Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 111
قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَ اتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَؕ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لے آئیں لَكَ : تجھ پر وَاتَّبَعَكَ : جبکہ تیری پیروی کی الْاَرْذَلُوْنَ : رذیلوں نے
وہ بولے کہ کیا ہم تم کو مان لیں اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ ہوئے ہیں
قالوا انومن لک واثثعک الا ردلون۔۔۔ اس میں دو مسئلے ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 :۔ قالوانومن لک انہوں نے کہا : کیا ہم آپ کے قول کی تصدیق کریں۔ واتبعک الا ردنون وائو حالیہ اس میں قد ہے تقدیر کلام یہ ہے وقد اتبعک الا رزلون، یہ ارزل کی جمع ہے جمع مسکر ارازل، مونث ردنی اس کی جمع رذل ہے۔ نحاس نے کہا : جن نحویوں کو ہم جانتے ہیں ان میں سے کسی کے نزدیک بھی اس میں سے الف لام کا حذف جائز نہیں۔ حضرت ابن مسعود، ضحاک، یعقوب حضرمی اور قراء نے اسے وانما اتباعک الا رزلون پڑھا ہے نحاس نے کہا : یہ اچھی قرأت ہے اس وائو کے بعد اکثر اسماء آتے ہیں اور افعال قد کے بعد آتے ہیں اتباع یہ تبع اور تبیع کی جمع ہے یہ لفظ واحد اور جمع کے لیے آتا ہے۔ شاعر نے کہا : لہ تبع قد یعلم الناس انہ علی من یدانی صیف وربیع محل استدلال لہ تبع ہے یعنی اس کے پیروکار ہیں۔ اتباعک پر رفع مبتداء ہونے کی وجہ سے جائز ہے الا رذلون خبر ہے تقدیرکلام یہ ہوگی انومن لک وانما اتباع الارذلون یہ بھی جائز ہے، انومن، لک کی ضمیر پر معطوف ہو تقدیر کلام یہ ہوگی انومن لک نحن واتباعک انا رذلون فنعد منھم، لک کے ساتھ فصل بہت اچھا ہے، سورة ٔ سود میں اراذل کے بارے میں گفتگو ہوچکی ہے ہم یہاں مزید وضاحت کرتے ہیں اور یہ مسئلہ ہے۔ مسئلہ نمبر 2 :۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جو لوگ ان پر ایمان لائے وہ ان کے بیٹے، گھر کی عورتیں اور ان کے پوتے تھے اس میں اختلاف ہے کہ کیا ان کے ساتھ کوئی اور تھا یا نہیں تھا کوئی بھی صورت ہو وہ سب صالح تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کی : ذنخق ومن معی من المومنین جو آپ کے ساتھ تھے، وہی آپ کے پیروکار تھے کافروں کے قول سے نہ انہیں شین لا حق ہوا اور نہ ہی مذمت لاحق ہوئی بلکہ ارذل ہی ان کی تکذیب کرنے والے تھے۔ سہیلی نے کہا : اس آیت کی تفسیر میں جو قول روایت کیا گیا ہے اس سے بہت سے عوام نے دھوکہ کھایا ہے وہ قول یہ ہے : وہ بافندے اور حجام تھے، اگر وہ بافندے تھے جس طرح انہوں نے گمان کیا تو ان کا نبی پر ایمان اور اس کی اتباع انہیں شرف عطاء کرنے والا تھا جس طرح حضرت بلال ؓ اور حضرت سلیمان فارسی اسلام کی طرف سبقت لے جانے سے مشرف ہوئے۔ یہ دونوں نبی کریم ﷺ کے جلیل القدر صحابہ میں سے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد بافندے اور حجام نہ تھے اور کافروں کا بافندوں اور حجاموں کے بارے میں اگر وہ ایمان لائے کہ یہ ارزل ہیں اس طرح کی مذمت کو لا حق نہیں کرتا جس طرح آج یہ لفظ مذمت کو لاحق کرتا ہے کیونکہ یہ تو کافروں کے قول کی حکایت ہے مگر اس صورت میں کہ کافروں کی حجت اور ان کے قول کو اصول قرار دیا جائے یہ عظیم جہالت ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے آگاہ کیا ہے کہ صنعتیں دین میں کوئی نقصان دینے والی نہیں۔ قال وما علیی بما کانو یعلمون کان زائد ہے۔ تقدیر کلام یہ ہوگی وماعلیی بما یعملون یعنی مجھے ان کے اعمال کے علم کا مکلف نہیں بنایا گیا مجھے تو اس امر کا مکلف بنایا گیا ہے کہ میں انہیں ایمان کی دعوت دوں اعتبار ایمان کا ہے حرفوں اور صنعتوں کا نہیں۔ گویا انہوں نے کہا : ان کمزور لوگوں نے عزت اور مال کی طمع میں آپ کی اتباع کی۔ فرمایا : میں ان کے امر کے باطن پر واقف نہیں میرے سپرد تو ان کو ظاہر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : میں یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے گا اور تمہیں گمراہ کرے گا ان کی رہنمائی کرے گا اور تمہیں راہ راست سے بھٹکا دے گا انہیں توفیق دے گا اور تمہیں بےیارومدد گار چھوڑے گا۔ ان حسابھم الا علی ربی لوتشعرون ان کے اعمال اور ایمان کا حساب میرے رب کے ذمہ ہے۔ لوکا جواب محذوف ہے الا علی ربی لو تشعرون۔ لو کا جواب مخذوف ہے تقدیر کلام یہ ہوگی لو شعرتم ان حسابھم علی ربھم لما عبتمو ھم بعضائھم عام قرأت تشعرون تاء کے ساتھ مخاطب کا صیغہ ہے، کفار کو خطاب ہے یہی ظاہر ہے۔ ابن ابی عبلہ اور محمد بن سمیقع نے لویشعرون قرأت کی ہے گویا کفار کے بارے میں خبر ہے اور خطاب کو ان سے ترک کیا گیا ہے جس طرح یہ ارشاد ہے : ھُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط (یونس : 22) یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ ایک آدمی نے سفیان سے پوچھا : جس نے بدکاری کی ہے اور اپنے بچے کو قتل کردیا جب کہ وہ مسلمان ہے کہ کیا اس کی آگ کا فیصلہ کیا جائے گا ؟ فرمایا : ان حسابھم الا علی ربی لو تشعرون۔ وما انا بطارد المومنین ان کے احوال اور اشغال کی خفت کی وجہ سے میں انہیں دھتکارنے والا نہیں گویا انہوں نے بھی ضعفاء کو دھتکارنے کا مطالبہ کیا جس طرح قریش نے ان سے مطالبہ کیا تھا۔ ان انا الا نذیر مبین یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے فقراء کو چھوڑ کر صرف اغنیاء کے لیے معبوث نہیں کیا۔ میں تو رسول ہوں میں تمہیں پیغام حق سناتا ہوں جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے جس نے میری اطاعت کی وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سعادت مند ہے اگرچہ وہ فقیر ہو۔ قالو لئن لم تنتہ یتوح اے نوح ! اگر تم ہمارے معبودوں کو سب و شتم کرنے اور ہمارے دین میں عیب لگانے سے نہ رکا۔ لتکونن من المرجومین تم کو پتھروں سے جم کردیا جائے گا، یہ قتادہ کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مقاتل نے کہا : تو مقتولوں میں سے ہوجائے گا۔ ثمالی نے کہا : قرآن حکیم میں جہاں بھی مرحومین کا لفظ آیا ہے اس سے مراد قتل ہے مگر سورة مریم میں لئن لم تنتہ الا رجمنک (مریم : 46) میں تجھے سب و شتم کروں گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے تو سب وشتم کیے جانے والوں میں ہوگا : یہ سدی کا قول ہے۔ اس معنی میں ابو دائود کا قول ہے۔ قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ کَذَّبُوْنِ ۔ فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُمْ فَتْحًا وَّنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ یہ اس وقت بات کی جب آپ ان کے ایمان سے مایوس ہوگئے۔ فتح کا معنی حکم ہے یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ ۔ اس سے مراد کشتی ہے اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ مشحون سے مراد بھری ہوئی۔ شحن سے مراد کشتی کا لوگوں اور جانوروں سے بھر جانا۔ یہاں فلک مونث نہیں کیونکہ یہاں فلک واحد ہے جمع نہیں۔ ثم اعرقنا بعد البقین بعد اس کے کہ ہم نے نوح اور جو ایمان لائے ان کو نجات دی۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ وَاِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ۔ یہ بچث گزر چکی ہے۔
Top