Al-Qurtubi - An-Najm : 19
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو وَالْعُزّٰى : اور عزی کو
بھلا تم لوگوں نے لات اور عزٰی کو دیکھا
افرء یتم اللت والعزی۔ ومنوۃ الثالثہ الاخری۔ جب نبی کریم ﷺ کی طرف کی جانے الی وحی کا ذکر کیا اور اپنی قدرت کے آثار کا ذکر کیا تو مشرکین سے دلیل کے ساتھ گفتگو کی کیونکہ وہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے تھے جو عقل نہیں رکھتی تھی فرمایا، بتائو تو سہی یہ بت جن کی تم عبادت کرتے ہو اس کے بارے میں تمہاری طرف کوئی وحی کی گئی ہے جس طرح حضرت حمد ﷺ کی طرف وحی کی گئی ہے۔ لات بنوثقیف کا بت تھا، عزی قریش اور بنو کنانہ کا بت تھا، منات بنو ہلال کا بت تھا، ہشام نے کہا : منات ہذیل اور خزاعہ کا بت تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی شیر خدا کو بھیجا تو انہوں نے فتح مکہ کے سال اسے گرا دیا۔ پھر انہوں نے طائف میں لات کا بت بنا لیا یہ منات کی بنسبت قریب کے دور کا تھا، منات بنو ہلال کا بت تھا، ہشام نے کہا : منات ہذیل اور خزاعہ کا بت تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی شیر خدا کو بھیجا تو انہوں نے فتح مکہ کے سال اسے گرا دیا۔ پھر انہوں نے طائف میں لات کا بت بنا لیا یہ منات کی بنسبت قریب کے دور کا تھا یہ ایک مربع چٹان تھی اس کے خدام میں بنوثقیف کے لوگ تھے۔ بنوثقیف نے اس پر ایک عمارت بنا دی قریش اور تمام عرب اس کی تعظیم کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے عرب یہ نام رکھتے زید اللات اور تیم اللات۔ یہ بت اس جگہ تھا جہاں طائف کی مسجد کا بائیاں مینار ہے۔ وہ بت اسی طرح رہا یہاں تک کہ بنو ثقیف اسلام لے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو بھیجا حضتر مغیرہ نے اسے گرا دیا اور آگ کے ساتھ جلا دیا۔ پھر عربوں نے عزی کو معبود بنا لیا یہ لات کی بنسبت قریب کے زمانہ کا تھا اسے ظالم بن اسعد نے معبود بنایا یہ ذات عرق کے اوپر نخلہ شامیہ کی وادی میں تھا لوگوں نے اس پر ایک کمرہ بنا دیا وہ اس سے آواز سنا کرتے تھے۔ ابن ہشام نے کہا : مجھے میرے باپ نے ابو صالح سے وہ حضرت ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ عزیٰ شیطانہ تھی وہ بطن نخلہ میں ببول کے تین درختوں کے پاس آیا کرتی تھی جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ کو فتح کیا تو حضرت خالد بن ولید کو بھیجا فرمایا :” نخلہ وادی کے بطن میں جائو وہاں تو تین ببول کے درخت پائے گا تو پہلے کو کاٹ دینا۔ ‘ حضرت خالد بن ولید وہاں گئے اور اس درخت کو کاٹ دیا جب وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” کیا تو نے کوئی چیز دیکھی تھی ؟ عرض کی : نہیں۔ فرمایا : دوسرا درخت کاٹ دو ۔ “ حضرت خلاد آئے اور دوسرے درخت کو کاٹ دیا پھر حضرت خالد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے پوچھا : کیا تو نے کوئی چیز دیکھی ہے ؟ عرض کی : نہیں۔ فرمایا ” تیسرے درخت کو کاٹ دو ۔ “ حضرت خالد آئے تو ایک حبشی عورت دیکھتے ہیں اس نے اپنے بال بکھیرے ہوئے ہیں اس نے اپنے ہاتھ اپنے کندھے پر رکھے ہوئے ہیں وہ اپنے دانت پیس رہی ہے اس کے پیچھے دبیہ سلمی ہے وہ اس کا خادم تھا۔ اور یہ شعر پڑھا : یا عز کفرانک لا سبحانک انی رایت اللہ قد اھانک اے عز میں تیرا انکار کرتا ہوں تیری پاکی بیان نہیں کرتا میں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اس نے تجھے ذلیل و رسوا کردیا ہے۔ پھر اس پر وار کیا اور اس کا سر ٹکڑے ٹکڑے کردیا تو وہ کوئلہ ہوگئی پھر آپ نے درخت کو کاٹ دیا اور دبیہ جو خادم تھا اس کو قتل کردیا۔ پھر حضرت خالد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب کچھ بتایا۔ فرمایا :” وہی عزیٰ تھی اب اس کی کبھی بھی عبادت نہ کی جائے گی۔ “ ابن جبیر نے کہا : عزیٰ سفید پتھر تھا لوگ اس کی عبادت کیا کرتے تھے۔ قتادہ نے کہا : وہ نخلہ ودی کے بطن میں ایک جڑی بوٹی (1) تھی۔ منات بنو خزاعہ کا بت تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : بعض مفسرین نے کہا لات یہ مشرکوں نے لفظ اللہ سے اخذ کیا تھا عزیٰ لفظ عزیز سے لیا تھا منات یہ منی اللہ الشیء سے ماخوذ ہے یہ جملہ اس وقت بولتے ہیں جب اللہ تعالیٰ اسے مقدر کرے۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن زبیر، مجاہد، حمید اور ابو صالح نے اللات کو تاء کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ انہوں نے کہا : ایک آدمی تھا جو حاجیوں کے لئے ستو کو گھی میں تلا کرتا تھا۔ امام بخاری نے اسے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے، جب وہ آدمی فوت ہوا تو لوگ اس کی قبر پر بیٹھے اور اس کی عبادت کی (2) حضرت ابن عباس نے کہا : وہ ایک چٹان کے پاس ستو اور گھی بیچا کرتے تھا اور اس چٹان پر انڈیلا کرتا تھا۔ جب وہ آدمی فوت ہوگیا تو بنو ثقیف نے اس ستو والے کی تعظیم کے لئے اس چٹان کی عبادت کی۔ ابو صالحہ نے کہا : طائف میں ایک آدمی تھا وہ بتوں کی خدمت کرتا اور ان کے لئے ستو کو تلا کرتا جب وہ مرگیا تو لوگوں نے اس کی عبادت کی۔ مجاہد نے کہا، پہاڑ کی ایک چوٹی پر ایک آدمی رہتا جس کا ریوڑ تھا وہ ان کا گھی جمع کرتا، اس کے دودھ سے پنیر بناتا اور اس کا دودھ جمع کرتا پھر وہ حلوہ باتا اور حاجیوں کو کھلاتا وہ نخلہ وادی کے بطن میں رہتا جب وہ مرگیا تو لوگوں نے اس کی عبادت کی یہی لات بت تھا۔ کلبی نے کہا، بنو ثقیف کا ایک آدمی تھی جسے صرمہ بن غنم کہتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ عامر بن ظرب عدوانی تھا۔ شاعر نے کہا : لا تنصروا اللات ان اللہ مھلکھا وکیف ینصرکم من لیس ینتصر (3) تم لات کی مدد نہ کرو اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کرنے والا ہے۔ صحیح قرأت اللات تخفیف کے ساتھ ہے یہ بات کا نام ہے اس پر وقف تاء کے ساتھ ہے، یہ فراء کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ فراء نے کہا، میں نے کسائی کو دیکھا اس نے ابو فقعس اسدی سے سوال کیا اس نے ذات کے لئے ذاہ اور لات کے لئے لاہ کہا اور افرئیتم الاہ پڑھا اسی طرح دوری نے کسائی سے اور بزی نے ابن کثیر سے اللاہ نقل کیا ہے یعنی ھاء پر وقف کیا ہے جس نے یہ کہا اللات یہ لفظ اللہ سے ماخوذ ہے اس نے بھی ھاء پر وقف کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا یا : یہ اصل میں لاھۃ تھا جس طرح شاھۃ تھا یہ لاھت سے مشتق ہے یعنی وہ چھپ گیا۔ شاعر نے کہا۔ لاھت فما عرفت یوما بخارجۃ یالیتھا خرجت حتی راینا ھا وہ چھپ گئی وہ کسی روز بھی باہر نکلنے والی کی حیثیت سے معروف نہ ہوئی ہائے کاش ! وہ باہرنکلتی تو ہم اسے دیکھ لیتے۔ صحاح میں ہے : لات ایک بت کا نام ہے جو بنو ثقیف کا تھا اور طائف کے مقام پر تھا۔ بعض عرب تاء پر وقف کرتے ہیں اور بعض ہاء پر وقف کرتے ہیں۔ اخفش نے کہا، ہم نے بعض عربوں سے سنا جو لات و عزیٰ کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ھی اللات اسے وقف میں تاء بنا دیتا ہے ھی اللات یہ بات ذہن نشین کرلو کہ رفع کی جگہ اسے جر دی گئی ہے یہ اس کو مثل ہے جو ہر حال میں مکسور ہے۔ یہ بہت اچھی تعبیر ہے کیونکہ الف اور لام جو اللات میں ہیں ساقط نہیں ہوتے اگرچہ یہ دونوں زائد ہیں رہی وہ صورت جو ہم وقف کی صورت اللات کو اللاہ سنا ہے کیونکہ یہ ھاء ہے جو وصل میں تاء ہوگئی ہے یہ اس لغت میں کان من الامر لیت و کیت کی مثل ہے اسی طرح ھیھات ہے یہ اس کی لغت میں ہے جس نے اسے کسرہ دیا ہے مگر ھیھات میں یہ جائز ہے کہ وہ جمع ہو مگر اللات میں یہ جائز نہیں کیونکہ جمع میں تاء الف کے بغیر جائز نہیں ہوتی اگر اللات اور تاء دونوں کو زائد مان لیا جائے تو اسے صرف ایک جرفی رہ جائے گا۔
Top