Al-Qurtubi - Az-Zumar : 7
اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنْكُمْ١۫ وَ لَا یَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ١ۚ وَ اِنْ تَشْكُرُوْا یَرْضَهُ لَكُمْ١ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ١ؕ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اِنْ تَكْفُرُوْا : اگر تم ناشکری کرو گے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَنِيٌّ : بےنیاز عَنْكُمْ ۣ : تم سے وَلَا يَرْضٰى : اور وہ پسند نہیں کرتا لِعِبَادِهِ : اپنے بندوں کے لیے الْكُفْرَ ۚ : ناشکری وَاِنْ : اور اگر تَشْكُرُوْا : تم شکر کرو گے يَرْضَهُ لَكُمْ ۭ : وہ اسے پسند کرتا ہے تمہارے لیے وَلَا تَزِرُ : اور نہیں اٹھاتا وَازِرَةٌ : کوئی بوجھ اٹھانے والا وِّزْرَ : بوجھ اُخْرٰى ۭ : دوسرے کا ثُمَّ : پھر اِلٰى : طرف رَبِّكُمْ : اپنا رب مَّرْجِعُكُمْ : لوٹنا ہے تمہیں فَيُنَبِّئُكُمْ : پھر وہ جتلا دے گا تمہیں بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۭ : تم کرتے تھے اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینہ (دلوں) کی پوشیدہ باتیں
اگر ناشکری کرو گے تو خدا تم سے بےپرواہ ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے ناشکری پسند نہیں کرتا اور اگر شکر کرو گے تو وہ اس کو تمہارے لئے پسند کرے گا اور کوئی اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تم کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے پھر جو کچھ تم کرتے رہے وہ تم کو بتائے گا وہ تو دلوں کی پوشیدہ باتوں تک سے آگاہ ہے
ان تکفرو فان اللہ غنی عنکم یہ کلام شرط و جزا پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کفر کو پسند نہیں کرتا۔ حضرت ابن عباس اور سدی نے کہا : اس کا معنی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے کفر کو پسند نہیں کرتا وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان عبادی لیس لک علیھم سلطان) الاسراء (65: اور جس طرح فرمایا : عینا یشرب بھا عباد اللہ یہ تعبیران علماء کے نزدیک ہے جو رضا اور ارادہ میں فرق نہیں کرتے۔ ایک قول یہ کیا گیا : اللہ تعالیٰ کفر سے راضی نہیں ہوتا اگرچہ اس کا رادہ کرے اللہ تعالیٰ کافر سے کفر کا ارادہ کرتا ہے کافر نے اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے ہی کفر کیا ہے اللہ تعالیٰ اس پر راضی نہیں ہوتا اور اسے پسند بھی نہیں کرتا ‘ اللہ تعالیٰ ایسی چیز کا ارادہ کرتا ہے جس پر راضی نہیں ہوتا اللہ نے ابلیس کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا جب کہ اللہ تعالیٰ ابلیس پر راضی نہیں پس ارادہ رضا سے مختلف ہے ‘ یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ و ان تشکرو یرضہ لکم یعنی تمہارے شکر پر راضی ہوتا ہے کیونکہ تشکرو اس پر دلالت کرتا ہے۔ سورة بقرہ اور دوسری سورتوں میں سکر کے بارے میں بحث گزر چکی ہے یرضی کا معنی بدلہ دینا اور تعریف کرنا ہے ‘ اس صورت میں رضا سے مراد یا تو ثواب ہو تو اس صورت میں فعل کی صفت ہوگا لن شکرتم لا زیدنکم) ابراہیم (7: یا اس سے مراد اس کو ثنا ہے تو اس صورت میں وہ ذات کی صفت ہوگا۔ ابو جعفر ‘ ابو عمر ‘ شیبہ اور ہبیرہ نے عاصم سے یہ قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے اسے ویرضہ پڑھا یعنی ہاء کو ساکن پڑھا۔ ابن ذکوان ‘ ابن کثیر ‘ ابن محیصن ‘ کسائی اور ورش نے نافع سے ضمہ کے اشباع کے ساتھ قراءت نقل کی ہے باقی قراء نے اس میں اختلاف کا قاعدہ جاری کیا ہے۔ ولا تذر و از رۃ وزراخری ثم الی ربکم مرجعکم فینبئکم بما کنتم تعملون انہ علیم بذات الصدور۔ اس کے بارے میں بحث پہلے گزر چکی ہے۔
Top