Al-Qurtubi - An-Naml : 36
فَلَمَّا جَآءَ سُلَیْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ١٘ فَمَاۤ اٰتٰىنَِۧ اللّٰهُ خَیْرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰىكُمْ١ۚ بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِیَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آیا سُلَيْمٰنَ : سلیمان قَالَ : اس نے کہا اَتُمِدُّوْنَنِ : کیا تم میری مدد کرتے ہو بِمَالٍ : مال سے فَمَآ : پس جو اٰتٰىنِۦ اللّٰهُ : مجھے دیا اللہ نے خَيْرٌ : بہتر مِّمَّآ : اس سے جو اٰتٰىكُمْ : اس نے تمہیں دیا بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم بِهَدِيَّتِكُمْ : اپنے تحفہ سے تَفْرَحُوْنَ : خوش ہوتے ہو
جب (قاصد) سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو جو کچھ خدا نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ تم ہی اپنے تحفے سے خوش ہوتے ہو گے
فلما جآء سلیمن قال اتمدونن بمال قاصد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس ہدیہ لایا فرمایا : اتمدونن بمال حمزہ، یعقوب اور اعمش نے ایک نون مشددہ اور اس کے بعد یائہ ثابتہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ باقی قراء نے دونوں پڑھے ہیں، یہ ابوعبید کا پسندیدہ قول ہے، کیونکہ تمام مصاحف میں دونوں ہیں۔ اسحاق نے نافع سے یہ قرأت نقل کی ہے اتمدون یعنی ایک نون ہے مخفہ ہے بعد میں یاء ہے جو لفظوں میں ہے۔ ابن انباری نے کہا، اس قرأت میں واجب ہے کہ وقف کے وقت یاء کو ثابت رکھا جائے تاکہ مصحف کے ہجوں کے ساتھ موافقت ہوجائے۔ اصل نون مشددہ ہے اس جگہ تشدید میں تخیف کی گئی ہے جس طرح اشھدانت عالم میں تخفیف کی گئی ہے اصل انک عالم ہے۔ اس معنی پر اس نے بنا کی جس نے پڑھا : یشاقون فیھم اتحاجون فی اللہ عربوں نے کہا : الرجال یضربون ویقصدون اصل میں یضربونی ویقصدونی ہے کیونکہ یہ یضر بوننی اور یقصد نونی کا ادغام ہے۔ شاعر نے کہا : ترھبین والجید منک للیلی والحشا والبغام والعینان ال میں ترھبینی ہے اس میں تخفیف کی گئی۔ اتمذوننی کا معنی ہے کیا تم میرے مال میں اضافہ کرتے ہو جب کہ تم میرے اموال کا مشاہدہ کر رہے ہو۔ فما اتنن اللہ خیر مما اتکم اللہ تعالیٰ نے اسلام، ملک اور نبوت کی صورت میں جو کچھ عطا کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے میں مال کے ساتھ خوش نہیں ہوتا۔ اتانی اللہ یاء مفتوحہ ہے۔ جب انہوں نے وقف کیا تو انہوں نے یاء کو حذف کیا۔ جہاں تک یعقوب کا تعلق ہے تو وہ وقف میں ثابت کرتے ہیں اور اجتماع ساکنین کی وجہ سے وصل میں گرا دیتے ہیں۔ باقی قراء دونوں حالوں میں یاء کے بغیر پڑھتے ہیں۔ بل انتم بھدیتکم تفرحون کیونکہ تم فخر کرنے والے اور دنیا میں کثرت مال کا تقاضا کرنے والے ہو۔ ارجمع الیھم حضرت سلیمان نے منذربن عمرو سے کہا جو وفد کا امیر تھا : ہدیہ کو ان کی طرف واپس لے جائو۔ فلنا تینھم بجنود لاقبل لھم بھا لام قسمیہ ہے اور نون ثقلیہ اس کو لازم ہے۔ نحاس نے کہا : میں نے ابو الحسن بن کیسان کو کہتے ہوئے سنا : یہ لام تاکید یہ ہے اسی طرح اس کے نزدیک لام تین طرح ہیں کوئی اور لام نہیں (1) لام تاکید (2) لام امر (3) لام جار۔ یہ ذہین نحویوں کا قول ہے کیونکہ وہ ہر چیز کو اس اصل کی طرف پھیرتے ہیں یہ کسی انسان کے لئے اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب اسے عربی زبان میں تجربہ و مہارت ہو۔ لاقبل لھم بھا کا معنی ہے انہیں اس کی طاقت نہ ہوگی۔ ولنخرجنھم منھا ہاضمیر سے مرادان کی زمینیں ہیں۔ اذلۃ وھم صغرون ایک قول یہ کیا گیا ہے : ہاضمیر سے مراد قریتہ سبا ہے اس کا ذکر اللہ تعالیٰ کے فرمان : ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا میں گزر چکا ہے اذلۃ کا معنی ہے ان کا ملک اور عزت سلب کرلی جاتی ہے۔ وھم صغرون جب کہ وہ ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔ یہ صغر سے مشتق ہے جس کا معنی ذلت ہے یعنی اگر وہ اسلام لائیں۔ قاصد واپس ملکہ بلقیس کے پاس گیا اور اسے خبر دی۔ اس نے کہا، میں پہچان گئی ہوں کہ وہ بادشاہ نہیں اللہ تعالیٰ کے انبیاء میں سے کسی نبی کے ساتھ جنگ کرنا ہمارے ببس میں نہیں۔ اس نے اپنے عرش کے بارے میں حکم دیا تو اسے ایسے سات کمروں میں مقفل کردیا گیا جو ایک دوسرے کے اندر تھے جس کے اردگرد سات محلات تھے۔ تمام دروازے بند کردیئے گئے ان پر پہرے لگا دیئیگئے اور خود بارہ ہزار چھوٹے بادشاہوں کے ساتھ جو یمن کے بادشاہ تھے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس جانے کے لئیسفر شروع کیا ہر بادشاہ کی قیادت میں ایک لاکھ سپاہی تھے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) بڑے ہیبت والے بادشاہ تھے آپ پہل نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ ان سے اس کا سوال کیا جاتا۔ ایک دن آپ نے اپنے قریب غبار دیکھا پوچھا : یہ کیا ہے ؟ ساتھیوں نے بتایا : یہ ملکہ بلقیس ہے اے اللہ کے نبی ! تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے لشکریوں سے فرمایا وہب اور دوسرے علماء نے کہا : آپ نے جنوں سے فرمایا۔ ایکم یاتینی بعرشھا قبل ان یاتونی مسلمین عبداللہ بن شداد نے کہا : ملکہ بلقیس حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے ایک فرسخ دور تھی جب آپ نے یہ حکم دیا تھا وہ اپنا عرش سبا چھوڑ آئی تھی اور اس پر نگہبان بیٹھائے تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب ملکہ بلقیس نے تحفہ بھیجا تھا تو اس نے اپنے قاصد اپنے لشکروں کی صورت میں بھیجے تھے تاکہ اگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس کے ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو تیاری سے پہلے دھوکہ سے انہیں قتل کردیا جائے۔ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کا علم ہوا تو اس وقت آپ نے یہ حکم دیا۔ حضرت ابن عباس نے کہا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے عرش لانے کا حکم اس سے قبل دیا تھا جب آپ نے اسے خط لکھا تھا کہ وہ اس کی بارگاہ میں داخل ہوا بھی خط نہیں بھیجا تھا کہ وہ عرش آگیا۔ ابن عطیہ نے کہا : آیات کا ظاہر اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ گفتگو ہد ہد کے آنے اور اس کو لوٹانے اور ہد ہد کو خط دے کر بھیجنے کے بعد کی تھی، جمہور مفسرین کی یہی رائے ہے۔ عرش منگوانے کے فائدے کے بارے میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ قتادہ نے کہا : حضرت سلیمان علیہ ال سلام کے سامنے اس کی عظمت اور عمدگی کا ذکر کیا گیا تو آپ نے ارادہ کیا کہ قبل اس کے کہ اسلام اس کے تخت اور قوم کی حفاظت کرے اور ان کے اموال کی حفاظت کرے وہ اس تخت کو لے لیں۔ اسلام کا یہی طریقہ ہے، یہ ابن جریج کا قول ہے۔ ابن زید نے کہا، آپ نے تخت اس لئے منگوایا تھا تاکہ ملکہ بلقیس کو اپنی وہ طاقت دکھائیں جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کو دی گئی نیز اسے نبوت پر دلیل بنائیں کہ وہ لشکر اور جنگ کے بغیر بھی ان کے گھروں کو اپنی تحویل میں لے سکتے ہیں۔ اس تاویل کی بنا پر مسلمین، مستلمین کے معنی پر ہے، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ ابن زید نے کہا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی عقل کا امحتان لینا چاہا۔ اسی وجہ سے فرمایا : نکروالھا عرشھا ننظر اتھتدی جنوں کو خوف ہوا کہ کہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس سے شادی ہی نہ کرلیں تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اس کے بطن سے بچہ پیدا نہ ہوجائے تو وہ ہمیشہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نسل کے خادم اور تابع ہی رہیں گے۔ جنوں نیحضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کہا : ملکہ بلقیس کی عقل میں خلل ہے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تحت کی وساطت سے اس کا امتحان لینا چاہا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت سلیمان علیہ اسلام نے ہد ہد کی صداقت کا امحتان لینا چاہا۔ جو اس نے کہا تھا : ولھا عرش عظیم۔ یہ طبری کا قول ہے۔ قتادہ سے مروی ہے : ہد ہد نے جو وصف بیان کیا اس کو دیکھنا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پسند کیا۔ پہلے قول کو اکثر علماء نے تسلیم کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : قبل ان باتونی مسلمین کیونکہ وہ اگر مسلمان ہوجاتی تو اس کا مال اس پر محفوظ ہوجاتا تو اس کی اجازت کے بغیر اس کو نہ لیا جاسکتا۔ روایت بیان کی گئی ہے : وہ سونے اور چاندی کا بنا ہوا تھا سرخ یاقوت اور جواہرات سے آراستہ تھا وہ سات کمروں کے اندر تھا اس پر سات تالے لگے ہوئے تھے۔
Top