Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 210
وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیٰطِیْنُ
وَ : اور مَا تَنَزَّلَتْ : نہیں اترے بِهِ : اسے لے کر الشَّيٰطِيْنُ : شیطان (جمع)
اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نازل نہیں ہوئے
(وما تنزلت بہ الشطین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) وما تنزلت بہ الشطین ہ ضمیر سے مراد قرآن ہے بلکہ اسے روح الامین نے نازل کیا ہے۔ وما یبغی لھم وما یبطیعون۔ انھم عن السمع المعزولون جس طرح سورة حجر میں بیان کیا گیا ہے انہیں شہابچے مار کر سننے سے روک دیا گیا ہے۔ حضرت حسن بصری اور محمد بن سمیقع اسے وما تنزلت بہ الشیاطون پڑھا کرتے۔ مہدوی نے کہا : یہ لغت عرب میں جائز نہیں اور خط کے مخالف ہے۔ نحاس نے کہا : یہ تمام نحویوں کے نزدیک غلط ہے۔ میں نے علی بن سلیمان کو کہتے ہوئے سنا، وہ کہتے میں نے محمد بن زیاد کو کہتے ہوئے سنا : یہ علماء کے نزدیک غلط ہے یہ شبہ کے داخل ہونے کی وجہ سے ہوا جب حضرت حسن بصری نے اس کے آخری میں یاء اور نون دیکھا جب کہ یہ محل رفع میں ہے تو ان پر جمع سالم کے اعتبار سے اشتباہ ہو تو ان سے غلطی ہوئی۔ حدیث میں ہے ” عالم کی لغزت سے بچو (1) “ جب کہ انہوں نے لوگوں کے ساتھ پڑھائو ” وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰـطِیْنِہِمْ لا “ (البقرہ : 14) اگر یہ محل رفع میں وائو کے ساتھ ہو تو اضافت کی وجہ سے نون کا حذف واجب ہوتا۔ ثعلبی نے کہا : فراء نے کہا حضرت حسن بصری نے غلطی کی۔ یہ نصر بن شمیل سے ذکرب کیا گیا تو کہا : اگر روبہ، عجاج اور ان جیسے لوگوں کے قول سے استدلال کرنا جائز ہے تو حضرت حسن بصری اور ان کے اصحاب کے قول سے بھی استدلال کرنا جائز ہے۔ ساتھ ساتھ ہم جانتے ہیں انہوں نے اسے نہیں پڑھا مگر انہوں نے اس بارے میں کوئی روایت سنی ہوگی۔ مورج نے کہا : اگر لفظ شیطان شاط، یسیاط سے مشتق ہو تو ان دونوں کی قرأت کی کوئی توجیہ ہو سکتی ہے۔ یونس بن حبیب نے کہا : میں نے ایک اعرابی کو کہتے ہوئے 1 ؎۔ السنن الکبریٰ للبیہقی : کتاب الشھادت، باب ما تجوزبہ شھادۃ اھل الھواء، جلد 10، صفحہ 211، دارالفکر۔ سنا : دخلنا بساتین من وارئھا بساتون۔ میں نے کہا : یہ قول حضرت حسن بصری کی قرأت کے کتنے زیادہ مشابہ ہے۔ فلا تدع مع اللہ الھا اخر فتکون من المعذبین ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے اسے کہو جو اس کا انکار کرے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ نبی کریم ﷺ کو خطاب ہے اگرچہ آپ ایسا نہیں کرتے تھے کیونکہ آپ معصوم اور چنے ہوئے تھے لیکن اس کے ساتھ آپ کو خطاب کیا گیا اور مقصود اس کا غیر ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے۔ ” وانذر عشیرتک الا قربین۔ “ ( الشعرائ) وہ اپنے نسب اور قرابت پر بھروسہ نہ کریں کہ وہ ان امور کو چھوڑ دیں جو ان پر واجب ہیں۔
Top