Al-Qurtubi - An-Najm : 9
فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ
فَكَانَ قَابَ : تو تھا اندازے سے۔ برابر قَوْسَيْنِ : دو کمان کے اَوْ اَدْنٰى : یا اس سے کم تر۔ قریب
تو وہ کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم
فکان قاب قوسین او اولی۔ یعنی حضرت محمد ﷺ اپنے رب سے یا جبرئیل امین سے دو عربی کمانوں کے مقدار پر تھے، یہ حضرت ابن عباس، عطا اور فراء کا نقطہ نظر ہے۔ زمحشری نے کہا، اگر تو یہ سوال کرے فکان قاب قوسین کی تقدیر کیسے درست ہوگی (3) ؟ میں کہوں گا : اس کی تقدیر یہ ہوگی فکان مقدار مسافۃ قرب مثل قاب قوسین درمیان سے ان مضافوں کو حذف کردیا گیا ہے۔ جس طرح ابواعلیٰ نے اپنے قول میں کہا : وقد جعلتنی من حذیمۃ اصبعا اس نے مجھے حذیمہ سے ایکا نگلی برابر مسافت پر کر چھوڑا۔ یہ بھی اصل میں ذامقدار مسافۃ اصبع تھا۔ اوادنی یعنی تمہارے اندازے کے مطابق، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اویزیدون صحاح میں ہے : تو کہتا ہے بینھما قاب قوسین، قیمب قوس، قادقوس، قید قوس یعنی کمان کے برابر زید بن علی نے اسے قاد پڑھا ہے اسے قید اور قدد بھی پڑھا گیا ہے، یہ زمخشری نے ذکر کیا ہے۔ قاب سے مراد کمان کے قبضہ سے اس کے سرے تک کا فاصلہ ہر قوس کے دوسرے ہوتے ہیں۔ بعض نے اللہ تعالیٰ کے فرمان قاب قوسین کے بارے میں فرمایا : اصل میں ارادہ کیا تھا قابی قوس تو اس میں قلب کا قاعدہ جاری کردیا۔ حدیث طیبہ میں ہے ولقاب قوس احدکم من الجنۃ و موضع قدہ خیر من الذنیا وما فیھا (1) تم میں سے کسی ایک کے لئے جنت میں سے قوس کے قبضہ سے کنارے تک کی جگہ اور چھڑی کے برابر کی جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ قد کا معنی سوط ہے۔ صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’ جنت میں کمان کے قبضہ سے اس کے کنارے تک کی جگہ دنیا و فیہا سے بہتر ہے (2) “ یہاں کمان کے ساتھ اس تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ یہ مختلف نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ قاضی عیاض نے کہا : یہ بات ذہن نشین کرلو کہ نبی کریم ﷺ کا اپنے رب سے جو قرب ہے اور اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی سے جو قرب ہے یہ کوئی مکان کا قرب اور مسافت کا قرب نہیں اس سے مقصود نبی کریم ﷺ کی عظمت، متربہ کی بلندی، انوار معرفت کے اشراق، اس کے عیب اور قدرت کے اسرار کا مشاہدہ کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی کریم کیق رب کا مطلب ہے احسان کرنا، انس عطا کرنا، معاملاتک و سویع کردینا اور عزتیں عطا کرنا۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد : ینزل ربنا الی سماء الدنیا (3) کی تاویل ایک صورت میں یہ ہوگی۔ وہ عرضداشت کو قبول فرماتا ہے اور احسان فرماتا ہے۔ قاضی عیاض نے کہا : فکان قاب قوسین او ادنی جس نے ضمیر کو اللہ تعالیٰ کی رف لوٹایا ہے حضرت جبرئیل امین کی طرف نہیں لوٹا یا تو یہ انتہائی قرب، لطف محل، ایضاح معرفت، حقیقت محمد یہ پر نگاہ رکھنا، سرور دو عالم ﷺ کی رغبت کو پورا کرنا، مقصد کو شرف قبولیت سے نوازنا، شفقت کا اظہار کرنا اور اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرنا ہے۔ اس بارے میں وہی تاویل کی جاسکتی ہے جو تاویل سرور دو عالم کے اس فرمان میں کی جاسکتی ہے : من تقرب منی شبرا تقربت منہ ذراعاو من اتانی یمشی اتیتہ مھرولۃ (4) احابت و قبول کا قرب ہے احسان اور آرزو کو جلدی پورا کرنا ہے۔ ایک قول یہ کہا گیا ہے : پھر جبرئیل امین اپنے رب کے قریب ہوئے اور وہ قاب قوسین او ادنیٰ کے مقام پر تھے، یہ مجاہد کا قول ہے، اس پر ایک حدیث بھی دلالت کرتی ہے، ان اقرب الملائکۃ من اللہ جبریل (علیہ السلام) فرشتوں میں سے جبرئیل امین اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب رکھتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : او، وائو کے معنی میں ہے تقدیر کلام یہ ہوگی قاب قوسین و ادنی۔ ایکق ول یہ کیا گیا ہے : او، بل کے معنی میں ہے تقدیر کلام یہ ہوگی قاب قوسین بل ادنی۔ سعید بن مسیب نے کہا : قاب سے مراد عربی کمان کا سرا ہے جس پر دھاگا باندھا جاتا ہے اور کمان اٹھانے اولا جس کے ذریعے اپنے کندھے پر لٹکاتا ہے ہر قوس کا ایک قاب ہوتا ہے یہ خبر دی ہے کہ حضرت جبرئیل امین حضرت محمد سے اتنے قریب ہوئے جتنا قاب قوسین کا قرب ہوا کرتا ہے۔ سعید بن جبیر، عطا، ابو اسحاق، ابو وائل، شفیق بن سلمہ نے کہا، فکان قاب قوسین سے مراد ہے دو ہاتھ کا فاصلہ تھا (1) قوس سے مراد ہاتھ ہوا کرتا ہے جس کے ساتھ ہر شے کی پیمئاش کی جاتی ہے، یہ بعض حجازیوں کی لغت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ از دشنوءہ کی لغت ہے۔ کسائی نے کہا، فکان قاب قوسین او ادنیٰ کا معنی ہے ایک قوس جس طرح شاعر کیق ول میں تثنیہ واحد کے معنی میں ہے۔ ومھمھین قذفین مرتین قطعتہ بالسمت لا بالسمتین یہاں مھمھین سے مراد ایک مھمھا ہے۔ قوس کا لفظ مئونث و مذکر دونوں طرح اسعتمال کیا جاتا ہے جس نے اس کو مئونث قرار دیا ہے اس نے اس کی تصغیر قویسہ کہی ہے جس نے اسے مذکر قرار دیا ہے اس نے اس کی تصغیر قویس کہی ہے۔ مثال ای کی یہ ہے ھومن خیر قوس سھما اس کی جمع قسی، قسی، اقو اس، اور قیاس آتی ہے، ابوعبیدہ نے یہ شعر پڑھا : ووتر الاوس اور القیاسا ” محل استدلال القیاسا ہے “۔ قوس سے مراد برتن میں باقی ماندہ کھجوریں ہیں۔ قوس سے مراد آسمان کا برج بھی ہے۔ جہاں تک قوس کا تعلق ہے اس سے مراد راہب کی عبادت گاہ ہے : شاعر نے ایک عورت کا ذکر کیا : لاستفتنتنی وذا المسحین فی القوس محل استدلال القوس ہے۔
Top