Al-Qurtubi - An-Nisaa : 119
وَّ لَاُضِلَّنَّهُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّهُمْ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًاؕ
وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ : اور انہیں ضرور بہکاؤں گا وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ : اور انہیں ضرور امیدیں دلاؤں گا وَلَاٰمُرَنَّھُمْ : اور انہیں سکھاؤں گا فَلَيُبَتِّكُنَّ : تو وہ ضرور چیریں گے اٰذَانَ : کان الْاَنْعَامِ : جانور (جمع) وَلَاٰمُرَنَّھُمْ : اور انہیں سکھاؤں گا فَلَيُغَيِّرُنَّ : تو وہ ضرور بدلیں گے خَلْقَ اللّٰهِ : اللہ کی صورتیں وَمَنْ : اور جو يَّتَّخِذِ : پکڑے (بنائے) الشَّيْطٰنَ : شیطان وَلِيًّا : دوست مِّنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا فَقَدْ خَسِرَ : تو وہ پڑا نقصان میں خُسْرَانًا : نقصان مُّبِيْنًا : صریح
اور ان کو گمراہ کرتا اور امید دلاتا رہوں گا اور یہ سکھاتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیرتے رہیں اور (یہ بھی) کہتا رہوں گا کہ وہ خدا کی بنائی ہوئی صورتوں کو بدلتے رہیں اور جس شخص نے خدا کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنایا وہ صریح نقصان میں پڑگیا
آیت نمبر : 119۔ اس میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولاضلنھم “۔ یعنی میں انہیں ہدایت کے راستہ سے پھیروں گا۔ (آیت) ” ولا منینھم یعنی ان کے لیے جھوٹے امیدیں مزین کروں گا۔ یہ کسی ایک تمنا پر منحصر نہیں، کیونکہ ہر ایک اپنی رغبت اور قرائن حال کے اعتبار سے خواہش و تمنا کرتا ہے، بعض علماء نے فرمایا : میں انہیں لمبی زندگی کی امیددلاؤں گا کہ خیر توبہ اور معرفت حاصل کرنے کا بڑا وقت باقی ہے نیز انہیں گناہوں پر اصرار کی امید دلاؤں گا (آیت) ” ولا مرنھم فلیبتکن اذان الانعام “۔ البتک کا معنی کاٹنا ہے اسی سے ہے سیف باتک کانٹے والی تلوار، یعنی شیطان نے کہا : میں انہیں بحیرہ، سائبہ اونٹنیوں کے کان کاٹنے پر برانگیختہ کروں گا جیسے بت کہ وبتکہ، مخففا وبت کہ، مخففا ومشددا وفی یدہ بتکۃ یعنی اس کے ہاتھ میں ٹکڑا ہے اس کی جمع بتک ہے۔ زہیر نے کہا : طارت وکفہ من ریشھا بتک : وہ اڑی جب کہ اس کی ہتھیلی میں اس کے پروں کے ٹکڑے تھے۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولامرنھم فلیغیرن خلق اللہ “۔ یہ تمام لام قسم کے لیے ہیں، علماء کا اختلاف ہے کہ یہ تبدیلی اور تغیر کس طرف راجع ہے۔ ایک جماعت نے کہا : اس سے مراد خصی کرنا، آنکھ پھوڑنا اور کان کاٹنا ہے۔ یہ معنی حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت انس ؓ ، حضرت عکرمہ ؓ اور حضرت ابو صالح ؓ نے بیان کیا ہے (1) (تفسیر الماوردی، جلد 1، صفحہ 530) ان تمام صورتوں میں حیوان کو تکلیف دینا ہے اور سرکشی کے ساتھ حلال کرنا اور حرام کرنا ہے، اور یہ قول بغیر حجت اور دلیل کے ہے، جانوروں میں کان باعث جماع اور منفعت ہیں، اسی طرح دوسرے اعضاء ہیں، اسی وجہ سے شیطان نے دیکھا کہ وہ اس کے ذریعے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرے۔ عیاض بن حمار مجاشعی کی حدیث میں ہے ” میں نے اپنے بندوں کو حق کی پیروی کرنے والا پیدا کیا پھر شیاطین ان کے پاس آئے اور انہیں اپنے دین سے دور کردیا، میں نے جن چیزوں کو انکے لیے حلال کیا تھا اسے انہوں نے حرام کردیا اور شیاطین نے انہیں حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرائیں جس کے متعلق میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی اور شیاطین نے انہیں حکم دیا کہ وہ تخلیق کو بدل دیں “۔ (2) (صحیح مسلم، الجنۃ وصفہ نعیمھا واھلھا، جلد 2، صفحہ 385) اس حدیث کو قاضی اسماعیل نے اور مسلم نے تخریج کیا ہے اور اسماعیل نے روایت کیا کہ ہمیں ابو الولید اور سلیمان بن حرب نے بیان کیا انہوں نے کہا ہمیں شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے ابو اسحاق سے روایت کیا، انہوں نے ابولاحوص سے روایت کیا انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا جب کہ میری ہئیت بڑی خراب تھی، آپ ﷺ نے پوچھا : ” کیا تیرے پاس مال ہے ؟ “ اس نے کہا : میں نے عرض کی : میرے پاس مال تو ہے، آپ نے کہا : ” کون سا مال ہے “ ؟ میں نے کہا : گھوڑے، اونٹ، غلام ہر قسم کا مال ہے۔ ابو الولید نے کہا : اس نے بکریوں کا بھی ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ نے تجھے مال عطا کیا ہے تو تجھ پر اس کا اثر دکھائی دینا چاہیے۔ آپ ﷺ نے پوچھا ؛ ” کیا تیری قوم کی اونٹنیاں صحیح کانوں والے بچے جنم دیتی ہیں پھر تو نشتر کا قصد کرتا ہے اور اس سے ان کے کان کاٹ دیتا ہے اور تو کہتا ہے : یہ بحر ہے اور تو ان کی کھالوں کو چیرتا ہے اور تو کہتا ہے : صرم ہے یہ اس لیے کرتا ہے تاکہ تو انہیں اپنے اوپر اور اپنے گھروں والوں پر حرام کر دے۔ “ ؟ اس نے کہا : ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جو تجھے عطا فرمایا وہ حلال ہے اور اللہ تعالیٰ کا نشتر تیرے نشتر سے زیادہ تیز ہے، اور اللہ تعالیٰ کی کلائی تیری کلائی سے زیادہ سخت ہے “۔ اس نے کہا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ بتائیے ایک شخص کے پاس میں جاتا ہوں، وہ میری مہمان نوازی نہیں کرتا پھر وہ میرے پاس آتا ہے کیا میں اس کی مہمان نوازی کروں یا میں بھی اس جیسا سلوک کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”(نہیں) بلکہ تو اس کی مہمان نوازی کر “ (3) ۔ (المستدرک للحاکم کتاب اللباس، جلد 4، صفحہ 201، حدیث نمبر 64) مسئلہ نمبر : (3) جب یہ شیطان کے فعل اور اس کے اثر سے تھا تو ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ” ہم جانور کی آنکھوں اور کانوں کو خصوصی طور پر دیکھیں اور ہم کا نا جانور قربانی کے لیے نہ دیں اور ایسا بھی نہ ہو جس کے کان کی طرف کٹی ہوئی ہو اور ایسا بنی نہ ہو جس کا آخری حصہ کٹا ہوا ہو۔ اور ایسا بھی نہ ہو جس کے کانوں کو نشان لگانے والے آلے نے کاٹا ہو اور ایسا بھی نہ ہو جس کے کان چیرے گئے ہوں “ (4) (سنن ابی داؤد کتاب الضحایا، جلد 2، صفحہ 32) اس حدیث کو ابو داؤد نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : ہمیں حضور ﷺ نے حکم دیا، آگے پوری حدیث ذکر کی۔ کانوں میں عیب کا علماء کے نزدیک اعتبار ہے، امام مالک (رح) اور لیث (رح) نے کہا : اگر ایسا جانور ہو جس کے کان کٹے ہوئے ہوں یا زیادہ کٹے ہوئے ہوں تو اس کی قربانی جائز نہیں اور نشان لگانے والے آلے سے جو تھوڑا سا چیرا گیا ہو وہ جائز ہے۔ یہ امام شافعی (رح) اور فقہاء کی ایک جماعت کا قول ہے۔ اگر ایسا جانور ہو جس کے پیدائشی کان نہ ہوں تو امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) نے کہا : اس کی قربانی جائز نہیں اگر چھوٹے چھوٹے کان ہوں تو جائز ہے، امام ابوحنیفہ (رح) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) جانوروں کو خصی کرنا اس کی اہل علم میں سے ایک جماعت نے اجازت دی ہے جس کہ اس سے منفعت کا قصد کیا گیا ہو خواہ وہ موٹاپے کی غرض سے ہو یا کوئی اور غرض ہو، جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خصی کی قربانی دینے میں کوئی حرج نہیں، بعض علماء نیی اس کو مستحسن قرار دیا ہے جب کہ وہ دوسرے جانوروں سے زیادہ موٹا ہو۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 114 دارالکتب العلمیہ) اور گھوڑوں کو خصی کرنے کی رخصت حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دی تھی حضرت عمروہ بن زبیر ؓ نے اپنے خچر کو خصی کیا تھا، امام مالک (رح) نے بکرے کو خصی کرنے کی رخصت دی ہے، یہ جائز ہے، کیونکہ اس سے حیوان کو ایسے بت کے دین کے ساتھ معلق کرنے کا قصد نہیں کیا جاتا جس کی عبادت کی جاتی ہے اور نہ اس میں ایسے رب کے دین کی وجہ سے معلق کرنے کا قصد کیا جاتا ہے جس کی توحید بیان کی جاتی ہے اس میں تو صرف عمدہ گوشت حاصل کرنے کا قصد کیا جاتا ہے اور مذکر کو تقویت دینے کا قصد کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس سے مونث کی اس کی خواہش ختم ہوجاتی ہے۔ بعض علماء نے خصی کرنے کو ناپسند کیا ہے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ” خصی وہ لوگ کرتے ہیں جو بےعلم ہیں “۔ (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، جلد 1 صفحہ 314) ابن المنذر (رح) نے اس کو پسند کیا ہے اس نے کہا : کیونکہ یہ ارشاد حضرت ابن عمر ؓ سے ثابت ہے وہ فرماتے ہیں : یہ اللہ کی تخلیق میں سے ہے، عبدالملک بن مروان نے اس کو ناپسند کیا ہے۔ اوزاعی (رح) نے کہا : لوگ ہر اس چیز کو خصی کرنا مکروہ جانتے تھے جس کی نسل چلتی ہے۔ ابن المنذر (رح) نے کہا : اس میں دو حدیثیں ہیں : ایک حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے بکرے، بیل اور گھوڑے کو خصی کرنے سے منع فرمایا (3) (السنن الکبری للبیہقی، باب کراھیۃ خصاء الغنم والبھام، جلد 10 صفحہ 24) اور دوسری حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے زندہ چیز کو باندھ کر اس پر تیر اندازی کرنے اور جانوروں کو خصی کرنے سے منع فرمایا (4) (السنن الکبری للبیہقی، باب کراھیۃ خصاء الغنم والبھام، جلد 10 صفحہ 24) مؤطا میں اس باب سے وہ ہے جو امام مالک (رح) نے نافع عن ابن عمر ؓ کے سلسلہ سے روایت کی ہے کہ وہ خصی کرنے کو ناپسند کرتے تھے فرماتے تھے : اس میں تخلیق کی تکمیل ہے۔ ابو عمر ؓ نے کہا : خصی نہ کرنے میں تخلیق کا تمام ہے اور تخلیق کا بڑھنا بھی روایت ہے (5) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 502) میں کہتا ہوں : ابو محمد نے عمر بن اسماعیل عن نافع عن ابن عمر ؓ سے مسند روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : ” ان جانوروں کو خصی نہ کرو جو اللہ کی تخلیق کو بڑھاتے ہیں “ ‘۔ (6) (السنن الکبری للبیہقی، باب کراھیۃ خصاء الغنم والبھام، جلد 10 صفحہ 24) اس حدیث کو دارقطنی نے اپنے شیخ سے روایت کیا ہے فرمایا ہمیں ابو عبداللہ معدل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عباس بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا، ہمیں ابو مالک نخعی نے بیان کیا، انہوں نے عمر بن اسماعیل (رح) سے روایت کیا پھر یہ حدیث ذکر کی، دارقطنی نے کہا : اس کو عبدالصمد بن نعمان نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) آدمی کو خصی کرنا مصیبت ہے، کیونکہ جب اسے خصی کیا جائے گا تو اس کا دل اور اس کی قوت ختم ہوجائے گی جب کہ حیوان کا حکم اس کے برعکس ہے اور انسان کی نسل ختم ہوجائے گی جس کا نبی مکرم ﷺ کے قول میں حکم دیا گیا ہے : تناکحوا تناسلوا فانی مکاثر بکم الامم “۔ نکاح کرو، نسل برھاؤ میں تمہارے ذریعے دوسری امتوں پر کثرت کو بیان کرنے والا ہوں گا۔ پھر اس میں سخت تکلیف بھی ہے بعض اوقات انسان ہلاک بھی ہوجاتا ہے۔ اس میں مال کا ضیاع اور نفس کا ہلاک کرنا ہوتا ہے اور ان تمام چیزوں سے منع کیا گیا ہے۔ پھر یہ مثلۃ ہے اور نبی مکرم ﷺ نے مثلہ سے منع کیا ہے۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب المظالم، جلد 1، صفحہ 336) اور یہ صحیح ہے۔ حجازی اور کوفی فقہاء کی ایک جماعت نے صقالیۃ وغیرہم سے خصی غلام خریدناناپسند کیا ہے انہوں نے کہا : اگر وہ ان سے خریدے نہیں جائیں گے تو ان کو خصی نہیں کیا جائے گا، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ انسان کا خصی کرنا حلال اور جائز نہیں، کیونکہ یہ مثلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی ہے۔ اسی طرح تمام اعضاء کا بغیر حد اور قصاص کے کاٹنے کا حکم ہے یہ ابو عمر ؓ کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) یہ ثابت ہوگیا تو تو جان لے کہ نشان لگانا اور شعار کرنا اس نہی سے مستثنی ہے جو شیطان کے شریط کے متعلق ہے اور یہ آگ کے ساتھ حیوان کو عذاب دینے کی نہی ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کردیا ہے۔ الوسم کا معنی آگ سے داغ لگانا ہے اس کا اصل معنی علامت ہے، کہا جاتا ہے : وسم الشیء یسیہ جب کوئی ایسی علامت لگائے جس سے وہ چیز پہچانی جائے اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” سیماھم فی وجوھم “۔ (الفتح : 29) السیما علامت کو کہتے ہیں، المیسم داغ لگانے کا آلہ۔ صحیح مسلم میں حضرت انس ؓ سے ثابت ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں نشان لگانے کا آلہ دیکھا آپ صدقہ اور فئی وغیرہ کے اونٹوں کو نشان لگا رہے تھے تاکہ ہر مال پہچانا جائے اور اس کے حق میں ادا کیا جائے اور کسی دوسرے مال کی طرف تجاوز نہ ہو۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ جلد 2، صفحہ 203) مسئلہ نمبر : (7) چہرے کے علاوہ تمام اعضاء میں نشان لگانا، داغنا جائز ہے، کیونکہ حضرت جابر ؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چہرے پر مارنے اور چہرے پر داغ لگانے سے منع فرمایا ہے۔ (3) (صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ جلد 2، صفحہ 202) اس حدیث کو مسلم نے نقل کیا ہے یہ اس لیے ہے کہ چہرے کو باقی تمام اعضاء پر شرف حاصل ہے، کیونکہ وہ حسن و جمال کا مقر ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ حیوان کا قوام ہے، نبی مکرم ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے غلام کو مار رہا تھا، تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا : چہرے پر مارنے سے اجتناب کر، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی تخلیق اپنی صورت پر کی ہے “۔ (4) (ایضا، کتاب البرہ والصلۃ، جلد 2، صفحہ 327) یعنی مضروب کی صورت پر، یعنی اس مضروب کا چہرہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے چہرہ کے مشابہ ہے، پس اس کی مشابہت کی وجہ سے اس کا احترام لازم ہے۔ یہ سب سے بہتر ہے جو کچھ اس کی تاویل میں کہا گیا ہے، واللہ اعلم، ایک جماعت نے کہا : یہ وشم اور جو حسن کے لیے تصنع کیا جاتا ہے اس تبدیلی کے ساتھ اس کی طرف اشارہ ہے۔ یہ حضرت ابن مسعود ؓ اور حسن کا قول ہے۔ اس حدیث کی وجہ سے جو حضرت عبداللہ ؓ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جسم پر نشان بنانے والیاں اور نشان بنوانے والیاں، چہرے سے بال نوچنے والیاں اور نوچوانے والیاں اور حسن کی خاطر دانت کھلے کرانے والیاں اللہ کی تخلیق کو بدلنے والیاں (ان سب پر) اللہ کی لعنت ہے “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ جلد 2، صفحہ 205) اس حدیث کو مسلم نے نقل کیا ہے مکمل بیان سورة الحشر میں آئے گا، ان شاء اللہ۔ الوشم ہاتھوں میں ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ عورت کی ہتھیلی کی پیٹھ اور اس کی کلائی کو سوئی کے ساتھ کریدا جاتا ہے پھر اس میں سرمہ یا کوئلے کا دھواں بھر دیا جاتا ہے پھر وہ سبز ہوجاتا ہے۔ قد وشمت وشما فھی واشمۃ یعنی نشان بنانا اور المستوشمہ۔ ایسا نشان بنوانے والی، یہ ہر وی کا قول ہے۔ ابن عربی (رح) نے کہا : صقلی، اور افریقی لوگ ایسا کرتے ہیں (2) (احکام القرآن لابن العربی جلد 1، صفحہ 501) تاکہ ان میں سے ہر ایک اپنی جوانی میں اپنی طاقت پر دلالت کرے، قاضی عیاض نے کہا : ہر وی کی روایت میں جو مسلم کے رواۃ میں سے ہے۔ الواشمۃ والموشہ کی جگہ والوشیۃ والمستوشیۃ کے الفاظ ہیں۔ یعنی میم کی جگہ یا ہے۔ یہ الوشی سے مشتق ہوگا جس کا معنی مزین ہونا ہے اور الوشی کی اصل دو رنگوں پر کپڑے کو بننا ہے ثور موشی ایسا بیل جس کے چہرے اور پیروں میں سیاہی ہو، یعنی عورت بال نوچ کر دانت کھلے کر کے، دانت باریک کرکے زینت حاصل کرتی ہے۔ المتنمصات یہ متنمصۃ کی جمع ہے اس سے مراد وہ عورت ہے جس کے چہرے سے بال اکھیڑنے والے آلہ سے بال اکھیڑے گئے ہوں، ابن عربی (رح) نے کہا : مصری لوگ زیر ناف بال اکھیڑتے ہیں وہ اسی سے ہے، کیونکہ سنت زیر ناف بالوں کا حلق کرنا ہے اور بغلوں کے بال نوچنا ہے اور فرض کے بال نوچنا یہ اسے ڈھیلا کردیتا ہے اور تکلیف دیتا ہے اور بہت ساری منفعت کو ضائع کردیتا ہے۔ (3) (احکام القرآن لابن العربی جلد 1، صفحہ 501) المتفلجات ‘ یہ متفلجۃ کی جمع ہے، وہ عورت جو اپنے دانتوں کو کھلا کرتی ہے یعنی خلقۃ اس کے دانت ملے ہوئے ہوتے ہیں وہ اپنے عمل سے انہیں کھلا کرتی ہے۔ مسلم کی کتاب کے علاوہ میں ہے۔ الواشرات یہ واشرۃ کی جمع ہے جو اپنے دانتوں کو تیز کرتی ہے یعنی وہ شگاف جو جو ان عورتوں کے دانتوں میں ہوتا ہے، بڑی عمر کی عورت نوجوان لڑکی سے مشابہت کے لیے ایسا کرتی ہے، یہ تمام امور احادیث کی رو سے گناہ کبیرہ ہیں۔ اس معنی میں اختلاف ہے جس کی وجہ سے یہ نہی کی گئی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : کیونکہ تدلیس کے باب میں ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ اللہ کی تخلیق کی تغییر کے باب سے ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : یہ اصح ہے یہ پہلیی معنی کو بھی متضمن ہے۔ پھر بعض نے فرمایا : یہ منع اب بھی باقی ہے، کیونکہ یہ اللہ کی تخلیق کی تبدیلی کے باب سے ہے اور جو تزیین باقی رہنے والی نہ ہو جیسے سرمہ لگانا یا میک اپ کرنا، عورتوں کے لیے علماء نے جائز قرار دیا ہے، لیکن مردوں کے لیے امام مالک (رح) نے اس کو مکروہ کہا ہے۔ امام مالک (رح) نے عورت کے لیے ہاتھوں پر مہندی لگانا جائز قرار دیا ہے، حضرت عمر ؓ سے اس کا انکار بھی مروی ہے۔ فرمایا : یا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو مہندی لگائے یا ترک کر دے، امام مالک (رح) نے حضرت عمر ؓ سے مروی روایت کا انکار کیا ہے کہ عورت مہندی سے خضاب لگانا ترک نہ کرے۔ کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے ایک عورت کو دیکھا جس نے مہندی نہیں لگائی ہوئی تھی آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم (عورتوں) میں سے کوئی اپنے ہاتھ کو اس طرح نہ چھوڑے کہ وہ مرد کا ہاتھ معلوم ہو “ وہ عورت پھر ہمیشہ مہندی لگاتی رہی حتی کہ اس کی عمر نوے سال سے بڑھ گئی تھی اور پھر وہ فوت ہوگئی۔ قاضی عیاض نے کہا : کالی مہندی کے متعلق منع کرنے کی حدیث مروی ہے، صاحب المصابیح نے اس کا ذکر کیا ہے اور عورت بغیر زیور کے نہ ہو اس کی گردن میں موتیوں کا ہار ہو۔ نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا : ” بغیر ہار کے ہونا تیرے لیے مناسب نہیں خواہ وہ دھاگے کا ہو یا چمڑے کا ہو “۔ حضرت انس ؓ نے کہا : عورت کے لیے مستحب ہے کہ وہ نماز میں اپنے ہار کو اپنی گردن سے لپیٹ دے اگر وہ چمڑے کا ہو۔ ابو جعفر طبری نے کہا : حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث میں دلیل ہے کہ خاوند یا کسی اور کے لیے جس کی خاطر کمی یا زیادتی کے ساتھ اللہ کی تخلیق کو بدلنا جائز نہیں ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے خواہ وہ دانتوں کو کھلا کرے یا دانتوں کو تیز کرے یا اس کا دانت لمبا ہو تو وہ اسے اکھیڑ دے یا بہت سے لمبے دانت ہوں تو اس کی اطراف کو کاٹ دے۔ اسی طرح داڑھی یا مونچھوں کا حلق کرنا یا نیچے والے ہونٹ کے بالوں کا حلق کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ تمام صورتیں اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنا ہے عیاض نے کہا ؛ جس کی زائد انگلی ہو یا کوئی عضو زائد ہو تو اس کا کاٹنا اور اس کا اکھیڑنا جائز نہیں، کیونکہ یہ اللہ کی تخلیق کی تبدیلی سے ہے، مگر یہ زائد عضو تکلیف دیتا ہو تو ابو جعفر وغیرہ کے نزدیک اس کو اکھیڑنے میں حرج نہیں۔ مسئلہ نمبر : (8) میں کہتا ہوں : اس باب سے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : لعن اللہ والواصلۃ والمستوصلہ والواشمۃ والمستوشمۃ (1) (صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، جلد 2، صفحہ 204، صحیح بخاری حدیث نمبر 5491، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) بال جوڑنے والی اور بال جڑوانے والی، نشان بنانے والی اور نشان بنوانے والی پر اللہ کی لعنت ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے تخریج کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عورت کو اپنے بالوں میں دوسرے بال جوڑنے سے منع فرمایا تاکہ بال زیادہ نظر آئیں، واصلۃ وہ عورت جو ایسا کرتی ہے اور المستوصلہ جو بال لگواتی ہے۔ مسلم نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا نبی مکرم ﷺ نے عورت کو اپنے بالوں میں کوئی چیز ملانے سے زجر وتوبیخ فرمائی (2) (صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، جلد 2، صفحہ 205، صحیح بخاری حدیث نمبر 5491، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حضرت اسمائرضی اللہ تعالیٰ عنھا بنت ابی بکر سے مروی ہے فرمایا : ایک عورت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میری بیٹی کی شادی ہوئی ہے اسے بیماری لگ گئی ہے جس کی وجہ سے اس کے بال جھڑگئے ہیں کیا میں اس کو دوسرے بال لگوا دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور بال لگوانے والی پر لعنت کی ہے “ (3) (صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، جلد 2، صفحہ 205، صحیح بخاری حدیث نمبر 5491، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ بال جوڑنے کی تحریم میں نص ہے۔ امام مالک (رح) اور عطا کی جماعت نے یہی کہا ہے : انہوں نے ہر قسم کے بال خواہ وہ اون سے ہوں یا کپڑے سے ہوں سب سے منع کیا ہے، کیونکہ اس میں بھی بال جوڑنے کا معنی پایا جاتا ہے، لیث بن سعد، نے شاذ قول کیا ہے اس نے اون اور کپڑے اور ایسی چیز جو بال نہیں، کے ملانے کو جائز قرار دیا ہے، یہ اہل ظاہر کے مذہب کے زیادہ مشابہ ہے، اور دوسرے علماء نے سر پر بال رکھنے کو مباح قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : نہی صرف ملانے کے متعلق ہے۔ یہ محض ظاہر ہے اور معنی سے اعراض ہے ایک قوم نے شاذ قول کیا ہے : انہوں نے مطلقا وصل (بال اگانے) کو جائز قرار دیا ہے، یہ قطعا باطل قول ہے، احادیث اس کا رد کرتی ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے وہ مروی ہے اور یہ صحیح نہیں ہے۔ ابن سیرین سے مروی ہے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا : میری والدہ عورتوں کو کنگھی کرتی ہے، کیا میں اس کے مال سے کھا سکتا ہوں ؟ ابن سیرین نے کہا : اگر وہ مال لگاتی ہے تو نہیں اور نہی میں وہ داخل نہیں جو زینت اور خوبصورتی کے لیے رنگ برنگ ریشم کے دھاگوں سے باندھا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) ایک گروہ نے کہا : اللہ کی تخلیق کی تغییر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند، پتھروں اور آگ وغیرہ کو اس لیے پیدا فرمایا تاکہ ان سے نفع حاصل کیا جائے، کفار نے ان کو معبود بنادیا، زجاج نے کہا : اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو پیدا فرمایا تاکہ ان سے نفع حاصل کیا جائے کفار نے ان کو معبود بنا دیا، زجاج نے کہا : اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو پیدا فرمایا تاکہ ان پر سواری کی جائے اور ان کا گوشت کھایا جائے لیکن کفار نے ان کو اپنے اوپر حرام کردیا، اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند اور پتھروں کو لوگوں کے لیے مسخر کیا لیکن لوگوں نے انہیں معبود بنا کر پوجنا شروع کردیا، پس انہوں نے اللہ کی تخلیق کو بدل ڈالا، مفسرین کی ایک جماعت مجاہد ؓ ضحاک ؓ ، سعید بن جبیر ؓ اور قتادہ ؓ کا یہی قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے : (آیت) ” فلیغیرن خلق اللہ “۔ سے مراد اللہ کے دین کو بدلنا (1) (زاد المسیر فی علم التفسیر، جلد 1، صفحہ 123) یہ نخعی کا قول ہے، طبری نے اس کو اختیار کیا ہے، انہوں نے فرمایا : اگر یہ معنی ہو تو وہ تمام صورتیں اس میں داخل ہوں گی جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے، مثلا خصی ہونا، جسم پر سوئی سے بیل بوٹے بنانا اور دوسرے گناہ، کیونکہ شیطان ان تمام گناہوں کی طرف بلاتا یعنی وہ بدل دیں گے اسے جو اللہ نے اپنے دین میں حکم فرمایا، مجاہد (رح) نے بھی یہ کہا ہے (آیت) ” فلیغیرن خلق اللہ “۔ یعنی وہ اللہ کی اس فطرت کو بدل دیں گے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا فرمایا یعنی وہ اسلام پر پیدا کیے گئے تھے شیطان نے انہیں اس کو تبدیل کرنے کا حکم دیا نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا یہی معنی ہے : کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ وینصرانہ ویمجسانہ (2) (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 185، ایضا حدیث نمبر 1270، ضیا القرآن پبلی کیشنز) ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں، پس خلق کا معنی اس طرف لوٹے گا جس میں اللہ تعالیٰ نے چیونٹیوں کی شکل میں حضرت آدم کی پیٹھ سے انہیں نکالا اور ان میں ایمان پیدا فرمایا جس کا ذکر : (آیت) ” الست بربکم، قالوا بلی “۔ (الاعراف : 172) میں ہے ابن عربی نے کہا : طاؤوس سے مروی ہے کہ وہ کالی عورت کا سفید مرد سے نکاح ہوتا یا سفید عورت کا کالے مرد سے نکاح ہوتا تو وہ اس میں حاضر نہ ہوتے تھے وہ کہتے : یہ بھی (آیت) ” فلیغیرن خلق اللہ “۔ سے ہے، قاضی نے کہا : اگرچہ لفظ اس کا احتمال رکھتا ہے مگر یہ مخصوص ہے کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے اپنے غلام زید کا نکاح جو سفید رنگت والے تھے، اپنی دایہ بر کہ حبشیہ سے کردیا جو حضرت اسامۃ کی والدہ تھی اور حضرت اسامہ سفید سے کالے پیدا ہوئے تھے طاؤوس کے علم کے باوجود یہ مسئلہ ان سے مخفی رہا (3) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1 صفحہ 502) میں کہتا ہوں : پھر حضرت اسامہ ؓ نے فاطمۃ بنت قیس سے نکاح کیا تھا وہ عورت سفید تھی اور قریشی تھی اور حضرت بلال ؓ کے نکاح میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی بہن زہریۃ ؓ تھی یہ خاص اور طاؤوس پر یہ معاملہ مخفی رہا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ومن یتخذ الشیطن ولیا من دون اللہ “ یعنی جو شیطان کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ کے حکم کو چھوڑتا ہے، (آیت) ” فقد خسر “ اس نے اپنے اجر میں کمی کی اور اپنا ہی نقصان کیا، کیونکہ اس نے اللہ کا حق شیطان کو دیا اور شیطان کے لیے اللہ کا حق چھوڑ دیا۔
Top