Al-Qurtubi - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اَنْتُمُ : تم الْفُقَرَآءُ : محتاج اِلَى اللّٰهِ ۚ : اللہ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : سزاوار حمد
لوگو تم (سب) خدا کے محتاج ہو اور خدا بےپروا سزاوار (حمد و ثنا) ہے
آیت : یا یھا الناس انتم الفقراء الی اللہ تم اپنی بقا اور اپنے اصولوں میں اس کے محتاج ہو۔ زمحشری نے کہا : اگر تو کہے الفقراء کو معرف باللام کیوں لایا گیا ہے ؟ میں کہوں گا : اس سے اس امر کا قصد کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں دکھائے کہ وہ اس کے شدید محتاج ہونے کی وجہ سے وہ فوراء کی جنس ہے، اگرچہ تمام محلوق انسان ہوں یا غیر سب اس کے محتاج ہیں، کیونکہ فقراء ان چیزوں میں سے ہے جو ضعف کے تابع ہوتا ہے جب بھی فقیر زیادہ کمزور ہوگا وہ زیادہ محتاج ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں انسان کے ضعف کی گواہی دی ہے : آیت : اللہ الذی خلقکم من ضعف (الروم :54) اگر فقراء نکرہ ہوتا تو معنی ہوتا تم فقراء کا بعض ہو۔ اگر تو کہے : الفقراء، الغنی کے بلمقابل رکھا گیا ہے توالحمید کا کیا معنی ہے ؟ میں جواب دوں گا : جب اللہ تعالیٰ نے ان کی اپنی بارگاہ میں احتیاج کو ثابت کردیا اور ان سے اپنی بےنیازی کو ثابت کردیا جب کہ ہر غنی اپنی غنا کے ساتھ نفع پہنچانے والا نہیں ہوتا مگر جب وہ غنی سخی اور انعام کرنے والا ہو جب وہ سخاوت کرے اور انعام کرے تو جس پر انعام کیا جا رہا ہوتا ہے تو ان پر اس کی حمد کرنا لازم ہوجاتا ہے، الحمید کا ذکر کیا تاکہ اس کے ساتھ اس امر پر دلالت کرے کہ وہ غنی ہے، اپنی غنا کے ساتھ اپنی محلوق کو نفع پہنچانے والا ہے، وہ سخی ہے اور ان پر انعام فرمانے والا ہے۔ وہ ان پر انعام کرنے کی وجہ سے اس امر کا مستحق ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں۔ خلیل کے نزدیک دوسرے ہمزہ کی تخفیف سب سے عمدہ صورت ہے، پہلے ہمزہ کی تخفیف دونوں کی تخفیف اور دونوں کی تخقیق بھی جائز ہے۔ آیت : واللہ ھوالغنی الحمید، ھو زائد ہے۔ اس کا اعراب میں کوئی محل نہیں ہوتا۔ یہ مبتدا ہو تو اس کا محل رفع ہوگا۔
Top