Al-Qurtubi - Al-Baqara : 116
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا اللہُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحَانَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَ الْاَرْضِ : اور زمین كُلٌّ : سب لَهٗ : اسی کے قَانِتُوْنَ : زیر فرمان
اور یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے (نہیں) وہ پاک ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرمانبردار ہیں
آیت نمبر 116 اس میں پانچ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقالوا اتخذ اللہ ولدًا یہ نصاریٰ کے متعلق خبر ہے۔ انہوں نے کہا تھا : المسیح ابن اللہ (حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے) نعوذ باللہ من ذالک۔ بعض نے فرمایا : عرب کے کفار کے متعلق خبر ہے کہ انہوں نے کہا : الملائکۃ بنات اللہ (ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں) اسی طرح کی اخبار جاہل کفار کے متعلق ہیں کہ انہوں نے حضرت مریم اور انبیاء کرام کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھا۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سبحنہ بل لہ امام بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ابن آدم نے مجھے جھٹلایا اور اسے یہ مناسب نہ تھا، ابن آدم نے مجھے گالی دی اور اسے یہ چاہئے نہیں تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ اس نے کہا : میں اسے دوبارہ لوٹانے پر قادر نہیں ہوں جس طرح وہ پہلے تھا اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ اس نے کہا : میرا بیٹا ہے میری ذات کسی کو بیوی یا بیٹا بنانے سے پاک ہے (1) ۔ مسئلہ نمبر 3: سبحنہ مصدر کی حیثیت سے منصوب ہے۔ اس کا معنی ہے : پاک کرنا، بری کرنا، ہر نقص سے علیحدہ جاننا۔ لوگوں نے کہا : اللہ نے بیٹا بنایا، نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا ہے، اپنی صفات میں یگانہ ہے۔ نہ تو اس نے کسی کو پیدا کیا ہے کہ وہ بیوی کا محتاج ہو۔ انی یکون لہ ولدٌ ولم تکن لہ صاحبۃ وخلق کل شیء (انعام : 101) (کیونکر ہو سکتا ہے اس کا کوئی لڑکا حالانکہ نہیں ہے اس کی کوئی بیوی اور پیدا فرمایا ہے اس نے ہر چیز کو) ولم یولد، نہ وہ پیدا کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے کوئی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بلند وبالا ہے اس سے جو ظالم اور منکر کہتے ہیں بل لہ ما فی السموت والارض، ما مبتدا کی حیثیت سے مرفوع ہے اور خبر مجرور ہے یعنی ایجاد واختراع کے اعتبار سے ہر چیز اس کی ملکیت میں ہے، اور جو یہ کہنے والا ہے کہ اس نے بیٹا بنایا یہ جملہ آسمانوں اور زمین میں داخل ہے (2) ۔ سبحان اللہ کا معنی اللہ تعالیٰ کا ہر نقص اور عیب سے پاک جاننا ہے۔ مسئلہ نمبر 4: بچہ، والد کی جنس سے ہوتا ہے۔ پس حق سبحانہ تعالیٰ کے لئے اپنی مخلوقات میں سے بیٹا بنانا کیسے درست ہوگا جبکہ کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمن عبدًا۔ (مریم) ( کوئی ایسی چیز نہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے مگر وہ حاضر ہوگی رحمن کی بارگاہ میں بندہ بن کر) اسی طرح فرمایا : بل لہ ما فی السموت والارض (بلکہ اسی کا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے ) ۔ اولاد ہونا جنسیت اور حدوث کا تقاضا کرتا ہے اور قدیم ہونا وحدانیت اور ثبوت کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم، ازلی اور یکتا ہے تنہا اور بےنیاز ہے۔ وہ وہ ہے جس نے نہ کسی کو جنا ہے نہ وہ جنا گیا ہے، اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے۔ پھر بیٹا۔۔۔ غلامی اور عبودیت کے منافی ہے جیسا کہ اس کا بیان سورة مریم میں انشاء اللہ آئے گا۔ پس بیٹا عبد کیسے ہوگا۔ یہ محال ہے اور جو چیز محال تک پہنچائے وہ بھی محال ہے۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کل لہ قنتون یہ مبتدا خبر ہیں۔ تقدیر عبارت کلھم ہے پھر ھا اور میم کو حذف کیا گیا۔ قنتون کا معنی اطاعت کرنے والے اور عجز کا اظہار کرنے والے ہیں۔ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتی ہے۔ جمادات کی اطاعت ان پر اور ان میں اس کی صنعت کے ظہور میں ہے۔ قنوت کا معنی اطاعت اور سکوت ہے (1) ۔ اسی سے حضرت زید بن ارقم کا قول ہے ہم نماز میں کلام کرتے تھے۔ آدمی اپنے قریب والے شخص سے بات کرتا رہتا تھا، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی : وقوموا للہ قنتین۔ (البقرہ :238) ہمیں سکوت کا حکم دیا گیا اور ہمیں کلام سے منع کیا گیا۔ القنوت کا معنی نماز بھی ہے۔ شاعر کا قول ہے : قانتاً للہ یتلو کتبہ وعلی عمد من اعتزل اس شعر میں قانتاً نماز پڑھنے والے کے معنی میں ہے۔ سدی وغیرہ (2) نے کلٌ لہ قنتون کے تحت لکھا ہے کہ قیامت کے دن تمام اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے ہوں گے۔ حسن نے کہا : جو بھی اللہ تعالیٰ کی گواہی دینے والا ہے وہ اس کا عبد ہے۔ القنوت کا لغوی معنی قیام ہے۔ اسی سے حدیث پاک میں ہے : افضل الصلوٰۃ طول القنوت (3) ۔ نماز میں سے افضل نماز وہ ہے جس کا قیام لمبا ہو۔ یہ زجاج نے کہا ہے ساری مخلوق اس کی عبودیت کو قائم کرنے والی ہے خواہ اقرار کے ساتھ یا کسی اور طریقہ سے۔ اس کی صنعت کا قرآن پر ظاہر ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کی اصل اطاعت ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والقنتین والقنتت (احزاب :35) مزید تفصیل وقوموا للہ قنتین۔ ( البقرہ :238) کے تحت آئے گی۔
Top