Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 37
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا١ۙ وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِیَّا١ؕۚ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَ١ۙ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا١ۚ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَا١ؕ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
فَتَقَبَّلَهَا : تو قبول کیا اس کو رَبُّهَا : اس کا رب بِقَبُوْلٍ : قبول حَسَنٍ : اچھا وَّاَنْۢبَتَهَا : اور پروان چڑھایا اس کو نَبَاتًا : بڑھانا حَسَنًا : اچھا وَّكَفَّلَهَا : اور سپرد کیا اس کو زَكَرِيَّا : زکریا كُلَّمَا : جس وقت دَخَلَ : داخل ہوتا عَلَيْهَا : اس کے پاس زَكَرِيَّا : زکریا الْمِحْرَابَ : محراب (حجرہ) وَجَدَ : پایا عِنْدَھَا : اس کے پاس رِزْقًا : کھانا قَالَ : اس نے کہا يٰمَرْيَمُ : اے مریم اَنّٰى : کہاں لَكِ : تیرے لیے ھٰذَا : یہ قَالَتْ : اس نے کہا ھُوَ : یہ مِنْ : سے عِنْدِ : پاس اللّٰهِ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَرْزُقُ : رزق دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : چاہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا زکریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانا پاتے (یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن مریم سے) سے پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے وہ بولیں کہ خدا کے ہاں سے (آتا ہے) بیشک خدا جسے چاہتا ہے بیشمار رزق دیتا ہے
آیت نمبر 37 تا 38۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فتقبلھا بقبول حسن “۔ اس کا معنی ہے : اسے سعداء کے راستے پر چلایا یہ معنی حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے، اور ایک قوم نے کہا ہے : تقبل کا معنی ہے تربیت میں کفیل بنانا اور اس کے معاملات کو ادا کرنا، اور حسن نے کہا ہے تقبل کا معنی ہے کہ اس کے رب نے اسے رات، دن میں سے کبھی ایک ساعت بھی اذیت اور تکلیف نہیں دی اور (آیت) ” وانبتھا نباتا حسنا “۔ سے مراد ہے اس کی خلقت کو بغیر کسی کمی وبیشی کے صحیح بنایا، پس وہ ایک دن میں اتنا بڑھتی تھی جتنا عام بچہ سال میں نشوونما پاتا ہے۔ قبول اور نبات دونوں مصدر ہیں لیکن اپنے فعل کے ہم وزن مصدر نہیں، فی الحقیقت مصدر تقبلا اور انباتا ہیں۔ شاعر نے کہا : اکفرا بعد رد الموت عنی وبعد عطائک المائۃ الرتاعا۔ شاعر کی مراد بعد اعطائک ہے، لیکن جب کہا انب تھا تو یہ نبت پر دلیل ہے (انبات بنت کو مستلزم ہے) اسی طرح امرؤ القیس نے کہا ہے : فصرنا الی الحسنی ورق کلامنا ورضت فذلت صعبۃ ای اذلال۔ بلا شبہ ذلت کا مصدر ذل ہے لیکن اس نے اسے اذللت کے معنی پر لوٹا دیا ہے اور اسی طرح ہر اس کا حال ہے جو اس باب میں آتا ہے۔ پس تقبل اور قبل کا معنی ایک ہے، پس معنی ہو فقبلھا ربھا بقبول حسن “۔ کہ اس کے رب نے اسے اچھی طرح قبول کرلیا۔ اور اسی کی مثل روبہ کا قول ہے۔ وقد تطویت انطواء الحضب۔ اس میں تقویت اور انطویت کا معنی ایک ہے۔ اور اسی کی مثل القطامی کا قول ہے : اور خیر الامر ما استقبلت منہ ولیس بان تتبعہ اتباعا۔ کیونکہ تتبعت اور اتبعت دونوں ہم معنی ہیں۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ کی قرات میں ہے (آیت) ” انزلالملائکۃ تنزیلا کیونکہ نزل اور انزل کا معنی ایک ہے، اور مفضل نے کہا ہے : اس کا معنی ہے، وانبتھا فنبتت نباتا حسنا۔ (اس کے رب نے اسے پروان چڑھا یا اور وہ خوب اچھی طرح پروان چڑھی۔ ) اور معنی کی رعایت کرنا زیادہ بہتر ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے، اور قبول میں اصل ضمہ ہے کیونکہ یہ مصدر ہے جیسا کہ دخول اور خروج، اور فتحہ قلیل حروف میں آیا ہے جیسا کہ ولوع اور وزدع، یہ تین ہیں ان کے سوا اور کوئی نہیں ہے، ابو عمرو، کسائی اور ائمہ نے یہی کہا ہے۔ اور زجاج نے ” قبول “ کو اصل کی بنا پر قاف کے ضمہ کے ساتھ جائز قرار دیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وکفلھا زکریا “۔ یعنی مریم کو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے ساتھ ملا دیا (سپرد کردیا) ابو عبیدہ نے کہا ہے : وہ اس کی دیکھ بھال کے ضمن بن گئے، کو فیوں نے ” وکفلھا “ تشدید کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے اور تقدیر عبارت ہے : ” وکفلھا ربھا زکریا “۔ یعنی اس کی کفالت ان کے ذمہ لازم کردی، اور اس پر انہیں مقرر کردیا اور اسے ان کے لئے آسان بنا دیا۔ اور مصحف ابی میں ہے واکفلھا متعدی میں ہمزہ تشدید کی مثل ہے، اور یہ بھی کہ اس سے پہلے فتقبلھا اور انب تھا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں خبر دی اس کے بارے میں جو اس کے ساتھ کیا، پس اسی وجہ سے کفلھا تشدید کے ساتھ ذکر کیا، اور باقیوں نے فعل کی نسبت حضرت زکریا (علیہ السلام) کی طرف کرنے کی بنا پر اسے مخفف پڑھا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ اس کی کفالت اور اس کے معاملات کے والی اور نگران بن گئے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (آیت) ” ایھم یکفل مریم “۔ (ان میں سے کون مریم کی نگرانی کرے گا ؟ ) مکی نے کہا ہے : یہی پسندیدہ ہے، کیونکہ تشدید بھی تخفیف کی طرف ہی لوٹتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب اسے زکریا (علیہ السلام) کی نگرانی میں دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے ضامن اور نگران بنے۔ کیونکہ حضرت زکریا (علیہ السلام) جب اس کے کفیل بنے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی قدرت کے ساتھ ہی بنے، پس اس بناء پر دونوں قرایتیں باہم متداخل ہیں۔ عمرو بن موسیٰ نے عبداللہ بن کثیر اور ابی عبداللہ المزنی سے وکفلھا فا کے کسرہ کے ساتھ روایت کیا ہے اخفش نے کہا ہے : کہا جاتا ہے کف یکفل اور کفل یکفل (یعنی یہ دونوں باب ہیں) اور میں نے کفل نہیں سنا، حالانکہ یہ بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اور مجاہد نے فتقبلھا سوال اور طلب کی بنا پر لام کو سکون کے ساتھ پڑھا ہے، اور ربھا کو نصب کے ساتھ اس لئے کہ اس کی نسبت (حرف) ندا کی طرف ہے اور انب تھا میں تا کو سکون کے ساتھ وکفلھا “ میں لام کو سکون کے ساتھ اور ” زکریا “ کو مد اور نصب کے ساتھ پڑھا ہے، حفص، حمزہ اور کسائی نے ” زکریا “ کو بغیر مد اور ہمزہ کے پڑھا ہے اور باقیوں نے اسے مد کے ساتھ پڑھا ہے اور اسے ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے اور فراء نے کہا ہے : اہل حجاز ” زکریا “ کو مد کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس میں قصر کرتے ہیں، اور اہل نجد اس سے الف کو حذف کردیتے ہیں اور اسے منصرف پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں : زکری۔ اخفش نے کہا ہے : اس میں چار لغات ہیں : مد اور قصر اور زکریہ یا کی تشدید اور منصرف اور زکر اور رایت زکریا، ابو حاتم نے کہا ہے : زکری غیر منصرف ہے کیونکہ یہ عجمہ ہے اور یہ غلط ہے، کیونکہ اس میں ” یا “ ہے اس طرح کے الفاظ منصرف ہوتے ہیں مثلا کرسی اور یحی اور زکریا اور قصر کی صورت میں منصرف نہیں کیونکہ اس میں الف تانیث، عجمہ اور تعریف ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا، قال یمریم انی لک ھذا قالت ھو من عند اللہ ان اللہ یرزق من یشآء بغیر حساب، ھنالک دعا زکریا ربہ، قال رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبہ انک سمیع الدعآء “۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” کلما دخل علیھا زکریا المحراب “۔ لغت میں محراب سے مراد مجلس میں قابل تکریم جگہ ہے اس کا مزید بیان سورة مریم میں آئے گا اور حدیث میں آیا ہے کہ ”(حضرت مریم) ایک کمرہ میں رہتی تھیں اور حضرت زکریا (علیہ السلام) ان کے پاس سیڑھی سے چڑھ کر آتے تھے۔ جیسا کہ وضاح الیمن نے کہا ہے : ربۃ محراب اذا جئتھا لم القھا حتی اتقی سلما “۔ محراب (مکان) میں رہنے والی، جب بھی میں اس کے پاس آتا ہوں تو میں اس سے ملاقات نہیں کرسکتا یہاں تک کہ میں سیڑھا چڑھتا ہوں۔ اس سے مراد ” ربہ غرفۃ “۔ ہے ابو صالح نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : عمران کی بیوی عمر رسیدہ ہونے کے بعد حاملہ ہوئی تو اس نے نذر مانی کہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ ہر طرح سے آزاد ہے، تو عمران نے اسے کہا : تیری ہلاکت ہو ! تو نے کیا کیا ہے ؟ تیرا کیا خیال ہے اگر وہ بچی ہوئی ؟ تو اس وجہ سے دونوں ہی مغموم ہوگئے پھر عمران فوت ہوگئے اور حنہ حاملہ تھی اس نے بچی کو جنم دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے خوب اچھی طرح قبول کرلیا اور وہ صرف بچوں کو آزاد چھوڑتے تھے، تو علماء نے ان قلموں کے ساتھ اس کے بارے قرعہ اندازی کی جس کے ساتھ وہ وحی لکھتے تھے، جیسا کہ آگے آئے گا، پس زکریا (علیہ السلام) کو اس پر نگران مقرر کردیا اور انہوں نے اس کے لئے ایک جگہ بنائی اور جب وہ تھوڑی بڑی عمر کی ہوگئی تو آپ نے اس کے لئے محراب بنا دیا اور اس جگہ کی طرف آپ سیڑھی کے ساتھ اوپر چڑھتے تھے اور آپ نے اس کے لئے ایک دایہ (دودھ) پلانے والی) اجرت پر رکھی اور آپ اس پر دروازہ بند کر جاتے تھے، اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کے سوا کوئی اس کے پاس داخل نہ ہو سکتا تھا یہاں تک کہ وہ بڑی ہوگئی، پس جب وہ حائضہ ہوئی تو آپ اسے اپنے گھر کی طرف نکال کرلے گئے اور وہ اپنی خالہ کے پاس رہنے لگی اور کلبی کے قول کے مطابق اس کی خالہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی تھی، مقاتل نے کہا ہے : اس کی بہن حضرت زکریا (علیہ السلام) کی زوجہ تھی، اور جب وہ حیض سے پاک ہوگئی اور اس نے غسل کرلیا تو آپ اسے محراب کی طرف لوٹا لائے اور بعض نے کہا ہے : اسے حیض نہ آتا تھا اور وہ اس سے پاک رہتی تھی، اور حضرت زکریا (علیہ السلام) جب اس کے پاس آتے تو آپ اس کے پاس موسم سرما کے پھل گرمی میں اور گرمی کے پھل موسم سرما میں پاتے تھے، تو آپ نے فرمایا : اے مریم ! تیرے پاس یہ کہاں سے آتے ہیں ؟ تو اس نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آتے ہیں تو اس وقت حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بچے کی خواہش کی اور کہا : بیشک وہ جو اس کے پاس پھل لاتا ہے وہ مجھے بچہ عطا کرنے پر بھی قادر ہے، اور انی کا معنی ہے من این کہاں سے، ابو عبیدہ نے یہی کہا ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ اس میں تساہل ہے، کیونکہ این جگہ اور مکان کے بارے سوال کے لئے آتا ہے اور انی مذاہب اور جہات کے بارے سوال کے لئے آتا ہے، اور معنی یہ ہے کہ کون سے مذاہب اور کون سی جہات سے تیرے لئے یہ ہیں، کمیت نے ان دونوں کے درمیان فرق بیان کیا ہے۔ اور کہا ہے : انی ومن این ابک الطرب من حیث لا صبوۃ ولا ریب اس میں انی جہات اور این مکان کے لئے ذکر کئے گئے ہیں۔ اور کلما، وجد کے سبب منصوب ہے ای کل دخلہ (ہر بار داخل ہوتے وقت) (آیت) ” ان اللہ یرزق من یشآء بغیر حساب “۔ کہا گیا ہے : یہ مریم کے قول میں سے ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ جملہ مستانفہ ہو اور یہی حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا کا اور بچے کی التجا کا سبب بنا گیا۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ھنالک دعا زکریا ربہ “۔ ھنالک “ محل نصب میں واقع ہے، کیونکہ یہ ظرف ہے اور اسے زمان ومکان دونوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے دراصل یہ ظرف مکان ہے، مفضل بن سلمہ نے کہا ہے : ” ھنالک “ ظرف زمان کے لئے ہے اور ھناک ظرف مکان کے لئے آتا ہے اور کبھی اسے اس کی جگہ بھی رکھ دیا جاتا ہے، اور ھب لی کا معنی ہے مجھے عطا فرما ” من لدنک اپنی بارگاہ سے (آیت) ” ذریۃ طیبۃ “ صالح اور نیک نسل (بچہ) (آیت) ” ذریۃ “ واحد اور جمع اور مذکر اور مونث تمام کے لئے استعمال ہوتا ہے، اور یہاں واحد کے لئے ہے، اور اس پر قول باری تعالیٰ (آیت) ” فھب لی من لدنک ولیا “۔ دلالت کرتا ہے کیونکہ یہاں اولیاء نہیں فرمایا۔ اور (آیت) ’ طیبۃ “ کو مونث لایا گیا ہے کیونکہ (آیت) ” ذریۃ مونث ہے۔ جیسا کہ شاعر کا قول : ابوک خلیفۃ ولدتہ اخری وانت خلیفۃ ذاک الکمال “ اس میں لفظ خلیفہ کے مونث ہونے کی وجہ سے ولدتہ کو مونث لایا گیا ہے۔ اور حضرت انس ؓ سے حدیث مروی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ای رجل مات وترک ذریۃ طیبۃ اجرمی اللہ لہ مثل اجر عملھم ولم ینقص من اجورھم شیئا “۔ (جو کوئی آدمی فوت ہوا اور اس نے نیک اور صالح اولاد پیچھے چھوڑی تو اللہ تعالیٰ اسے ان کے اعمال کے اجر کی مثل اجر عطا فرمائے گا اور انکے اجر میں سے کوئی شی کم نہ ہوگی) سورة البقرۃ میں لفظ ذریۃ کا مادہ اشتقاق گزر چکا ہے، اور طیبۃ کا معنی ہے صالح، نیک اور بابرکت (آیت) ” انک سمیع الدعآء “۔ بلاشبہ تو ہی دعا کو قبول فرمانے والا ہے اور اسی سے سمع اللہ لمن حمدہ بھی ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) یہ آیت بچے کی طلب اور خواہش کرنے پر دلیل ہے اور یہ مرسلین اور صدیقین کی سنت ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا وذریۃ “۔ (الرعد : 38) ترجمہ ؛ اور بیشک ہم نے بھیجے کئی رسول آپ سے پہلے اور بنائیں ان کے لئے بیویاں اور اولاد۔ اور صحیح مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عثمان ؓ نے تجرد اختیار کرنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں منع فرمایا دیا اور اگر آپ ﷺ انہیں اس کی اجازت عطا فرما دیتے تو ہم خصی ہوجاتے اور ابن ماجہ نے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نکاح میری سنت ہے پس جس نے میری سنت کے مطابق عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں ہے اور تم شادی کرو کیونکہ میں تمہارے سبب دیگر امتوں پر اظہار کثرت کروں گا اور جو کوئی قدرت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرلے اور جو (قدرت) نہ پائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ یہی اس کے لئے وجاء (شہوت نکاح کو کاٹنے کا ذریعہ) ہے۔ (1) (ابن ماجہ، کتاب النکاح، حدیث نمبر 1835، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اس میں ان بعض جاہل متصوفہ کا رد ہے جنہوں نے کہا ہے : جو بچے کی خواہش اور طلب رکھتا ہے وہ احمق ہے اور اسے نہیں معلوم کہ وہ کند ذہن اور بیوقوف ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے بارے خبر دیتے ہوئے فرمایا۔ (آیت) ” واجعل لی لسان صدق فی الاخرین “۔ (الشعرائ) ترجمہ : اور بنا دے میرے لئے سچی ناموری آئندہ آنے والوں میں۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” والذین یقولون ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریتنا قرۃ اعین “۔ (الفرقان : 74) ترجمہ : اور وہ جو عرض کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب مرحمت فرما ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اور امام بخاری نے تو اس عنوان باب باندھا ہے باب طلب الولد اور حضور ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ کو اس دن فرمایا جس وقت ان کا بیٹا فوت ہوا۔ ” کیا تم نے آج رات مباشرت کی ہے “ انہوں نے عرض کی۔ جی ہاں، تو آپ نے فرمایا : بارک اللہ لکما فی غابر لیلتکما “۔ (اللہ تعالیٰ تمہاری گزشتہ رات کے بارے میں تم دونوں کو برکت عطا فرمائے) فرمایا پس وہ حاملہ ہوگئی (2) (صحیح بخاری، کتاب العقیقہ، حدیث 5048، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور بخاری میں ہے : سفیان نے بیان کیا ہے انصار میں سے ایک آدمی نے کہا ہے : میں نے نو بچے پائے ہیں ان تمام نے قرآن کریم پڑھا ہے (3) اور یہ بھی عنوان ہے باب الدعاء بکثرۃ الولد مع البرکۃ (برکت کے ساتھ اولاد کی کثرت کی دعا کا بیان) اور حضرت انس بن مالک ؓ کی حدیث ہے کہ ام سلیم نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ آپ کا خادم انس ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہم اکثر مالہ وولدہ وبارک لہ فیما اعطیتہ (اے اللہ ! اس کے مال اور اس کی اولاد میں کثرت عطا فرما اور جو تو اسے عطا فرمائے اس میں اس کے لئے برکت عطا فرما) (1) (صحیح بخاری، باب دعوۃ النبی لخادمہ العمر بکثرۃ مالہ، حدیث نمبر 5868، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضور نبی ﷺ نے فرمایا : ” اے اللہ ! ابو سلمہ کی مغفرت فرما اور ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کا درجہ بلند فرما اور باقی رہنے والے لوگوں میں سے اسے اچھا خلیفہ (نائب) عطا فرما۔ “ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے اور حضور ﷺ نے فرمایا : ” تم بچے جننے والی اور محبت کرنے والی (عورت) سے شادی کرو کیونکہ میں تمہارے سبب دیگر امتوں پر اظہار کثرت کروں گا۔ (2) (ابی داؤد باب النھی عن تزویج من لم یلد من النساء حدیث نمبر 1754، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ اس معنی میں بہت سی روایات ہیں جو بچے کی طلب پر ابھارتی ہیں اور اس طرف متوجہ کرتی ہیں، کیونکہ انسان اپنی زندگی میں اور اپنی موت کے بعد اس کے نفع اور فوائد کا امیدوار ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اذا مات احدکم انقطع عملہ الامن ثلاث “۔ جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین کے، اس میں ذکر فرمایا او ولد صالح یدعولہ یا نیک بچہ جو اس کے لئے دعا کرتا ہو۔ گر اس حدیث کے سوا اور کچھ بھی نہ ہو تو اس میں یہی کافی ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) پس جب یہ ثابت ہوگیا تو انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے خالق کی بارگاہ میں اپنے بچے اور اپنی بیوی کی ہدایت کے لئے تضرع اور التجا کرتا رہے کہ وہ دونوں کو ہدایت، نیکی، پاکدامنی اور رعایت کی توفیق عطا فرمائے اور یہ کہ وہ دونوں دین اور دنیا میں اس کے معاون و مددگار ہوں یہاں تک کہ دونوں کے سبب اس کی منفعت اور فوائد دنیا اور آخرت میں عظیم ہوجائیں، کیا آپ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے قول میں غور نہیں کرتے۔ (آیت) ” واجعلہ رب رضیا “۔ (مریم) اور عرض کی (آیت) ” ذریۃ طیبۃ “۔ اور کہا (آیت) ” ھب لنا من ازواجنا وذریتنا قرۃ اعین “۔ اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ کیلئے دعا فرمائی اور کہا : اللہم اکثر مالہ وولدہ وبارک لہ فیہ اسے بخاری (3) (صحیح بخاری، باب من زادر قوما ولم یفطر عندھم، حدیث نمبر 1846، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور مسلم نے نقل کیا ہے اور یہ تیرے لئے کافی ہے۔
Top