بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Qasas : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طسم
طسم اس کے متعلق گفتگو گزر چکی ہے۔ تلک ایت الکتب المبین تلک محل میں ہے یہ ھذہ تلک کے معنی میں ہے آیات اس سے بدل ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ تلو کی وجہ سے محل نصب میں ہو۔ ایٓات اس سے بدل ہو تو اس کو نصب دے گا جس طرح تو کہتا ہے : زید اضربت۔ المبین اس کی برکت اور خیر کو واضح کرنے والی ہے، حق کو باطل سے واضح کرنے والی ہے، حلال کو حرام سے واضح کرنے والی ہے۔ انبیاء کے قصے اور حضرت محمد ﷺ کی نبوت کو واضح کرنے والی ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : بان الثی، وأبان شے واضح ہوگئی۔ نتلوا علیک من نبا موسیٰ و فرعون بالحق لقوم یومنون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور قارون کے قصہ کا ذکر کیا اور قریش کے مشرکین کے خلاف استدلال کیا اور اس کو واضح کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے قارون کی رشتہ داری نے قارون کو اس کے کفر کے ساتھ کوئی نفع نہ دیا۔ اسی طرح حضور ﷺ سے قریش کی قرابت انہیں کوئی نفع نہ دے گی۔ اس امر کو واضح کیا کہ فرعون نے زمین میں بالا دستی اور ظلم کو اپنا یا یہ اس کے کفر میں سے ایک صورت تھی اسے چاہئے کہ زمین میں بالا دستی سے اجتناب کرتا اسی طرح کثرت مال سے غلبہ حاصل کرنا یہ فرعون اور قارون کی سیرت ہے۔ نتلوا علیک جبریل امین ہمارے حکم سے تم پر پڑھتے ہیں من نبا موسیٰ و فرعون یعنی دونوں کی خبریں۔ من بعضیہ ہے من نبا، تتلو کا مفعول ہے یعنی ہم ان کی بعض خبریں تم پر تلاوت کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : تنبت بالدھن اور بالحق کا معنی ہے اس سچائی کے ساتھ جس میں شک اور جھوٹ نہیں۔ لقوم یومنون اس قوم کے لئے جو قرآن کی صدیق کرتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے جہاں تک اس شخص کا تعق ہے جو ایمان نہ لایا تو یہ اعتقاد نہیں رکھتا کہ یہ حق ہے۔ ان فرعون علا فی الارض اس نے تکبر کیا اور جبر کو اپنایا، یہ حضرت ابن عباس ؓ اور سدی کا قول ہے۔ قتادہ نے کہا : اس نے اپنے کفر کی وجہ سے اپنے رب کی عبادت سے اپنے نفس میں بڑائی کو پایا اور ربوبیت کا دعویٰ کردیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ اپنے ملک اور بادشاہت کی وجہ سے اپنے ماتحت لوگوں سے بڑا اور بلند ہوگیا۔ فی الارض سے مراد مصر کا علاقہ ہے۔ وجعل اھلھا شیعاً خدمت میں مختلف جماعتیں اور صنفیں بنا دیا۔ اعشی نے کہا : حتی تراہ علیھا یبتغی الشیعا یہاں تک کہ تو اسے اس پر پائے گا کہ وہ جماعتوں کی خواہش کرتا ہے۔ یستضعف طآئفۃ منھم طًئفۃ منھم ضمیر سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔ یذبح ابنآء ھم و یستحی نسآء ھم، انہ کان من المفدین اس بارے میں گفتگو سورة بقرہ میں یسومونکم سوآء العذاب یذبحون ابنآء کم (آیت 49) کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کاہنوں نے کہا : ایک بچہ بنی اسرائیل میں پیدا ہوگا تیری بادشاہت اسی کے ہاتھ پر ختم ہوجائے گی یا نجومیوں نے اسے یہ کہا تھا یا اس نے خواب دیکھا تو اس کی یہ تعبیر لی۔ زجاج نے کہا : اس کی حماقت پر تعجب ہے کہ وہ یہ نہ جان سکا کہ اگر کاہن نے سچ بولا ہے تو قتل اسے کوئی نفع نہ دے گا اور اگر اس نے جھوٹ بولا تو قتل کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس نے ان کے کئی گروہ بنا دیئے جنہوں نے بنی اسرائیل کی ہر جماعت کا اس کے عمل پر مذاق اڑایا۔ انہ کان من المفسدین وہ زمین میں عمل، معاصی اور ظلم و جبر کے ساتھ فساد برپا کرنے والا تھا۔ ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ہم ان پر فضل و احسان فرماتے ہیں اور ہم ان پر انعام کرتے ہیں یہ حکایت گزر چکی ہے ونجعلھم ابمۃ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : بھلائی میں قیادت کرنے والے۔ جاہد نے کہا بھلائی کی طرف دعوت دینے والے۔ قتادہ نے کہا : والی اور بادشاہ۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : وجعلکم ملوکاً (المائدہ : 20) میں کہتا ہوں : یہ عام ہے کیونکہ بادشاہ امام ہوتا ہے اس کی اقتدا کی جاتی ہے۔ ونجعلھم الورثین فرعون کے ملک کے وارث بنانے والے ہیں وہ اس کے وارث بنیں گے اور قبطیوں کے مسکنوں میں رہائش رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان و تمت کلمت ربک الحسنی علی بنی اسرآئیل بما صبروا (الاعراب : 137) کا یہی معنی ہے۔ ونمکن لھم فی الارض ہم انہیں زمین اور اس کے اہل پر قدرت حاصل کرنے والے بنا دیں گے یہاں تک کہ شام اور مصر کے علاقہ پر والی بنا دیا جائے گا۔ ونری فرعون وھامن وجنودھما ہم ارادہ کرتے ہیں کہ ہم فرعون کو دکھائیں۔ اعمش، یحییٰ ، حمزہ کسائی، اور خلف نے یری یاء کے ساتھ قرأت کی ہے۔ کہ یہ فعل ثلاثی ہے جو رای سے مشتق ہے۔ فرعون وھامن وجنودھما مرفوع ہیں کیونکہ کے فاعل ہیں۔ باقی قراء نے نری نون کے ضمہ اور راء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے یہ فعل رباعی ہے اری یری سے مشتق ہے یہ سباق کلام کے مطابق ہے کیونکہ اس سے ماقبل یرید اور اس کے بعد نمکن ہے۔ فرعون وھامن وجنودھما مفعو بہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ فراء نے ویری فرعون یاء کے ضمہ راء کے کسرہ اور آخری یاء کے فتحہ کے ساتھ قرأت کو جائز قرار دیا ہے معنی ہے اللہ تعالیٰ فرعون کو دکھائے۔ منھم ماکانوا یحذرون اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں خبر دی گئی کہ ان کی ہلاکت بنی اسرائیل کے ایک آدمی کے ہاتھ پر ہوگی وہ اس وجہ سے بنی اسرئایل سے خوفزدہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ کچھ دکھا دیا جس سے وہ ڈرتے تھے۔ قتادہ نے کہا : فرعون کا ایک نجومی تھا اس نے کہا، اس سال ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیرا ملک چھین لے گا۔ فرعون نے اس سال بچوں کے قتل کا حکم دے دیا۔
Top