Al-Qurtubi - At-Tawba : 92
اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَةِ وَ هُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ
اَوَمَنْ : کیا بھلا جو يُّنَشَّؤُا : پالا جاتا ہے فِي : میں الْحِلْيَةِ : زیورات (میں) وَهُوَ فِي الْخِصَامِ : اور وہ جھگڑے میں غَيْرُ مُبِيْنٍ : غیر واضح ہو
کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات نہ کرسکے (خدا کی) بیٹی ہوسکتی ہے ؟
اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ اومن ینشوا جس کی تربیت کی جاتی ہے اور وہ جو ان ہوتی ہے۔ نشوء کا معنی تربیت ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : نشات فی بنی فلاں نشا و نشوا۔ جب تو ان میں جوان ہو۔ نشی اور انشی ‘ دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ، ضحاک، ابن و ثاب، حفص، حمزہ، کسئی اور خلف نے ینشا پڑھا ہے جس کی تربیت کی جاتی ہے اور وہ بڑی ہوتی ہے زیورات میں ؛ ابو عبید نے اسے پسند کیا ہے کیونکہ اس صورت میں اسناد اعلیٰ ہے باقی قراء نے اسے ینشایاء کے فتحہ اور نون کو ساکن کرنے کے ساتھ پڑھا ہے ؛ اسے ابو حاتم نے پسند کیا ہے وہ راسخ ہوتا ہے اور بڑھتا ہے۔ نشا میں اصل معنی بلند ہوتا ہے، یہ ہر وی نے کہا ہے ینشا متعدی ہے اور ینشالازم ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ فی العلیتہ یعنی زینت میں، حضرت ابن عباس ؓ وعنہما اور دوسرے علماء نے کہا : وہ بچیاں ہیں ان کا لباس مردوں کے لباس سے مختلف ہے (2) ۔ مجاہد نے کہا : عورتوں کو سونے اور ریشم کے استعمال کی اجازت دی گئی اور اس اور اس آیت کو پڑھا (3) ۔ ال کیا نے کہا : اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ عورتوں کے لیے زیورات استعمال کرنا جائز ہے اس پر اجماع منعقد ہے اس میں احادیث شمار سے باہر ہیں۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو کہا کرتے تھے : اے بیٹی ! سونے کو زیورات پہننے سے بچو کیونکہ مجھے تیرے بارے میں آگ کا خوف آتا ہے۔ وھو فی الخصام غیر مبین۔ جھگڑا میں اور حجت و دلیل پیش کرنے میں واضح کلام نہیں کرسکتی۔ قتادہ نے کہا : کسی عورت نے گفتگو کی جبکہ اس کے پاس دلیل بھی موجود ہو تو وہ اسے اپنے خلاف ہی استعمال کرلیتی ہے (4) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں ہے وھوفی الکلام غیر مبین آیت کا معنی ہے کیا اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے جس کا یہ وصف ہو ؟ یعنی ایسا کرنا جائز نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : زیورات میں آراستہ ان کے وہ بت ہیں جن کو انہوں نے سونے اور چاندی سے ڈھالا اور انہیں زیور پہنائے (1) ، یہ ابن زید اور ضحاک کا قول ہے۔ اس قول کی بنا پر اس کا معنی ہوگا وہ جواب سے خاموش ہیں من محل نصب میں ہے یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اس چیز کو بنایا جو زیوارت میں پروان چڑھتی ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ مبتدا کی حیثیت میں مرفوع ہو اور خبر مضمر ہو ؛ یہ فراء کا قول ہے تقدیر کا کلام یہ ہوگی کیا وہ چیز جو اس حالت پر ہو عبادت کی مستحق ہو سکتی ہے۔ اگر تو چاہے تو یہ کہہ لے کہ من محل جر میں ہے اسے کلام کے ابتدائی حصہ کی طرف پھیرا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا فرمان بما ضرب یا ما ہے جو اس آیت میں ہے مما یخلق بنت ان دونوں مواقع پر بدل بنانا ضعیف ہے کیونکہ ہمزہ استفہام بدل اور مبدل منہ کے درمیان حائل ہے۔
Top