Al-Qurtubi - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
(اے پیغمبر) ﷺ جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا اور جو (صدق و خلوص) انکے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی
یہ بیعت رضوان ہے یہ حدیبیہ میں ہوئی۔ اختصار کے ساتھ حدیبیہ کا واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ غزوہ مصطلق سے واپسی پر شوال میں مدینہ طیبہ میں مقیم رہے اور ذی قعدہ میں عمرہ کے ارادہ سے مکہ مکرمہ کی طرف نکلے آپ نے مدینہ طیبہ کے پڑوس میں رہنے والے بدوں کو بھی اس سفر میں شریک ہونے کی دعوت دی تو ان میں سے اکثر اس میں شریک نہ ہوئے نبی کریم ﷺ مہاجرین، انصار اور عربوں میں سے جو آپ کے ساتھ شریک ہوئے انہیں لے کر روانہ ہوئے مجموعی تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تعداد پندرہ سو تھی۔ اس کے علاوہ بھی قول کیا گیا ہے جس کی وضاحت بعد میں آئے گی آپ نے قربانی کے جانور بھی ساتھ لئے رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا تاکہ لوگوں کو بتائیں کہ آپ جنگ کے لئے نہیں نکلے جب رسول اللہ ﷺ کے سفر کی خبر قریش کو ہوئی تو ان کی جمعیت رسول اللہ ﷺ کے مسجد احرام اور مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے نکلی اور اگر آپ ﷺ ان سے جنگ کریں گے تو وہ بھی آپ ﷺ سے جنگ کریں گے انہوں نے خالد بن ولید کو گھڑ سوار دستہ کے ساتھ کراع الفمیم کی طرف روانہ کردیا یہ خبر رسول اللہ ﷺ کو پہنچی جبکہ آپ عسفان میں تھے آپ کا مخبر مبشر بن سفیان کعبی تھا اپ نے ایک راستہ اختیار کیا جو آپ کو ان کے پیچھے پہنچانے والا تھا اور آپ مکہ مکرمہ کے زیریں علاقہ کی جانب سے حدیبیہ تک جا پہنچے اور اس بارے میں آپ کی رہنمائی کرنے والا بنو اسلم کا ایک آدمی تھا۔ جب یہ خبر ان قریش کو پہنچی جو خالد بن ولید کے ساتھ تھے تو وہ قریش کی طرف چلے تاکہ انہیں اس خبر سے آگاہ کریں جب رسول اللہ ﷺ حدیبیہ تک پہنچے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگوں نے کہا : یہ بغیر کسی وجہ کے بیٹھ گئی ہے اور یہ اڑی کرگئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’ د اس نے اڑی نہیں کی نہ اس کا یہ طریقہ ہے لیکن اسے اس ذات نے روک دیا ہے جس نے ہاتھوں کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا آج قریش وہاں فروکش ہوئے عرض کی گئی : یا رسول اللہ ﷺ اس وادی میں پانی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ترکش سے تیر نکالا اور اپنے صحابہ میں سے ایک ساتھی کو عطا فرمایا تو وہ اس وادی کے ایک بےآباد کنواں میں سے ایک کنویں میں اترا اس کے ساتھ اس کے وسط میں اسے گاڑھا تو کثیر پانی سے وہ جوش مارنے لگا یہاں تک کہ وہ پانی سب لشکر کو کافی ہوگیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جو آدمی تیر کے ساتھ اس کنویں میں اترا تھا وہ حضرت ناجیہ بن جندب بن عمیر اسلمی تھے وہ اس دن نبی کریم ﷺ کے قربانی کے جانوروں کو ہانکنے والے تھے ایک قول یہ کیا گیا ہے : کنویں میں تیر لے کر جانے والے حضرت براء بن عازب تھے اس کے بعد نبی کریم ﷺ اور قریش کے کفار کے درمیان سفارت کا سلسلہ جاری ہوا سفر کی آمدورفت اور باہم نزاع لمبا ہوتا گیا یہاں تک کہ سہیل بن عمرو عامری آیا تو اس نے آپ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ آپ ﷺ اس سال واپس چلے جائیں گے جب اگلا سال آئے تو عمرہ کے ارادہ سے آئیں گے، آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ مکہ مکرمہ میں بغیر اسلحہ داخل ہوں گے صرف ان کے پاس تلواریں ہوں گی وہ بھی نیاموں میں ہوں گی، سروردوعالم ﷺ اور قریش کے درمیان صلح رہے گی، لوگ ان سالوں میں ایک دوسرے سے ملیں گے، وہ ایک دوسرے سے امن میں ہوں گے، کفار میں سے جو مرد یا عورت مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آئے گا اسے کفار کی طرف لوٹا دیا جائے گا اور مسلمانوں میں سے جو مرتد ہو کر کفار کے پاس چلا جائے گا تو اسے مسلمانوں کے سپرد نہیں کیا جائے گا۔ یہ معاہد مسلمانوں پر بڑا شاق گزرا یہاں تک کہ بعض نے اس بارے میں گفتگو کی۔ رسول اللہ ﷺ بخوبی آگاہ تھے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر بڑا شاق گزرا یہاں تک کہ بعض نے اس بارے میں گفتگو بھی کی۔ رسول اللہ ﷺ بخوبی آگاہ تھے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے کوئی نہ کوئی راہ نکالے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آگاہ کردیا تھا۔ حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا : ” تم صبر کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس صلح کو اپنے دین کے غلبہ کا سبب بنا دے گا ، ‘ پہلے صحابہ کے دلوں میں کچھ دور پیدا ہوچکی تھی کہ اس گفتگو کے بعد ان میں انس پیدا ہوگیا۔ سہیل بن عمروں نے اس بات سے انکار کردیا کہ صلح نامہ کے سرنامہ پر محمد ﷺ لکھے قریش نے آپ سے کہا : اگر ہم آپ کی تصدیق کردیں تو ہم آپ کو اس بات سے کیوں روکیں جس کا آپ ارادہ کرتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ آپ لکھیں باسک اللھم حضرت علی شیر خدا نے اپنے ہاتھ سے محمد رسول کے لفظ کو مٹانے سے انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے مجھ پر پیش کرو “ تو رسول اللہ ﷺ نے وہ الفاظ اپنے ہاتھوں سے مٹا دیئے اور حکم دیا کہ وہ لکھیں محمد بن عبداللہ صلح کی تحریر کے بعد اسی روز حضرت ابو جندل بن سہیل آئے جبکہ وہ بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے رسول اللہ ﷺ نے انہیں ان کے حوالے کردیا۔ یہ عمل مسلمانوں پر بڑا شاق گزارا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بتایا اور ابو جندل کو بھی بتایا کہ ” اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی نہ کوئی راہ پیدا فرما دے گا۔ “ رسول اللہ ﷺ نے صلح سے پہلے حضرت عثمان بن عفان بن ؓ کو مکہ مکرمہ کی طرف قاصد بنا کر بھیجا تھا رسول اللہ ﷺ کو خبر پہنچی کہ اہل مکہ نے آپ کو قتل کردیا ہے اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو دعوت دی کہ وہ اہل مکہ سے جنگ کرنے کی بیعت کریں ایک روایت یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے موت پر بیعت لی۔ ایک روایت بیان کی گئی ہے کہ آپ نے ان سے یہ بیعت لی کہ وہ نہیں بھاگیں گے۔ یہ ایک درخت کے نیچے بیعت رضوان تھی رسول اللہ ﷺ نے انہیں یہ بتایا کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگیا اور یہ بتایا کہ وہ آگ میں داخل نہیں ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا تاکہ یہ حضرت عثمان کی جانب سے بیعت ہوجائے تو گویا وہ ایسے ہوگئے جیسے وہ حاضر ہیں۔ وکیع نے اسماعیل بن ابی خالد سے وہ شعبی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے روز سب سے پہلے جس نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی وہ حضرت ابو سفیان اسدی تھے۔ صحیح مسلم میں ابو زبیر نے حضرت جابر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ہم حدیبیہ کے روز چودہ سو تھے۔ (1) ہم نے آپ کی بیعت کی جبکہ حضرت عمر آپ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے وہ سمرہ کا درخت تھا : کہا : ہم نے آپ کی اس امر پر بیعت کی کہ ہم نہیں بھاگیں گے ہم نے موت پر آپ کی بیعت نہیں کی تھی۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے یہ سنا کہ حضرت جابر سے سوال کیا تھا کہ وہ حدیبیہ کے روز کتنے تھے ؟ کہا ہماری تعداد چودہ سو تھی، ہم نے آپ کی بیعت کی جبکہ حضرت عمر درخت کے نیچے آپ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے وہ سمرہ کا درخت تھا ہم نے آپ کی بیعت کی۔ صرف جد بن قیس انصاری نے بیعت نہ کی وہ اپنے اونٹ کے پیٹ کے نیچے چھپ گیا تھا۔ سالم بن ابی جعد سے مروی ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے اصحاب شجرہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : اگر وہ ایک لاکھ ہوتے تب بھی وہ ہمیں کفایت کر جاتی، ہماری تعداد پندرہ سو تھی۔ ایک روایت میں ہے : ہماری تعداد پندرہ سو تھی۔ عبداللہ بن ابی اوفی سے مروی ہے کہ بیعت کرنے والے تیرہ سو تھے، بنو اسلم مہاجرین کا آٹھواں حصہ تھے یزید بن ابی عبید سے مروی ہے کہ میں نے سلمہ سے کہا : حدیبیہ کے روز تم نے کس چیز پر رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی ؟ جواب دیا : موت پر حضرت براء میں بن عاذب ؓ سے مروی ہے : کہا صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علی شیر خدا نے نبی کریم ﷺ اور مشرکین کے درمیان صلح نامہ لکھا وہ تحریر ہے :2 جس پر رسول اللہ ﷺ نے معاہدہ کیا مشرکوں نے کہا : تم محمد رسول اللہ ﷺ نہ لکھوا کر اگر ہم جانتے کہ آپ رسول اللہ ﷺ تو ہم آپ سے نہ لڑتے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی شیر خدا سے فرمای : ” اسے مٹا دو “ تو حضرت علی نے عرض کی، : مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ میں مٹا دوں تو نبی کریم ﷺ نے اسے خود مٹا دیا۔ انہوں نے یہ شرط لگائی کہ وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوں گے اور تین دن قیام کریں گے وہ مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہو گے مگر جلبان السلام میں نے ابو اسحاق سے پوچھا : یہ جلبان السلام سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : تھیلا اور اس میں جو کچھ ہو۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ قریش نے نبی کریم ﷺ سے صلح کی جن میں سہیل بن عمرو بھی تھا نبی کریم ﷺ نے حضرت علی شیر خدا سے فرمایا : لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم : سہیل بن عمرو نے کہا : جہاں تک باسم اللہ کا تعلق ہے ہم اسے جانتے ہیں ہم بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نہیں جانتے بلکہ وہ لکھو جو ہم جانتے ہیں یعنی باسمک اللہ : فرمای : لکھو محمد رسول کی جانب سے “ انہوں نے کہا : اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کی پیروی کرتے بلکہ اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھو۔ نبی کریم ﷺ فرمایاٖ ” لکھو محمد بن عبداللہ کی جانب سے “ انہوں نے نبی کریم ﷺ پر یہ شرط لگائی کہ جو آدمی آپ کی جانب سے ہمارے پاس آئے گا ہم اسے آپ کی طرف نہیں لوٹائیں گے اور ہم میں سے جو شخص آپ کے پاس آئے گا آپ اسے واپس کردیں گے۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم پر یہ شرط لکھیں گے فرمایا :” ہم میں سے جو ان کی طرف جائے گا اللہ تعالیٰ نے اسے دور کردیا اور ان میں سے جو ہمرے پاس آئے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راہ پیدا فرما دے گا۔ ابو وائل سے مروی ہے حضرت سہیل بن حنیف نے صفین کی جنگ کے دن کہا : اے لوگو ! اپنی ذاتوں پر تہمت لگائو ہم حدیبیہ کے روز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اگر ہم جنگ کی رائے رکھتے تو ضرور قتال کرتے (1) وہ صلح رسول اللہ ﷺ او مشکوں کے درمیان تھی حضرت عمر بن خطاب ؓ تشریف لائے اور رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے عضر کی : یا رسول اللہ ﷺ : کیا ہم حق پر نہیں اور وہ باطل پر نہیں : فرمایا : کیوں نہیں ‘ عرض کی : کیا ہمارے مقتول جنت میں نہیں اور ان کے مقتول دوزخ میں نہیں ؟ فرمایا : کیوں نہیں ‘ عرض کی ہم اپنے دین میں کمزوری کیوں دکھا رہے ہیں اور ہم واپس جا رہے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا : فرمایا ’ اے خطاب کے بیٹے ! میں اللہ کا رسول ہو اللہ تعالیٰ مجھے کبھی بھی ضائع نہیں کرے گا ‘ کہا حضرت عمر چلے گئے اور غصہ کی وجہ سے صبر نہ کرسکے وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : اے ابوبکر : کیا ہم حق نہیں اور وہ باطل پر نہیں ؟ فرمایا : کیوں نہیں : پوچھام کیا ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور ان کے مقتول جن ہم میں نہیں ؟ فرمایا : کیوں نہیں : کہا ہم اپنے دین میں کیوں کمزوری دکھا رہے ہیں ہم واپس جا رہے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان اور ان کے درمیان ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ؟ فرمایا : اے ابن الخطاب : وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ اسے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ رسول اللہ ﷺ پر سورة فتح نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر کی طرف پیغام بھیجا اور اسے یہ سورت سنائی۔ حضرت عمر نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ : کیا یہ فتح ہے ؟ فرمایا : ہاں “ تو حضرت عمر کا نفس مطمئن ہوگیا اور واپس آگئے۔ ، صحابہ کے دلوں میں جو صدق اور وفا موجود تھی اس کو اللہ تعالیٰ نے جان لیا (2) یہ فراء کا قول ہے۔ ابن جریج اور قتادہ نے کہا : معنی ہے بیت کے حکم پر ان کے راضی ہونے کو جان لیا کہ وہ نہیں بھاگیں گے : مقاتل نے کہا : بیعت کی ناپسندگی کو جان لیا کہ وہ موت تک آپ کی معیت میں جنگ کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر سکینہ کو نازل کیا یہاں تک کہ انہوں نے بعیت کی ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ مشرکوں نے انہیں جو روکا اور نبی کریم ﷺ کا خواب پورا نہ ہوا سا پر مومنوں کے دل میں جو دکھ تھا اسے جان لیا جب رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھا تھا کہ آپ کعبہ شریف میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” وہ حالت نیند کا خواب تھا “ حضرت صدیق اکبر ؓ نے کہا : اس ارشاد میں اس سال داخل ہونے کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔ سکینہ سے مراد طمانیت اور وعدہ کی صداقت پر سکون ہیغ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد اس سے صبر ہے۔ قتادہ اور ابن ابی لیلی نے کہا : مراد خیبر کی فتح ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے، مراد فتح مکہ ہے (1) ایک قرأت یہ کی گئی ہے۔ مراد خیبر کے اموال ہیں خیبر جائیداد اور اموال والا تھا یہ حدبییہ اور مکہ کے درمیان ہے اس تعبیر کی بناء پر فتحاً قریباً سے بدل ہے اور وائو زائد ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے مراد فارس اور روم ہے۔
Top