بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
بکھیرنے والیوں کی قسم جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں
والذریت ذروا، ابوبکر انباری نے کہا عبدا للہ بن ناجیہ، یعقوب بن ابراہیم سے وہ مکی بنی ابراہیم سے وہ جعید بن عبدالرحمن سے وہ یزدبن خصیفہ سے وہ سائب بن یزد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عمر ؓ سے عرض کی : میں ایک آدمی کے پاس سے گزرا وہ مشکل القرآن کی تفسیر کے بارے میں پوچھتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے دعا کی : اے اللہ ! مجھے اس پر قدرت دے۔ ایک روز وہ آدمی حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ وہ لباس اور عمامہ زیب تن کئے ہوئے تھا جب کہ حضرت عمر ؓ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے جب آپ قرآن پڑھنے سے فارغ ہوئے تو وہ آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : اے امیر المومنین ! والذریت ذروا کیا ہے ؟ حضرت عمر اٹھے اپنی آستینیں چڑھائیں اور اسے کوڑے مارنے لگے پھر فرمایا : اسے کپڑے پہنائو، اسے سواری پر سوار کر ائو اور اسے اس کے قبیلہ تک پہنچا دو پھر ایک خطیب کو چاہیے وہ اٹھے اور کہے کہ صبغ نے علم طلب کی اور علم اسے نصیب نہ ہوا یہ اپنی قوم میں سردار تھا تو وہ اپنی قوم میں ذلیل و رسوا ہوگیا۔ عامر بن واثلہ سے مروی ہے کہ ابن کو اء نے حضرت علی شیر خدا ؓ سے پوچھا عرض کی : اے امیر المومنین ! ئو الذریت ذروا کیا چیز ہے ؟ فرمایا : تجھ پر افسوس سمجھنے کے لئے پوچھو سر کشی کے طور پر نہ پوچھو۔ والذریت ذروا سے مراد ہوائیں ہیں۔ فالحملت وقرا۔ ، سے مراد بادل ہیں۔ فالجریت یسرا، سے مراد کشتیاں ہیں۔ فالمقسمت امرا سے مراد فرشتے ہیں۔ حرث نے حضرت علی شیر خدا ؓ سے روایت نقل کی ہے : والذریت ذروا سے مراد ہوائیں ہیں (1) ۔ فالحملت وقرا، سے مراد بادل ہیں جو پانی اٹھاتے ہیں جس طرح چوپائے بوجھ اٹھاتے ہیں (2) ۔ فالجریت یسرا، سے مراد کشتیاں ہیں جو بوجھ اٹھاتی ہیں۔ فالمقسمت امرا سے مراد فرشتے ہیں جو مختلف امور بجالاتے ہیں۔ حضرت جبرئیل امین سختیاں لاتے ہیں، حضرت میکائل رحمت کے حامل ہیں اور ملک الموت موت لاتے ہیں۔ فراء نے کہا : ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ مختلف امر لاتے ہیں اس سے مراد خوشحالی، خشک سالی، بارش، موت اور حوادثات ہیں۔ اس کا باب یوں ذکر کیا جاتا ہے ذرت الریح تذردہ واوتذریۃ ذریا۔ پھر یہ کہا گیا ہے : والذریت اور مابعد قسمیں ہیں اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کی قسم اٹھاتا ہے تو اس کے لئے شرف کو ثابت کرتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے ذاریات کے رب کی قسم ! اس کا جواب انماتو عدون ہے یعنی جس خیر، شر، ثواب اور عقاب کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ لصادق، اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ لصادق کا معنی صدق ہے اسم مصدر کی جگہ واقع ہے وان الذین لواقع، یعنی جزاتم پر واقع ہو رہی ہے۔ پھر دوسری قسم اٹھائی اور فرمایا : والسماء ذات الحبک، انکم لفی قول مختلف، ایک قول یہ کیا گیا ہے : ذاریات سے مرادبچے جننے والی عورتیں ہیں (3) کیونکہ ان کے جننے سے ہی مخلوق پھیلتی ہیں (1) کیونکہ وہ اولاد کو بکھیرتی ہیں تو وہ ذاریات ہوگئیں ان کی قسم اٹھائی کیونکہ ان کے سینے کی ہڈیوں میں اس کے صالح بندوں میں سے بہترین لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے لئے عورتوں کو خاص کیا مردوں کا ذکر نہیں کیا اگرچہ اولاد دونوں کی ہوتی ہے اس کی دو وجہیں ہیں (1) کیونکہ وہ ہی ان کی حفاظت کے برتن ہیں جب کہ مردوں کی یہ صورت نہیں کیونکہ دونوں کے نطفے ان عورتوں کے رحم میں جمع ہوتے ہیں اس لئے ان کا خصو صا ذکر کیا (2) ان میں نطفے طویل وقت تک رہا اور مباشرت میں ان کا زمانہ قریب ہے۔ فالحملت وقرا، اس مراد بادل ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حاملات سے مراد عورتیں ہیں جب وہ حاملہ ہوتی ہیں (4) ۔ وقرواو کے کسرہ کے ساتھ ہو تو اس سے مراد کسی وزنی چیز کو پیٹھ یا پیٹ میں اٹھانا ہے جملہ بولا جاتا ہے : جاء یعمل وقرہ۔ وہ بوجھ اٹھائے ہوئے آیا۔ قد اوقربعیرہ اس نے اپنے اونٹ پر بوجھ لادا۔ وقر کا لفظ عموما خچر اور گدے کے سامان اور وسق کا لفظ اونٹ کے سامان کے لئے بولا جاتا ہے۔ ھذہ امرءۃ موقرۃ جب اس عورت نے بھاری بوجھ اٹھایا ہوا ہو۔ اوقرت النخلۃ یہ اس وقت بولتے ہیں جب اس کا پھل زیادہ ہو۔ یہ کہا جاتا ہے : نخلۃ موقرۃ و موقرۃ۔ موقر بھی ذکر کیا گیا ہے، خلاف قیاس ہے کیونکہ فعل نخلہ کے لئے ہے۔ اسے موقر کہا گیا ہے یہ قیاس کے مطابق ہے جس طرح تیرا قول امراۃ حامل ہے کیونکہ درخت کا پھل عورتوں کے حمل کے مشابہ ہے۔ جہاں تک موقر کا تعلق ہے یہ خلاف قیاس ہے۔ لبید کے قول میں یہی روایت کیا گیا ہے وہ کھجور کی تعریف کرتا ہے : عصب کو ارع فی خلیج محلم حملت فمنھا موقر مکموم، ، محل استدلال موقر ہے۔ اس کی جمع مواقر ہے۔ جہاں تک وقر کا تعلق ہے تو اس سے مراد کان کا بوجھ ہونا ہے یوں باب ذکر کیا جاتا ہے قدوقرت اذنہ توقر و قرا، یعنی وہ بہرا ہوگیا۔ اس کے مصدر میں قیاس تو یہ ہے کہ قاف متحرک ہوتا مگر وہ سکون کے ساتھ آیا ہے اس کے بارے میں بحث سورة الانعام میں گزر چکی ہے۔ فالجریت یسرا، مراد کشتیاں ہیں جو ہوا کے ساتھ آسانی سے چلتی ہیں جہاں بھی انہیں چلایا جائے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد بادل ہیں۔ اس تعبیر کی بنا پر اس کے آسانی سے چلنے کی دو صورتیں ہیں (1) اللہ تعالیٰ انہیں جہاں بھی چلائے وہ شہر ہوں یا قطعہ زمین (2) ان کا آسانی سے چلنا عربوں کے ہاں یہی معروف ہے جس طرح اعشی نے کہا : کان مشی تھا من بیت جار تھا مشی السحابۃ لاریث ولا عجل (1) گویا اس کا اپنی پڑوسن کے گھر سے چلنا بادل کا چلنا ہے نہ سست روی سے اور نہ تیزی سے۔
Top