Al-Qurtubi - Al-Kahf : 80
وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ
وَاَمَّا : اور رہا الْغُلٰمُ : لڑکا فَكَانَ : تو تھے اَبَوٰهُ : اس کے ماں باپ مُؤْمِنَيْنِ : دونوں مومن فَخَشِيْنَآ : سو ہمیں اندیشہ ہوا اَنْ يُّرْهِقَهُمَا : کہ انہی پھنسا دے طُغْيَانًا : سرکشی میں وَّكُفْرًا : اور کفر میں
اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ (بڑا ہو کر بد کردار ہوگا کہیں) ان کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واما الغلم فکان ابوہ مومنین صحیح حدیث میں ہے : ” اس پر کافر ہونے کی مہر لگائی گئی تھی “ (3) یہ اس کی تائید کرتا ہے کہ وہ بالغ نہیں تھا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہ اس کے متعلق خبر ہو جبکہ وہ بالغ ہو، یہ مفہوم پہلے گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فخشینا ان یرھقھما بعض علماء نے فرمایا : یہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے کلام سے ہے۔ سیاق کلام بھی اسی کی تائید کرتا ہے اور اکثر مفسرین کا یہی قول ہے یعنی ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ انہیں سرکشی اور کفر پر مجبور کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر (علیہ السلام) کے لیے اس جہت پر نفوس کے قتل میں اجتہاد کو مباح کردیا تھا۔ بعض علماء نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت خضر (علیہ السلام) نے بیان کیا۔ طبری نے کہا : اس کا معنی ہے ہم نے جان لیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس کا معنی ہے ہم نے جان لیا۔ یہ اس طرح ہے جس طرح علم کو خوف سے تعبیر کیا جاتا ہے، ارشاد بباری تعالیٰ ہے : الا ان یخافا الا یقیما حدود الللہ (بقرہ : 229) حکایت ہے کہ حضرت ابی نے فعلم ربک پڑھا ہے۔ بعض نے فرمایا : خشیت بمعنی کراہت ہے۔ کہا جاتا ہے : فرقت بینھما خشیۃ ان یقتلا۔ یعنی لڑکے کی کراہت کی وجہ سے میں نے ان کے درمیان جدائی کردی۔ ابن عطیہ نے کہا : میرے نزدیک اس تاویل کی توجیہ میں اظہر یہ ہے کہ اگرچہ لفظ اس کی تائید نہیں کرتے کہ یہ استعارہ ہے یعنی مخلوق اور مخاطبین کے گمان پر اگر وہ اس کی حالت کو جان لیں انہیں والدین کو مجبور کرنے کا اندیشہ واقع ہو۔ حضرت ابن مسعود نے فخاف ربک، پڑھا ہے یہ استعارہ میں واضح ہے کہ اس کی نظیر قرآن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعل اور عسیٰ کا ذکر ہے۔ تمام ایسے حروف اور صیغے جن میں ترجی، توقع، خوف اور خشیت ہے وہ تمہارے اعتبار سے ہیں اے مخاطبو ! یرھقھما کا معنی ہے وہ انہیں مجبور کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسکی محبت انہیں اسکی اتباع پر ڈالے گی پس وہ گمراہ ہوجائیں گے۔ فاردنا ان یبدلھما ربھما۔ حضرت ابن عباس ؓ نیحاء کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، شاعر نے کہا : وکیف بظلم جاریۃ ومنھا اللین والرحم باقی قراء نے حاء کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے ؛ اسی سے روبۃ بن حجاج کا قول ہے : یا منزل الرحم علی ادریسا ومنزلل اللعن علی ابلیسا (1) ابو عمرو سے اختلاف مروی ہے۔ رحما، معطوف ہے۔ زکاۃ، پر اس کا معنی رحمۃ ہے کہا جاتا ہے : رحمہ رحمۃ ورحماء اس کا الف تانیث کے لیے ہے اس کا مذکر رحم ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : رحماً بمعنی الرحیم ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے واوصل رحما پڑھا ہے یعنی رحما اور حضرت ابن عباس ؓ نے ازکی منہ بھی پڑھا ہے۔ ابن جبیر اور ابن جریج سے مروی ہے کہ ان واللدین کو لڑکی بدلہ میں دی گئی۔ کلبی نے کہا : اس لڑکی س سے ایک نبی نے نکاح کیا تھا پھر اس سے نبی پیدا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے ایک ازممت کو ہدایت دی تھی۔ قتادہ نے کہا : اس نے بارہ انبیاء کو جنم دیا تھا۔ ابن جریج سے مروی ہے کہ اس لڑکے کی ماں 0 اس دن ایک مسلمان بچے کے ساتھ حاملہ تھی، جس دن وہ قتل ہوا تھا اور مقتول لڑکا کافر تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے : اس نے بچی جنم دی جس نے پھر نبی کو جنم دیا۔ ایک روایت میں ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کے بدلے میں بچی دی جس نے ستر انبیاء کو جنم دیا اور یہ جعفر بن محمد نے اپنے باپ سے روایت کر کے کہا ہے : ہمارے علماء نے کہا یہ بعید ہے، انبیاء کی کثرت صرف بنی اسرائیل میں معروف ہے اور یہ عورت بنی اسرائیل میں نہ تھی۔ اس آیت سے مستنبط ہوتا ہے کہ اولاد کے مفقود ہونے کے ساتھ مصائب آسان ہوتے ہیں اگرچہ اولاد جگر کا ٹکڑا ہوتی ہے اور جو قضا الٰہی کو تسلیم کرتا ہے اس کا انجام یدبیضا سے بھی روشن ہوتا ہے۔ قتادہ نے کہا : جب وہ بچہ پیدا ہوا تھا تو اس کے والدین خوش ہوئے تھے اور جب وہ قتل ہوا تھا تو پریشان ہوئے تھے۔ اگر وہ لڑکا باقی رہتا تو اس میں ان کی ہلاکت تھی، پس ہر شخص پر اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا مومن کے حق میں کبھی ناپسندیدہ امر کا فیصلہ بہتر ہوتا ہے بنسبت اس کے جو وہ اس کے لیے اس کی پسند کا فیصلہ فرماتا ہے۔
Top