Al-Qurtubi - Al-Israa : 8
عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یَّرْحَمَكُمْ١ۚ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا١ۘ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا
عَسٰي : امید ہے رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَنْ : کہ يَّرْحَمَكُمْ : وہ تم پر رحم کرے وَاِنْ : اور اگر عُدْتُّمْ : تم پھر (وہی) کرو گے عُدْنَا : ہم وہی کرینگے وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے حَصِيْرًا : قید خانہ
امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے، اور اگر تم پھر وہی (حرکتیں) کرو گے تو ہم بھی وہی (پہلا سا سلوک) کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے
آیت نمبر 8 قولہ تعالیٰ : عسٰی ربکم ان ہر حمکم اور یہ (خبر) ان میں سے ہے جس کے بارے انہیں ان کی کتاب میں خبر دی گئی ہے اور عسیٰ اللہ تعالیٰ لی طرف سے وعدہ ہے کہ وہ ان سے (اس تکلیف اور غم کو) دور فرمادے گا، اور عسی کا لفظ اللہ تعالیٰ سے واجب (اور ثابت) ہونے کے معنی میں ہوتا ہے۔ ان ترحمکم کہ تیرا رب تم سے اپنا انتقام لینے کے بعد تم پر رحم فرمائے گا، اور پھر اسی طرح ہوا، پس اللہ تعالیٰ نے ان کی تعداد کو پڑھادیا اور ان سے کئی بادشاہ بنائے۔ وان عدتم عدنا حضرت قتادہ نے بیان کیا ہے : پس وہ دربارہ (فسق وفجور کی طرف) لوٹ آئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کو غالب فرمادیا۔ اور وہ بڑی رذالت اور حقارت کے ساتھ جزیہ دینے لگے : اور یہ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے۔ اور یہ اس کے خلاف ہے جو پہلے حدیث وغیرہ میں گزر چکا ہے۔ اور قشیری نے کہا ہے : تحقیق بنی اسرائیل پر عذاب اور سختی دوبارہ کفار کے ہاتھوں سے آئی اور ایک بار مسلمانوں کے ہاتھوں سے۔ اور یہ اس وقت ہوا جب وہ دوبارہ فسق وفجور کی طرف لوٹ آئے تو اللہ تعالیٰ (کی گرفت) بھی ان پر لوٹ آئی۔ اور اس بنا پر حضرت قتادہ کا قول صحیح لگتا ہے۔ وجعلنا جھنم للکٰفرین حصیرًا اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ اور جیل بنادیا ہے۔ یہ الحصر سے ماخوذ ہے۔ اور اس کا معنی حبس (قید کرنا) ہے۔ جوہری نے کہا ہے : کہا جاتا ہے حصرہ یحصرا اس نے اس پر تنگ کردیا اور اس کا احاطہ کرلیا۔ اور الحصیر : الضیق البخیل (سخت بخیل) اور الحصیر کا معنی الباریۃ (تراشیدہ) ہے۔ اور الضصیر سے مراد پہلو بھی ہے۔ اصمعی نے کہا ہے : وہ ہڈی جو اونٹ اور گھوڑے کے پہلو میں ظاہر ہوتی ہے اس سے لے کر عرضاً اوپر کی جانب پہلو کے ختم ہونے تک درمیان میں جو (گوشت) ہے وہ حصیر کہلاتا ہے۔ اور الحصیر سے مراد بادشاہ بھی ہے، کیونکہ وہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ لبید نے کہا ہے : و قماقم غلب الرقاب کأنھم جن لدی باب الحصیر قیام اس میں الحصیر سے مراد بادشاہ لیا گیا ہے۔ اور روایت کیا جاتا ہے : ومقامۃ غلب الرقاب۔۔۔۔ یہ اس بنا پر ہے کہ غلب، مقامۃ سے بدل ہو گویا کہ اس طرح کہا : ورب غلب الرقاب۔ اور ابوعبیدہ سے مروی ہے : لدی طرف الحصیر قیام یعنی نعمان بن مندز کی چٹائی کے کنارے کے پاس۔ اور الحصیر کا معنی قید خانہ بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وجعلنا جھنم للکٰفرین حصیرًا اور علامہ قشیری نے کہا ہے : جس کو بچھایا جاتا ہے وہ حصیر کہلاتی ہے، کیونکہ بنائی کے سبب اس کے بعض حصے بعض کو روکے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور حسن نے کہا ہے : أی فراشاومھادا (یعنی اللہ تعالیٰ نے جہنم کو کافروں کے لئے فرش اور بچھونا بنا دیا ہے) (یعنی) یہ اس طرف گئے ہیں کہ حصیر وہ ہے جسے بچھایا جاتا ہے، کیونکہ عرب چھوٹی چٹائی کو حصیر کا نام دیتے ہیں، ثعلبی نے کہا ہے : اور یہ خوبصورت توجیہ ہے۔
Top