Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 59
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں کو وَبَنٰتِكَ : اور بیٹیوں کو وَنِسَآءِ : اور عورتوں کو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں يُدْنِيْنَ : ڈال لیا کریں عَلَيْهِنَّ : اپنے اوپر مِنْ : سے جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ : اپنی چادریں ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَنْ : کہ يُّعْرَفْنَ : ان کی پہچان ہوجائے فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ : تو انہیں نہ ستایا جائے وَكَانَ اللّٰهُ : اور اللہ ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اے نبی آپ کہہ دیجیے اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور (عام) ایمانوالوں کی عورتوں سے کہ اپنے اوپر نیچی کرلیا کریں اپنی چادریں تھوڑی سی،135۔ اس سے وہ جلد پہنچان لی جایا کریں گی اور اس لئے انہیں ستایا نہ جائے گا،136۔ اور اللہ تو بڑا مغفرت والا ہے بڑا رحمت والا ہے،137۔
135۔ یعنی جب ضرورۃ باہر نکلنا ہو، تو اپنی چادریں اپنے اوپر سروں سے ذرالٹکا لیاکریں، تاکہ چہرہ کے اطراف تو خوب ڈھک جائیں اور خود چہرہ کی ٹکیا بھی ایک حد تک۔ ہمارے ملک میں اسی کو گھونگھٹ نکالنا کہتے ہیں۔ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ محل فتنہ پورا چہرہ مع اطراف و جوانب کے ہے نہ یہ کہ ملحقات چہرہ کو چھپا کر صرف چہرے کی ٹکیا کھلی رہنے دی جائے، کوئی عضو بجائے خود کیسا ہی حسین ہو، دوسروں کو متاثر جب ہی کرسکتا ہے جب وہ اپنے حسن تناسب کو ظاہر کررہا ہو اور اس حسن تناسب کا اظہار جبھی ممکن ہے جب اس عضو کے ملحقات بھی کھلے ہوں۔ (آیت) ” من جلابیبھن “۔ جلابیب جمع ہے جلباب کی اور جلباب بڑی چادر کو کہتے ہیں، جو سارے جسم کے ڈھانپنے کے کام آجائے۔ وھو ثوب اکبر من الخمار والصحیح انہ یستر جمیع البدن (قرطبی) اس قسم کے سارے احکام کا ماحصل عورت کے حجاب کامل کی تاکید ہے، بخلاف جاہلی تہذیبوں کے جہاں عورت کی نیم برہنگی ہی فیشن میں داخل رہی ہے اور آج بھی ہے۔ مفسرین نے آیت کے ذیل میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں قبیلہ بنوتمیم کی کچھ بیبیاں حاضر ہوئیں جو لباب بہت باریک پہنے ہوئے تھیں۔ حضرت صدیقہ ؓ نے انہیں ڈانٹا، کہ کیسی مسلمان ہو، جو یہ نامسلموں کا لباس پہنے ہوئے ہو۔ ودخل نسوۃ من بنی تمیم علی عائشۃ ؓ ثیاب رقاق فقالت عائشۃ ان کنتن مومن ات فلیس ھذا بلباس ال مومن ات (قرطبی) 136۔ یعنی اس شریفانہ لباس سے ہر شخص کو اول نظر میں معلوم ہوجائے گا کہ یہ شریف عزت دار بیبیاں ہیں، بےحیا نہیں ہیں اور اس لئے ان سے چھیڑ چھاڑ کی جرأت راہ چلتے ہوئے بدمعاشوں کو نہ ہوگی، عورت کی عصمت کے تحفظ میں بڑا دخل اس کی وضع و لباس کے وقار کو ہے جو عورت اپنی وضع وقطع وپوشش سے آوارہ معلوم ہوتی ہے اسے دیکھ کر محض لفنگوں اور بدمعاشوں ہی کے نہیں، بلکہ دوسروں کی طبیعتوں میں بھی گدگدی پیدا ہوتی ہے، بخلاف اس کے جس عورت کی وضع وقطع، چال ڈھال سنجیدہ، حیادار انہ وشریفانہ ہے اور وہ اپنارکھ رکھاؤ قائم کئے ہوئے اسے چھیڑنے کی ہمت بدمعاشوں کو بھی مشکل ہی سے ہوتی ہے۔ فقہاء نے آیت سے نکالا ہے کہ جو ان عورت پر نامحرموں سے اپنے چہرہ کا پردہ واجب ہے، اور یہ بھی واجب ہے کہ جب باہر نکلے تو پردہ کا اہتمام کر کے۔ وفی ھذہ الایۃ دلالۃ علی ان المراۃ الشابۃ مامورۃ بستر وجھھا عن الاجنبیین واظھار الستر والعفاف عند الخروج لئلا یطمع اھل الریب فیھا (جصاص) 137۔ (جوخواہ مخواہ اور بہت سختی سے گرفتیں نہیں کرتا رہتا) چناچہ اس سر اور چہرہ کے ڈہانپنے کے حکم میں اگر بلاقصد کچھ کمی یا بےاحتیاطی رہ جائے گی تو اسے معاف کردے گا۔
Top