Al-Qurtubi - Al-Baqara : 115
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ۗ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب فَاَيْنَمَا : سو جس طرف تُوَلُّوْا : تم منہ کرو فَثَمَّ : تو اس طرف وَجْهُ اللہِ : اللہ کا سامنا اِنَّ اللہ : بیشک اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِیْمٌ : جاننے والا
اور مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے تو جدھر تم رخ کرو ادھر خدا کی ذات ہے بیشک خدا صاحب وسعت اور باخبر ہے
آیت نمبر 115 اس میں پانچ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وللہ المشرق والمغرب، المشرق سے مراد طلوع کی جگہ اور المغرب سے مراد غروب ہونے کی جگہ ہے۔ یعنی مشرق ومغرب اور ان کے درمیان کی جہات اور مخلوق کی ایجادواختراع اللہ کے لئے ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مشرق ومغرب کو خصوصی ذکر فرمایا ان کو شرف دینے کے لئے، جیسے بیت اللہ۔ ناقۃ اللہ۔ کیونکہ آیت کا سبب اس کا تقاضا کرتا ہے۔ جیسا کہ آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر 2: فاینما تولوا یہ شرط ہے اسی وجہ سے نون حذف کیا گیا ہے۔ این عاملہ ہے اور ما زائدہ ہے۔ اور جواب فثم وجہ اللہ ہے۔ حسن نے تولوا تاء اور لام کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اصل میں تتولوا تھا اور ثم ظرف کی بنا پر محل نصب میں ہے اس کا معنی بعد ہے، مگر یہ مبنی پر فتحہ ہے معرب نہیں ہے کیونکہ یہ مبہمہ ہے۔ یہ بعد کے لئے ھناک کے قائم مقام ہے اگر تو قرب کا ارادہ کرے گا تو تو ھنا کہے گا۔ مسئلہ نمبر 3: فاینما تولوا کس معنی میں نازل ہوا ؟ اس میں علماء کے پانچ مختلف اقوال ہیں : حضرت عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ نے کہا : یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جس نے تاریک رات میں غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ امام ترمذی نے حضرت عبد اللہ سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تاریک رات میں سفر پر تھے ہمیں معلوم نہ تھا کہ قبلہ کہا ہے ہر شخص نے اپنی سمت پر نماز پڑھی۔ جب صبح ہوئی تو ہم نے یہ نبی کریم ﷺ کے سامنے ذکر کیا، تو یہ آیت نازل ہوئی : فاینما تولوا فثم وجہ اللہ ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث ایسی ہے جس کی سند قابل حجت نہیں ہے ہم اس کو اشعث السمان کی حدیث سے جانتے ہیں اور اشعث بن سعید ابو الربیع حدیث میں ضعیف شمار کیا جاتا ہے۔ (1) اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے۔ وہ کہتے ہیں : جب بادل کی صورت میں غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے پھر بعد میں اسے علم ہو کہ اس نے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے تو اس کی نماز جائز ہوگی۔ حضرات سفیان، ابن المبارک، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ میں کہتا ہوں : امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا یہی قول ہے مگر امام مالک فرماتے ہیں : پھر وقت میں اس نماز کا اعادہ مستحب ہے اور اس پر اعادہ واجب نہیں ہے کیونکہ اس نے فرض تو ادا کرلیا جیسا اسے حکم دیا گیا تھا اور کمال وقت میں پایا جاسکتا ہے۔ یہ امام مالک نے سنت سے استدلال کیا ہے اس شخص کے بارے میں جس نے تنہا نماز پڑھی پھر اس نے اس نماز کو وقت کے اندر جماعت کے ساتھ پایا تو وہ لوگوں کے ساتھ نماز دوبارہ پڑھے اور وقت میں استحباباً اعادہ نہ کرے مگر وہ جو قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے نماز پڑھے یا مشرق یا مغرب کی طرف اپنی پوری کوشش کے بعد نماز پڑھے۔ اور جس نے قبلہ کی تھوڑی دائیں یا بائیں جانب کوشش سے نماز پڑھی اس پر وقت کے اندر اور وقت کے بعد اعادہ نہیں ہے۔ مغیرہ اور امام شافعی نے کہا : نماز جائز نہیں ہے کیونکہ قبلہ کی سمت ہونا نماز کی شروط میں سے ہے (جب شرط نہ پائی گئی تو نماز ہی نہ ہوئی) جو امام مالک نے کہا ہے وہ اصح ہے کیونکہ قبلہ کی جہت کو ضرورت، جنگ کی حالت میں اس کے ترک کو مباح کردیتی ہے اور حالت سفر میں رخصت اس کو مباح کردیتی ہے۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : یہ آیت مسافر کے بارے میں نازل ہوئی وہ نفل پڑھ سکتا ہے جدھر بھی اس کی سواری کا رخ ہو۔ یہ مسلم نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے ہوئے سواری پر نفلی نماز پڑھتے تھے جدھر بھی سواری کا رخ ہوتا تھا (1) ۔ فرمایا : اس کے متعلق فاینما تولوا فثم وجہ اللہ نازل ہوئی۔ علماء کا سواری پر نفل پڑھنے میں اس حدیث کی وجہ سے کوئی اختلاف نہیں ہے اور کسی کے لئے جان بوجھ کر بغیر شدت خوف کے قبلہ کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ مریض کے بارے میں امام مالک کا قول مختلف ہے جو محمل پر نماز پڑھتا ہے۔ کبھی فرمایا : وہ اونٹ کی پیٹھ پر فرض ادا کرے اگرچہ مرض شدید بھی ہو۔ سحنون نے کہا : اگر وہ ایسا کرے گا تو اعادہ کرے گا۔ یہ الباجی نے حکایت کیا ہے۔ کبھی کہا : اگر وہ ایسا شخص ہے جو زمین پر نماز نہیں پڑھ سکتا مگر اشارہ کے ساتھ تو وہ اونٹ کے اوپر نماز پڑھ لے اس کے بعد اس کے اونٹ کو روکا جائے اور منہ قبلہ کی طرف کیا جائے۔ اور اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ کسی صحیح آدمی کے لئے فرض ادا کرنا جائز نہیں ہیں مگر زمین پر، مگر خوف شدید ہو تو پھر سواری پر فرض نماز ادا کرسکتا ہے جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ فقہاء کا اس مسافر کے بارے میں اختلاف ہے جو ایسا سفر کرتا ہے جس میں نماز قصر نہیں کی جاتی۔ امام مالک اور ان کے اصحاب اور ثوری نے فرمایا کہ سواری پر نفل نہ پڑھے مگر ایسے سفر میں جس میں نماز قصر کی جاتی ہے۔ انہوں نے فرمایا : وہ سفر جو رسول اللہ ﷺ سے حکایت کئے جاتے ہیں کہ ان میں آپ نوافل سواری پر پڑھتے تھے، وہ وہ سفر تھے جس میں نماز قصر کی جاتی ہے۔ امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، حسن بن حیی، اللیث بن سعد، داوڈ بن علی نے کہا : شہر سے باہر ہر سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنا جائز ہے خواہ اس سفر میں نماز قصر کی جاتی ہو یا نہ کی جاتی ہو کیونکہ آثار ایسے ہیں جن میں کسی خاص سفر کا ذکر نہیں۔ ہر سفر میں نفلی نماز جائز ہے مگر یہ کہ کسی سفر کو ایسی روایت کے ساتھ خاص کیا گیا ہو جو واجب التسلیم ہو۔ امام ابو یوسف نے فرمایا : شہر میں بھی سواری پر اشارے سے نماز پڑھ سکتا ہے کیونکہ یحییٰ بن سعید کی حدیث حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ انہوں نے مدینہ طیبہ کی گلیوں میں گدھے پر اشارے سے نماز پڑھی۔ طبری نے کہا : ہر سوار اور پیدل کے لئے جائز ہے جو وہ مقیم ہو یا مسافر ہو سواری پر اور چلتے ہوئے نفلی نماز اشارے سے پڑھے۔ بعض اصحاب شافعی سے حکایت ہے کہ ان کا مذہب سفر وحضر میں سواری پر نفل پڑھنے کے جواز کا ہے۔ الاثرم نے کہا : احمد بن حنبل سے حضر میں سواری پر نماز کے بارے پوچھا گیا تو امام احمد نے فرمایا : سفر کے بارے میں تو میں نے سنا ہے لیکن حضر کے بارے میں نہیں سنا۔ ابن القاسم نے کہا : جو محمل میں نفل پڑھے تو بیٹھ کر نماز پڑھے اس کا قیام چوکڑی مار کر بیٹھنا ہے وہ اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے رکوع کرے پھر اپنے سر کا اٹھائے۔ قتادہ نے کہا : یہ نجاشی کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب وہ فوت ہوا تو نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے مدینہ طیبہ سے باہر بلایا۔ صحابہ نے عرض کی : ہم اس شخص پر کیسے نماز پڑھیں گے جو فوت ہوچکا ہے اور وہ ہمارے قبلہ کے علاوہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا تھا (1) ۔ نجاشی حبشہ کا بادشاہ تھا، اس کا نام اصحمہ تھا عربی میں اس کا معنی عطیہ ہے۔ وہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے فوت ہوا تھا حالانکہ قبلہ تبدیل ہوچکا تھا اور قبلہ کعبہ بن چکا تھا تو یہ آیت نازل ہوئی اور اس کے بارے میں نازل ہوا : وان من اھل الکتب لمن یؤمن باللہ (آل عمران :199) یہ نجاشی کے لئے عذر تھا۔ (2) نبی کریم ﷺ نے نو ہجری میں اپنے اصحاب کے ساتھ یہ نماز پڑھی تھی۔ اس سے غائب پر نماز جنازہ پڑھنے پر امام شافعی نے استدلال کیا ہے۔ ابن عربی نے کہا : میت پر نماز کے مسائل میں سے غریب ترین مسئلہ وہ ہے جو امام شافعی نے کہا کہ غائب پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ میں بغداد میں فخر الاسلام کی مجلس میں تھا۔ ان کے پاس خراسان سے ایک شخص آیا اس سے فخر السلام نے پوچھا : فلاں کا کیا حال ہے ؟ اس شخص نے کہا : وہ تو فوت ہوگیا ہے۔ فخر الاسلام نے کہا : انا للہ وانا الیہ رجعون۔ پھر ہمیں فرمایا : اٹھو میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔ پس وہ کھڑے ہوئے اور ہمیں اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ یہ اس کے مرنے کے چھ ماہ بعد نماز جنازہ پڑھی گئی اور درمیان میں چھ ماہ کی مدت تھی۔ شوافع کے نزدیک اس کی اصل نجاشی پر نبی کریم ﷺ کا نماز جنازہ پڑھنا ہے۔ ہمارے علماء فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺ تین وجوہ کی وجہ سے اس کے ساتھ خاص تھے۔ (1) نبی کریم ﷺ کے لئے زمین جنوباً شمالاً ہمورا کردی گئی تھی حتیٰ کہ نجاشی کا جنازہ آپ ﷺ نے سامنے تھا، جس طرح زمین شمالاً جنوباً ہموار کردی گئی تھی حتیٰ کہ آپ نے مسجد اقصیٰ دیکھ لی۔ مخالف نے کہا : اس روایت میں کیا فائدہ ہے ؟ آپ کی برکت کے لاحق ہونے کا فائد ہے۔ (2) نجاشی کے لئے وہاں مومنین میں سے کوئی ولی نہ تھا جو اس کی نماز جنازہ پڑھتا۔ مخالف نے کہا : یہ عادۃً محال ہے، بادشاہ ایک دین پر ہو اور اس کا کوئی پیروکار نہ تھا، محال کے ساتھ تاویل محال ہے (3) نبی کریم ﷺ نے نجاشی پر نماز جنازہ پڑھنے میں اس پر رحمت داخل کرنے اور اس کے بعد والے بادشاہوں کی الفت چاہنے کا ارادہ کیا تھا جب وہ زندہ اور مردہ حالت میں اس کا اہتمام دیکھیں گے۔ مخالف نے کہا : دعا کی برکت نبی کریم ﷺ سے اور دوسروں سے میت کو بالاتفاق لاحق ہوتی ہے۔ ابن عربی نے کہا : میرے نزدیک نبی کریم ﷺ کے نجاشی پر نماز جنازہ پڑھنے کی حکمت یہ تھی کہ نجاشی اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے انہیں میت پر نماز پڑھنے کا علم نہیں تھا۔ آپ کو معلوم ہوا کہ وہ بغیر نماز کے ہی اسے دفن کردیں گے تو آپ نے اس کی نماز کی طرف جلدی کی۔ میں کہتا ہوں : پہلی تاویل احسن ہے کیونکہ جب آپ نے اسے دیکھ لیا تو غائب پر نماز نہ ہوئی بلکہ حاضر اور مرئی پر نماز جنازہ پڑھی۔ غائب وہ ہوتا ہے جو نظر نہ آئے۔ واللہ اعلم چوتھا قول : ابن زید نے کہا : یہود نبی کریم ﷺ کے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کو اچھا سمجھتے تھے اور کہتے تھے : ہدایت نہیں پائی مگر ہمارے ذریعے۔ جب کعبہ کو قبلہ بنایا گیا تو یہود نے کہا : کس چیز نے پھیر دیا انہیں جس پر (پہلے) وہ تھے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی : وللہ المشرق والمغرب (1) (اللہ کے لئے ہے مشرق ومغرب) اس قول پر وجہ نظم یہ ہے کہ یہود نے جب قبلہ کے امر کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے اپنے بندوں کو جس قبلہ کا چاہے مکلف بنا دے۔ اگر وہ چاہے تو انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دے دے، اگر چاہے تو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دے دے۔ اس کے فعل کے خلاف حجت پیش نہیں کی جاسکتی۔ جو وہ کرتا ہے اس کے بارے اس سے پوچھا نہیں جاتا ہے اور لوگوں سے ان کے افعال کے متعلق پوچھا جائے گا۔ پانچواں قول : یہ آیت، اس آیت وحیث ما کنتم فولوا وجوھکم شطرہ (البقرہ :144) سے منسوخ ہے۔ یہ حضرت ابن عباس نے ذکر کیا ہے گویا ابتداء اسلام میں جائز تھا کہ جدھر چاہے آدمی منہ کر کے نماز پڑھ لے پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ قتادہ نے کہا۔ اس آیت کا ناسخ یہ ارشاد ہے فول وجھک شطر المسجد الحرام (البقرہ : 149) (یعنی اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لو) یہ ابو عیسیٰ ترمذی نے بیان کیا ہے۔ چھتا قول : مجاہد اور ضحاک سے مروی ہے کہ یہ آیت محکم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم مشرق میں ہو یا مغرب میں ہو ادھر ہی اللہ تعالیٰ ہے اس نے استقبال قبلہ کا حکم دیا ہے (2) ۔ مجاہد اور ابن جبیر سے مروی ہے جب ادعونی استجب لکم نازل ہوا تو لوگوں نے کہا کدھر منہ کر کے مانگیں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی فاینما تولوا فثم وجہ اللہ۔ حضرت ابن عمر اور نخعی سے مروی ہے تم اپنے سفروں میں اور گردشوں میں جہادں بھی ہو ادھر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس آیت کا تعلق ومن اظلم الخ کے ساتھ ہے۔ معنی یہ ہے : اے مومنو ! اللہ کے شہر تمہیں سما سکتے ہیں، تمہیں اس شخص کی تخریب قبلہ کی طرف منہ کرنے سے نہ روکے، جو اللہ کی مساجد کی تخریب کرتا ہے، تم زمین میں جہاں بھی ہو۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ اس وقت آیت نازل ہوئی جب حدیبیہ کے سال رسول اللہ ﷺ کو بیت اللہ کے قریب جانے سے روکا گیا تھا، تو مسلمان اس پر مغموم ہوئے (3) ۔ یہ دس اقوال ہیں۔ اور جن علماء نے اسے منسوخ کیا ہے ان پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ یہ خبر ہے اور خبر منسوخ نہیں ہوتی کیونکہ خبر، امر کے معنی کا احتمال رکھتی ہے اور اس معنی کا احتمال ہے کہ اپنے چہرے اللہ کی طرف کرلو۔ یہ آیت وہ ہے جو حضرت سعید بن جبیر نے تلاوت کی تھی جب حجاج نے زمین کی طرف منہ کر کے اسے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔ مسئلہ نمبر 4: قرآن و حدیث میں وجہ جو اللہ طرف مضاف ہوتا ہے اس کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے۔ ماہرین نے کہا : یہ وجود کی طرف راجع ہے یہ کلام میں مجاز ہے ذات کو اس سے اس لئے تعبیر فرمایا کیونکہ یہ اعضاء میں ظاہر ترین عضو ہے اور قدرو منزلت میں عظیم ہے (4) ۔ ابن فورک نے کہا : بعض دفعہ صفت ذکر کیا جاتی ہے اور مجازاً موصوف مراد ہوتا ہے جیسے کوئی کہنے والا کہتا ہے : میں نے آج فلاں کا علم دیکھا، میں نے فلاں کے علم کی طرف یکھا۔ اس سے مراد ہوتا ہے کہ میں نے عالم دیکھا اور عالم کی طرف دیکھا۔ اسی طرح یہاں وجہ ذکر ہے اور مراد وجود ہے۔ اسی تاویل پر یہ ارشاد ہے : انما نطعکم لوجہ اللہ (الدہر :9) اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کے لئے وجہ ہے اس طرح یہ آیت ہے : الا بتغاء وجہ ربہ الاعلیٰ ۔ (اللیل) یعنی وہ ذات جس کے لئے وجہ ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا وجہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جیسا کہ ارشاد ہے : ویبقیٰ وجہ ربک ذوا الجلال والاکرام۔ (الرحمٰن) بعض ائمہ نے فرمایا : یہ نقل سے صفت ثابتہ ہے اور ان صفات سے زائد ہے جن کو عنول واجب قرار دیتی ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا (1): اس قول کو ابو المعالی نے ضعیف قرار دیا ہے یہ اسی طرح ضعیف ہے۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وجود ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہاں الوجہ سے مراد وہ جہت ہے جس کی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا ہے یعنی قبلہ، بعض نے فرمایا : الوجہ سے مراد قصد ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا : استغفر اللہ ذنبا لست محصیہ رب العباد الیہ الوجہ والعمل میں اللہ تعالیٰ سے ان گناہوں کی معافی مانگتا ہوں جو بیشمار ہیں بندوں کے رب کی طرف ہی قصد اور عمل ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : معنی ہے : فثم رضا اللہ وثوابہ، یعنی ادھر اللہ کی رضا اور ثواب ہے جیسا کہ فرمایا : انما نطعمکم لوجہ اللہ (الدہر : 9) ہم اللہ کی رضا اور اس کے ثواب کی طلب میں تمہیں کھلاتے ہیں۔ اسی سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : من بنی مسجداً یبتغی بہ وجہ اللہ بنی اللہ لہ مثلہ فی الجنۃ (2) ۔ جس نے مسجد بنائی اور اس سے اس کا مقصود اللہ کی رضا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کی مثل جنت میں (گھر) بنائے گا۔ اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : قیامت کے روز مہر شدہ صحیفوں کو لایا جائے گا اور انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا : ان کو پھینک دو اور ان کی طرف توجہ کرو۔ فرشتے عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! تیری عزت کی قسم ! ہم تو انہیں خیر دیکھتے ہیں اللہ بہتر جانتا ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ان ھذا کان لغیر وجھی ولا اقبل من العمل الا ما ابتغی بہ وجھی۔ یہ اعمال میری رضا کے لئے نہ تھے اور میں صرف وہی عمل پسند کرتا ہوں جو میری رضا کے لئے ہو۔۔۔۔ اس حدیث کو دار قطنی نے نقل کیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : مراد فثم اللہ ہے الوجہ زائد ہے۔ یہ اس ارشاد کی طرح ہے : وھو معکم۔ یہ کلبی، قتبی کا قول ہے۔ معتزلہ کا قول بھی اسی طرح ہے۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان اللہ واسع علیمٌ یعنی وہ اپنے بندوں پر ان کے دین میں وسعت فرماتا ہے اور انہیں ایسی تکلیف نہیں دیتا جو ان کی طاقت میں نہ ہو۔ بعض علماء نے فرمایا : واسعٌ کا معنی ہے : اس کا علم ہر چیز گھیرے ہوئے ہے۔ جیسے ارشاد فرمایا : وسع کل شیء علماً ۔ (طہ) فراء نے کہا : الواسع اس سخی کو کہتے ہیں جس کی عطا ہر چیز کو شامل ہو، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ورحمتی وسعت کل شیءٍ (اعراف :156) اور بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد مغفرت میں وسعت رکھنے والا ہے، کوئی گناہ اس مغفرت سے بڑا نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اپنے بندوں پر فضل فرمانے والا اور ان کے اعمال سے بےنیاز ہے۔ کہا جاتا ہے : فلان سیع ما یسئل، یعنی فلاں عطا فرماتا ہے جو اس سے مانگا جاتا ہے یعنی بخل نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لینفق ذوسعۃٍ من سعتہ (الطلاق :7) یعنی غنی کو اس سے خرچ کرنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمایا۔ ہم اپنی کتاب الاسنیٰ میں اس کا ذکر کیا ہے۔
Top