Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 123
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ نَصَرَكُمُ : مدد کرچکا تمہاری اللّٰهُ : اللہ بِبَدْرٍ : بدر میں وَّاَنْتُمْ : جب کہ تم اَذِلَّةٌ : کمزور فَاتَّقُوا : تو ڈروا اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہو
اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تم بےسروسامان تھے پس خدا سے ڈرو (اور ان احسانوں کو یاد کرو) تاکہ شکر کرو
آیت نمبر : 123 تا 125۔ اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولقد نصرکم اللہ ببدر “۔ غزوہ بدر سترہ رمضان المبارک، بروز جمعہ ہجرت کے اٹھارہویں ماہ واقع ہوا، اور بدر، وہاں پانی کا ایک کنواں ہے اسی سبب سے اس جگہ کا نام بدر ہے اور شعبی نے کہا ہے : وہ پانی قبیلہ جہینہ کے ایک آدمی کا تھا اس کا نام بدر تھا (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 542) اور اس وجہ سے اس جگہ کا نام بدر رکھا گیا، پہلا معنی زیادہ اور عام ہے۔ واقدی وغیرہ نے کہا ہے : بدر غیر منقول جگہ کا نام ہے اس کا ذکر عنقریب واقعہ بدر کے ضمن میں سورة الانفال میں آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ “۔ اور اذلۃ “ کا معنی ہے بہت کم تھوڑے، کیونکہ وہ اس دن تین سو تیرہ یا چودہ آدمی تھے (2) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 542) اور ان کے دشمن کی تعداد نو سو سے ہزار تک کے درمیان تھی اور ” اذلۃ “ ذلیل کی جمع ہے اور اس مقام پر ذل کا اسم استعارۃ استعمال کیا گیا ہے وہ اپنی ذاتوں میں تو یقینا عزت والے اور غالب تھے، لیکن اپنے دشمنوں کی طرف اپنی نسبت کے اعتبار سے اور زمین کے مختلف حصص میں بسنے والے جمیع کفار کے مقابلے میں غور وفکر کے وقت ان کی قلت اور کمی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان پر غلبہ پالیا جائے گا، اور النصر کا معنی عون (مدد کرنا) ہے، پس اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر کے دن ان کی مدد فرمائی اور ان میں مشرکین کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اور اسی دن پر اسلام کی بنیاد پڑی اور یہ وہ پہلی جنگ تھی جس میں حضور نبی کریم ﷺ شریک ہوئے۔ اور صحیح مسلم میں حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے سترہ غزوات میں شرک فرمائی اور ان میں سے آٹھ میں باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا (1) (مسلم کتاب، الجہاد والسیر، جلد 2، صفحہ، 18، قدیمی کتب خانہ کراچی) اور اسی میں ابن اسحاق (رح) سے یہ روایت ہے انہوں نے بیان کیا : میں حضرت زید بن ارقم ؓ سے ملا اور میں نے ان سے پوچھا : کتنے غزوات میں رسول اللہ ﷺ شریک ہوئے ؟ تو انہوں نے فرمایا : انیس غزوات میں۔ پھر میں نے پوچھا : کتنے غزوات میں تم آپ ﷺ کے ساتھ تھے ؟ تو انہوں نے جواب کہا : سترہ غزوات میں، پھر میں کہا : وہ کون سا پہلا غزوہ ہے جس میں آپ شریک ہوئے ؟ انہوں نے فرمایا : ذات العسیریا ذات العشیر (2) (مسلم کتاب الجہاد والسیر، جلد 2، صفحہ 118، قدیمی کتب خانہ کراچی، ایضا صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث نمبر 3655، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ سب کچھ اس کے خلاف ہے جو اہل تاریخ وسیر نے کہا ہے، محمد بن سعد نے کتاب الطبقات میں کہا ہے : بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کے غزوات ستائیس ہیں اور آپ کے سرایا چھپن ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ چھیالیس ہیں اور وہ جن میں رسول اللہ ﷺ نے قتال کیا ہے وہ بدر، احد، مریسیع، خندق، خیبر، قریظہ، الفتح، حنین اور طائف ہیں، ابن سعد نے کہا ہے : یہ وہ ہے جس پر ہمارا اجماع ہے، اور بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺ نے بنی نضیر میں، خبیر سے واپسی پر وادی القری میں اور الغابہ (شام کی طرف مدینہ طبیہ کے قریب ایک جگہ ہے) میں قتال کیا ہے (3) (الطبقات الکبری لابن سعد، کتاب ذکر عدد مغازی رسول اللہ وسرایاہ جلد 2، صفحہ 5، دار بیروت) اور جب یہ ثابت ہوگیا تو ہم کہتے ہیں کہ حضرت زید ؓ اور حضرت بریدہ ؓ میں سے ہر ایک نے اس کے بارے خبر دی ہے جو اس کے علم یا اس کے مشاہدہ میں تھا، اور حضرت زید ؓ کا یہ قول : ” پہلا غزوہ جس میں آپ ﷺ شریک ہوئے وہ ذات العسیرہ ہے، یہ بھی اس کے خلاف ہے جو اہل التواریخ والسیر نے کہا ہے۔ محمد بن سعد نے کہا ہے : عزوہ عشیرہ سے پہلے تین غزوات ہوئے یعنی آپ ﷺ بنفس نفیس ان میں شریک ہوئے اور ابن عبدالبر نے ” کتاب الدررفی المغازی والسیر “ میں کہا ہے : پہلا غزوہ جس میں رسول اللہ ﷺ خود شریک ہوئے غزوہ ودان ہے اور یہ ماہ صفر میں واقع ہوا اور وہ یہ کہ آپ ﷺ مدینہ طیبہ پہنچے تو ماہ ربیع الاول کی بارہ راتیں گزر چکی تھیں، پھر آپ بقیہ ربیع الاول اور 2 ھ کے صفر تک وہیں مقیم رہے، پھر آپ ﷺ مذکور صفر کے مہینے میں نکلے اور مدینہ طیبہ پر حضرت سعد بن عبادہ ؓ کو عامل مقرر فرمایا حتی کہ آپ ودان پہنچ گئے اور بنی ضمرہ سے مصالحت کرلی پھر آپ ﷺ مدینہ طیبہ کی جانب لوٹ گئے اور جنگ نہ ہوئی اور اسی کا نام غزوہ ابواء بھی ہے، پھر آپ ﷺ مذکورہ سال کے ربیع الثانی کے مہینے تک مدینہ طیبہ میں مقیم رہے، پھر آپ ﷺ وہاں سے نکلے اور سائب بن عثمان بن مظعون کو مدینہ طبیہ پر عامل مقرر فرمایا، یہاں تک کہ آپ رضوی (مدینہ طیبہ میں ایک پہاڑ ہے) کے قریب بواط (قبیلہ جہینہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے) پہنچ گئے پھر آپ مدینہ طبیہ واپس تشریف لے گئے اور جنگ نہ ہوئی، بعد ازاں آپ ربیع الثانی کے بقیہ ایام اور کچھ جمادی الاول کے وہیں رہے پھر آپ غزوہ کے ارادہ سے نکلے اور مدینہ طیبہ پر ابو سلمہ بن عبدالاسد کو خلیفہ مقرر کیا اور ملک (مکہ مکرمہ کی ایک وادی ہے) کے راستے سے عسیرہ کی طرف چل دیئے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ابن اسحاق نے حضرت عمار بن یاسر ؓ سے ذکر کیا ہے انہوں نے بیان کیا : میں اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ ینبع کے بطن میں ہونے والے غزوہ عشیرہ میں دونوں دوست (ایک ساتھ) تھے، جب رسول اللہ ﷺ وہاں اترے تو ایک مہینہ تک وہیں مقیم رہے اور وہاں بنی مدلج اور ان کے حلفاء بنی ضمرہ وغیرہ کے ساتھ صلح کرلی اور ان سے عداوت ترک کردی، تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے مجھے کہا : کیا تیرے لئے ممکن ہے (اے) ابا الیقظان کہ تو ان کے پاس آئے ؟ بنی مدلج کی ایک جماعت بیدار رہ کر ان کے لئے کام کر رہی ہے ہم دیکھیں وہ کیسے کام کر رہے ہیں۔ چناچہ ہم ان کے پاس آئے اور ان کی طرف کچھ وقت تک دیکھتے رہے پھر ہم پر نیند غالب آگئی تو ہم نے زمین کی مٹی میں کھجور کے چھوٹے درختوں کا قصد کیا اور ان میں آکر سو گئے، پھر قسم بخدا ! ہمیں رسول اللہ ﷺ نے آکر اپنے قدموں کے ساتھ جگایا، تو ہم بیٹھ گئے اور ہم اس مٹی سے لتھڑے پڑھے تھے تو اس دن رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو فرمایا : مابالک یا ابا تراب تجھے کیا ہوا ہے اے ابا تراب ! تو ہم نے آپ ﷺ کو اس کے بارے خبر دی جو ہمیں پیش آیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : الا اخبرکم باشقی الناس رجلین “۔ (کیا میں تمہیں ایسے دو آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمام لوگوں سے زیادہ بدبخت ہیں ؟ ہم نے عرض کی : ہاں یا رسول اللہ ﷺ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” قوم ثمود کا احیمر جس نے (حضرت صالح (علیہ السلام) کی) اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں اور (دوسرا وہ) جو تجھے اے علی اس پر مارے گا، اور رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک اپنے سر پر رکھا۔۔۔۔ یہاں تک کہ یہ اس سے تر ہوگیا “ اور (پھر) آپ نے اپنا دست مبارک اپنی ریش مبارک پر رکھا (1) (مسند احمد بن حنبل کتاب اول مسند الکوفیین، جلد 4، صفحہ 263، دار صادر) پس ابو عمر نے کہا : آپ ﷺ بقیہ جمادی الاولی اور جمادی الآخرہ کی کچھ راتیں وہیں مقیم رہے اور اس میں بنی مدلج سے مصالحت کی، پھر واپس لوٹ آئے اور جنگ تک نوبت نہ آئی، پھر اس کے بعد تھوڑے ہی دونوں کے فاصلے کے ساتھ غزوہ بدر الاولی ہوا، یہ وہ ہوا، یہ وہ تفصیل ہے جس میں اہل التواریخ والسیر کوئی شک نہیں کرتے، پس حضرت زید بن ارقم ؓ نے اس کے بارے خبر دی جو کچھ ان کے پاس تھا، واللہ اعلم۔ اور کہا جاتا ہے : ذات العسیر سین کے ساتھ بھی ہے اور شین کے ساتھ بھی اور اس پر ھا کا اضافہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے : العیشرۃ، پھر غزوہ بدرالکبری ہوا اور جو بھی اس میں حاضر ہوئے ان کے لئے فضیلت کے اعتبار سے یہ بہت بڑی اور عظیم جنگ ہے اس میں علماء کی ایک جماعت کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے ملائکہ کے ساتھ اپنے نبی مکرم ﷺ اور مومنین کی مدد فرمائی اور ظاہر آیت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے، نہ کہ غزوہ احد میں، اور جنہوں نے کہا ہے کہ ایسا غزوہ احد میں ہوا تو انہوں نے قول باری تعالیٰ (آیت) ولقد نصرکم اللہ ببدر “ سے تا قولہ (آیت) ” تشکرون “ کو دو کلاموں کے درمیان جملہ معترضہ قرار دیا ہے، یہ عامر شعبی کا قول ہے، اور لوگوں نے ان سے اختلاف کیا ہے اور روایات بالکل ظاہر اور واضح ہیں کہ ملائکہ غزوہ بدر کے دن حاضر ہوئے اور عملا جنگ میں شریک ہوئے اور اسی کے بارے ابو اسید مالک بن ربیعہ کا قول ہے اور یہ بدر میں حاضر تھے، اگر میں اب تمہارے ساتھ بدر میں ہوتا اور میری آنکھیں سلامت ہوتیں تو میں تمہیں وہ گھاٹی دکھاتی جس سے ملائکہ ظاہر ہوئے تھے مجھے اس میں کوئی شک اور اختلاف نہیں ہے، اسے عقیل نے زھری عن ابی حازم سلمہ بن دینار سے روایت کیا ہے، ابن ابی حاتم نے کہا ہے : اس حدیث کے سوا زہری کی ابوحازم سے کوئی حدیث معروف نہیں اور ابو اسید کے بارے کہا جاتا ہے کہ آپ ہی بدری صحابہ کرام میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے، اسے ابو عمر نے الاستیعاب وغیرہ میں ذکر کیا ہے اور صحیح مسلم میں حضرت میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کی حدیث مذکور ہے آپ نے بیان فرمایا : غزوہ بدر کے دن جب رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی طرف دیکھا کہ ان کی تعداد ایک ہزار ہے اور آپ ﷺ کے اصحاب کی تعداد تین سو انیس ہے، تو نبی مکرم قبلہ شریف کی طرف متوجہ ہوئے، پھر اپنے ہاتھ پھیلا دیئے اور اپنے رب کریم کی بارگاہ میں التجا کرنے لگے : اللھم انجزلی ماوعدتنی اللھم آت ما وعدتنی اللھم ان تھلک ھذہ العصابۃ من اھل الاسلام تعبد فی الارض (اے اللہ ! میرے لئے وہ وعدہ پورا فرما جو تو نے میرے ساتھ کیا ہے، اے اللہ ! وہ عطا فرما جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے، اے اللہ ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی) پس آپ ﷺ قبلہ شرف کی طرف منہ کئے ہاتھ پھیلا کر مسلسل اپنے رب کریم سے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ آپ کے کندھوں سے آپ کی چادر مبارک گرگئی، پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ آئے، انہوں نے چادر اٹھائی اور آپ ﷺ کے کندھوں پر اسے ڈال دیا، پھر پیچھے کی جانب سے آپ کو پکڑ لیا اور عرض کی : یا نبی اللہ ﷺ تمہارے رب کی بارگاہ میں تمہاری طرف سے مناجات کافی ہے، وہ تمہارا وہ وعدہ پورا فرمائے گا جو اس نے تمہارے ساتھ فرمایا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملئکۃ مردفین ‘۔ (الانفال) ترجمہ : یاد کرو جب تم فریاد کر رہے تھے اپنے رب سے تو سن لی اس نے تمہاری فریاد (اور فرمایا) یقینا میں مدد کرنے والا ہوں تمہاری ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ جو پے درپے آنے والے ہیں) پس اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے ساتھ آپ کی مدد فرمائی۔ ابو زمیل نے کہا ہے کہ مجھے حضرت عباس ؓ نے بیان کیا ہے : اس دن مسلمانوں میں سے کوئی آدمی کسی مشرک کے پیچھے تیز دوڑ رہا تھا تو اس نے اپنے سامنے اس پر کوڑا پڑنے کی آواز اور شہسوار کی آواز سنی کی وہ کہہ رہا ہے : اقدم حیزوم، (حیزوم آگے بڑھ) تو اس نے اپنے سامنے مشرک کی طرف دیکھا کہ وہ چھت گرگیا ہے تو اس نے اس کی طرف دیکھا کہ اس کی ناک توڑ دی گئی ہے اور اس کا چہرہ اس طرح پھاڑ دیا گیا ہے (جس طرح کوڑے کی ضرب کے ساتھ، ) پس وہ تمام کے تمام اکٹھے ہوگئے تو ایک انصاری آیا اور اس نے اس کے بارے رسول اللہ ﷺ کو بتایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : صدقت ذالک من مدد السمآء الثالثۃ (تو نے سچ کہا ہے وہ تیسرے آسمان سے مدد آئی ہے) پس اس دن وہ ستر مارے گئے اور ستر قیدی بنا لئے گئے، آگے حدیث ذکر کی (1) (مسلم، کتاب الجہاد، باب السداد بالملائکۃ فی غزۃ بدر واباحہ الغنائم، جلد 2، صفحہ 93، اسلام آباد) اور عنقریب سورة الانفال کے آخر میں مکمل آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ، پس سنت اور قرآن نے اسی کی موافقت کی ہے جو کچھ جمہور نے کہا ہے : والحمد للہ۔ خارجہ بن ابراہیم نے اپنے باپ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے بتایا کی رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) سے پوچھا : ” بدر کے دن ملائکہ میں سے کون یہ کہہ رہا تھا ” اقدم حیزوم “۔ ؟ تو حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) نے عرض کی یا محمد ﷺ ما کل اھل السماء اعرف (اے محمد ﷺ میں تمام اہل آسمان کو نہیں پہچانتا) اور حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا : اس اثنا میں کہ میں بدر کے کنوئیں سے پانی کا ڈول کھینچ رہا تھا کہ تیز ہوا آئی جس کی مثل میں نے کبھی نہ دیکھی تھی، پھر وہ چلی گئی، پھر اتنی تیز ہوا آئی کہ میں نے اس کی مثل کبھی نہ دیکھی تھی مگر وہی جو اس سے پہلی آئی تھی، راوی کا بیان ہے : میرا گمان ہے کہ انہوں نے ذکر کیا، پھر انتہائی، تیز اور شدید ہوا آئی، پس پہلی ہوا کے وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہزار ملائکہ کو ساتھ لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس اترے اور دوسری ہوا کے وقت حضرت میکائیل (علیہ السلام) ایک ہزار فرشتوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی دائیں جانب اترے اور آپ ﷺ کی دائیں جانب حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے اور تیسری ہوا کے وقت حضرت اسرافیل (علیہ السلام) ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی بائیں جانب اترے اور میسرہ میں میں تھا۔ اور حضرت سہل بن حنیف ؓ نے بیان فرمایا ہے : میں نے بذات خود غزوہ بدر کے دن دیکھا کہ ہم میں سے کوئی اپنی تلوار کے ساتھ مشرک کے سر کی طرف اشارہ کرتا ہے تو تلوار اس تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر اس کے جسم سے کٹ کر گرپڑتا۔ اور حضرت ربیع بن انس ؓ نے بیان کیا ہے کہ لوگ غزوہ بدر کے دن کفار کے ان مقتولوں کو پہنچانتے تھے جنہیں فرشتوں نے قتل کیا تھا انہوں نے انہیں گردنوں کے اوپر ضرب لگا کر قتل کیا تھا اور پوروں پر آگ نشان کی مثل نشان تھے وہ اس کے ساتھ جلا دیئے گئے، یہ سب بیہقی (رح) نے ذکر کیا ہے۔ بعض نے کہا ہے : بیشک ملائکہ قتال کرتے رہے ہیں اور کفار میں ان کی ضرب کی علامت بالکل ظاہر تھی، کیونکہ جس جگہ ان کی ضرب لگی اس جگہ میں آگ بھڑک اٹھی، یہاں تک کہ ابوجہل نے حضرت ابن مسعود ؓ کو کہا : کیا تم نے مجھے قتل کیا ہے ؟ بلاشبہ مجھے اس نے قتل کیا ہے جس کے گھوڑے کے سم تک میرا نیزہ بھی نہیں پہنچ سکا اگرچہ کوشش تو نے کی ہے، ملائکہ کی کثرت کا فائدہ یہ ہوا کہ مومنین کے دلوں کو تسکین اور راحت نصیب ہوئی اور اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو یوم قیامت تک مجاہدین بنا دیا، پس ہر لشکر جس نے صبر کیا اور اخلاص اپنا یا فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور ان کی معیت میں جنگ میں شریک ہوں گے اور حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت مجاہد ؓ نے فرمایا : ملائکہ نے بدر کے دن کے سوا کہیں جنگ نہیں لڑی اور اس کے سوا میں وہ صرف حاضر ہوئے ہیں لیکن وہ قتال نہیں کرتے بلاشبہ وہ تعداد (میں اضافہ کا سبب) یا مدد ہوتے ہیں۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ملائکہ کی کثرت کا فائدہ یہ ہے کہ وہ دعا کرتے رہتے ہیں اور تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ ان کے لئے (اجر وثواب میں) اضافہ کا سبب بنتے ہیں جو اس دن قتال کرتے ہیں پس اس بناء پر تو ملائکہ نے بدر کے دن بھی قتال نہیں کیا بلکہ وہ صرف ثابت قدم رہنے کی دعا کے لئے حاضر ہوئے، پہلا قول اکثر کا ہے۔ حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : یہ بدر کا دن تھا اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار کے ہزار کے ساتھ ان کی امداد فرمائی پھر وہ ہزار ہوگئے، اور پھر بڑھ کر پانچ ہزار ہوگئے (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 542) پس اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملئکۃ مردفین، اور بلی ان تصبروا وتتقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمددکم ربکم بخمسۃ الف من المئکۃ مسومین “۔ پس مومنین نے بدر کے دن صبر کیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے تو اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ ان کی امداد فرمائی جیسا کہ ان سے وعدہ کیا تھا، پس یہ سب غزوہ بدر کے دن ہوا، اور حسن نے کہا پس یہ پانچ ہز اور یوم قیامت تک مومنین کے لئے ممدود معاون رہیں گے۔ حضرت شعبی نے کہا ہے : بدر کے دن حضور نبی مکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب کو یہ خبر پہنچی کہ کرز بن جابر محاربی مشرکین کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو یہ خبر حضور نبی مکرم ﷺ اور مسلمانوں پر شاق گزری، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں “۔ (آیت) ” الن یکفیکم۔۔۔۔۔ تا قولہ۔۔۔۔۔ مسومین “۔ پس کر زکو شکست اور ہزیمت کی خبر موصول ہوئی تو اس نے اس کی کوئی مدد نہ کی اور واپس لوٹ گیا، پس اللہ تعالیٰ نے بھی پانچ ہزار کے ساتھ ان کی مدد نہ کی، بلکہ ایک ہزار کے ساتھ ان کی مدد کی گئی، اور یہ بھی کہا گیا ہے : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے بدر کے دن مومنین سے یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ اس کی طاعت وفرمانبرداری پر ڈٹے رہے، اور اس کے محارم سے بچتے رہے تو وہ ان کی تمام جنگوں میں مدد فرمائے گا، لیکن جنگ احزاب کے سوا نہ انہوں نے صبر کیا اور نہ ہی وہ محارم سے بچے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی جب انہوں نے بنی قریظہ کا محاصرہ کیا۔ (1) اور یہ بھی کہا گیا ہے : بلاشبہ یہ جنگ احد کا دن تھا، اللہ تعالیٰ نے ان سے مدد کا وعدہ فرمایا بشرطیکہ انہوں نے صبر کیا پس انہوں نے صبر نہ کیا اور نہ ہی فرشتے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اگر ان کی مدد کی جاتی تو پھر انہیں ہزیمت نہ اٹھانی پڑتی، عکرمہ اور ضحاک نے یہی کہا ہے (2) (ایضا، صفحہ 543) اور اگر کہا جائے : تحقیق حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے بدر کے دن رسول اللہ ﷺ کی دائیں اور بائیں جانب دو آدمیوں کو دیکھا وہ سفید لباس پہنے ہوئے تھے اور وہ دونوں آپ کی جانب سے انتہائی شدید جنگ لڑ رہے تھے، میں نے ان دونوں کو کبھی نہ اس سے پہلے دیکھا اور نہ ہی اس کے بعد (3) (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 3748، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (دیکھا) اس کے بارے کہا گیا ہے : شاید یہ حضور نبی مکرم ﷺ کے ساتھ مختص ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لئے دو فرشتے خاص کردیئے جو آپ کی طرف سے جنگ لڑیں گے اور یہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لئے امداد نہ ہوگی، واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (2) ملائکہ کا نازل ہونا مدد ونصرت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ رب العالمین اس کا محتاج اور ضرورت مند نہیں ہے، بلکہ مخلوق اس کے محتاج ہے پس چاہیے کہ دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے اور اسی پر اعتماد اور توکل ہو، کیونکہ اور بغیر سبب کے وہی ناصر اور مدد فرمانے والا ہے۔ (آیت) ” انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون “۔ (یسین) ترجمہ ؛ اس کام کا حکم، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہ فرماتا ہے اس کو ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے۔ لیکن اس نے اس کے بارے خبر دی ہے تاکہ مخلوق اس کی پیروی کرے جس کا اللہ تعالیٰ انہیں حکم فرمائے ان اسباب میں سے جو پہلے گزر چکے ہیں۔ (آیت) ” ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا “۔ (الاحزاب) ترجمہ : اور آپ سنت الہی میں ہر گز کوئی تغیر وتبدل نہ پائیں گے۔ اور اس طرح توکل میں کوئی نقص اور عیب پیدا نہ ہوگا اور یہ ان کا رد ہے جنہوں نے کہا ہے کہ اسباب تو ضعفاء اور کمزوروں کے لئے بنائے گئے ہیں نہ کہ اقویاء اور طاقتوروں کیلئے کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام تو اقویا اور طاقتور تھے اور ان کے سوا دوسرے ضعفاء اور کمزور ہیں اور یہ بالکل واضح ہے، مد کا لفظ شر میں اور امد کا لفظ خیر میں (مدد کے لئے استعمال ہوتا ہے) جیسا کہ سورة البقرہ میں گزر چکا ہیں، ابو حیوہ نے ” منزلین “ را کو کسرہ کے ساتھ مخفف پڑھا ہے، یعنی وہ مدد ونصرت اتارنے والے ہیں، اور ابن عامر نے کثرت کی بنا پر زا کو مشدد اور مفتوح پڑھا ہے، پھر فرمایا : بلی (ہاں کافی ہے) اور کلام مکمل ہوگئی، (آیت) ” ان تصبروا “ یہ شرط ہے یعنی اگر تم دشمن کے مقابلے میں صبر کرو (آیت) ” وتتقوا “ یہ اس پر معطوف ہے یعنی تم اس کی معصیت اور نافرمانی سے بچے رہو، ” یمددکم “ یہ جواب شرط ہے (تو وہ تمہاری مدد کرے گا) اور (آیت) ” من فورھم “ کا معنی ہے من وجھھم (یعنی اگر ان کی طرف سے تیزی ہوجائے) یہ عکرمہ، قتادہ، اور حسن، ربیع، سدی اور ابن زید، رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : من غضبھم “ (یعنی اگر وہ آجائیں اپنے غضب سے) یہ مجاہد اور ضحاک سے منقول ہے، وہ غزوہ احد کے دن ان حالات سے غضب میں تھے جن کا غزوہ بدر کے دن انہیں سامنا کرنا پڑا (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 543) اور الفور کا اصلی معنی کسی شی کی طرف قصد کرنا اور اسے خوب محنت ومشقت کے ساتھ لینا ہے اور یہ ان کے اس قول سے ہے : فارت القدر تفود فورا وفورانا، جب ہانڈی خوب ابلنے لگے اور الفور کا معنی الغلیان (ابلنا) ہے، اور فارغضبہ جب غصہ بھڑک جائے (تو یہ کہا جاتا ہے) اور اس کا فعل فورہ سے ہے یعنی اس سے پہلے کہ وہ ساکن ہو، اور الفوارۃ جو کچھ ہانڈی میں سے ابلتا اور کھولتا ہے، اور قرآن کریم میں ہے (آیت) ” وفارالتنور “۔ (تنور ابل گیا) شاعر نے کہا ہے : تفور علینا قدرھم فندیمھا : ہمارے خلاف ان کی ہنڈیاں ابلنے لگتی ہیں تو ہم انہیں ٹھنڈا کردیتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ (آیت) ” مسومین “۔ یہ واؤ کے فتحہ کے ساتھ اسم مفعول ہے اور یہ ابن عامر، حمزہ کسائی اور نافع کی قرات ہے یعنی جن کی علامت کے ساتھ پہنچان کرائی گئی ہے، اور (آیت) ” مسومین “ واؤ کے کسرہ کے ساتھ اسم فاعل ہے، اور یہ ابو عمرو، ابن کثیر اور عاصم کی قرات ہے (2) (ایضا صفحہ 544) اور یہ بھی سابقہ معنی کا احتمال رکھتا ہے یعنی انہوں نے علامت کے ساتھ اپنی اور اپنے گھوڑوں کی پہچان کرائی، علامہ طبری وغیرہ نے اس قرات کو ترجیح دی ہے اور بہت سے مفسرین نے کہا ہے : مسومین “ یعنی وہ اپنے گھوڑے جنگ میں بھیجنے والے ہیں، اور مہدوی نے مسومین بفتح واؤ میں یہ معنی ذکر کیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں کفار کے خلاف بھیجا، اور ابن فورک نے بھی یہی کہا ہے، اور پہلی قرات کے مطابق انہوں نے ملائکہ کی نشانی میں اختلاف کیا ہے، پس حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ اور ان کے علاوہ سے مروی ہے کہ ملائکہ سفید عمامے باندھے ہوئے تھے اور (ان کی طرف کو) اپنے کندھوں کے درمیان چھوڑ رکھا تھا۔ (3) (ایضا) (یعنی ایک لڑکندھوں کے درمیان لٹکا رکھا تھا) اسے بیہقی (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے ذکر کیا ہے اور مہدوی نے اسے زجاج سے بیان کیا ہے مگر حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) حضرت زبیر بن عوام ؓ کی طرح زرد رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے اور ابن اسحاق نے اسے بیان کیا ہے، اور ربیع نے بیان کیا ہے کہ ان کی نشانی یہ تھی کہ وہ ابلق گھوڑوں پر سوار تھے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : بیہقی (رح) نے حضرت سہل بن عمرو ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے بدر کے دن زمین و آسمان کے درمیان ابلق گھوڑوں پر کچھ چمکتے اور روشن آدمی دیکھے درآنحالیکہ وہ نشان زدہ تھے وہ قتل کر رہے تھے اور قیدی بنا رہے تھے، پس ان کا قول : معلمین اس پر دلیل ہے کہ ابلق گھوڑے کوئی نشانی نہیں ہے، واللہ اعلم۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : ان کے گھوڑوں کی دمیں اور کلغیاں کٹی ہوئی تھیں اور پیشانیوں اور دموں پر رنگ برنگی اون کے ساتھ نشان لگے ہوئے تھے۔ (1) (احکام القرآن، جلد 1، صفحہ 297) اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے : بدر کے دن ملائکہ سفید اون کے ساتھ گھوڑوں کی پیشانیوں اور ان کی دموں پر نشان لگائے ہوئے تھے (2) (احکام القرآن، جلد 1، صفحہ 297) اور عباد بن عبداللہ بن زبیر، ہشام بن عروہ اور کلبی نے کہا ہے : ملائکہ حضرت زبیر ؓ کی نشانی میں نازل ہوئے وہ زرد رنگ کے عمامے باندھے ہوئے تھے درآنحالیکہ وہ انکے کندھوں پر لٹک رہے تھے۔ (3) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 544) اور حضرت زبیر ؓ کے دونوں صاحبزادوں حضرت عبداللہ اور حضرت عروہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اسی طرح کہا ہے، اور حضرت عبداللہ ؓ نے کہا ہے : زرد رنگ کی چادر تھی جس کی حضرت زبیر ؓ بطور عمامہ باندھے ہوئے تھے۔ میں کہتا ہوں : اور آیت اس پر دلیل ہے، اور یہ چوتھا مسئلہ ہے۔ (4) یعنی یہ قبائل اور لشکروں کے لئے کوئی علامت اور کوڈ بنانے پر دلالت کرتی ہے جو انکے لئے حاکم وقت متعین کرتا ہے تاکہ ہر قبیلہ اور ہر لشکر جنگ کے وقت دوسرے سے ممتاز اور الگ رہے اور یہ آیت ابلق گھوڑوں کی فضیلت پر بھی دلیل ہے کیونکہ ملائکہ نے ان پر نزول فرمایا : میں (مفسر) کہتا ہوں : شاید حضرت مقداد ؓ کے گھوڑے کی موافقت میں ملائکہ ان پر نازل ہوئے، کیونکہ وہ تھوڑا ابلق تھا اور اس کے سوا ان کے پاس کوئی گھوڑا نہ تھا، پس ملائکہ حضرت مقداد ؓ کی تعظیم و تکریم میں ابلق گھوڑوں پر اترے، جس طرح حضرت زبیر ؓ کی طرح حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) زرد عمامہ باندھ کر نزول فرما ہوئے، واللہ اعلم۔ اور آیت اس پر بھی دلیل ہے۔ اور یہی پانچواں مسئلہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) کہ اون کالباس وہ ہے جو انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین نے پہنا ہے، اور ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور الفاظ انہی کے ہیں کہ حضرت ابو بردہ نے اپنے باپ سے روایت کیا اور کہا کہ میرے باپ نے مجھے بتایا اگر تو ہمارے ساتھ حاضر ہوتا درآنحالیکہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے جب بارش ہم پر برستی تو یقینا تو گمان کرتا کہ ہماری ہوا بھیڑوں کی ہوا کی طرح ہے (4) (سنن ابی داؤد کتاب اللباس، حدیث 3515، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ایضا، ابن ماجہ، کتاب اللباس، حدیث 3551، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ایضا، جامع ترمذی کتاب اللباس، جلد 1، صفحہ 209، اسلام آباد) حضور نبی مکرم ﷺ نے تنگ آستینوں والا اون کا بنا ہوا رومی جبہ زیب تن فرمایا۔ اسے ائمہ نے روایت کیا ہے (1) (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ حدیث نمبر 350، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت یونس (علیہ السلام) نے بھی اسے پہنا ہے، اسے مسلم نے روایت کیا ہے، اس کا مزید بیان سورة النحل میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ : مسئلہ نمبر : (6) میں (مفسر) کہتا ہوں : رہا وہ جو حضرت مجاہد (رح) نے ذکر کیا ہے کہ انکے گھوڑوں کی دمیں اور کلغیاں کٹی ہوئی تھیں تو یہ بہت بعید ہے، کیونکہ مصنف ابی داؤد میں عتبہ بن عبد سلمی سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ” تم گھوڑوں کی پیشانیاں نہ کاٹو (یعنی ان کے بال نہ کاٹو) اور نہ ہی ان کی کلغیاں اور نہ ہی ان کی دمیں کیونکہ ان کی دمیں ان کی چربی ہے اور ان کی کلغیاں ان کے لئے حرارت ہیں اور ان کی پیشانیوں میں خیر اور بھلائی رکھ دی گئی ہے۔ (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 2180، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ایضا سنن ابی داؤد، جلد، 1، صفحہ 344، اسلام آباد) پس حضرت مجاہد (رح) کا قول اس حکم توقیفی محتاج ہے کہ ملائکہ کے گھوڑے اس صفت پر تھے، واللہ اعلم۔ اور آیت رنگوں میں سے سفید اور زرد رنگ کے حسن پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ ملائکہ انہی کے ساتھ نازل ہوئے اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : جس نے زرد رنگ کے نعل پہن لئے اس کی حاجت پوری کردی گئی (3) (احکام القرآن، جلد 1، صفحہ 297) اور آپ ﷺ نے فرمایا :” اپنے کپڑوں میں سے سفید پہنو کیونکہ وہ تمہارے بہترین اور خیر و برکت والے کپڑے ہیں اور اپنے مردوں کو سفید کپڑے میں کفن دو ۔ (4) (سنن ابی داؤد، کتاب الطب، حدیث نمبر 3380، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور رہے عمامے تو وہ عربوں کا تاج اور ان کا لباس ہے “ اور رکانہ نے روایت کیا ہے اور اس نے حضور نبی مکرم ﷺ کے ساتھ کشتی لڑی تو حضور نبی مکرم ﷺ نے اسے پچھاڑ دیا۔ رکانہ نے بیان کیا : میں نے حضور نبی مکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : فرق مابیننا وبین المشرکین العمائم علی القلائس (5) (جامع ترمذی، کتاب اللباس، باب العمائم علی القلانس، جلد 1، صفحہ 210، اسلام آباد، ایضا، جامع ترمذی، حدیث 1706، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپیوں پر عمامے باندھنا ہے) اسے ابو داؤد نے بیان کیا ہے۔ امام بخاری نے کہا ہے اس کی اسناد مجہول ہے اس کے بعض راویوں کا سماع بعض سے معروف نہیں۔
Top