Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 221
وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّ١ؕ وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْكُمْ١ۚ وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا١ؕ وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْ١ؕ اُولٰٓئِكَ یَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ١ۖۚ وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ١ۚ وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۠ ۧ
وَلَا
: اور نہ
تَنْكِحُوا
: تم نکاح کرو
الْمُشْرِكٰتِ
: مشرک عورتوں سے
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
يُؤْمِنَّ ۭ
: وہ ایمان لے آئیں
وَلَاَمَةٌ
: اور البتہ لونڈی
مُّؤْمِنَةٌ
: مومنہ۔ ایمان والی
خَيْرٌ
: بہتر ہے
مِّنْ مُّشْرِكَةٍ
: مشرکہ عورت سے
وَّلَوْ
: اور اگرچہ
اَعْجَبَتْكُمْ ۚ
: وہ اچھی لگے تم کو
وَلَا
: اور نہ
تُنْكِحُوا
: تم نکاح کر کے دو
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرک مردوں کو
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
يُؤْمِنُوْا ۭ
: وہ ایمان لے آئیں
وَلَعَبْدٌ
: اور البتہ غلام
مُّؤْمِنٌ
: مومن
خَيْرٌ
: بہتر ہے
مِّنْ
: سے
مُّشْرِكٍ
: مشرک مرد
وَّلَوْ
: اور اگرچہ
اَعْجَبَكُمْ ۭ
: وہ پسند آئے تم کو
اُولٰٓئِكَ
: یہ لوگ
يَدْعُوْنَ
: بلاتے ہیں
اِلَى النَّارِ ښ
: آگ کی طرف
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَدْعُوْٓا
: بلاتا ہے
اِلَى الْجَنَّةِ
: جنت کی طرف
وَالْمَغْفِرَةِ
: اور بخشش کی طرف
بِاِذْنِهٖ ۚ
: ساتھ اپنے اذن کے
وَيُبَيِّنُ
: اور بیان کرتا ہے
اٰيٰتِهٖ
: آیات اپنی
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَتَذَكَّرُوْنَ
: وہ نصیحت پکڑیں
اور (مومنو ! ) مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرنا کیونکہ مشرک عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے مومن لونڈی بہتر ہے اور (اسی طرح) مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مومن عورتوں کو ان کی زوجیت میں نہ دینا کیونکہ مشرک (مرد) سے خواہ تم کو کیسا بھلا لگے مومن غلام بہتر ہے یہ (مشرک لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور خدا اپنی مہربانی سے بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنے حکم لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں
اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا تنکحوا “ اس میں جمہور کی قرات تاء کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ البتہ شاذ قرات میں ضمہ (پیش) کے ساتھ بھی اسے پڑھا گیا ہے۔ گویا معنی یہ ہے کہ اس کی شادی کرنے والے نے اپنے سے اس کا نکاح کردیا۔ اور نکح کا اصل معنی جماع ہے اور شادی کرنے کے معنی میں مجازا اور وسعۃ استعمال ہوتا ہے۔ تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ آگے آئے گی۔ مسئلہ نمبر : (
2
) جب اللہ تعالیٰ نے یتیموں کا مال اپنے مال کے ساتھ ملانے اور (اہل کتاب کے ساتھ) نکاح کا میل جول رکھنے کی اجازت عطا فرما دی تو یہ واضح کردیا کہ مشرکین کے ساتھ باہم نکاح کرنا صحیح نہیں ہے۔ مقاتل نے کہا ہے : یہ آیت حضرت ابو مرثد غنوی ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مرثد بن ابی مرثد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ان کا نام کناز بن حصین غنوی تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں خفیہ طور پر مکہ مکرمہ بھیجا، تاکہ وہ آپ کے اصحاب میں سے جو لوگ وہاں ہیں انہیں نکال لائے، تو مکہ مکرمہ میں ایک عورت تھی جو زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ محبت کرتی تھی، اسے عناق کہا جاتا تھا۔ وہ آپ کے پاس آگئی، تو آپ نے اسے فرمایا : بیشک اسلام نے اسے حرام کردیا ہے جو کچھ عہد جاہلیت میں تھا، تو اس نے کہا : پھر تم مجھ سے شادی کرلو، تو آپ نے فرمایا : یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے لوں، چناچہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ سے اجازت طلب کی، تو آپ ﷺ نے انہیں اس سے شادی کرنے سے منع فرما دیا، کیونکہ آپ مسلمان تھے اور وہ مشرکہ تھی (
1
) ۔ (اسباب النزول للواحد، صفحہ
67
۔
66
) اس کا بیان سورة النور میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (
3
) اس آیت کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے، پس ایک جماعت نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کو حرام قرار دیا ہے، پھر ان تمام سے اہل کتاب عورتوں کو نکال دیا ہے اور انہیں سورة مائدہ میں حلال قرار دیا ہے۔ یہ قول حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ اور مالک بن انس، سفیان بن سعید ثوری اور عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی رحمۃ اللہ علہیم نے بھی یہی کہا ہے۔ اور حضرت قتادہ اور حضرت سعید بن جبیر نے کہا ہے : آیت کا لفظ تمام کافر عورتوں کو شامل ہے اور اس سے مراد خاص طور پر اہل کتاب ہیں اور اس خصوصی کو سورة المائدہ کی آیت نے بیان کیا ہے۔ اور یہ عموم کبھی بھی اہل کتاب عورتوں کو شامل نہیں ہوا۔ یہ امام شافعی (رح) کے دو قولوں میں سے ایک ہے۔ اور پہلے قول کے مطابق عموم ان کو بھی شامل ہے پھر سورة المائدہ کی آیت نے بعض عموم کو ختم کردیا ہے۔ اور یہی حضرت امام مالک (رح) کا مذہب ہے، اسے ابن حبیب نے ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہودیہ اور نصرانیہ کا نکاح مذموم اور ثقیل ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اسے حلال قرار دیا ہے۔ اسحاق بن ابراہیم حربی نے کہا ہے : ایک قوم نے کہا ہے کہ سورة البقرہ کی آیت ناسخ ہے اور سورة المائدہ کی آیت منسوخ ہے، لہذا انہوں نے ہر مشرک عورت کے نکاح کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ کتابیہ ہو یا غیر کتابیہ ہو۔ نحاس نے کہا ہے : یہ قول کرنے والے کی دلیل وہ حدیث ہے جس کی سند صحیح ہے اور ہمیں محمد بن ریان نے وہ بیان کی ہے، انہوں نے کہا : ہمیں محمد بن رمح نے بیان کیا کہ لیث نے حضرت نافع سے ہمیں بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے جب کسی آدمی کے یہودی یا نصرانی عورت سے شادی کرنے کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر مشرک عورتیں حرام قرار دی ہیں اور میں اس سے بڑا شرک کوئی نہیں جانتا کہ ایک عورت کہتی ہے : اس کا رب عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں یا اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی بندہ یہ کہے۔ (
1
) (بخاری شریف : باب : قول اللہ ولا تنکحوا المشرکات “ الخ حدیث نمبر :
4877
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) نحاس نے کہا ہے : یہ قول اس جماعت کے قول سے خارج ہے جو اپنے ساتھ حجت قائم کرتے ہیں۔ کیونکہ صحابہ کرام اور تابعین کی ایک جماعت نے اہل کتاب کی عورتوں کے حلال ہونے کے بارے قول کیا ہے، ان میں سے حضرات عثمان، طلحہ، ابن عباس، جابر اور حذیفہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔ اور تابعین میں سے حضرات سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، حسن، مجاہد، طاؤس، عکرمہ، شعبی اور ضحاک ہیں اور فقہائے امصار بھی اسی قول پر ہیں۔ اور یہ بھی کہ سورة البقرہ کی اس آیت کا سورة المائدہ کی اس آیت کے لئے ناسخ ہونا ممتنع ہے۔ کیونکہ سورة البقرہ ان سورتوں میں سے ہے جو پہلے پہلے مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں اور سورة المائدہ آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔ اور بلاشبہ آخر میں نازل ہونے والی پہلے والی کو منسوخ کرتی ہے۔ رہی حدیث ابن عمر ؓ تو اس میں بھی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ توقف کرنے والے آدمی تھے، جب آپ نے دونوں آیتیں سنیں کہ ایک میں حلت کا ذکر ہے اور دوسری میں حرمت کا اور نسخ کی دلیل بھی آپ پر واضح نہ ہوئی، تو آپ نے توقف فرما لیا، پس آپ سے نسخ کا ذکر مروی نہیں، بلکہ صرف نسخ کی تاویل کی گئی ہے اور ناسخ ومنسوخ تاویل کے ساتھ حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ ابن عطیہ نے ذکر کیا ہے : حضرت ابن عباس ؓ نے ان بعض روایات میں کہا ہے جو ان سے مروی ہیں کہ یہ آیت بت پرست، آتش پرست اور کتابی عورتوں کے بارے میں عام ہے اور ہر وہ عورت جو دین اسلام پر نہیں وہ حرام ہے، اسی بنا پر یہ سورة المائدہ کی آیت کے لئے ناسخ ہے اور مؤطا میں حضرت ابن عمر ؓ کا قول اسی کی تائید کرتا ہے کہ میں اس سے بڑھ کر شرک کرنے والا کسی کو نہیں جانتا کہ ایک عورت کہے : اس کا رب عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت حذیفہ بن یمان ؓ اور دو کتابی عورتوں کے درمیان تفریق کی اور ان دونوں نے کہا : اے امیر المومنین ! آپ طلاق دلوا دیں اور آپ غصے میں نہ ہوں، تو آپ نے فرمایا : اگر تم دونوں کی طلاق جائز ہے تو یقینا تمہارا نکاح بھی جائز ہے۔ لیکن میں تم دونوں کے درمیان انتہائی ذلت و حقارت کی تفریق کر رہا ہوں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ سند کے اعتبار سے جید اور عمدہ نہیں ہے اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کا ارادہ کیا تو حضرت حذیفہ ؓ نے آپ سے کہا : کیا آپ گمان کرتے ہیں کہ یہ حرام ہے تو میں اس کا راستہ چھوڑ دیتا ہوں یا امیر المومنین ؟ (یعنی میں اسے فارغ کردیتا ہوں) تو آپ نے فرمایا : میں یہ گمان نہیں کرتا کہ یہ حرام ہے، البتہ مجھے یہ خوف ہے کہ تم ان میں سے بدکار عورتوں میں مشغول ہوجاؤ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
297
۔
296
) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ ابن منذر نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کتابی عورتوں کے ساتھ نکاح جائز ہونے کا ذکر کیا ہے اور ان صحابہ کرام اور تابعین سے بھی جن کا ذکر نحاس کے قول میں ہوا ہے (نکاح کا جواز ذکر کیا ہے) اور اپنے کلام کے آخر میں کہا ہے : اوائل میں سے کسی سے بھی یہ قول صحیح نہیں ہے کہ انہوں نے اسے حرام قرار دیا ہو۔ اور بعض علماء نے کہا ہے : جہاں تک دونوں آیتوں کا تعلق ہے ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ ظاہرا لفظ شرک اہل کتاب کو شامل نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ما یود الذین کفروا من اھل الکتب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم “۔ (البقرہ :
105
) ترجمہ : نہیں پسند کرتے وہ لوگ جو کافر ہیں اہل کتاب سے اور نہ مشرک کہ اتاری جائے تم پر کچھ بھلائی تمہارے رب کی طرف سے) اور فرمایا : (آیت) ” لم یکن الذین کفروا من اھل الکتب والمشرکین “۔ (البینہ :
1
) ترجمہ : جن لوگوں نے اہل کتاب میں سے کفر کیا (وہ) اور مشرکین) پس لفظ میں ان کے درمیان فرق کیا ہے اور ظاہر عطف، معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان مغائرت کا تقاضا کرتا ہے اور یہ بھی کہ اسم شرک عام ہے اور یہ نص نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” والمحصنت من المؤمنت “۔ کے بعد یہ ارشاد گرامی : (آیت) ” والمحصنت من الذین اوتوالکتب “۔ (المائدہ :
5
) ترجمہ : اور (حلال ہیں) پاک دامن مومن عورتیں اور پاکدامن عورتیں ان لوگوں کی جنہیں دی گئی کتاب) یہ نص ہے، پس جس میں احتمال ہے اور جس میں کوئی احتمال نہیں ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں۔ اور اگر کہا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد (آیت) ” والمحصنت من الذین اوتوا الکتب من قبلکم “۔ سے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور وہ اسلام لے آئے، جیسا کہ اس ارشاد میں ہے۔ (آیت) ” وان من اھل الکتب لمن یؤمن باللہ “۔ الآیہ (آل عمران :
199
) ترجمہ : اور بیشک بعض اہل کتاب ایسے ہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ پر) اور یہ ارشاد ہے : (آیت) ” من اھل الکتب امۃ قائمۃ “۔ (آل عمران :
113
) ترجمہ : اہل کتاب سے ایک گروہ حق پر قائم ہے۔ ) توا سے کہا جائے گا : یہ اس ارشاد میں آیت کی نص کے خلاف ہے : (آیت) ” والمحصنت من الذین اوتوا الکتب من قبلکم “ اور اس نظریہ کے خلاف ہے جو جمہور نے بیان کیا ہے کیونکہ ان میں سے جو اسلام لے آیا اس کی شادی کے جائز ہونے پر تو کسی کو کوئی اشکال نہیں ہے اور وہ مسلمانوں کی جماعت میں سے ہوگیا ہے۔ اور اگر وہ کہیں : تحقیق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” اولئک یدعون الی النار “۔ اور ان کے نکاح کے حرام ہونے میں آگ کی طرف بلانے کو علت قرار دیا ہے، تو جواب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی علت ہے : (آیت) ” ولا مۃ مؤمنۃ خیر من مشرکۃ “۔ کیوں کہ مشرک آگ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور یہ علت تمام کفار میں جاری ساری ہے نتیجتا مسلمان مطلقا کافر سے بہتر اور اچھا ہے اور یہ بالکل ظاہر بات ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) اور رہا اہل کتاب کا نکاح جب وہ حالت جنگ میں ہوں تو نکاح حلال نہیں ہوگا، حضرت ابن عباس ؓ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : وہ حلال نہیں، اور رب العالمین کا یہ ارشاد تلاوت فرمایا : (آیت) ” قاتلوا الذین لا یؤمنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتب حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وھم صغرون “۔ (التوبۃ :
29
) ترجمہ : جنگ کرو ان لوگوں سے جو نہیں ایمان لائے اللہ پر اور نہ روز قیامت پر اور نہیں حرام سمجھتے جسے حرام کیا ہے اللہ نے اور اس کے رسول نے اور نہ قبول کرتے ہیں سچے دین کو ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے یہاں تک کہ دین وہ جزیہ اپنے ہاتھ سے اس حال میں کہ وہ مغلوب ہوں) محدث نے کہا : میں نے اس کا ذکر حضرت ابراہیم نخعی سے کیا تو انہوں نے اسے بہت پسند کیا۔ اور امام مالک (رح) نے اہل حرب کی شادی کو مکروہ قرار دیا ہے اور اس کی علت دارالحرب میں بچے کو چھوڑنا ہے اور اس وجہ سے کہ عورت وہاں شراب اور خنزیر میں تصرف کرے گی۔ مسئلہ نمبر : (
5
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا مۃ مؤمنۃ خیر من مشرکۃ “ یہ اس کی خبر دی جا رہی ہے کہ مومنہ لونڈی مشرکہ سے بہتر ہے، اگرچہ وہ صاحب حسب اور صاحب مال ہو۔ (آیت) ” ولو اعجبتکم “ اگرچہ وہ تمہیں حسن و جمال وغیرہ میں بہت پسند آئے۔ یہی علامہ طبری کا وغیرہ کا قول ہے۔ یہ آیت حضرت خنساء ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کی سیاہ رنگ کی لونڈی تھی تو حضرت حذیفہ ؓ نے اسے کہا : اے خنساء ! تحقیق اس کے باو وجود کہ تو سیاہ ہے اور تو بدصورت ہے تیرا ذکر ملاء اعلی میں کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تیرا ذکر اپنی کتاب میں نازل کیا ہے۔ پس حضرت حذیفہ ؓ نے اسے آزاد کیا اور اس سے شادی کرلی۔ اور حضرت سدی نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کی ایک سیاہ رنگ کی کنیز تھی۔ انہوں نے غصے میں اسے طمانچہ دے مارا۔ پھر نادم ہوئے اور حضور نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ کو صورتحال سے آگاہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے عبداللہ ! وہ کیسی ہے ؟ آپ نے عرض کی : وہ نماز پڑھتی ہے، روزے رکھتی ہے، اچھے طریقے سے وضو کرتی ہے اور شہادتین کی شہادت دیتی ہے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” یہ تو مومنہ ہے۔ “ تو ابن رواحہ ؓ نے کہا : میں بالضرور اسے آزاد کروں گا اور پھر اس سے شادی کروں گا، پھر انہوں نے ایسا ہی کیا، تو مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے ان پر طعن کیا اور کہا : انہوں نے لونڈی سے نکاح کیا ہے ؟ اور وہ یہ خیال کرنے لگے کہ وہ مشرکین سے نکاح کریں اور وہ ان کے حسب ونسب میں رغبت رکھتے ہوئے ان سے نکاح کرتے رہیں، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
6
) اہل کتاب کی لونڈیوں کے نکاح کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت امام مالک (رح) نے کہا ہے : کتابیہ لونڈی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے اور اشہب نے کتاب محمد میں کہا ہے : وہ آدمی جس نے اسلام قبول کیا اور اس کے تحت کتابیہ لونڈی ہو تو ان دونوں کے درمیان تفریق نہیں کی جائے گی اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب نے کہا ہے کہ اہل کتاب کی لونڈیوں کا نکاح جائز ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے : ہمیں شیخ ابوبکر الشاشی نے مدینۃ السلام کے بارے درس دیا اور کہا کہ امام ابوحنیفہ (رح) کے اصحاب نے کتابیہ لونڈی کے نکاح کے جائز ہونے پر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : (آیت) ” ولا مۃ مؤمنۃ خیر من مشرکۃ اور آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سبحانہ وتعالیٰ نے مومنہ لونڈی اور مشرکہ کے نکاح کے درمیان اختیار دیا ہے، پس اگر مشرکہ لونڈی کا نکاح جائز نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کے درمیان اختیار نہ دیتا، کیونکہ بلاشبہ اختیار دو جائز چیزوں کے درمیان ہوتا ہے نہ کہ جائز اور ممتنع کے درمیان اور نہ ہی دو ضدوں کے درمیان۔ جواب یہ ہے کہ دو ضدوں کے درمیان اختیار لغۃ بھی اور قرآن کی رو سے بھی جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” اصحب الجنۃ یومئذ خیر مستقرا واحسن مقیلا “۔ (الفرقان :
24
) ترجمہ : اہل جنت کا اس دن بہت ٹھکانا ہوگا اور دوپہر گزارنے کی جگہ بڑی آرام دہ ہوگی) اور حضرت عمر فاروق اعظم ؓ نے حضرت ابو موسیٰ ؓ کو اپنے خط میں کہا : حق کی طرف رجوع کرنا باطل میں سرکشی اختیار کرنے سے بہتر ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” ولا مۃ “ سے مراد وہ غلامی نہیں جو کسی کی ملکیت ہو بلکہ اس سے مراد آدمیت ہے اور عورتیں اور مرد سب کے سب اللہ تعالیٰ کے غلام اور اس کی باندیاں ہیں، قاضی بصرہ ابوالعباس جرجانی نے یہی کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) مجوسی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے میں ائمہ نے اختلاف کیا ہے۔ پس امام مالک (رح) شافعی (رح)، ابوحنیفہ (رح) اوزاعی (رح) اور اسحاق رحمۃ اللہ علہیم نے اس سے منع کیا ہے۔ اور ابن حنبل نے کہا ہے : مجھے پسند نہیں ہے۔ یہ روایت ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ نے ایک مجوسیہ عورت سے شادی کی تو حضرت عمر ؓ نے انہیں کہا : اس کو طلاق دے دو ۔ ابن القصار نے کہا ہے کہ ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے : دو قولوں میں سے ایک کے مطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی کتاب ہے۔ لہذا ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے۔ ابن وہب نے حضرت مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجوسیہ لونڈی ہو تو ملک یمین کی حیثیت سے اس کے ساتھ وطی کرنا جائز نہیں اور اسی طرح بت پرست عورتوں اور دیگر کافر عورتوں کا حکم ہے۔ یہی موقف علماء کی ایک جماعت کا ہے، مگر ایک روایت ہے جسے یحییٰ بن ایوب نے ابن جریج سے اور انہوں نے حضرت عطا اور عمرو بن دینار سے روایت کیا ہے کہ ان دونوں سے مجوسی لونڈیوں سے نکاح کرنے کے بارے پوچھا گیا، تو ان دونوں نے کہا : اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” ولا تنکحوالمشرکت “ کی تاویل کی ہے۔ وہ یہ کہ ان دونوں کے نزدیک اس کا اطلاق عقد نکاح پر ہے نہ کہ خریدی ہوئی لونڈی پر اور ان دونوں نے اوطاس کے قیدیوں سے استدلال کیا ہے۔ وہ یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان میں سے لونڈیوں کے ساتھ ملک یمین کی حیثیت سے وطی کی۔ نحاس نے کہا ہے : یہ قول شاذ ہے، رہے اوطاس کے قیدی ! تو ان میں یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی لونڈیوں نے اسلام قبول کرلیا ہو تو پھر ان کے ساتھ نکاح جائز ہے اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” ولا تنکحوالمشرکت حتی یؤمن “ سے استدلال کا تعلق ہے تو وہ غلط ہے، کیونکہ انہوں نے لفظ نکاح کو عقد کے معنی پر محمول کیا ہے، حالانکہ لغت میں نکاح کا اطلاق عقد اور وطی دونوں پر ہوتا ہے۔ پس جب فرمایا (آیت) ” ولا تنکحوا المشرکت “ تو ہر اس نکاح کو حرام کردیا جو مشرکات پر واقع ہوتا ہے چاہے وہ عقد نکاح ہو یا وطی ہو۔ ابو عمر بن عبدالبر نے کہا ہے کہ امام اوزاعی نے بیان کیا : میں نے زہری سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو مجوسیہ لونڈی خریدتا ہے، کیا وہ اس سے وطی کرسکتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : جب وہ یہ شہادت دے (آیت) ” لا الہ الا اللہ تو وہ اس سے وطی کرسکتا ہے۔ یونس نے ابن شہاب سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : اس کے لئے اس سے وطی کرنا حلال نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلے۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ ابن شہاب کا قول ہے کہ اس کے لئے اس سے وطی کرنا حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلے اور ابن شہاب مغازی اور سیر کے بارے لوگوں سے بڑھ کر عالم ہیں۔ آپ کا یہ قول اس کے قول کے فاسد ہونے پر دلیل ہے جس نے یہ گمان کیا ہے کہ اوطاس کے قیدیوں سے وطی کی گئی اور ان عورتوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ یہ قول ایک جماعت سے مروی ہے، ان میں سے حضرت عطا اور عمرو بن دینار بھی ہیں۔ ان دونوں نے کہا ہے : مجوسیہ کے ساتھ وطی کرلے میں کوئی حرج نہیں اور فقہاء امصار میں سے کوئی ایک بھی اس قول کی طرف متوجہ نہیں ہوا (یعنی کسی نے اسے اہمیت نہیں دی) حالانکہ امام حسن بصری (رح) سے بھی منقول ہے۔ اور وہ ان میں سے ہیں جن کی فارس اور پھر خراسان کے سوا نہ اپنی جنگ ہوئی اور نہ ان کے اطراف والوں کی جنگ ہوئی اور ان میں سے کوئی بھی اہل کتاب نہیں جو تیرے لئے یہ بیان کرے کہ ان کی عورتوں کی سیرت اور کردار کیا ہوتا جب وہ قیدی بنالی جاتیں، فرمایا : ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسد نے خبر دی ہے، اس نے کہا : ہمیں ابراہیم بن احمد بن فراس نے بتایا ہے، اس نے کہا : ہمیں علی بن عبدالعزیز نے بیان کیا ہے، اس نے کہا : ہمیں ابو عبید نے بتایا ہے، اس نے کہا : ہمیں ہشام نے یونس سے اور انہوں نے حسن سے ہمیں بیان کیا ہے، اس نے کہا : ایک آدمی نے اسے کہا : اے ابو سعید ! تم کیا طریقہ کرتے ہو جب تم عورتوں کو قیدی بناتے ہو ؟ تو انہوں نے کہا : ہم انہیں قبلہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور ہم انہیں حکم دیتے ہیں کہ اسلام قبول کرلو اور یہ شہادت دو ” لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ “۔ پھر ہم انہیں حکم دیتے ہیں کہ وہ غسل کریں۔ اور جب اس کا مالک اس سے وطی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اس کے قریب نہیں جاتا یہاں تک کہ وہ اسے استبرا () رحم کو مادہ منویہ سے پاک کرنے کا اہتمام کرنا اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اسے حیض آجائے۔ کرا لے۔ اس ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” ولا تنکحوا المشرکت حتی یؤمن “ علماء کی ایک جماعت کی تاویل اسی کے مطابق ہے کہ بلاشبہ ان سے مراد بت پرست اور مجوسی عورتیں ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کتابی عورتیں اپنے اس ارشاد کے ساتھ حلال قرار دی ہیں۔ (آیت) ” ولامحصنت من الذین اوتوالکتب من قبلکم “ یعنی پاکدامن عورتیں، نہ کہ وہ مسلمان عورتیں جن کا زنا مشہور ہے۔ اور علماء میں سے بعض نے ان کے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے اور اسے کہ وہ ملک یمین کی حیثیت سے اس کے ساتھ وطی کرے جب تک کہ ان کی جانب سے توبہ نہ ہو۔ کیونکہ اس میں نسب کو نسب کو فاسد کرنا لازم آتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” ولا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا، ولعبد مومن خیر من مشرک ولو اعجبکم “۔ میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا تنکحوا “ کا معنی ہے تم کسی مسلمان عورت کا کسی مشرک آدمی سے نکاح نہ کرو، اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ مشرک کسی بھی وجہ سے مومنہ عورت کے ساتھ وطی نہیں کرسکتا، کیونکہ اس میں اسلام کی ذلت ورسوائی ہے۔ اور فراء نے تنکحوا میں تا کو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) اس آیت میں نص کے ساتھ اس پر دلیل موجود ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا۔ محمد بن علی بن حسین نے کہا ہے : کتاب اللہ میں ہے کہ نکاح ولی (کی اجازت) کے ساتھ ہوتا ہے، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی (آیت) ” ولا تنکحوا المشرکین “۔ ابن منذر نے کہا ہے : یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا نکاح الا بولی “۔ (
1
) (ابو داؤد، باب : الولی، حدیث نمبر
1785
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ ابن ماجہ، باب : لا نکاح الابولی، حدیث نمبر
1870
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، جامع ترمذی، باب ماجاء لانکاح الابولی، حدیث نمبر
1020
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یعنی نکاح نہیں ہوتا مگر ولی کی اجازت کے ساتھ۔ اہل علم نے بغیر ولی کے نکاح کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ بہت سے اہل علم نے کہا ہے : نکاح نہیں ہوتا مگر ولی کے ساتھ، یہ حدیث حضرت عمر بن خطاب، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی ہے اور اس طرح حضرت سعید بن مسیب، حضرت حسن بصری، حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت جابر بن زید، حضرت سفیان ثوری، حضرت ابن ابی لیلی، حضرت ابن شبرمہ، حضرت ابن مبارک، حضرت امام شافعی، حضرت عبید اللہ بن حسن، حضرت امام احمد، حضرت اسحاق اور حضرت ابو عبید رحمۃ اللہ علہیم نے بھی کہا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہی قول حضرت امام مالک، حضرت ابو ثور اور حضرت طبری رحمۃ اللہ علہیم کا بھی ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے : جنہوں نے یہ کہا ہے کہ ” ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا “ ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : لا نکاح الابولی۔ اس حدیث کو حضرت شعبہ اور ثوری نے ابو اسحاق سے، انہوں نے ابو بردہ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے مرسل روایت کیا ہے۔ پس جو مرسل روایات قبول کرتے ہیں اس کو قبول کرنا ان پر لازم ہوگا اور رہے وہ جو مرسل روایات قبول نہیں کرتے تو ان پر بھی اسے قبول کرنا لازم ہوگا، کیونکہ وہ جنہوں نے اسے متصل ذکر کیا ہے وہ اہل حفظ اور ثقہ رواۃ میں سے ہیں اور جنہوں نے اسے متصل ذکر کیا ہے ان میں سے اسرائیل اور ابو عوانہ دونوں راوی ابو اسحاق سے، وہ ابو بردہ سے، وہ ابو موسیٰ ؓ سے اور وہ حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں (
1
) (بخاری شریف : باب : ما جاء الانکاح الابولی۔ حدیث نمبر :
1020
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (ابن ماجہ : باب : لا نکاح الابولی حدیث نمبر :
1870
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اسرائیل اور جنہوں نے ان کی اتباع کی ہے وہ سب حفاظ ہیں اور حافظ کی زیادتی قبول کی جاتی ہے اور اس زیادتی کو اصول تقویت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن “۔ (البقرہ :
232
) ترجمہ : تو نہ منع کرو انہیں کہ نکاح کرلیں اپنے خاوندوں سے۔ یہ آیت حضرت معقل بن یسار ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے اپنی بہن کو اپنے خاوند کی طرف رجوع کرنے سے منع کیا۔ اسے امام بخاری نے بیان فرمایا ہے اور اگر ان کے لئے نکاح کرنے میں کوئی حق نہ ہوتا تو انہیں رجوع سے روکنے سے منع نہ کیا جاتا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : کتاب اللہ میں سے بھی جو آیات اس پر دلالت کرتی ہیں وہ یہ ہیں : (آیت) ” فانکحوھن باذن اھلھن “۔ (النسائ :
25
) ترجمہ : اور نکاح کردیا کرو جو بےنکاح ہیں تم میں سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بارے میں خطاب مردوں کے سوا کسی کو نہیں کیا۔ اگر یہ خطاب عورتوں کو ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرماتا۔ عنقریب ان کا بیان سورة النور میں آئے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے بطور حکایت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی طرف سے کہا ہے : ” بیشک میں ارادہ رکھتا ہوں کہ میں تجھے نکاح کر دوں “ اس کی وضاحت سورة القصص میں آئے گی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” الرجال قومون علی النسآء “۔ (النساء :
34
) ترجمہ : مرد محافظ ونگران ہیں عورتوں پر) پس کتاب وسنت نے اس پر قوت اور تائید فراہم کی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ علامہ طبری نے کہا ہے کہ حضرت حفصہ ؓ کی حدیث میں ہے جس وقت وہ غیر شادی شدہ تھیں اور حضرت عمر ؓ نے ان کا عقد نکاح کیا۔ (
2
) (بخاری شریف : باب : شھود الملائکۃ بدرا، حدیث نمبر :
3704
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور انہوں نے خود نکاح نہ کیا، یہ اس کے قول کا بطلان ہے جس نے کہا ہے کہ بالغہ عورت اپنے نفس کی مالک ہوتی ہے اپنے ولی کے بغیر وہ اپنی شادی کرسکتی ہے اور عقد نکاح کرسکتی ہے اور اگر یہ اختیار اسے ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت حفصہ ؓ کو ان کی اپنی ذات کے بارے میں پیغام نکاح بھیجنا ترک نہ کرتے جبکہ وہ اپنی ذات کے بارے میں اپنے باپ کی نسبت زیادہ قریب تھیں، اور آپ نے پیغام نکاح اس کی طرف بھیجا جو ان کے معاملے کا مالک نہیں اور نہ ان کا عقد کرنے کا مالک ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کی وضاحت بھی ہے ” الایم احق بنفسھا من ولیھا “۔ (
1
) (مسند امام احمد، حدیث نمبر :
1888
۔ (بیوہ عورت اپنے ولی کی نسبت اپنے بارے میں زیادہ حق رکھتی ہے۔ ) اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کے بارے میں اس میں زیادہ حق رکھتی ہے کہ وہ اس کی رضا مندی کے بغیر اس پر عقد نہیں کرسکتا، یہ معنی نہیں کہ وہ اپنے بارے میں یہ زیادہ حق رکھتی ہے کہ وہ اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلے۔ اور دار قطنی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کوئی عورت کسی عورت کی شادی نہیں کرے گی اور نہ کوئی عورت اپنی شادی کرے گی کیونکہ زانیہ وہی عورت ہے جو اپنی شادی خود کرلیتی ہے۔ “ فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے۔ (
2
) (ابن ماجہ : باب : لانکاح الابولی، حدیث نمبر :
1871
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور ابو داؤد نے سفیان عن الزہری عن عروۃ کی سند سے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس کسی عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر کردیا گیا تو اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ نے یہ جملہ تین بار فرمایا۔ پس اگر اس کے ساتھ دخول کرلیا گیا تو اس کے لئے مہر ہوگا اس عمل کے عوض جو اس نے اس کے ساتھ کیا اور اگر وہ آپس میں جھگڑ پڑیں تو سلطان اس کا ولی ہوگا جس کا کوئی ولی نہ ہو۔ (
3
) (بخاری شریف : باب : فی الولی، حدیث نمبر :
1784
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ حدیث صحیح ہے۔ اور ابن علیہ نے جو قول ابن جریج سے نقل کیا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں کہ انہوں نے کہا : میں نے اس کے بارے حضرت زہری سے پوچھا تو انہوں اس کی پہچان نہ تھی، اور ابن علیہ کے سوا کس ایک نے بھی ابن جریج سے یہ قول نہیں کیا، حالانکہ ایک جماعت نے حضرت زہری سے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا اور اگر زہری سے یہ ثابت ہوجائے تو بھی اس میں دلیل موجود نہیں کیونکہ آپ سے اسے ثقہ راویوں نے نقل کیا ہے، ان میں سے سلیمان بن موسیٰ ہیں اور وہ ثقہ امام ہیں اور جعفر بن ربیعہ ہیں۔ (
4
) (ایضا :) اور اگر زہری اسے بھول گئے تب بھی یہ آپ کے لئے نقصان دہ نہیں، کیونکہ نسیان سے کوئی آدمی محفوظ نہیں، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” آدم (علیہ السلام) بھول گئے تو آپ کی ساری اولاد بھول گئی۔ (
5
) (جامع ترمذی : باب : ومن سورة الاعراف، حدیث نمبر :
3002
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور آپ ﷺ کو بھی نسیان لاحق ہوجاتا تھا، تو پھر آپ کے سوا کون ہے جو نسیان سے زیادہ محفوظ ہو اور جس نے یاد رکھا تو وہ اس پر بعجت ہے جو بھول گیا، پس جب ثقہ راوی خبر کو روایت کرے تو جو بھول گیا اس کا نسیان اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہوگا۔ یہ تب ہے جبکہ وہ صحیح ہو جو ابن علیہ نے ابن جریج سے بیان کیا ہے، تو کیا حال ہوگا جبکہ اہل علم نے اس حکایت کا انکار کیا ہے اور انہوں نے اس پر اعتماد نہیں کیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس حدیث کو ابو حاتم محمد بن حبان تمیمی البستی نے المسند الصحیح میں تقاسیم و انواع پر اس کی سند میں انقطاع کے پائے جانے کے بغیر نقل کیا ہے اور اس کے ناقل میں کوئی جرح بھی ثابت نہیں یہ حفص بن غیاث عن ابن جریج عن سلیمان بن موسیٰ عن الزہری عن عروہ بن عائشہ صدیقہ ؓ کی سند سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کوئی نکاح نہیں ہوتا مگر ولی کی اجازت کے ساتھ اور دو عادل شاہدوں کی شہادت کے ساتھ اور جو نکاح اس کے بغیر ہو وہ باطل ہے اور اگر وہ آپس میں جھگڑ پڑیں تو سلطان وقت اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو۔ “ ابو حاتم نے بیان کیا ہے کہ ابن جریج عن سلیمان بن موسیٰ عن الزہری کی روایت میں سوائے تین آدمیوں کے کسی نے بھی یہ الفاظ نہیں کہے۔ ” وشاھدی عدل “۔ (وہ تین افراد یہ ہیں) سوید بن یحییٰ اموی، حفص بن غیاث سے، عبداللہ بن عبدالوہاب جمعی، خالد بن حارث سے اور عبدالرحمن بن یونس الرقی، عیسیٰ بن یونس سے، شاہدین کے بارے میں اس خبر کے سوا کوئی صحیح نہیں ہے۔ اور جب یہ خبر ثابت ہوگئی تو کتاب وسنت نے اس بارے تصریح کردی کہ ولی کی اجازت کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔ اور جو ان دونوں کے خلاف ہو اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ حضرت زہری اور شعبی کہتے ہیں کہ جب کسی عورت نے دو شاہدوں کی موجودگی میں اپنی شادی کفو میں کرلی تو وہ نکاح جائز ہے، اسی طرح حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) بھی فرماتے ہیں کہ جب کسی عورت نے دو شاہدوں کی موجودگی میں اپنا نکاح کفو میں کیا تو وہ نکاح جائز ہے، یہی امام زفر کا قول ہے۔ اور اگر کسی نے اپنا نکاح غیر کفو میں کیا، تو وہ نکاح جائز ہوگا، لیکن اولیاء کو ان کے درمیان تفریق کا اختیار ہوگا۔ ابن منذر نے کہا ہے : جو کچھ حضرت نعمان نے کہا ہے وہ سنت کے مخالف ہے اور اکثر اہل علم کے قول سے باہر ہے اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مطابق ہم کہہ رہے ہیں۔ اور امام ابو یوسف نے کہا ہے : نکاح جائز نہیں ہوگا مگر ولی کی اجازت کے ساتھ اور اگر ولی تسلیم کرلے تو پھر جائز ہے اور اگر وہ انکار کر دے اور اسے حوالے نہ کرے اور زوج عورت کا کفو ہو تو قاضی اس کی اجازت دے دے، اور بلاشبہ جب قاضی اس کی اجازت دے دے گا تو وہ نکاح مکمل ہوجائے گا، یہی قول امام محمد بن حسن (رح) کا ہے۔ اور امام محمد بن حسن (رح) فرماتے تھے : قاضی ولی کو نکاح کی اجازت دینے کا حکم دے گا اور اگر وہ نہ دے تو (قاضی) نئے سرے سے عقد کر دے۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب کے درمیان اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں جب عورت کا ولی اسے اجازت دے دے، پس اس نے اپنا نکاح خود کرلیا تو وہ جائز ہوگا۔ امام اوزاعی نے کہا ہے : جب عورت اپنے معاملے کا کسی آدمی کو ولی بنائے اور وہ اس کا نکاح کفو میں کر دے تو وہ نکاح جائز ہے، اب ولی کے لئے ان کے درمیان تفریق کرنے کا اختیار نہیں ہے، مگر یہ کہ وہ عورت عربیہ ہو اور شادی کسی مولی (غلام) سے کرلے، یہ امام مالک (رح) کے مذہب کی طرح ہے جو کہ آگے آئے گا۔ اور امام زہری، امام ابوحنیفہ اور شعبی رحمۃ اللہ علہیم کے مذہب کے قائلین نے حضور ﷺ کے اس ارشاد : لا نکاح الا بولی “ کو معنی کمال پر محمول کیا ہے نہ کہ وجوب پر، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : لا صلوۃ لجار المسجد الا فی المسجد “۔ (کہ مسجد کے پڑوس میں رہنے والے کی نماز مسجد کے بغیر نہیں ہوتی) اور ” لا حظ فی الاسلام لمن ترک الصلوۃ “۔ (
1
) (التمہید، جلد
19
، صفحہ
90
،
91
) (کہ جس نے نماز چھوڑ دی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں) (ان ارشادات میں کمال کی نفی ہے اسی طرح اس حدیث میں بھی کمال کی نفی ہے یعنی نکاح کامل نہیں ہوگا) اور انہوں نے اس پر ان ارشادات سے استدلال کیا ہے : (آیت) ” فلاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھن “۔ اور (آیت) ” فلاجناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن بالمعروف “۔ (البقرہ :
234
) ترجمہ : تو کوئی گناہ نہیں تم پر اس میں جو کریں وہ اپنی ذات کے بارے میں مناسب طریقے سے) اور اس روایت سے جو دارقطنی نے سماک بن حرب سے روایت کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک آدمی حضرت علی ؓ کے پاس آیا اور کہا : ایک عورت ہے میں اس کا ولی ہوں اس نے میری اجازت کے بغیر شادی کرلی ہے ؟ تو حضرت علی ؓ نے فرمایا : جو کچھ اس نے کیا ہے اس میں غور وفکر کی جائے گی اور دیکھا جائے گا، سو اگر اس نے کفو میں شادی کی ہے تو ہم اسے اس کی اجازت دے دیں گے اور اگر اس نے ایسے آدمی سے شادی کی جو اس کا ہم کفو نہیں تو ہم اسے تیرے حوالے کردیں گے۔ (
2
) (سنن دارقطنی، جلد
3
صفحہ
237
) اور موطا میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رحمۃ اللہ علہیم سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی منذر بن زبیر ؓ کا نکاح اپنے بھائی کی اولاد میں سے ایک عورت کے ساتھ کیا، آپ نے ان کے درمیان پردہ لٹکا دیا، پھر گفتگو فرمائی، یہاں تک کہ جب عقد کے ہوا کچھ باقی نہ بچا تو آپ نے ایک آدمی کو حکم دیا اور اس نے نکاح کردیا، پھر آپ نے فرمایا : عورتوں کے پاس نکاح کرنے کا اختیار نہیں ہے (یعنی عورتوں کو ولایت نہیں حاصل نہیں) اور امام مالک (رح) کی حدیث میں وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے مہر اور احوال نکاح کو پختہ کیا اور اس (عورت) کے عصبہ میں سے ایک عقد کا والی بنا اور عقد کی نسبت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف کی گئی کیونکہ اسے پختہ کرنے کی نسبت آپ کی طرف ہے۔ مسئلہ نمبر : (
3
) ابن خویز منداد نے ذکر کیا ہے : اولیاء کے بارے میں امام مالک (رح) سے مختلف روایات ہیں کہ وہ کون ہیں ؟ پس آپ نے ایک بار فرمایا : ہر وہ آدمی جس نے عورت کو اچھے اور حسین منصب میں رکھا وہی اس کا ولی ہے، چاہے وہ عصبہ ہو یا ذوی الارحام میں سے ہو یا اجنبی ہو یا امام ہو یا وصی ہو۔ اور ایک بار فرمایا : اولیاء عصبات میں سے ہوتے ہیں، پس ان میں سے جس نے عورت کو اچھے منصب میں رکھا وہ اس کا ولی ہوگا۔ ابو عمر نے کہا ہے : امام مالک (رح) نے اس بیان میں کہا ہے جو ان سے ابن قاسم نے ذکر کیا ہے کہ جب کسی عورت کی شادی ولی کے علاوہ کوئی اور اس عورت کی اجازت سے کر دے تو پھر اگر وہ عورت شریف ہو اور لوگوں میں اس کا کوئی مقام ہو تو اس کے نکاح کو فسخ کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں اس کے ولی کو اختیار ہوگا اور اگر وہ عورت رذیل اور کمینی ہو جیسا کہ آزاد شدہ لونڈی، سوداء یعنی قبطی قوم سے تعلق رکھنے والی، زنا کار اور مسلمانیۃ اور وہ عورت جس کا کوئی مقام و مرتبہ نہ ہو تو اس کا نکاح جائز ہوگا اور اس کے ولی کو اختیار نہ ہوگا کیونکہ ہر کوئی اس کا کفو ہے۔ اور حضرت امام مالک (رح) سے مروی ہے کہ عورت شریف ہو یا رذیل ولی یا سلطان کے علاوہ کوئی اس کی شادی نہیں کرسکتا اس قول کو ابن منذر نے پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ امام مالک (رح) کی طرف سے مسکین عورت اور وہ جو ذی مرتبہ اور ذی قدر ہو کے درمیان تفریق کرنا جائز نہیں، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ نے خون کے بارے میں ان کے احکام کے درمیان مساوات اختیار کی ہے۔ اور فرمایا ہے : ” تمام مسلمانوں کا خون مساوی اور برابر ہوتا ہے “۔ (
1
) (ابو داؤد، : باب : السریۃ ترد علی العسکر، حدیث نمبر :
2371
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (ابن ماجہ : باب : المسلمون تتکافا دماء ھم، حدیث نمبر :
2674
۔
2672
۔ ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور جب وہ خون میں برابر ہوئے تو وہ اس کے علاوہ دیگر احکام میں بھی ایک شے ہوں گے۔ اور اسماعیل بن اسحاق نے کہا ہے : جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نکاح کے بارے میں حکم ارشاد فرمایا تو اس نے بعض مومنین کو بعض کا ولی بنا دیا۔ سو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” والمؤمنون والمؤمنت بعضھم اولیآء بعض “۔ (التوبۃ :
71
) ترجمہ : نیز مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ اور فی الجملہ مومنین اسی طرح بعض بعض کے وارث بنتے ہیں، پس اگر ایک آدمی مر جائے اور اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کی میراث تمام مسلمانوں کے لئے ہوگی اور اگر وہ کسی جنایت (جرم) کا ارتکاب کرے تو اس کی جانب سے مسلمان ہی دیت ادا کریں گے، پھر ایک ولایت دوسری ولایت سے زیادہ قریب ہوتی ہے اور ایک قرابت دوسری قرابت سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ اور جب عورت ایسی جگہ میں ہو جہاں نہ سلطان ہو اور نہ اس کا ولی ہو تو وہ اپنا معاملہ پڑوسیوں میں سے اس کے حوالے کر دے گی جو قابل اعتماد ہوگا اور وہ اس کی شادی کرسکے گا اور اس حال میں وہی اس کا ولی ہوگا، کیونکہ لوگوں کے لئے شادی کرنے سے کوئی چارہ نہیں ہے۔ اور بلاشبہ اس بارے میں جتنا ممکن ہو سکے وہ اچھا عمل کرتے ہیں، اسی بنا پر امام مالک (رح) نے کمزور حالت والی عورت کے بارے میں کہا ہے کہ بلاشبہ اس کی شادی وہ کرسکتا ہے جس کی طرف وہ اپنے معاملے کو منسوب کرے گی، کیونکہ وہ عورت ان میں سے ہے جو سلطان کے پاس پہنچنے سے قاصر ہوتی ہے۔ پس اسے اس کے مشابہ قرار دیا گیا ہے جس کی موجودگی میں سلطان نہ ہو، پس فی الجملہ وہ اس طرف راجع ہوئی کہ مسلمان اس کے اولیاء ہیں۔ پس جب اس نے اپنا معاملہ ایک آدمی کے حوالے کردیا اور اپنے اولیاء کو چھوڑ دیا تو بلاشبہ اس نے بلاوجہ ایک امر کو اختیار کیا ہے اور اس نے وہ کام کیا ہے جس کے بارے حاکم اور مسلمان اس کا انکار کرتے ہیں تو وہ نکاح فسخ کردیا جائے گا یہ معلوم کیے بغیر کہ اس کی حقیقت حرام ہے۔ جب ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ مومنین بعض بعض کے اولیاء ہیں اور یہ بھی کہ اس میں اختلاف ہے، لیکن اس کے باوجود نکاح فسخ کردیا جائے گا کیونکہ یہ کام بلاوجہ ہوا ہے اور اس لیے بھی کہ فروج کے بارے زیادہ احتیاط ہے اور اس لئے بھی کہ ان کی حفاظت (ضروری ہے) اور جب دخول ہوجائے اور معاملہ طویل ہوجائے اور وہ اولاد کو جہنم دے لے تو پھر صحیح یہی ہے کہ فسخ جائز نہیں، کیونکہ امور جب متفاوت ہوجائیں تو پھر ان سے حرام کے سوا کسی کا ارادہ نہیں کیا جاتا جس میں کوئی شک نہ ہو۔ اور یہ اس کے مشابہ ہوجاتا ہے جو حاکم کے حکم سے فوت ہوجائے جب کہ وہ حکما یہ فیصلہ دے کہ اسے فسخ نہ کیا جائے مگر یہ کہ وہ ایسی خطا اور غلطی ہو جس میں کوئی شک نہ ہو (تو اس صورت میں حاکم کا فیصلہ نافذ العمل نہ ہوگا) اور رہے امام شافعی (رح) اور آپ کے اصحاب تو ان کے نزدیک بغیر ولی کے کیا ہوا نکاح ہمیشہ فسخ کیا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں بنیں گے اگر ان میں سے کوئی ایک مر جائے، اور ان کے نزدیک ولی نکاح کے فرائض میں سے ہے، اس لیے کہ ان کے نزدیک اس پر کتاب وسنت سے دلیل قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ” وانکحوا الایامی منکم “ اسی طرح فرمایا : ” فانکحوھن باذن اھلھن “ اور اولیاء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” فلا تعضلوھن “ اور حضور ﷺ نے فرمایا : ” لا نکاح الابولی “ اور انہوں نے رذیل اور شریف عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا، کیونکہ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ ان دونوں کے درمیان خون کے احکام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : المسلمون تتکافو دماؤھم “ اور تمام احکام اسی طرح ہیں، اور ان میں سے کسی میں کتاب وسنت میں بلند مرتبہ اور گھٹیا کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) اس نکاح کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے جو بغیر ولی کی اجازت کے واقع ہو اور پھر ولی قبل از دخول اس کی اجازت دے دے، تو حضرت امام مالک اور عبدالملک رحمۃ اللہ علہیم کے سوا ان کے اصحاب نے کہا ہے : وہ نکاح جائز ہے، کیونکہ اس کے لئے اس کی اجازت قرب کے سبب ہے، چاہے دخول ہوا ہو یا دخول نہ ہوا ہو۔ یہ تب ہے جب عقد نکاح غیر ولی نے کیا ہو اور عورت نے بذات خود عقد نکاح نہ کیا ہو اور اگر عورت نے اپنی شادی خود کی اور اس نے مسلمانوں میں سے کسی قریبی یا بعیدی ولی کے بغیر عقد نکاح خود کیا ہو تو یہ نکاح کسی حال میں ہمیشہ کے لئے برقرار نہیں رکھا جائے گا اگرچہ وقت زیادہ گزر جائے اور وہ اولاد کو جنم دے لے۔ البتہ دخول کی صورت میں بچے کو اسی کے ساتھ ملحق کیا جائے گا اور حد ساقط ہوجائے گی اور ہر حال میں اس نکاح کو فسخ کرنا ضروری ہے۔ ابن نافع نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ اس صورت میں فسخ بغیر طلاق کے ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
5
) اولیاء کے مراتب اور ان کی ترتیب میں علماء نے اختلاف کیا ہے : حضرت امام مالک فرماتے ہیں : اولیاء میں سے سب سے اول بیٹے ہیں اگرچہ وہ کتنے ہی نیچے کی طرف ہوں، پھر باپ، پھر وہ بھائی جو باپ اور ماں دونوں جانب سے سگے ہوں، پھر وہ جو صرف باپ کی طرف سے ہوں (علاتی بھائی) پھر حقیقی بھائیوں کے بیٹے پھر علاتی بھائیوں کے بیٹے، پھر باپ کی جانب سے اجداد (دادے) اگرچہ وہ کتنے ہی اوپر ہوں، پھر چچے بھائیوں کی ترتیب پر، پھر ان کے بیٹے بھائیوں کے بیٹوں کی ترتیب پر اگرچہ وہ کتنے نیچے ہوں، پھر آقا پھر سلطان یا قاضی۔ اور وصی یتیموں کا نکاح کرنے میں اولیاء پر مقدم ہوتا ہے اور وہی باپ کا خلیفہ اور اس کا وکیل ہوتا ہے اور یہ اس حال کے مشابہ ہوتا ہے اگر باپ زندہ ہوتا۔ اور حضرت امام شافعی (رح) نے کہا ہے : باپ کے ساتھ کسی کی کوئی ولایت نہیں ہے اور اگر باپ فوت ہوجائے تو پھر دادا، پھر دادے کے باپ کا باپ، کیونکہ یہ سب کے سب آباء ہیں، اور دادا کے بعدولایت بھائیوں کی ہوتی ہے، پھر اس کے لئے جو ان کے بعد زیادہ قریبی ہو۔ مزنی نے قول جدید میں کہا ہے : وہ جو ماں کی طرف سے منفرد ہو وہ نکاح میں زیادہ اولی ہوتا ہے جیسا کہ میراث میں۔ اور قدیم قول میں انہوں نے کہا ہے کہ دونوں برابر ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ اہل مدینہ نے امام مالک (رح) سے امام شافعی (رح) کے قول کی مثل روایت کیا ہے اور یہ کہ باپ بیٹے سے زیادہ اولی اور قریب ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے دو قولوں میں سے ایک ہے۔ اسے الباجی (رح) نے بیان کیا ہے۔ اور حضرت مغیرہ ؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا : دادا بھائیوں سے زیادہ اولی ہے اور مشہور مذہب وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کردیا ہے۔ امام احمد (رح) نے کہا ہے : عورت کی شادی کرنے کے لئے ان میں سے زیادہ حقدار اس کا باپ ہے، پھر بیٹا، پھر بھائی، پھر اس کا بیٹا، پھر چچا، اور اسحاق نے کہا ہے : بیٹا باپ سے زیادہ اولی ہے : جیسا کہ حضرت امام مالک (رح) نے کہا ہے اور ابن منذر (رح) نے اسے ہی اختیار کیا ہے کیوں کہ عمرو بن ام سلمہ نے ان کی اجازت کے ساتھ ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کردیا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اسے نسائی نے ام سلمہ ؓ سے نقل کیا ہے اور عنوان یہ ہے ” انکاح الابن امہ “۔ میں کہتا ہوں : ہمارے علماء نے کثرت کے ساتھ اس سے استدلال کیا ہے اور یہ کوئی شے نہیں ہے اور اس کی دلیل وہ روایت ہے جو صحاح میں ثابت ہے کہ عمر بن ابی سلمہ ؓ نے بیان کیا : میں رسول اللہ ﷺ کی آغوش میں بچہ تھا اور میرا ہاتھ پلیٹ میں ادھر ادھر گھومتا تھا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے بچے ! تو اللہ تعالیٰ کا نام لے اور دائیں ہاتھ سے کھا اور اس سے کھا جو تیرے سامنے ہے (
1
) ’(بخاری شریف : حدیث نمبر :
4957
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور ابو عمر نے کتاب الاستیعاب میں کہا ہے : عمر بن ابی سلمہ کی کنیت ابو حفص ہے، اور سرزمین حبشہ میں
2
ھ میں پیدا ہوئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس دن رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا اس وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جس کی عمر اتنی ہو وہ ولی ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لیکن ابو عمر نے ذکر کیا ہے کہ ابوسلمہ کا ام سلمہ سے ایک دوسرا بیٹا تھا۔ اس کا نام سلمہ تھا اور یہی وہ ہے جس نے اپنی ماں ام سلمہ کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کیا اور سلمہ کی عمر اپنے بھائی عمر بن ابی سلمہ سے زیادہ تھی اور وہ حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کے اعتبار سے زیادہ حافظ نہ تھے اور ان کے بھائی عمر نے ان سے روایت کی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) اس آدمی کے بارے میں علماء نے اختلاف کیا ہے جو دور کے اولیاء میں سے ہو اور وہ کسی عورت کی شادی کرے، اسی طرح واقع ہوا ہے اور اقرب عبارت ہے کہ کہا جائے : ایسی عورت کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے جس کی شادی اس کے اولیاء میں سے بعیدی ولی کرتا ہے درآنحالیکہ قریبی ولی حاضر ہو۔ ابن عبدالبر نے کہا ہے : اگر قریبی ولی نے اس میں سے کسی شے کا انکار نہ کیا اور نہ ہی اس نے اسے رد کیا تو وہ نکاح نافذ ہوجائے گا اور اگر اس نے اس کا انکار کیا اور وہ ثیبہ ہو یا باکرہ بالغہ ہو، یتیم ہو اور اس کا کوئی وصی نہ ہو تو امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب اور اہل مدینہ کی جماعت کا قول اس بارے میں مختلف ہے۔ سو ان میں سے کہنے والوں نے کہا ہے کہ اسے رد نہیں کیا جائے گا اور وہ نافذ ہوجائے گا، کیونکہ وہ ایسا نکاح ہے جو اصول اور خاندان میں سے ولی کی اجازت کے ساتھ منعقد ہوا ہے اور ان میں سے جنہوں نے کہا ہے کہ نافذ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا ہے : بلاشبہ اولیاء میں افضل اور اولی رتبہ کا ولی موجود ہے اور وہ مستحب ہے واجب نہیں ہے، امام مالک (رح) کے اکثر اصحاب کے نزدیک ان کے مذہب کا ماحصل یہی ہے اور اسے ہی اسماعیل بن اسحاق اور ان کے متبعین نے اختیار کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سلطان اس میں غور وفکر کرے گا اور وہ ولی اقرب سے اس شے کے بارے پوچھے گا جسے وہ ناپسند کر رہا ہے پھر اگر وہ اسے نافذ کرنا مناسب سمجھے تو اسے نافذ کر دے اور اگر اسے رد کرنا مناسب سمجھے تو اسے رد کر دے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ قریبی ولی ہر حال میں اسے رد کر دے گا، کیونکہ وہ اس کا حق ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے لئے رد کرنے اور اس کی اجازت دینے کا اختیار ہے جب تک کہ عرصہ طویل نہ ہو اور وہ بچوں کو جنم نہ دے۔ یہ تمام اقوال اہل مدینہ کے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
7
) اگر ولی اقرب محبوس یا سفیہ ہو تو پھر اس کے بعد اولیاء میں سے جن کا مرتبہ ہو وہ اس کی شادی کر دے اور اسے ان میں میت کی طرح شمار کیا جائے۔ اسی طرح جب ولی اقرب غیبت بعیدہ پر غائب ہو یا اس طرح غائب ہو کہ جلدی اس کے واپس لوٹنے کی امید نہ ہو تو پھر بھی اس کے بعد والا ولی اس کی شادی کرسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب اقرب ولی غائب ہو اور اس کے پیچھے اس کی شادی کرنے والا کوئی نہ ہو، تو حاکم اس کی شادی کرسکتا ہے۔ پہلا قول امام مالک (رح) کا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) جب دو ولی قرب میں واقع ہوں اور ان میں سے ایک غائب ہو اور عورت اپنے عقد نکاح کی ذمہ داری حاضر ولی کے سپرد کردے تو جب غائب ولی واپس آئے تو اس کے لئے انکار کی اجازت نہیں۔ اور اگر دونوں حاضر ہوں اور عورت اپنا معاملہ ان میں سے ایک کے حوالے کرے تو وہ دوسرے ولی کی اجازت کے بغیر اس کی شادی نہیں کرسکتا اور اگر دونوں میں اختلاف ہوجائے تو پھر حاکم اس میں غور وفکر کرے اور ان دونوں میں سے جس کو عورت کے حق میں اچھا سمجھے اس کی رائے کے مطابق فیصلہ کر دے۔ اسے ابن وہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
9
) رہی نکاح میں شہادت ! تو یہ امام مالک اور ان کے اصحاب کے نزدیک رکن نہیں ہے اور اس بارے میں اس کی شہرت اور اعلان ہی کافی ہوگا اور یہ کہ وہ نکاح خفیہ اور سری ہونے سے نکل جائے۔ ابن قاسم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : اگر کسی نے بینہ کے ساتھ نکاح کیا اور گواہوں کو حکم دیا کہ وہ اسے چھپا کر رکھیں تو نکاح جائز نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ نکاح سر ہے اور اگر اس نے بغیر گواہوں کے غیر سری انداز میں نکاح کیا تو وہ جائز ہے اور وہ دونوں اس میں گواہ بنا لیں جس سے وہ دو چار ہوں گے۔ ابن وہب نے امام مالک (رح) سے ایک آدمی کے بارے میں روایت کیا ہے کہ وہ ایک عورت سے دو آدمیوں کی شہادت کے ساتھ شادی کرتا ہے اور ان دونوں کو چھپانے کے لئے کہتا ہے۔ آپ نے فرمایا : ان دونوں کے درمیان طلاق کے ساتھ تفریق کردی جائے گی اور نکاح جائز نہ ہوگا اور اگر آدمی نے اس کے ساتھ دخول کیا تو اس کے لئے مہر ہوگا اور دونوں گواہوں کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ امام اعظم ابو حنیفہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علہیم اور ان دونوں کے اصحاب نے کہا ہے : جب کسی نے دو شاہدوں کی موجودگی میں کسی عورت سے شادی کی اور اس نے ان دونوں کو کہا : تم اسے خفیہ رکھنا تو نکاح جائز ہوگا۔ ابو عمر نے کہا ہے : یہ ہمارے ساتھی یحییٰ بن یحییٰ لیثی اندلسی کا قول ہے۔ انہوں نے کہا : ہر وہ نکاح جس پر دو آدمی گواہ ہوں تحقیق وہ سر (خفیہ) کی حد سے نکل گیا اور میرا گمان ہے کہ اسے لیث سے ابن سعد نے بیان کیا ہے۔ امام شافعی (رح)، اہل کوفہ اور ان کے متبعین کے نزدیک سر سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ نکاح جس پر دو یا دو سے زیادہ آدمی گواہ نہ ہوں اور اسے ہر حال میں فسخ کردیا جائے گا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : امام شافعی (رح) کا قول اس حدیث کے مطابق زیادہ صحیح ہے جسے ہم نے ذکر کیا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : دو عادل شاہدوں اور ولی مرشد کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہے اور اس بارے میں جو کچھ میں نے جانا ہے، صحابہ کرام میں سے کسی نے آپ کی مخالفت نہیں کی ہے اور امام مالک (رح) نے اپنے مذہب کے لئے اس سے استدلال کیا ہے کہ بیوع جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ان میں عقد کے وقت گواہ بنانا ہے اور اس پر دلیل قائم ہے کہ گواہ بنانا بیوع کے فرائض میں سے نہیں ہے اور وہ نکاح جس میں اللہ تعالیٰ نے گواہ بنانے کا ذکر نہیں کیا ہے تو اس کے لئے زیادہ لائق اور مناسب ہے کہ گواہ بنانا اس کی شروط اور فرائض میں سے نہ ہو، بلاشبہ مقصود انساب کی حفاظت کے لئے اعلان اور ظہور ہے۔ اور اشہاد کی ضرورت عقد کے بعد تب ہوتی ہے جب دو نکاح کرنے والوں کے درمیان کوئی اختلاف یا ایک دوسرے کے خلاف کوئی دعوی منعقد ہو اور حضور نبی کریم ﷺ سے مروی ہے : اعلنوا النکاح (
1
) (ابن ماجہ : باب : اعلان النکاح، حدیث نمبر :
1884
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تم نکاح کا اعلان کرو۔ امام مالک کا یہ قول ابن شہاب اور اکثر اہل مدینہ کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
10
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولعبد مؤمن “۔ اور مومن غلام (آیت) ” خیر من مشرک “۔ مشرک حسب والے سے بہتر ہے۔ (آیت) ” ولو اعجبکم “۔ اگرچہ اس کا حسب اور اس کا مال تمہیں اچھا لگے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے : مومن آدمی اور اسی طرح (آیت) ” لامۃ مؤمنۃ “ سے مراد مومنہ عورت ہے، جیسا کہ ہم نے اسے بیان کیا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” تمہارے تمام مرد اللہ تعالیٰ کے غلام اور تمہاری تمام عورتیں اللہ تعالیٰ کی باندیاں ہیں۔ “ مزید فرمایا : ” تم اللہ تعالیٰ کی باندیوں کو اللہ تعالیٰ کی مساجد سے نہ روکو “۔ (
2
) (مسند امام احمد، حدیث نمبر :
4655
) اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” نعم العبد، انہ اواب “۔ (ص :
44
) ترجمہ : بڑا خوبیوں والا بندہ ہر وقت ہماری طرف متوجہ۔ یہی وہ اچھا اور حسین قول ہے جس پر اس آیت کو محمول کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ نزاع ختم ہوجاتا ہے اور اختلاف زائل ہوجاتا ہے۔ واللہ الموفق۔ مسئلہ نمبر : (
11
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” اولئک “ میں اشارہ مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کی طرف سے۔ (آیت) ” یدعون الی النار “۔ یعنی وہ ایسے اعمال کی طرف دعوت دیتے ہیں جو آتش جہنم کا موجب ہوتے ہیں، کیونکہ ان کی صحبت اور ان کا طرز معاشرت نسل کی تربیت کے ساتھ ساتھ انکی خواہشات میں سے کثیر میں انحطاط اور تنزل کا سبب بنتا ہے۔ (آیت) ” واللہ یدعوا الی الجنۃ “ اور اللہ تعالیٰ اہل جنت کے عمل کی طرف بلاتا ہے۔ (آیت) ” باذنہ “۔ اپنے امر سے۔ زجاج نے یہی کہا ہے۔
Top