیا) کو ترجیح دیتا ہے اگرچہ وہ قلیل ہے دیر سے ملنے والی پر (آخرت پر) اگرچہ وہ عظیم اور زیادہ ہے۔
Top