Al-Qurtubi - Al-Kahf : 89
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا
ثُمَّ : پھر اَتْبَعَ : وہ پیچھے پڑا سَبَبًا : ایک سامان
پھر اس نے ایک اور سامان سفر کا کیا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم اتبع سببا۔ اس کا معنی گزر چکا ہے کہ اتبع اور اتبع کا معنی ایک ہے یعنی وہ راستے اور منزل کی طرف چلا۔ حتیٰ اذا بلغ مطلع الشمس مجاہد اور ابن محیصن نے میم اور لام کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، کہا جاتا ہے : طلعت الشمس والکواکب طلوعا ومطلعاً ، المطلع والمطلع۔ طلوع ہونے کی جگہ ؛ یہ جوہری کا قول ہے اس کا معنی ہے وہ ایسی قوم کی جگہ پہنچا کہ ان کے اور سورج کے طلوع ہونے کے درمیان کوئی شخص نہیں تھا۔ سورج کے پیچھے بہت زیادہ مسافت سے طلوع ہوتا تھا یعنی معنیٰ ہے اس قول کا بھی : وجدھا تطلع علی قوم۔ ان کے بارے میں اختلاف ہے، وہب بن منبہ سے وہی مروی ہے جو پہلے گزر چکا ہے : یہ ایک امت ہے جسے منسلک کہا جاتا ہے یہ ناسک کے مقابل تھی ؛ یہ مقاتل کا قول ہے۔ قتادہ نے کہا : اس کو زنج کہا جاتا ہے (1) ۔ کلبی نے کہا : یہ تارس، ہاویل اور منسلک میں جو ننگے پائوں اور برہنہ جسم رہتے تھے اور حق کا نور دیکھنے سے اندھے تھے۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ اہل جا بلق ہیں یہ قوم عاد کے مومنین کی نسل سے تھے جو حضرت ہود (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے۔ سریانی زبان میں انہیں مرقیسا کہا جاتا ہے۔ اور جو سورج کے غروب ہونے کی جگہ کے پاس تھے وہ اہل جابرس ہیں ان دو شہروں میں سے ہر ایک شہر کے دس ہزار دروازے تھے ہر دو دروازوں کے درمیان ایک فرسخ کا فاصلہ تھا اور جابلق کے پیچھے امتیں ہیں وہ تا فیل اور تارس ہیں، وہ یاجوج و ماجوج کے پڑوس میں ہیں۔ اہل جابرس اور جابلق، نبی کریم ﷺ ؛ پر ایمان لائے تھے۔ شب معراج آپ ﷺ ان کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں دعوت دی تو انہوں نے آپ کی دعوت قبول نہ کی، یہ سہیلی نے ذکر کیا ہے، انہوں نے کہا : میں نے یہ تمام ایک طویل حدیث سے اختصار کیا ہے جس کو مقاتل بن حبان نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ طبری نے مسنداً مقاتل سے روایت کی ہے۔ واللہ اعلم۔
Top