Al-Qurtubi - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ ان کو برانگیختہ کرتے رہتے ہیں ؟
(تفسیر 83-87) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الم ترانا ارسلنا الشیطین علی الکفرین ہم نے شیطانوں کو ان پر اغوا کرنے کے لیے مسلط کردیا ہے یہ اس وقت ہوا جبب ابلیس سے کہا تھا : واستفزز من استطعت منھم بصوتک (بنی اسرائیل :64) بعض نے فرمایا : انا ارسلنا کا معنی ہے ہم نے چھوڑ دیا ہے۔ کہا جاتا ہے : ارسلت البعیر میں نے اونٹ کو چھوڑ دیا ہے یعنی ہم نے شیطانوں اور ان کو چھوڑ دیا ہے ہم ان کی شیطانوں کی بات قبول کرنے سے حفاظت نہیں کرتے۔ زجاج نے ارسلنا کا معنی قیضنا (ہم نے مسلط کردیا) کیا ہے۔ تؤزھم ازاً حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس کا معنی ہے وہ انہیں طاعت کی جگہ معصیت اور نافرمانی پر اکساتے ہیں۔ ان سے مروی ہے توزھم ازاً حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس کا معنی ہے وہ انہیں طاعت کی جگہ معصیت اور نافرمانی پر اکساتے ہیں۔ ان سے مروی ہے تعزیھم اغراء بالشر وہ انہیں شر پر ابھارتے ہیں اس میں جاری رہو اس میں جاری رہو، حتیٰ کہ وہ انہیں آگ میں ڈال دیتے ہیں۔ پہلا معنی ثعلبی نے اور دوسرا ماوردی نے حکایت کیا۔ مفہوم ایک ہی ہے۔ ضحاک نے کہا : تغویھم اغواء وہ انہیں گمراہ کرتے ہیں۔ مجاہد نے کہا : ابھارتے ہیں۔ اس کا اصل معنی حرکت کرنا اور ابھرنا ہے ؛ اسی سے خبر مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ قام الی الصلاۃ ولجوفہ ازیر کا زیز المرجل ن البکاء (1) جب نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ کے اندر سے رونے کی وجہ سے ابلنے کی آواز آئی جیسے ہانڈی ابلتی ہے۔ جب ہانڈی ابل رہی ہو تو کہتے ہیں : أتزت القدر اتزازا… الاز، کا معنی ابھارنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الم ترانا ارسلنا الشیطن علی الکفرین تؤزھم ازا۔ یعنی وہ انہیں گناہوں پر اکساتے ہیں۔ الاز کا معنی الإختلاط بھی ہے قد أززت الشی اوزہ ازاً میں نے بعض کو بعض سے ملا دیا، یہ جوہری کا قول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلا تعجل علیہم یعنی ان کے لیے جلدی عذاب طلب نہ کرو، انما نعدلھم عداً ، کلبی نے کہا : اس کا معنی ہے ہم ان کے ایام، راتیں، مہینے، سال عذاب کے پہنچے تک شمار کر رہے ہیں۔ ضحاک نے کہا : ہم دنیا میں ان کے سانس گن رہے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : بعض نے فرمایا : ہم ان کے قدم گن رہے ہیں۔ بعض نے فرمایا : ہم ان کی لذات گن رہے ہیں۔ بعض نے فرمایا : لمحات گن رہے ہیں۔ بعض نے فرمایا : آپ ان کے لیے جلدی نہ کریں ہم ان کو مہلت دے رہے ہیں حتیٰ تاکہ یہ گناہ زیادہ کرلیں۔ روایت ہے کہ مامون نے یہ سورت پڑھی اس آیت پر گزرا تو اس نے ابن سماک کی طرف اپنے سر سے اشارہ کیا تاکہ وہ نصیحت پکڑے، اس کے پاس فقہاء کی جماعت بیٹھی تھی اس نے کہا : جب سانس گنے جا رہے ہیں تو پھر ان کے لیے کوئی مدد نہیں ہے اور کتنے جلدی وہ ختم ہونے والے ہیں۔ اسی مفہوم میں شاعر نے کہا : حیاتک انفاس تعد فکلما مضی نفس منک انتقصت بہ جزاء یمیتک ما یحییک فی کل لیلۃ ویحدوک حاد ما یرید بہ الھزء ا کہا جاتا ہے : انسان ایک دن اور رات میں چوبیس ہزار سانس لیتا ہے بارہ ہزار سانس دن میں اور بارہ ہزار رات میں لیتا ہے۔ یہ شمار ہوچکے ہیں ان کی تعداد معلوم ہے، ان کے لیے کوئی لمبائی و مدد نہیں ہے اور یہ کتنے جلدی ختم ہونے والے ہیں۔
Top