Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 22
یَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانُۚ
يَخْرُجُ مِنْهُمَا : نکلتے ہیں ان دونوں سے اللُّؤْلُؤُ : موتی وَالْمَرْجَانُ : اور مونگے
دونوں دریاؤں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں
یخرج منھما اللولو والمرجان۔ یعنی متہارے لئے پانی سے لو لو اور مرجان نکالتا ہے جس طرح مٹی سے دانا، بھوسہ اور ریحان نکالتا ہے۔ نافع اور ابو عمرو نے یخرج یاء کے ضمہ اور راء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے (2) یعنی مجہول کا صیغہ پڑھا ہے باقی قرئا نے یخرج یعنی یاء کے فتحہ اور راء کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے کہ لو لو اس کا فاعل ہوگا۔ منھما کے بارے میں کہا، وہ نمکین سے نکالتا ہے میٹھے سمندر سے نہیں نکالتا، کیونکہ عرب دو جنسوں کو جمع کرتے ہیں پھر ان میں سے ایک کے بارے میں خبر دیتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، یا معشر الجن والانس الم یاتکل رسل منکم (الزمر : 41) رسل انسانوں میں سے ہوتے ہیں جنوں میں سے نہیں ہوتے، یہ کلبی اور دوسرے علماء کا قول ہے۔ زجاج نے کہا، اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ذکر کیا جب ان دونوں میں سے کوئی چیز نکلتی ہے تو گویا وہ دونوں سے نکلتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے : الم تروا کیف خلق اللہ سبع سموت طباقاً ۔ وجعل القمر فیھن نوراً (نوح) چاند آسمان دنیا میں ہے لیکن سات آسمانوں کا ذکر اجمالا کیا گویا ان میں سے کسی ایک میں ہے تو سب میں ہے۔ ابو علی فاسری نے کہا، یہ مضاف کے حذف کے باب سے تعلق رکھتا ہے تقدیر کلام یہ ہے من احدھمہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، علی رجل میں القریتین عظیم۔ (الزخرف) یہ اصل میں من احدی القریتین تھا۔ اخفش سعید نے کہا، ایک قوم کا گمان ہے کہ وہ لو لو میٹھے سمندر سے نکلتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ دونوں سمندر ہیں ان دونوں میں سے ایک سے لو لو اور دوسرے سے مر جان نکلتا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : یہ دونوں آسمان اور زمین کے سمندر ہیں جب آسمان کا پانی سمندر کی سیپی میں گرتا ہے تو موٹی بنتا ہے پس وہ دونوں سے نکلنے اولا ہوا (3) یہ طبری نے کہا : ثعلی نے کہا، میرے سامنے ذکر کیا گیا ہے ایک گٹھلی سیپی کے پیٹ میں ہوتی ہے بارش کا قطرہ اس گٹھلی کے بعض تک پہنچتا ہے اورب عض تک نہیں پہنچتا، قطرہ گٹھلی کے جس حصہ تک پہنچتا ہے وہ موتی ہوتا ہے اور باقی ماندہ گٹھلی ہی رہتی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : میٹھا اور نمکین بعض اوقات مل جاتے ہیں تو میٹھا نمکین کو ثمر بار کرنے کا سبب بن جاتا ہے تو موتقی کو ان دونوں کی طرف منسوب کیا جس طرح بچے کو مذکر و مونث کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگرچہ مونث نے اسے جنا ہوتا ہے، اس وجہ سے یہ قول کیا جاتا ہے کہ متوی نہیں نکلتا مگر ایسی جگہ سے جہاں میٹھا اور نمکین پانی ملتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مر جان سے مراد بڑے موتی ہیں، یہ حضرت علی اور حضرت ابن عباس کا قول ہے اور لو لو چھوٹے موتیوں کو کہتے ہیں : ان دونوں سے اس کے برعکس بھی مروی ہے یعنی کہ لو لو بڑے موتیوں کو اور مرجان چھوٹے موتیوں کو کہتے ہے۔ اس پر حضرت جابر کی حدیث دلالت کرتی ہے جس کا ذکر سورت کے آغاز میں ہوا ہے : اسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے اس میں 1 جنوں نے تم سے بہتر جواب دیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے جب فرمایا اور فرمایا اس چیز نے اس امر پر دلالت کی کہ جس کا ذکر پہلے ہوا یا بعد میں ہوا اس پر یہ دال ہے نیز یہ بھی فرمایا۔ یہ خطاب انسانوں او جنوں کو ہے اس صورت میں فرمایا : جرجانی نے جنوں کو انسان کے ساتھ خطاب کیا اگرچہ جنوں کا پہلے ذکر نہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (ص) جنوں کا ذکر وہاں ہوچکا تھا جو پہلے نازل ہوا قرآن ایک سورت کی طرح ہے جب یہ ثابت ہے کہ وہ انسانوں کی طرح مکلف ہیں تو ان آیات میں دونوں جنسوں کو خطاب کیا گیا ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے خطاب صرف انسانوں ہے جس طرح عربوں کی عادت ہے کہ ایک کو خطاب تنثیہ کے لفظ کے ساتھ کرتے ہیں جس طرح (ق 24) میں گفتگو گزر چکی ہے اسی طرح میں گزر چکا ہے جہاں تک اور جان کے بعد جو خطا بہے وہ انسانوں اور جنوں دونوں ہے صحیح جمہور کا قول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے سے مراد نعمتیں ہیں (2) یہ تمام مفسرین کا قول ہے اس کا واحد ہے جس طرح معنی اور عصا ہے اس میں چار لغتیں ہیں جن ذکر نحاس نے کیا ہے کہا اناء اللیل کے واحد میں تین لغتیں ہیں ان میں الف مفتوح اور لام ساکن والی لغت ساقط ہے سورة الاعراف اور سورة النجم میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ ابن زید نے کہا اس سے مراد قدرت ہے تقدیر کلام یہ ہے یہ کلبی کا قول ہے امام ترمذی محمد بن علی نے اسے ہی اختیار کیا ہے کہا یہ سورت قرآن کی سورتوں کا جھنڈا ہے جھنڈا لشکر کا امام ہوتا ہے اور لشکر اس کی پیروی کرتا ہے یہ علم (جھنڈا) بنا کیونکہ یہ ملک وقدرت کی صفت ہے فرمایا : سورت کا آغاز دوسرے اسماء کی بجائے رحمن کے اسم سے کیا تاکہ بندوں کو علم ہو جائے کہ اس کے بعد تمام وہ چیزیں جن کے ساتھ صفت بیان کی ہے وہ اس کے افعال اس کے ملک اور اس کی قدرت میں ہے اللہ تعالیٰ کی رحمانیت میں سے رحمت عظمی ان کی طرف نکلی ہے۔ فرمایا : پھر انسان کا ذکر کیا فرمایا : پھر ان چیزوں کا ذکر کیا جو انسان پر احسانات کئے پھر سورج و چاند کے احسان اور اشیاء یعنی نجم شجر کے سجود کا ذکر کیا پھر آسمان کے بلند کرنے اور میزان یعنی عدل قائم کرنے اور زمین کو انام کے لئے بچھانے کا ذکر کیا پھر جن و انس کو خطاب کیا جب انہوں نے ان چیزوں کو دیکھا جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وجہ سے قدرت و ملک میں سے ظاہر ہوئیں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کسی منفعفت اور حاجت کے بغیر کیں تو لوگوں نے اس کے ساتھ بتوں کو شریک کرلیا اور ہر معبود کو اس کے سوا اپنا معبود بنا لیا اور اس رحمت کا انکار کردیا جس کے ساتھ یہ اشیاء ان کی طرف نکلیں سوال کرتے ہوئے انہیں فرمایا : یعنی تم اپنے رب کی کس قدرت کا انکار کرتے ہو ؟ ان کی تکذیب یہ تھی کہ وہ چیزیں جو اس کے ملک اور قدرت سے ظاہر ہوئی تھیں ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہوں نے شریک ٹھہرا لیا جو اس کے ساتھ مالک ہے اور اس کے ساتھ قادر ہے یہی ان کی تکذیب ہے پھر یہ ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صلصال سے پیدا کیا پھر یہ ذکر کیا کہ جنوں کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا پھر ان سے پوچھا تو فرمایا : یعنی تم اپنے رب کی کس قدرت کا انکار کرتے ہو کیونکہ ہر مخلوق میں اس کی قدرت کے بعد قدرت شامل ہے ان آیات میں تکرار تاکید کے لئے اور وضاحت میں مبالغہ کے لئے ہے اور ان کے خلاف دلیل قائم کرنے کے لئے ہے کہ ایک مخلوق کے بعد دوسری مخلوق کو پیدا کیا قتبی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں اپنی نعمتوں کا شمار کیا اپنی مخلوق کو اپنی نعمتیں یاد دلائیں پھر اس کے پیھے ہر اس کجی کا ذکر کیا جس سے وہ متصف تھا اور ہر اس نعمت کا ذکر کیا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے باوجود اس پر کی اور یہ دو نعمتوں کے درمیان اسے فاصلہ کے طور پر رکھا تاکہ انہیں نعمتوں پر متنبہ کرے اور انہیں وہ نعمتیں یاد دلائے جس طرح تو اس آدمی کو کہتا ہے جس پر تو لگاتار احسان کرتا ہے جب کہ وہ اللہ کی ناشکری کرتا ہے اور اس کا انکار کرتا ہے کیا تو فقیر نہیں تھا تو میں نے تجھے غنی کردیا کیا تو اس کا انکار کرتا ہے کیا تو گمنام نہ تھا تو میں نے تجھے عزت دار بنا دیا کیا تو اس کا انکار کرسکتا ہے اس قسم کی صورتحال میں تکرار اچھا ہے : جس طرح کہا تمہارے لئے کتنی ہی نعمتیں ہیں اسی طرح کہا اگر تو مسلمان عورت ہے تو کسی مسلمان کو قتل نہ کر اس کے خون سے بچ ایک اور شاعر نے کہا : اپنے دوست کی ملاقات سے نہ اکتا تو اس کی ملاقات کر ” پیدا فرمایا انسان کو بجنے والی مٹی سے ٹھکیری کی مانند اور پیدا کیا جان کو آگ کے خالص شعلے سے۔ پس (اے جن و انس) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے، وہی دونوں مشرقوں کا رب ہے اور دونوں مغربوں کا رب ہے پس (اے جن و انس) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ “ جب اللہ تعالیٰ نے عالم کبیر کی تخلیق یعنی آسمان زمین اور ان کے درمیان اس کی واحدنیت اور اس کی قدرت پر موجود دلائل کا ذکر کیا تو عالم صغیر کی تخلیق کا ذکر کیا فرمایا : تاویل کا اتفاق ہے کہ الانسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔ صلصال سے مراد خشک مٹی ہے جس کی کھٹک سنائی دیتی ہے۔ اس کو فخار کے ساتھ تشبیہ دی جسے پکایا گیا ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ایس یمٹی ہے جس میں ریت کی آمیزش ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے اس سے مراد بدبودار مٹی ہے (1) یہ مشتق ہے اور جب وہ بدبودار ہو سورة حجر میں یہ بحث گز چکی ہے۔ یہاں کہا : ایک اور جگہ فرمایا (الحجر) ایک اور جگہ فرمایا ( الصافات) فرمایا (آل عمران) سب کا معنی ایک ہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سے مٹی لی اسے گوندھا تو وہ طین بن گئی پھر وہ منتقل ہوئی تو وہ حمامسنون کی طرح ہوگئی پھر منتقل ہوئی تو وہ فخار کی طرح صلصال ہوگئی۔ حضرت حسن بصری نے کہا : جان سے مراد ابلیس ہے یہ جنوں کا باپ ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے الجان جن کا واحد ہے مارج سے مراد خالص شعلہ ہے حضرت ابن عباس ؓ نے کہا اللہ تعالیٰ نے جنوں کو خاصل جان سے پیدا کیا لیث نے کہا مارج سے مراد ایسا شعلہ ہے جو پھیلنے والا ہو جو شدید لپک والا ہو حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے اس سے مراد وہ شعلہ ہے جو آگ پر بلند ہوتا ہے اور اس کا بعض بعض سے مل جاتا ہے یعنی کوئی سرخ کوئی زرد اور کوئی سبز ہوتا ہے اس کی مثل مبرو کا قول ہے مبرو نے کہا : مارج سے مراد ایسی آگ ہے جو روکی نہ جاسکی ابو عبیدہ اور حسن بصرہ نے کہا مارج سے مراد، خلط ملط آگ ہے۔ اس کی اصل مرج ہے جب وہ مضطرب ہو اور خلط ملط ہو روایت بیان کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو آگوں کو پیدا کیا ان میں سے ایک کو دوسری کے ساتھ ملا دیا تو ان میں سے ایک دوسری کو کھا گئی وہ نارسموم تھی اس سے ابلیس کو پیدا کیا قشیری نے کہا : لغت میں مارج سے مراد ہے جسے چھوڑ دیا گیا ہو یا جو خلط ملط ہوگیا ہو۔ یہ اسم فاعل کا صیغہ ہے جو اسم معفول کے معنی میں ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (الطارق) (الحاقہ) معنی ہے مرج والی۔ جوہری نے صحاح میں کہا : مارج من نار یعنی ایسی آگ جس میں دھواں نہ ہوا اس سے جنوں کو پیدا کیا گیا ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے سورة صافات میں ہے اس کے بارے میں وہاں گفتگو گزر چکی ہے۔ ” اس نے رواں کیا ہے دونوں دریائوں کو جو آپس میں مل رہے ہیں ان کے درمیان آڑ ہے آپس میں گڈ مڈ نہیں ہوتے۔ پس (اے جن و انس) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ نکلے ہیں ان سے موتی اور مرجان پس (اے جن و انس) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ “ مرج کا معنی چھوڑ دینا ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے۔ جب بادشاہ نے لوگوں کو مہمل چھوڑ دیا۔ مرج کا اصل معنی مہمل چھوڑنا ہے جس طرح جانوروں کو چراگاہ میں چھوڑ دیا جاتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے مرج یعنی خلط ملط کردیا۔ اخفش نے کہا : ایک قوم کہتی ہے یہ مرج کی طرح ہے فعل اور افعل ایک معنی میں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : آسمان کا سمندر اور زمین کا سمندر (1) یہ مجاہد اور سعید بن جبیر کا قول ہے وہ ہر سال میں ملتے ہیں ایک قول یہ کیا گیا ہے دونوں کے کنارے ملتے ہیں (2) حضرت حسن بصری اور قتادہ نے کہا : فارس اور روم کا سمندر (3) ابن جریج نے کہا : مراد نمکین سمندر اور میٹھے دریا (4) ایک قول یہ کیا گیا ہے مشرق و مغرب کے سمندر جن کے کنارے ملتے ہیں۔ (5) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے لولو اور مرجان کا سمندر (6) دونوں کے درمیان آڑ ہے پہلے قول کے مطابق جو زمین و آسمان کے درمیان ہے یہ ضحاک کا قول ہے دوسرے قول کے مطابق وہ زمین ہے جو دونوں کے دریمان ہے جو وہ حجاز ہے یہ حضرت حسن بصری اور قتادہ کا قول ہے ان دونوں کے علاوہ جو اقوال ہیں ان میں حاجز سے مراد قدرت الہیہ ہے جس طرح سورة فرقان میں گزرا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کا ارشاد مروی ہے : ” اللہ تعالیٰ نے مغربی کنارہ سے کلام فرمایا : میں تجھ میں ایسے بندے والا ہوں جو تسبیح کریں گے، تکبیر کہیں لا الہ الا اللہ کہیں گے اور میری حمد کریں گے تو میں ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا ؟ اس نے عرض کی : اے میرے رب : میں انہیں غرق کردوں گا۔ فرمایا : میں انہیں اپنے ہاتھ میں اٹھا لوں گا اور تیری قوت کو تیری اطراف میں رکھ دوں گا۔ پھر مشرقی کنارہ سے گفتگو کی۔ فرمایا : میں تجھ میں اپنے ایسے بندے پیدا کرنے والا ہوں جو میری تسبیح کریں گے میری کبریائی بیان کریں گے پڑھیں گے میری بزرگی بیان کریں گے تو ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا۔ عرض کی : میں ان کے ساتھ تیری تسبیح بیان کروں گا جب وہ تیری تسبیح بیان کریں گے میں تیری کبریائی بیان کروں گا جب وہ تیری کبیریائی بیان کریں گے جب وہ تیری الوہیت بیان کریں گے تو میں تیری الوہیت بیان کروں گا میں ان کے ساتھ تیری بزرگی بیان کروں گا جب وہ تیری بزرگی بیان کریں گے اللہ تعالیٰ نے اسے زیور عطا فرمایا اور دونوں کے درمیان رکاوٹ پیدا کردی۔ ان میں سے ایک سخت کھاری ہوگیا اور دوسرا اپنی اصلی حالت پر میٹھا رہا “۔ ترمذی حکیم ابو عبداللہ نے اس خبر کا ذکر کیا : کہا : صالح بن عبداللہ نے قاسم عمری سے وہ سہیل سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ قتادہ نے کہا : وہ لوگوں پر بغاوت نہیں کرتے کہ انہیں غرق کردیں۔ (7) ان دونوں اور لوگوں کے درمیان اس نے خشکی بنا دی ہے ان سے اور مجاہد سے یہ مروی ہے ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر بغاوت نہیں کرتا کہ اس غالب آجائے۔ ابن زید نے کہا کہ کا معنی ہے وہ بغاوت نہیں کرتے کہ ایک دوسرے کو ملیں (8) تقدیر کلام یہ ہے اگر ان کے درمیان رکاوٹ نہ بھی ہوتی تو وہ ملاقات کرنے کے لئے بغاوت نہ کرتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : دنیا اور آخرت میں جو آڑ ہے یعنی ان کے درمیان ایک موت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہے : یہ دنیا کی موت ہے وہ ایک دوسرے پر بغاوت نہیں کریں گے جب اللہ تعالیٰ دنیا کے ختم ہونے کا اذن دے گا تو دونوں سمندر ایک ہوجائیں گے یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے : (الانفطار) سہل بن عبداللہ نے کہا : دو سمندروں سے مراد خیر اور شر کا راستہ ہے، برزخ سے مراد توفیق اور عصمت ہے (1) ۔ یعنی تمہارے لئے پانی سے لولو اور مرجان نکلتا ہے جس طرح مٹی سے دانا، بھوسہ، اور ریحان نکلتا ہے۔ نافع اور ابو عمرو نے یخرج یاء کے ضمہ اور راء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ (2) یعنی مجہول کا صیغہ پڑھا ہے باقی قراء نے یخرج یعنی یاء کے فتحہ اور راء کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے کہ لولو اس کا فاعل ہوگا۔ کے بارے میں کہا : وہ نمکین سے نکالتا ہے میٹھے سمندر سے نہیں نکالتا، کیونکہ عرب دو جنسوں کو جمع کرتے ہیں پھر ان میں سے ایک کے بارے میں خبر دیتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (الزمر 41) رسل انسانوں میں سے ہوتے ہیں جنوں میں سے نہیں ہوتے یہ کلبی اور دوسرے علماء کا قول ہے : زجاج نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ذکر کیا جب ان دونوں میں سے کوئی چیز نکلتی ہے تو گویا وہ دونوں سے نکلتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے۔ (نوح) چاند آسمان دنیا میں ہے لیکن سات آسمانوں کا ذکر اجمالا کیا گویا ان میں سے کسی ایک میں ہے تو سب میں ہے ابو علی فارسی نے کہا : یہ مضاف کے حذف کے باب سے تعلق رکھتا ہے تقدیر کلام یہ ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (الزخرف) یہ اصل میں تھا۔ اخفش سعید نے کہا : ایک قوم کا گمان ہے کہ وہ لو لو میٹھے سمندر سے نکلتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے وہ دونوں سمندر ہیں ان دونوں میں سے ایک سے لول لو اور دوسرے سے مرجان نکلتا ہے حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ دونوں آسمان اور زمین کے سمندر ہیں جب آسمان کا پانی سمندر کی سیپی میں گرتا ہے تو موتی بنتا ہے پس وہ دونوں سے نکلنے والا ہا (3) یہ طبری نے کہا : ثعلبی نے کہا : میرے سامنے ذکر کیا گیا ہے ایک گٹھلی سیپی کے پیٹ میں ہوتی ہے بارش کا قطرہ اس گٹھلی کے بعض تک پہنچتا ہے اور بعض تک نہیں پہنچتا قطرہ گٹھلی کے جس حصہ تک پہنچتا ہے وہ موتی ہوتا ہے اور باقی ماندہ گٹھلی ہی رہتی ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے، میٹھا اور نمکین بعض اوقات مل جاتے ہیں تو میٹھا نمکین کو ثمر بار کرنے کا سبب بن جاتا ہے تو موتی کو ان دونوں کی طرف منسوب کیا جس طرح بچے کو مذکر و مونث کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگرچہ مونس نے اسے جنا ہوتا ہے اس وجہ سے یہ قول کیا جاتا ہے کہ موتی نہیں نکلتا مگر ایسی جگہ سے جہاں میٹھا اور نمکین پانے ملتے ہیں ایک قول یہ کیا گیا ہے : مرجان سے مراد بڑے موتی ہیں۔ یہ حضرت علی اور حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے اور لو لو چھوٹے موتیوں کو کہتے ہیں ان دونوں سے اس کے برعکس بھی مروی ہے یعنی کہ لولو بڑے موتیوں کو اور مرجان چھوٹے موتیوں کو کہتے ہیں۔ یہ ضحاک اور قتادہ کا نقطہ نظر ہے، حضرت ابن مسعود اور ابو مالک نے کہا : مرجان سرخ گھونگا ہے۔
Top