Al-Qurtubi - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بیشک خدا سنتا (اور) دیکھتا ہے
آیت نمبر : 58۔ اس آیت میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اللہ یامرکم ان تؤدوالامنت “۔ یہ آیت اہم ترین احکام سے ہے یہ اپنے ضمن میں دین وشرع کی تمام تفصیلات کی جامع ہے نہ اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ اس آیت کا مخاطب کون ہیں حضرت علی بن ابی طالب ؓ ، زید بن اسلم ؓ ، شہر بن حوشب ؓ ، اور ابن زید ؓ نے کہا : یہ خطاب مسلمانوں کے والیوں کو ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 70 دارالکتب العلمیہ) یہ نبی مکرم ﷺ اور آپ کے امراء کے لیے ہے پھر بعد کے تمام امراء کو شامل ہے، ابن جریج وغیرہ نے کہا : یہ خاص نبی مکرم ﷺ کو کعبہ کی چابی کے بارے میں خطاب ہے جب آپ نے عثمان بن ابی طلحہ اور اس کے چچا زاد شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ سے وہ چابی لی تھی، یہ دونوں حضرات فتح مکہ کے وقت کافر تھے، حضرت ابن عباس بن عبدالمطلب ؓ نے چابی کو طلب کیا تاکہ پانی پلانے کے عمل کے ساتھ سدانہ کے عمل کو بھی ساتھ ملا لیں، رسول اللہ ﷺ کعبہ میں داخل ہوئے اور اس میں جو بت تھے انہیں توڑ دیا اور مقام ابراہیم کو نکالا تو جبریل امین اس آیت کے ساتھ نازل ہوئی، حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کعبہ سے نکلے تو یہ آیت پڑھ رہے تھے، میں نے اس سے پہلے آپ سے یہ نہیں سنی تھی، عثمان اور شیبۃ کو بلایا اور کہا : یہ کعبہ کی چابی لے لو، ہمیشہ ہمیشہ یہ تمہارے پاس رہے گی تم سے کوئی نہیں چھینے گا مگر ظالم، مکی نے حکایت کیا ہے کہ شیبۃ نے چابی نہ دینے کا ارادہ کیا پھر چابی اس نے پیش کردی، نبی مکرم ﷺ نے اسے فرمایا : ” یہ اللہ کی امانت لے لے “ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 70 دارالکتب العلمیہ) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ آیت والیوں کے ساتھ خاص ہے کہ وہ عورتوں کو نافرمانی وغیرہ سے بچنے کی نصیحت کریں اور ان عورتوں کو اپنے خاوندں کی طرف لوٹا دیں، (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 70 دارالکتب العلمیہ) اس آیت میں ظاہر یہ ہے کہ یہ تمام لوگوں کو شامل ہے، یہ ولاۃ کو شامل ہے کہ ان کے پاس جو امانات ہیں انہیں تقسیم کرنے میں اور ظلم کو دور کرنے میں اور فیصلوں میں عدل کرنے میں امانت کا مظاہرہ کریں، یہ طبری کا اختیار ہے، دوسرے لوگوں کو شامل ہے کہ وہ ودیعتوں کی حفاظت کریں، جھوٹی شہادت سے اجتناب کریں وغیرہ، جس طرح ایک شخص کسی نازل شدہ معاملہ میں فیصلہ کرتا ہے، نماز، زکوۃ، اور تمام عبادات اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں، یہ معنی حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث سے مرفوعا بھی مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” اللہ کے راستہ میں شہید ہونا سارے گناہوں کا کفارہ ہے “ یا فرمایا : ” ہر چیز کا کفارہ ہے سوائے امانت کے، نماز میں امانت، روزے میں امانت، بات میں امانت اور سب سے سخت ودیعتیں ہیں “۔ (4) (المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 10، صفحہ 219، حدیث نمبر 10627) یہ حدیث ابو نعیم حافظ نے الحلیۃ میں روایت کی ہے، جن علماء نے کہا کہ یہ آیت تمام لوگوں کو شامل ہے ان میں حضرت ابراء بن عازب، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، اور حضرت ابی بن کعب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں، یہ علماء فرماتے ہیں : ہر چیز میں امانت ہے وضو، نماز، زکوۃ، جنابت روزہ، کیل وزن اور ودائع، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کسی تنگ دست اور خوشحال کو امانت روکنے کی رخصت نہیں دی (5) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 70 دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : یہ اجماع ہے، علماء کا اجماع ہے کہ امانتیں، ان کے حق داروں کو لوٹائی جائیں گی خواہ نیکو کار ہوں یا فجار ہوں یا ابن المنذر (رح) کا قول ہے، امانت مصدر ہے جو مفعول کے معنی میں ہے اسی وجہ سے اس کی جمع بنائی گئی ہے، نظم یہ کہ پہلے گزر چکا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے متعلق خبر دی کہ انہوں نے حضرت محمد ﷺ کی شان کو چھپایا تھا اور انہوں نے مشرکوں کو کہا : تم زیادہ ہدایت یافتہ ہو، یہ ان کی طرف سے خیانت تھی، پس کلام تمام امانات کے ذکر تک جاری ہوئی پس یہ آیت اپنے نظم کی وجہ سے ہر امانت کو شامل ہے یہ بہت زیادہ ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، بڑی بڑی امانتیں احکام میں ہیں : ودیعت، لقطہ، رہن، عاریۃ، حضرت ابی بن کعب، ؓ نے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ادا الامانۃ الی من ائتمنک ولا تخن من خانک “۔ (1) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، جلد 3، صفحہ 35، حدیث نمبر 141) جس نے تیرے پاس امانت رکھی تھی اسے امانت ادا کرو اور اس کے ساتھ بھی خیانت نہ کرو جو تم سے خیانت کرے، اس حدیث کو دار قطنی کے روایت کیا ہے، حضرت انس ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے یہ حدیث نبی مکرم ﷺ سے روایت کی ہے، سورة بقرہ میں اس کا مفہوم گزر چکا ہے۔ حضرت ابو امامہ نے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں یہ فرماتے سنا ” عاریۃ لی ہوئی چیز واپس کی جائے گی، دودھ والا جانور جو تمہیں دودھ پینے کے لیے دیا گیا ہے وہ لوٹا جائے گا اور قرض ادا کیا جائے گا اور زعیم غارم ہے۔ ‘’ (2) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، جلد 3، صفحہ 41، حدیث نمبر 166) یہ حدیث صحیح ہے، ترمذی نے اس کو نقل کیا ہے، دارقطنی نے یہ زائد روایت کیا ہے : ایک شخص نے کہا : اللہ کا عہد (اس کا کیا حکم ہے) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کا حق ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے “۔ (3) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، جلد 3، صفحہ 41، حدیث نمبر 165) اس آیت اور حدیث کی بنا پر ودیعت لوٹائی جائے گی اور ہر حال میں یہ لوٹائی جائے گی خواہ اس کو چھپایا گیا ہو یا نہ چھپایا گیا ہو، اس میں تعدی کی گئی ہو یا تعدی نہ کی گئی ہو، یہ عطاء، امام شافعی، امام احمد، اور اشہب رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے، ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ جس نے حیوان یا کوئی اور چیز عاریۃ لی اور وہ ایسی چیزوں میں سے ہو جس کو چھپایا نہ جاسکتا ہو پھر وہ عاریۃ لینے والے شخص کے پاس تلف ہوگئی تو اس شخص کی تلف میں تصدیق کی جائے گی اور وہ ضامن نہ ہوگا مگر تعدی کے ساتھ حسن بصری (رح) اور نخعی (رح) کا قول ہے اور یہی قول کو فیوں اور اوزاعی کا قول ہے، ان علماء نے فرمایا : نبی مکرم ﷺ کے ارشاد : العاریۃ موداۃ “۔ (عاریۃ لی گئی چیز واپس کی جائے گی) کا معنی اس ارشاد الہی کے معنی کی طرح ہے : (آیت) ” ان اللہ یامرکم ان تؤدوالامنت الی اھلہا “۔ جب امانت تلف ہوجائے گی تو امین پر اس کی چٹی لازم نہ ہوگی، کیونکہ اس کی تصدیق کی جائے گی۔ اسی طرح عاریۃ لی گئی چیز بغیر تعدی کے تلف ہوجائے تو اس کی ضمانت نہیں لی جائے گی اور جب تعدی کے ساتھ تلف کرے گا تو اس پر خیانت کی وجہ سے اس کی قیمت اس پر لازم ہوگی، حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ عاریۃ لی گئی چیز میں ضمانت نہیں ہے۔ دارقطنی نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ، کے سلسلہ سے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے اس پر ضمانت نہیں “۔ (4) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، جلد 3، صفحہ 41، حدیث نمبر 167) امام شافعی (رح) نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں حضرت صفوان نے نبی مکرم ﷺ سے عرض کیا تھا، جب آپ نے اس سے زرہیں عاریۃ لی تھیں۔ کیا یہ عاریۃ مفمونۃ یا عاریۃ مؤداۃ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عاریۃ مؤداۃ ہیں (5) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، جلد 3، صفحہ 41، حدیث نمبر 160) مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل “۔ ضحاک ؓ نے کہا : اس کا مطلب ہے مدعی دلیل پر دلیل اور منکر پر قسم کے اصول کے ساتھ فیصلہ کرو، یہ خطاب والیوں، امراء اور حکام کو ہے اور معنی کے اعتبار سے تمام مخلوق کو شامل ہے جیسا کہ ہم نے اداء امانات میں ذکر کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ” انصاف کرنے والے قیامت کے روز رحمن کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں وہ لوگ جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل کے بارے میں اور جن کے والی ہوتے ہیں، ان کے بارے میں عدل کرتے ہیں (1) اور فرمایا : ” تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر میں نگران ہے اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، غلام اپنے آقا کے مال پر نگران ہے اسے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، خبردار ! تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے پوچھا جائے گا “ (2) ان احادیث صحیحہ میں یہ تمام نگران اور حکام ہیں اپنے اپنے مراتب پر، اسی طرح عالم اور حاکم بھی نگران ہے، کیونکہ جب وہ فتوی دیتا ہے تو حکم لگاتا ہے اور وہ حلال اور حرام، فرض اور ندب، صحت اور فساد کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ تمام امانت ہے جو ادا کی جاتی ہے اور حکم جس کا فیصلہ کیا جاتا ہے، نعما کے بارے میں سورة بقرہ میں کلام گزر چکی ہے۔ (آیت) ” ان اللہ کان سمیعا بصیرا “۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت سمیع وبصیر کو بیان فرمایا وہ سنتا اور دیکھتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” اننی معکما اسمع واری “۔ (طہ) “ میں تم دونوں کے ساتھ ہوں میں سنتا اور دیکھتا ہوں، یہ سمع کا طریق ہے اور عقل اس پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ سمع اور بصر کا انتفاع اس کی نقیض اندھے پن اور بہرے پن پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ دو ضدوں کو قبول کرنے والا محل ایک چیز سے خالی نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ نقائص سے پاک ہے اور یہ محال ہے کہ جو نقائص سے متصف ہو اس سے افعال کا ملہ کا صدور ہو جیسے سننے اور دیکھنے کی تخلیق اس سے جس کے لیے سمع وبصر نہیں ہے۔ امت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نقائص سے پاک ہے یہ دلیل سمعی ہے اصل قرآن کے ساتھ ان لوگوں کے مناظرہ میں اس پر اکتفا کیا جائے گا جن کو کلمہ اسلام جمع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ وہم کرنے والوں کے وہم سے اور جھوٹ گھڑنے والوں کے افترا سے بلند وبالا ہے، (آیت) ” سبحن ربک رب العزۃ عما یصفون (الصافات)
Top