Al-Qurtubi - Al-Maaida : 65
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ کہ اَهْلَ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کرتے لَكَفَّرْنَا : البتہ ہم دور کردیتے عَنْهُمْ : ان سے سَيِّاٰتِهِمْ : ان کی برائیاں وَ : اور لَاَدْخَلْنٰهُمْ : ضرور ہم انہیں داخل کرتے جَنّٰتِ النَّعِيْمِ : نعمت کے باغات
اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم ان سے انکے گناہ محو کریتے اور انکو نعمت کے باغوں میں داخل کرتے۔
آیت نمبر : 66۔ 67 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ولو ان اھل الکتب ان محل رفع میں ہے، اسی طرح آیت : ولو انھم اقاموا التورہۃ ہے۔ امنوا تصدیق کی۔ آیت : واتقوا شرک اور گناہوں سے اجتناب کیا۔ آیت : لکفرنا عنھم لام، لو کا جواب ہے۔ آیت : لکفرنا کا مطلب ہے ہم نے ڈھانپ دیا۔ یہ پہلے گزر چکا ہے تورات اور انجیل کو قائم کرنے کا مطلب ہے ان کے مقتضی کے مطابق عمل کرنا اور ان میں تحریف وتبدیلی نہ کرنا یہ مفہوم سورة بقرہ میں تفصیلا گزر چکا ہے۔ آیت : وماانزل الیھم من ربھم یعنی قرآن۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد ان کے انبیاء کی کتب ہیں (2۔ تفسیر بغوی) ۔ آیت : لا کلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم حضرت ابن عباس وغیرہ نے کہا : اس سے مراد بارش اور نبات ہیں یہ دلیل ہے کہ وہ قحط میں مبتلا تھے۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے ہم ان کے رزق میں وسعت پیدا کرتے اور وہ متواتر کھاتے رہتے۔ فوق اور تحت کا ذکر دنیا کے جو خزانے ان پر کھولے جائیں گے ان میں مبالغہ کے اظہار کے لیے ہے۔ اس آیت کی مثال آیت : ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب (طلاق) اور جو خوش بخت) ڈرتارہتا ہے اللہ تعالیٰ سے بنا دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے نجات کا راستہ اور اسے (وہاں سے) رزق دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ آیت : وان لو استقاموا علی الطریقۃ لاسقینھم مآء غدقا (الجن) اگر وہ ثابت قدم رہیں راہ حق پر تو ہم انہیں سیراب کریں گے کثیر پانی سے۔ آیت : ولوان اھل القری امنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکت من السمآء والارض (الاعراف : 96) اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ضرور ہم کھول دیتے ان پر برکتیں آسمان کی اور زمین کی۔ اللہ تعالیٰ نے تقوی کو رزق کے اسباب میں سے بنایا ہے جیسا کہ ان آیات میں ہے اور مزید کا وعدہ ہے اس شخص کے لیے جس نے شکر ادا کیا۔ فرمایا : آیت : لئن شکرتم لازیدنکم (ابراہیم : 7) اگر تم ادا کرو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ان میں سے بعض اعتدال پسند ہیں وہ ان میں سے ایمان لانے والے ہیں جیسے نجاشی، سلمان اور عبداللہ بن سلام۔ یہ اعتدال پسند تھے انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں صرف وہ کہا ہے جو ان کی شان کے لائق ہیں۔ بعض علماء نے کہا : اقتصاد سے مراد وہ قوم لی ہے جو ایمان نہیں لائے تھے لیکن وہ اذیت دینے والے اور استہزا کرنے والے نہ تھے۔ واللہ اعلم۔ الاقتصاد سے مراد عمل میں اعتدال ہے۔ یہ القصد سے ہے القصد کا معنی ہے کسی چیز کو کرنا تو کہتا ہے : قصدتہ وقصدت لہ، وقصدت الیہ اس کا معنی ہے میں نے اس کا قصد کیا۔ سآء ما یعملون یعنی بہت برا ہے جو انہوں نے کیا ہے انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا، کتب میں تحریف کی اور حرام کھایا۔
Top