Al-Qurtubi - An-Naml : 35
وَ اِنِّیْ مُرْسِلَةٌ اِلَیْهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ
وَاِنِّىْ : اور بیشک میں مُرْسِلَةٌ : بھیجنے والی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف بِهَدِيَّةٍ : ایک تحفہ فَنٰظِرَةٌ : پھر دیکھتی ہوں بِمَ : کیا (جواب) لے کر يَرْجِعُ : لوٹتے ہیں الْمُرْسَلُوْنَ : قاصد
اور میں انکی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں
( وانی مرسلۃ۔۔۔۔ ) اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 :۔ وانی مرسلۃ الیم بھدیۃ یہ اس کا حسن نظر اور حسن تدبیر تھا۔ میں تحفہ بھیج کر اس آدمی کا امتحان لیتی ہوں میں اسے عمدہ اموال عطاء کرتی ہوں اور امور مملکت میں نادرو نایاب چیزیں اس پر پیش کرتی ہوں اگر وہ دنیاوی بادشاہ ہوا تو مال اسے خوش کر دے گا اور ہم اس کے ساتھ اسی مناسبت سے معاملہ کرلیں گے اگر وہ نبی ہوا تو مال اسے خوش نہیں کرے گا اور وہ ہمارے اوپر دینی امور کو لازم کرے گا تو ہمارے لیے مناسب ہوگا کہ ہم اس پر ایمان لے آئیں اور اس کے دین پر اس کی اتباع کریں۔ اس نے حضرت سلیمان کی طرف عظیم تحفہ بھیجالوگوں نے اس کی تفصیل میں بہت زیادہ گفتگو کی ہے۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے اس نے سونے کی ایک اینٹ بھیجی تو قاصدوں نے سونے کی دیواریں دیکھیں تو جو تحفہ وہ لائے تھے اس کو انہوں نے حقیر جانا۔ مجاہد نے کہا : ملکہ بلقیس نے اس کی طرف دو سوم غلام اور دو سو لونڈیاں بھیجیں (1) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے : اس نے باہ خادمائیں بھیجیں جن کو اس نے غلاموں کا لباس پہنایا اور بارہ غلام بھیجے ان کو اس نے عورتوں کا لباس پہنایا۔ خادموں کے ہاتھوں پر کستوری اور عنبر کے طبق تھے بارہ شریف خاندان کی دو شیزائیں تھیں جو سونے کی اینٹیں اٹھائے ہوئے تھیں دو گھونگے تھے ان میں سے ایک میں چھید تھا اور دوسرے میں چھید نہیں تھا اور چھید ٹیڑھا تھا۔ ایک پیالہ تھا جس میں کوئی چیز نہ تھی ایک عصا تھا حمیر کے بادشاہ جس کے وارث چلے آ رہے تھے۔ اس نے یہ ہد ہد اپنی قوم کی ایک جماعت کے ساتھ بھیجا اور ایک قول یہ کیا گیا ہے : قاصد ایک تھا اس کی صحبت میں پیروکار اور خدام تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا : اس نے اپنی قوم کے اشراف میں سے ایک آدمی بھیجا جس کو منذر بن عمرو کہا جاتا۔ اس کے ساتھ اس نے صاحب الرائے اور دانشمند آدمی کردیئے۔ ہدیہ سو غلام اور سو لونڈیاں تھیں۔ لباس ان کے مختلف 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 259، معنا تھے اس نے غلمان سے کہا : جب سلیمان (علیہ السلام) تم سے گفتگو کریں تو ان کے ساتھ ایسی گفتگو کرو جس میں تانیث ہو اور وہ کلام عورتوں کے کلام کے مشابہ ہو۔ اس نے لونڈیوں سے کہا : ان سے کلام کروجس میں سختی ہو اور وہ کلام مردوں کے کلام کے مشابہ ہو۔ یہ کہا جاتا ہے : ہد ہدآیا اور اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو سب کچھ بتا دیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو خبر دی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ آپ کی جگہ نو فراسخ تک سونے اور چاندی کی اینٹیں لگا دیں، پھر فرمایا : خشکی اور تری میں کون سا جانور تم سب سے خوبصورت دیکھتے ہو ؟ ساتھیوں نے بتایا : اے اللہ کے نبی ! ہم نے سمندر میں فلاں فلاں جانور دیھے جس پر نقطے ہیں اسکے رنگ مختلف ہیں، اس کے پر ہیں، اس کی گردن پر بال ہیں اور پیشانی پر بال ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے حکم دیا تو جانور آگئے انہیں میدان کے دائیں اور بائیں اور سونے چاندی کی اینٹوں پر باندھ دیا گیا اور ان کے لیے چارہ ڈال دیا پھر آپ نے جنوں کو حکم دیا کہ اپنی اولادوں کو لے آئو تو آپ نے انہیں میدان کی دائیں اور بائیں جانب کھڑا کردیا جو انتہائی خوبصورت جوان تھے پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی مجلس میں اپنی کرسی پر بیٹھے آپ کے لیے سونے کی چار ہزار کرسیاں آپ کی دائیں جانب اور اتنی مقداریں بائیں جانب رکھ دیں۔ ان پر انبیاء اور اولیاء کو بٹھایا۔ شیاطین، جنوں اور انسانوں کو حکم دیا کہ کئی فرسخوں تک کھڑے ہوجائیں، درندوں، کیڑے مکوڑوں اور پرندوں کو حکم دیا تو انہوں نے کئی فراسخ تک آپ کے دائیں بائیں صفیں بنا لیں جب قوم میدان کے قریب ہوگئی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ملک کو دیکھا اور جانور دیکھے جس سے حسین ان کی آنکھوں نے نہ دیکھے تھے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں پر پیشاب کر رہے تھے تو انہیں اپنے آپ چھوٹے لگے اور ان کے پاس جو ہدایا تھے انہیں پھینک دیا۔ بعض روایات میں ہے : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جب یہ حکم دیا کہ میدان کے فرش کو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنا دیا جائے تو آپ نے یہ حکم دیا کہ راستہ میں قالین کے برابر زمین کا حصہ چھوڑ دیا جائے اس پر فرش نہ لگایا جائے جب وہ اس کے پاس سے گزرے تو انہیں خوف ہوا کہ ان پر تہمت لگائی جائے گی تو ان کے پاس جو کچھ تھا وہ انہوں نے وہاں پھینک دیا جب انہوں نے شیاطین کو دیکھا تو انہوں نے خوفناک منظر دیکھا تو وہ اس سے گھبرا گئے اور خوفزدہ ہوگئے۔ شیاطین نے انہیں کہا : تم گزر جائو تم پر کوئی گرفت نہیں وہ جنوں، انسانوں، چوپائیوں، پرندوں، درندوں اور وحشیوں کی جماعتوں کے پاس سے گزرتے رہے یہاں تک کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے جا کر ٹھہر گئے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے خندہ پیشانی سے خوبصورت انداز میں دیکھا ملکہ بلقیس نے اپنے قاصد سے کہا تھا : اگر وہ تجھے غضب کی نظر سے دیکھے جو ہشاش بشاش اور شفقت کرنے ولا ہے تو جان لینا وہ نبی مرسل ہے اس کی بات کو خوب سمجھنا اور خوب دینا۔ ہد ہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو پہلے ہی سب کچھ بتا دیا تھا۔ ملکہ بلقیس نے سونے کے ایک چھوٹے برتن کا ارادہ کیا جس میں ایک اسا موتی تھا جس میں سوراخ نہیں کیا گیا تھا اور ایک ایسا گونگا تھا جس میں چھید ٹیڑھا کیا گیا تھا۔ اس نے قاصد کے ہاتھ ایک خط لکھ کر بھیجا تھا اس میں اس نے کہا تھا : اگر تو نبی ہے تو خدام اور خادمائوں میں فرق کرو اور چھوٹے برتن میں جو کچھ ہے اس کے بارے میں خبر دو اور نچلی جانب سے عصا کا سرا مجھے بتائو۔ موتی میں سیدھا چھید کرو اور گونگے میں دھاگا داخل کرو اور پیالے کو ایسے پانی سے بھر دو جو نہ زمین سے تعلق رکھتاہو اور نہ ہی آسمان سے۔ جب قاصد پہنچا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے کھڑا ہوا تو آپ کو ملکہ کا خط پہنچایا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے دیکھا پوچھا : وہ برتن کہاں ہے ؟ اسے لایا گیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے حرکت دی تو اس میں جو کچھ تھا حضرت جبریل امین نے اس کے بارے میں خبر دے دی۔ پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے انہیں خبردے دی۔ قاصد نے عرض کی : آپ نے سچ فرمایا ہے۔ موتی میں سوراخ کیجئے اور گھونگے میں دھاگہ ڈالیے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جنوں اور انسانوں سے فرمایا کہ اس میں سوراخ کیجئے تو وہ عاجز آگئے آپ نے شیاطین سے فرمایا : تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہے ؟ انہوں نے عرض کی : آپ دیمک کو پیغام بھیجیں، دیمک آگئی اس نے اپنے منہ میں ایک بال لیا یہاں تک کہ دوسری جانب سے نکل گئی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا : تیری کوئی حاجت ؟ اس نے عرض کی : میرا رزق درخت میں رکھ دیجئے۔ فرمایا : تیرے لیے وہ ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا : کون اس گھونگے میں دھاگا ڈالے گا ؟ سفید کپڑے نے کہا : اے اللہ کے نبی ! میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ کیڑے نے دھاگہ اپنے منہ میں لیا سوراخ میں داخل ہوا یہاں تک کہ دوسری جانب سے نکل گیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا : تیری کوئی حاجت ؟ عرض کی : میرا رزق پھلوں میں رکھ دیجئے۔ فرمایا : وہ تیرے لیے ہے۔ پھر آپ نے خدام اور لونڈیوں میں فرق کیا۔ سدی نے کہا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے انہیں وضو کا حکم دیا مرد ہاتھ اور پائوں پر پانی بہانے لگے اور لونڈیاں بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر پانی بہانے لگیں اور دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی بہانے لگیں، تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس طرح ان کو الگ الگ کردیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لونڈی برتن سے ایک ہاتھ سے پانی لیتی پھر اسے دوسرے میں رکھتی پھر منہ پر ڈالتی جب کہ غلام برتن سے پانی لیتا اور اپنے چہرے پر ڈالتا لونڈی اپنی کلائی کے بطن پر پانی بہاتی اور غلام کلائی کی پشت پر پانی بہاتا۔ لونڈی پانی انڈیلتی اور غلام اپنے ہاتھوں پر پانی تیزی سے بہاتا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس طرح ان کے درمیان تمیز کی۔ یعلی بن مسلم نے سعید بن جبیر سے روایت نقل کی ہے کہ ملکہ بلقیس نے دو سو غلام اور لونڈیاں بھیجیں اس نے کہا : اگر نبی ہوئے تو مؤنث سے مذکر کو پہچان لیں گے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ وضو کرو تو انہوں نے وضو کیا ان میں سے جس نے وضو کیا اور اپنی ہتھیلی سے پہلے اپنی کہنی سے دھونے کا عمل شروع کیا۔ فرمایا : یہ مونث ہے اور جس نے کہنی سے پہلے ہتھیلی سے دھونے کا عمل شروع کیا تو وہ مذکر ہے۔ پھر آپ نے عصا کو ہوا کی طرف اچھالا فرمایا : جو سرا پہلے زمین کی طرف آئے گا وہ اس کی اصل ہوگا۔ آپ نے گھوڑے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے دوڑایا جائے جہاں تک کہ اسے پسینہ آجائے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے پسینہ سے اس پیالہ کو بھر دیا۔ پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تحفہ واپس کردیا۔ یہ روایت بیان کی گئی ہے : جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ہدیہ واپس کردیا اور اس کے قاصدوں نے ان چیزوں کے بارے میں بتایا جن کا مشاہدہ انہوں نے کیا تھا تو ملکہ بلقیس نے اپنی قوم سے کہا : یہ آسمان کا معاملہ ہے۔ مسئلہ نمبر 2 :۔ نبی کریم ﷺ ہدیہ قبول کیا کرتے تھے اس پر ثابت رہتے اور صدقہ قبول نہ فرماتے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور باقی انبیاء کا بھی یہی معمول تھا۔ ملکہ بلقیس نے ہدیہ کو قبول کرنے اور اس کے رد کرنے کو اپنے ہاں ایک علامت بنایا تھا جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بادشاہ ہیں یا نبی ہیں کیونکہ آپ نے اپنے خط میں لکھا تھا الا تعلوا علیواتونی مسلمین اس میں فدیہ قبول نہیں ہوتا اور نہ ہی ہدیہ لیا جاتا ہے یہ اس باب سے متعلق نہیں جس میں یہ ثابت ہو کہ اس میں ہدیہ کو کس طریقہ سے قبول کیا جاتا ہے ؟ یہ تو رشوت ہے اور حق کی باطل کے بدلہ میں بیع ہے، یہ ایسی رشوت ہے جو حلال نہیں جہاں تک مطلق ہدیہ کا تعلق ہے جو باہم محبت اور صلہ رحمی کے لیے دیا جاتا ہے یہ بہر کیف جائز ہے جب کہ مشرک کی جانب سے نہ ہو۔ مسئلہ نمبر 3۔ اگر مشرک کی جانب سے ہو تو حدیث طیبہ میں ہے ” مجھے مشرکوں کی ہدایا اور عطیات سے روک دیا گیا ہے “ (1) حضور ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ ﷺ نے اسے قبول فرمایا جس طرح مالک کی حدیث میں ہے جو ثور بن زید دیلی وغیرہ سے مروی ہے۔ علماء کی ایک جماعت نے دونوں میں نسخ کا قول کیا ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : اس میں کوئی ناسخ و منسوخ نہیں۔ اس میں معنی یہ ہے آپ اس کافر کا ہدیہ قبول نہ کرتے جس پر غلبہ کا ارادہ رکھتے ہوں، اس کے ملک کو لینا چاہتے ہوں اور اس کے اسلام میں داخل ہونے کی خواہش کرتے ہوں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی یہی حالت تھی۔ اس جیسی صورتحال میں آپ کو نہی کی گئی کہ اس کا ہدیہ قبول کیا جائے تاکہ اسے محمول کیا جائے کہ آپ اس سے رک جائیں۔ اس بارے میں علماء کی تاویلات میں سے سب سے اچھی تاویل ہے کیونکہ اس تاویل میں احادیث کی تطبیق ہوجاتی ہے اس کے علاوہ بھی عملاء نے تاویل کی ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ ہدیہ مستحب ہے یہ محبت کو پیدا کرتا ہے اور دشمنی کو ختم کرتا ہے۔ امام مالک نے عطا خراسانی سے روایت نقل کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” باہم مصافحہ کیا کرو یہ کینے کو ختم کردیتا ہے، باہم ہدیہ دیا کرو تمہارے درمیان محبت پیدا ہوجائے گی اور یہ چیز بخل کو ختم کر دیگی (2) “۔ معاویہ بن حکم نے روایت نقل کی ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :” باہم ہدیہ دیا کرو کیونکہ یہ محبت میں اضافہ کرتا ہے اور سینے کے کینوں کو دور کرتا ہے۔ “ (3) دار قطنی نے کہا : ابن بجیر اپنے باپ سے وہ مالک سے روایت نقل کرتے ہیں وہ کوئی پسندیدہ شخصیت نہیں تھے نہ یہ روایت امام مالک ثابت ہے اور نہ زہری سے ثابت ہے۔ ابن شہاب سے مروی ہے کہا : ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” باہم ہدیہ دیا کرو ہدیہ کینہ کو ختم کردیتا ہے۔ “ ابن وہب نے کہا : میں نے یونس سے نحیمہ کے بارے میں پوچھا : وہ کیا ہے ؟ فرمایا : کینہ۔ اس حدیث کو واقص عثمان، زہری سے متصل نقل کرتے ہیں جب کہ وہ ضعیف ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ ہدیہ کو قبول فرمایا کرتے تھے اس میں اسوہ حسنہ موجود ہے اتباع سنت کے ساتھ ساتھ ہدیہ نفس کی آلائشوں کو زائل کرتا ہے ہدیہ دینے والے اور جس کو ہدیہ دیا جائے ان میں باہمی ملاقات اور صحبت کی چاشنی پیدا کرتی ہے جس نے کہا کتنا اچھا کہا : ھدایا الناس بعضھم لبعض تولد فی قلوبھم الوصالا وتزرع فی الضمیر ھوی وودا وکسبھم اذا حضروا جمالا لوگوں کے ایک دوسرے کو ہدایات ان کے دلوں میں باہمی محبت پیدا کرتے ہیں۔ وہ ضمیر میں محبت کا بیچ بوتے ہیں اور جب وہ حاضر ہوتے ہیں تو انہیں جمال عطا کرتے ہیں۔ ان الھدایا لھا حظ اذا وردت احظی من الابن عند الواحد الحدب ہدایا جب بیٹے کی جانب سے واقع ہوں تو شفیق باپ کے نزدیک ان کا بڑا مقام ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے :” تمہارے جلیس ہدیہ میں تمہارے ساتھ شریک ہیں “ (1) اس کے معنی میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ظاہر معنی پر محمول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کرم اور مروت کی بنا پر ان کے ساتھ شریک ہیں اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ امام ابو یوسف نے کہا : یہ پھلوں وغیرہ میں ہے۔ بعض نے کہا : وہ ہدیہ کی بجائے سرور میں شریک ہیں۔ خبر اصحاب صفہ، گلی والے اور فقراء کے لئے وقف کئے گئے مکانات پر محمول ہے۔ اگر وہ فقہاء میں سے فقیہ ہو تو اس میں اصحاب کی کوئی شرکت نہ ہوگی۔ اگر وہ ان لوگوں کو شریک کرے تو اس کی سخاوت ہوگی۔ مسئلہ نمبر 6۔ فنظرۃ بم یرجع المرسلون یہاں ناظرہ، منتظرہ کے معنی میں ہے۔ قتادہ نے کہا : اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے وہ اپنے اسلام اور اپنے شرک میں سمجھ دار تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ہدیہ لوگوں کے ہاں بڑی شان رکھتا ہے۔ بم میں الف ساقط ہوگیا ہے تاکہ ما استہفامیہ اور ماخبر یہ میں فرق کیا جائے۔ بعض اوقات کا ثابت کرنا بھی جائز ہے۔ شاعر نے کہا : علی ما قام یشمنی لئیم کنخزیر تمرغ فی رماد کمینہ آدمی مجھے ملامت کرنے لگا جس طرح خنزیر راکھ میں لیٹتا ہے۔
Top